ALLAH KA KHUOF INSAN KO BULAND KRTA HY - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Monday, April 1, 2019

ALLAH KA KHUOF INSAN KO BULAND KRTA HY


خوف خدا ہی انسان کی سربلندی ہے




۔۔۔۔ ایک بدکار عورت بڑی حسین تھی… اس نے بدکاری کے لئے سو دینار مقرر کر رکھے تھے… ایک عبادت گزار آدمی کی اس پر نظر پڑ گئی … وہ اس پر فریفتہ ہوگیا… چنانچہ اس نے خوب محنت کرکے سو دینار حاصل کئے… پھر وہ عابد اس عورت کے پاس گیا اور ا س سے کہا کہ… میں تجھ پر فریفتہ ہوں… اسی لئے میں نے اپنے ہاتھ سے محنت کرکے تیری ملاقات کے شوق میں سو دینار حاصل کئے ہیں… یہ سو دینار حاضر ہیں … اور میں تجھ سے ملاقات کا خواہش مند ہوں… 
اس عورت نے اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی… اس عورت کا ایک سونے کا تخت تھا… وہ اس تخت پر بیٹھ گئی… اور اس عابدکو بدکاری کے لئے اپنے قریب ہونے کو کہا…
وہ عابد جب اس عورت کے قریب ہوا… جہاں خاوند اپنی بیوی سے صحبت کے وقت قریب ہوتا ہے… تو اسے قیامت کے روز مالک الملک اللہ جل شانہ ‘ کے سامنے پیشی یاد آگئی… اور اس پر کپکپی طاری ہوگئی… اس عابد نے عورت سے کہا کہ … مجھے چھوڑ دے … تاکہ میں یہاں سے نکل جائوں… اور سودینار بھی تو لے لے…
اس عورت نے حیران ہوکرپوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟… خود ہی تو… تو نے بڑی محنت و مشقت اٹھا کر سو دینار حاصل کئے… اور اب جب کہ تجھے اپنی خواہش پوری کرنے میں کئی رکاوٹ نہیں… تو پھر کیا وجہ ہے کیا تجھ پر کپکپی طاری ہوگئی؟… اور میرے پاس سے اٹھ کر جارہا ہے؟… 
اس عابدنے کہاکہ… قیامت کے روز اللہ رب العزت کے سامنے حضوری… اور جواب دہی کے خوف سے یہ میری حالت ہوگئی ہے… اسی خوف کی وجہ سے تیری محبت نفرت میں تبدیل ہوگئی ہے… اور تو میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل نفرت ہے…
اس عورت نے عابد کا جواب سن کر کہا کہ… اگر تو واقعی سچا ہے تو پھر میں تجھ ہی کو اپنا خاوند بنائوں گی… 
اس عابد نے کہا کہ… بس تو مجھے چھوڑ دے … تاکہ میں یہاں سے نکل جائوں… 
عورت نے جواب دیا … کہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا… مگر تو مجھ سے وعدہ کر کہ تو مجھ سے شادی کرے گا…
عابد نے کہا کہ… یہاں سے نکلنے کے بعد دیکھاجائے گا… 
اس عورت نے کہا کہ… ٹھیک!… لیکن میں خود تیرے پاس آئوں گی… پھر تو تجھے مجھ سے ضرور نکاح کرنا ہوگا…
اس عابد نے جواب دیا کہ… شاید ایسا ہو…
چنانچہ وہ عابد کپڑے سے اپنے منہ کو چھپائے وہاں سے نکلا… اور اپنے شہر کی طرف چلا گیا…
ادھر وہ عورت بھی اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ سچی توبہ کرکے اس کے پیچھے چل دی… جب اس عابد کے شہر میں وہ عورت پہنچی… تو اس نے لوگوں سے اس عابدکا نام اور اس کے گھر وغیرہ کا پتہ پوچھا…
لوگوں نے اس عابد کا پتہ بتادیا…
اس عابد کو بھی کسی نے اس عورت کے آنے کی اطلاع کردی… کہ ملکہ حسن تیرے پاس آرہی ہے…
جب وہ عورت اس عابد کے سامنے آئی… عابد نے اسے دیکھتے ہی ایک زور سے چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا…
اس عورت نے اس کو اپنے ہاتھوں پر اٹھالیا… مگر وہ اس عورت کے ہاتھوں پر ہی اللہ کو پیارا ہوگیا… 
عورت نے حسرت و افسوس کے ساتھ کہا… کہ یہ تو اللہ کو پیارا ہوگیا… اچھا کوئی اس کا عزیز رشتہ دار مرد ہے؟… 
لوگوں نے کہا کہ اس کا ایک غریب بھائی ہے…
اس عورت نے کہا… غریب ہو تو خیر… میں اس دنیا سے جانے والے کی محبت کی وجہ سے اس کے بھائی سے شادی کرنا چاہتی ہوں… چنانچہ اس ملکہ حسن نے اس غریب بھائی کے ساتھ شادی کرلی… (حوالہ کتاب التوابیں)

بدنگاہی سے بچنا فرضِ عین ہے


میرے دوستو!… اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر فانی چہروں پر مرنا کبھی بھی بڑی نادانی ہے… جو حسن کا خالق ہے… اس کو چھوڑکر قطرہ پر مر مٹنا اپنا ہی نقصان کرنا ہے…
دوستو!… بدنگاہی سے بچنا مستحب یا سنت مؤکدہ نہیں ہے… فرض ِ عین ہے… جیسے کہ نماز روزہ فرض ہے… اور اس زمانے میں تقویٰ کی جان ہے… جو بدنگاہی میں مبتلا ہے… وہ ہرگز ولی اللہ نہیں ہوسکتا… ساری زندگی نالائق رہے گا… ساری زندگی نافرمان اور فاسق لکھا جائے گا… جس نے آنکھ دی ہے… اسی کا حکم ہے کہ نگاہوں کو بچائو… اگر آنکھ میں روشنی نہ ہوتی یا اللہ مادرازد اندھا پید اکرتا… تو پھر کہاں سے دیکھتے؟… کیا اللہ کا یہی شکر ہے کہ آنکھ کی روشنی حرام میں استعمال کرو؟… حرام میں استعمال کرنا کیا یہ شرافت ہے؟… بس خوب سمجھ کر گناہوں سے بچنا فرضِ عین ہے… اور عبادت میں فرض نماز… سنت مؤکدہ… اور وتر نماز پڑھنے سے انشاء اللہ تعالیٰ نجات ہوجائے گی… چاہے کوئی نفل نہ پڑھو… مگر گناہ چھوڑنا فرض ہے… اللہ کو ناراض کرنا حرام ہے … بدمعاشی ہے… حماقت ہے… ناپاکی ہے… نافرمانی ہے… بے غیرتی ہے… کمینہ ہے وہ شخص… جو اللہ کو ناراض کرتا ہے… اللہ کی نعمتیں کھاتا ہے… اور نعمت دینے والے کی نافرمانی کرتا ہے… زمین اللہ کی ہے… آسمان اللہ کا ہے… کسی کو حق نہیں کہ اللہ کی زمین پر اور اللہ کے آسمان کے نیچے گناہ کرے… جو گناہ کرنا چاہتا ہے تو اللہ کی زمین پر اور اللہ کے آسمان کے نیچے نہ کرے… کون سی جگہ ایسی ہے جو اللہ کی نہ ہو… اور جہاں اللہ نہ ہو… اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتیں کھانے میں… اور مکھن نگلنے میں آگے آگے… لیکن گناہ چھوڑنے میں پیچھے کیوں؟… اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے اس نیت سے بچو کہ ہم اللہ کے ولی ہوجائیں… اللہ اپنے کرم سے ہمیں اپنا دوست بنالے… لیکن جس سے گناہ ہوگئے… وہ بھی مایوس نہ ہو… دل سے توبہ کرلے تو وہ بھی اللہ کا دوست ہوجائے گا… (از افادات حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم)

مجاہد نوجوان کی انوکھی شادی

2… حبیب ابن عمیر تابعی ہیں… صحابہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد… بڑے خوبصورت … قید ہوگئے… دشمن کے دس آدمی تھے… نو انہوں نے قتل کردیئے… ان کو پکڑلیا… رومن سردارنے کہا… میں غلام بنائوں گا… قید میں لے کر کہنے لگا… اگر تو عیسائی ہوجائے تو تجھے بیٹی بھی دوں گا… اور اپنی ریاست میں حصہ بھی… 
انہوں نے فرمایا… تو سارا جہان بھی دے … یہ نہیں ہوسکتا… کفر تو بے حیا ہوتا ہے… حیا تو سراسر اسلام میں ہے… 
اس نے اپنی بیٹی سے کہا… اس سے بدکاری کروائو… جب یہ اس رخ پر آئے گا … تو اسلام بھی چھوڑ جائے گا…
روم کی لڑکی ہے… ادھر روم کا حسن… ادھر عرب کی جوانی… آگ بھی تیز… اور قوت بھی جوان… اور دو ہیں… تیسرا کوئی نہیں ہے…
ایک دفعہ ایک بزرگ نے خواب میں شیطان دیکھا… کہنے لگے… کچھ نصیحت تو کرو… 
کہنے لگا… کبھی کسی اجنبی عورت کے ساتھ اکیلے نہ بیٹھنا…عورت ہو رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہ جیسی … مرد ہو جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ جیسا… اگر وہ دو اکٹھے ہوجائیں گے… تو تیسر امیں آئوں گا انہیں گمراہ کرنے کے لئے… 
اب یہاںساری رکاوٹیںختم ہیں… اور وہ عورت دعوت دے رہی ہے… اور یہ نوجوان اپنی نظر جھکانے کی لذت چکھے ہوئے ہے… اسے پاکدامنی کی لذت کا پتہ ہے … لہذا اس کی نظر اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتی… اس نے سارے جتن کر مارے… اپنے حسن کا ہر تیر آزمایا… اپنے مکر کا ہر جال پھینکا… لیکن پاکدامنی کی تلوار نے ہر ہر جال کو … ہر ہر تار کو تار تار کردیا… اور ہر تیر کو بے کار کردیا… آخر تین دن کے بعد اس لڑکی نے ہتھیار ڈال دیئے…کہنے لگی… 
مَااذَا ایَمْنَعُکَ مِنِّیْ…
اللہ کے بندے… یہ تو بتا تجھے روکتا کون ہے؟…آج تیسرا دن ہے… تو نے مجھے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا… روکنے والا کون ہے؟…
اس نے کہا… مجھے روکنے والا وہ ہے…
لَاتَاخُذُہٗ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ…
جو نہ سوتا ہے… نہ اونگھتا ہے… جو مجھ سے غافل نہیں ہے… 
میں اس سے غافل ہوں… میرا رب ہے جو عرش پہ بیٹھا مجھے دیکھ رہا ہے کہ میری محبت غالب آتی ہے یا شہوت غالب آتی ہے…

جو کرتا ہے تو چھپ چھپ کہ اہل جہاں سے

کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سے

مجھے آگے کرتا ہے… یا شیطان کو آگے کرتا ہے… اے لڑکی مجھے میرے رب سے حیا آتی ہی… اس لئے میں نے اپنی طاقت کو روکا ہے…
 وہ باہر نکل کر اپنے باپ سے کہنے لگی…
اِلَی اَیْنَ اَرْسَلْتَنِیْ اِلٰی حَدِیْدٍ اَوْ حَرْجَرٍ لَایَأکُلُ لَایَنْظُرُ
آپ نے مجھے کس پتھر کے پاس بھیجا ہے… کس لوہے کے پاس بھیجا ہے… جو نہ دیکھتا ہے نہ کھاتا ہے… میں کہاں سے گمراہ کروں…
باپ نے یہ سن کر کہا کہ تو دوبارہ اس نوجوان کے پاس جا… اور اسے عیسائیت پر لے آ…
وہ حسینہ باوفا بندہ کے پاس آئی… مگر اللہ کی شان… اللہ اپنے بندہ کی قربانی کو ضائع نہیں کرتا…
حضرت حبیب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جب وہ لڑکی دوسری مرتبہ پہنچی … تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان کو حبیب رحمۃ اللہ علیہ کے لئے زندہ کردیا…
مَنْ تَرَکَ لِلّٰہِ شَیْأً عَوَّضَہٗ اللّٰہُ خَیْراً مِنْہُ
جو اللہ کے لئے کوئی گناہ چھوڑ دیتا ہے… اللہ اس گناہ سے کئی گنا بہتر اس بندے کو انعام عطا فرماتے ہیں…
اس لڑکی نے دیکھا کہ حضرت حبیب رحمۃ اللہ علیہ پانی کے ساتھ وضو کرکے عبادت میں مصروف ہیں… اللہ نے انہیں سریلی آواز اور خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرنے کا ملکہ نصیب فرمایا تھا… جب اس نے میٹھی آواز سے قرآن پڑھنا شروع کیا تو اللہ نے اسے ایمان کی پختگی اور قلب کی سلامتی عطا کردی… وہ حور تمثال اپنا پروگرام بھول کر تلاوت قرآن پر اس قدر فریفتہ ہوئی کہ وہ کھانا پینا بھول گئی… اور وہ مسلمان ہونے کا سوچنے لگی… 
جب اس حال میں ساتواں دن گزرا تو لڑکی کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا… وہ لڑکی حبیب رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھتے ہی عاشق ہوگئی… اور قدموں میں بیٹھ گئی… اور کہا…
اے پاکدامن نوجوان … میں تجھے تیرے دین کا واسطہ دیتی ہوں…میری طرف دیکھتا نہیں تو کم از کم میری بات سن لے…
حبیب رحمۃ اللہ علیہ نے کہا… اچھا بات کر … مین سن رہا ہوں…
کہنے لگی… مجھے مذہب اسلام سے آگاہ کیجئے… کہ وہ کیسا مذہب ہے… اور اس میں داخل ہونے کا طریقہ کیا ہے؟…
مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے سامنے اسلام کی خوبیاں بیان کیں… تو وہ مسلمان ہوگئی او رنماز کا طریقہ سیکھنے لگی… جب اس نے نماز سیکھ لی تو کہنے لگی…بندئہ خدا… بے شک میں مسلمان ہوگئی ہوں… لیکن رہنا میں نے تیرے ساتھ ہی ہے…
کیا مطلب؟… نوجوان نے گھبرا کر پوچھا…
ا س کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے نکاح کرلو… لڑکی نے دل کی بات کہی…
یہاں نکاح کیسے ہوسکتا ہے… نہ کوئی ولی… نہ گواہ… جبکہ اسلام میں ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا… اگر تو یہاں سے رہائی کی کوئی تدبیر کرے تو ایسا ممکن ہے…
یہ میری ذمہ داری ہے… میں یہ کام کرسکتی ہوں… لڑکی نے کہا…
چنانچہ اس نے اپنے باپ کو بلایا اور کہا… اے ابا جان… یہ مجاہد اسلام مجھ پرفریفتہ ہوگیا ہے… او راس کا دل نرم ہوگیا ہے… میں نے اسے نصرانیت قبول کرنے کی دعوت دی ہے… لیکن اس نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ جس شہر میں میرا بھائی قتل ہوا… وہاں میں یہ کام کیسے کرسکتا ہوں؟… ہاں اگر مجھے یہاں سے نکال کر کسی اور بستی میں رکھا جائے …تو میرا دل قرار پکڑے گا… اور جب میرے دل میں اپنے بھائی کے قتل کا غم دور ہوگیا … تو ممکن ہے کہ میں تمہارا مقصد پورا کردوں… ابا جان… اگر آپ مجھے اس کے ساتھ دوسرے گائوں بھیج دیں… تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ … یہ ہمارے مذہب میں داخل ہوجائے گا…
باپ نے جب نوجوان بیٹی کی یہ بات سنی… تو پھولے نہ سمایا… اور بڑی تیزی سے سپہ سالار کے پاس چلا گیا… اور عرض کی…
محترم… امید بر آئی ہے… لیکن اتنی کسر رہ گئی ہے… کہ دو دن صبر کرلیا جائے …اور انہیں دوسرے گائوں بھیج دیا جائے…
سپہ سالار نے جب پادری کی زبانی تفصیل سنی تو بہت خوش ہوا… وہ اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کا بڑا متمنی تھا… اس کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ کاش دین نصرانیت دنیا کا بڑا مذہب بن جائے…
چنانچہ یہ جوڑا قریبی گائوں میں چلا گیا… لیکن کیا مجال کہ اس نے دن کی روشنی یا رات کی تاریکی میں اسے ہاتھ بھی لگایا ہو… تنہائی میں غیرمحرم مرد اور عورت کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے… لیکن مسلسل جہاد کرتے اورجان ہتھیلی پر رکھنے کی وجہ سے نوجوان کے ایمان میں اتنی قوت پیدا ہوچکی تھی کہ شیطان کو حملہ کرنے کی جرأت نہ رہی…
جب تیسرے دن کی رات ہوئی… تو یہ دونوں عشاء کے بعد وہاں سے نکل پڑے… اور ساری رات چلتے رہے… جب صبح صادق کا وقت ہوا تو دونوں راستے سے الگ ہوکر نماز کی تیاری کرنے لگے…
ابھی یہ نماز میں ہی تھے کہ یکایک گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں… نوجوان نے کہا… بندی خدا… ہم پکڑے گئے… یہ تو نصاریٰ کا دستہ ہے… اور ہم پر چھاپہ مارنا چاہتا ہے… ساری رات چلتے چلتے ہمارا گھوڑا بھی تھک گیا ہے…
وہ کہنے لگی… افسوس تم ڈر رہو … اور خوفزدہ ہوگئے؟…
اس نے جواب دیا… ہاں…
وہ کہنے لگی…وہ بات کہاں گئی… جو آپ نے مجھے اپنے رب کی قدرت کاملہ کے متعلق بیان کی تھی؟… آئو ہم اللہ کے سامنے گریہ و زاری کریں… شاید وہ ہماری سن لے… او رہماری مدد فرمائے… 
اس نے کہا… ٹھیک ہے…
چنانچہ دونوں نے بڑی آہ و زاری اور گر یہ وبکا سے دعا کرنی شروع کر دی … ابھی یہ دعا کر ہی رہے تھے کہ انھیں ہاتف غیبی کی آواز سنائی دی …
’’غم نہ کرو …اور نہ ہی خطرہ محسوس کرو… یہ آواز یں ملائیکہ کی ہے… جنھیں اللہ نے تمہاری معاونت کے لیے بھیجا ہے …اور یہ تمہارے نکاح کی تقریب میں شامل ہوں گے …
 چنانچہ یہ اپنے گھوڑے پر چلتے رہے … صبح کو مدینہ پہنچ گئے … اس و قت امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز فجر پڑھا رہے تھے… آپ رضی اللہ عنہ کی عادت مبارک تھی کہ… سو کر جا گنے والوں اور وضو کرنے والوں کی خاطر کہ وہ جماعت میں مل سکیں …پہلی رکعت کو لمبا کرتے تھے … اس عرصے میں مسجد بھر جاتی… دوسری رکعت ہلکی پڑھتے …
 نماز فجر ادا ہوئی… تو ان کی تقریب نکاح منعقد ہوئی… اور یہ سلسلہ ازدواج میں منسلک ہو گئے …(حوالہ مشارق کا الاشواق مترجم مولانا مسعود عبدالجبار صاحب)

 اللہ کو پانے کے لئے جان کی بازی لگا دو


 دوستو… اللہ ملتا ہے گناہ نہ کرنے سے اس لئے جان دے دے …پر مالک کو ناراض نہ کرو … آج جان کی باز لگا کر…اعلان کردو … کہ ہم تجھ کو ناراض کردیں گے … مگر اللہ کو ناراض نہیں کریں گے …کیونکہ اے نفس !… تو نے مجھے نہیں پید اکیا …
 کیونکہ اے نفس … تو نے مجھے آنکھیں نہیں دیں…
 کیونکہ اے نفس …تو میرے خالق حیات نہیں ہے…
 جس نے حیات دی …میں اس کا غلام ہوں… تیرا غلام نہیں ہوں…
خوشی پر ان کی جینا …اور مر نا ہی محبت ہے 
 یہی مقصود حقیقی ہے… یہی منشاء عالم ہے دوستو !… اللہ والا بننے کا ارادہ تو کرو…
 حکیم الا مت حضرت تھا نوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں…
’’خدا کو پانے کا ارادہ کیا ہے… اور اسے اللہ نے اپنا نہ بنا یا ہو…‘‘
میرے بھائیو… آج ہی نفس سے کہہ دو کہ آج سے میں تیرا غلام نہیں ہوں… کہ تیرے حکم کو پورا کروں… میں اللہ کا غلام ہوں… آج سے اپنے پالنے والے کے حکم کو پورا کروں گا… اور اپنے نفس سے بولے… اے نفس میں تیری ڈیمانڈ پوری نہیں کرتا … تیری ڈیمانڈ وہی سانڈ پوری کرتا ہے… جو اللہ سے دور ہوتا ہے…

مثل جانور نفس کی خواہش پوری کرنے سے بچو


عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم نے ارشاد فرمایا… مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ … ایک پیاسا دریا کے کنارے بیٹھا تھا… اس کے اور دریا کے درمیان ایک دیوار تھی… جس کی وجہ سے دریا تک ہاتھ نہیں پہنچ رہا تھا… کسی نے مشورہ دیا کہ ایک ایک اینٹ گرائو… پوری دیوار نہ گرائو… یہ زیادہ آسانی ہے… چنانچہ اس پیاسے نے ایک ایک اینٹ گرانا شروع کی… جب اینٹ دریا میں گرتی … تو یہ سست ہوجاتا… کہ میرے محبوب پانی کی آواز آرہی ہے…
تو جب تم اللہ کی محبت میں نفس کو گرائوگے… تو اللہ کے دریائے قرب میں ایک آواز آئے گی… تب دل میں خوشی ہوگی… کہ میری محنت رائیگاں نہیں جارہی…اس میں اضافہ ہورہا ہے… تو جب دیوار گر جائے گی تودریا اور تمہارے درمیان فصل نہ رہے گا… اسی لئے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
پستی دیوار قرب می شود
دیوار کو گرانا آپ کے لئے سب قرب ہوگا…
 کوئی دیکھتا ہے تمہیں آسمان سے

 میرے بھائیو!… جب بھی شیطان کہے کہ …آج کوئی نہیں ہے …فلاں گناہ کرلو اس وقت اپنے نفس سے کہو… بے وقوف قرآن میں میرے رب کا اعلان ہے…
اَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَرَاہُ
 جان لو تمہارا رب تمھیں آسمان سے دیکھ رہا ہے …جو کرتا ہے تو چھپ چھپ کے اہل جہاں سے کوئی دیکھتا ہے… تجھے آسمان ہے …
 جب انسان کے دل پر اللہ کا تقویٰ اور خوف ہوتا ہے …تو پھر اس کے جسم سے گناہوں کا صدر ور ختم ہوجاتا ہے 

دودھ کے پیالے کی حفاظت


3۔۔۔۔۔ حضرت مولانا پیر ذوالفقار نقشبندی دامت بر کاتھم نے ایک مجلس میں ارشاد فرمایا کہ … ایک شخص ایک بزر گ کے پاس حاضر ہوا … وہ کہنے لگا … حضرت!… میں بازار میں کام کرتا ہوں …جس کی وجہ سے میں اپنی نگاہوں کو غیر محرم عورتوں سے نہیں بچاسکتا … کوشش بھی بہتر کرتا ہوں کہ …بد نظری نہ ہو …مگر پھر بھی گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہوں … سمجھ نہیں آتی کہ …میں اس گناہ سے کیسے بچوں؟…
 انہوں نے فرمایا … اچھا… آپ کو سمجھا دیتے ہیں…
 اس کے بعد انہوں نے اس نوجوان کو فرمایا کہ …میں آپ کو دودھ کا ایک پیالہ دیتا ہوں… وہ پیالہ بازار سے گزر کر فلاں بزرگ کو پہنچا نا …مگر شرط یہ ہے کہ میں ایک بندہ آپ کے ساتھ بھیجوں گا … اگر اس پیالے میں دودھ کہیں گر ا…تو وہ وہیں پر تمہیں جوتے لگائے گا… 
اس نے کہا ٹھیک ہے … چنانچہ انہوں نے ایک پیالہ دودھ سے لبر یز کر کے اس کے ہاتھ میں تھمادیا … وہ پیالے کو لے کر چل بھی رہا تھا …اور اس پیالے پر نظر یں بھی جمائے ہوئے تھا کہ کہیں گر نہ جائے … اس کے ساتھ جو بندہ تھا …وہ بھی ماشاء اللہ لحیم وشحیم تھا …
 اس نوجوان نے خدا خدا کر کے بازار سے گزر کر منزل مقصود پر دودھ پہنچا یا …اور خوشی خوشی واپس آکر بتا یا کہ …حضرت!… میں دودھ پہنچا آیا ہوں… 
حضرت نے پوچھا …بتاؤ بھئی!… تم نے بازار میں کتنے چہرے دیکھے؟… 
وہ کہنے لگا … حضرت …ادھر تودھیان ہی نہیں گیا … 
حضرت نے پوچھا دھیان کیوں نہیں گیا؟… 
وہ کہنے لگا … حضرت!… مجھے ڈرتھا کہ اگر دودھ نیچے گر گیا تو یہ بندہ بھرے بازار میں مجھے رسوا کردے گا …
اس کا یہ جواب سن کر حضرت فرمانے لگے کہ… اللہ والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ … ان کے دل ایمان سے لبر یز ہوتے ہیں… ان کو اس کی حفاظت کی ہر وقت فکر ہوتی ہے کہ… کہیں ایسا نہ ہو کہ معصیت کریں اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مخلوق کے سامنے کھڑا کر کے رسو افر مادیں… اللہ والے ڈر رہے ہوتے ہیں کیونکہ اس دن کی رسوائی بہت بڑی اور بہت بری ہے …
 میرے دوستو!… جو شخص نفس سے مغلوب ہو کر گناہ سے منہ کا لا کر رہا ہے… وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہے جس کے دن اچھے ہوتے ہیں …اس کو اللہ تعالیٰ تو فیقات سے مدد پہنچا دیتے ہیں…
 سن لے اے دوست جب ایام بھلے آتے ہیں
 گھات ملنے کی وہ خود آپ ہی بتلاتے ہیں

محبت الٰہی سے دل کی دنیا روشن کر تیرا رب بڑا کریم ہے


میرے بھائیو… راتوں کو رونے کی لذت بھی سیکھ لو… مخلوق سے محبت کو سیکھا… اور رنڈی …بازاری عورتوں کی محبت کو سیکھا… اپنے مالک سے بھی محبت کرنا سیکھو … یہ دل اللہ کے لئے ہے… اس میں چاہے سارا جہان بیٹھا دو… میرے رب کی قسم وہ سن رہا ہے… وہ گواہ ہے کہ ساری کائنات کی دولت اور حسن و جمال آپ کے قدموں میں ڈھیر کردیا جائے…
 یہاں اگر اللہ نہیں ہے… تو یہ روح بے قرار رہے گی… یہ جسم بے قرار ہے گا… اسے دنیا کی کوئی رونق کوئی محفل کوئی قمقموں میں کوئی ہوٹلوں کی محفلیں لاکھوں حسین چہرے اس کے دل کی دنیا کو ٹھنڈک نہیں پہنچا سکتے …یہ آگ بھڑ کتی رہے گی … یہ تشنہ رہے گا …اس کی پیاس بڑھتی رہے گی اس کا غم بڑھتا رہے گا … اس کا صرف ایک علاج ہے… اس سے محبت کرے …جو اس سے محبت کئے بیٹھا ہے …
کیسی عجیب بات ہے ماں باپ کی نافرمانی کرو… گھر سے نکال دیتے ہیں …وہ اخبار میں چھاپ دیتے ہیں کہ… فلاں بن فلاں میرا نا فرمان ہے …میں اسے اپنی ساری جائیداد سے محروم کرتا ہوں …
ان آنکھوں نے کتنا غلط دیکھا ہے …کسی کی اللہ نے آنکھیں لی ہیں واپس… کہ آنکھوں سے محروم کر دو ان کا نوں نے کتنا غلط سنا ہے؟… کبھی اللہ نے کسی کے پر دے پھاڑے ہیں… یہ شہوت کتنی غلط استعمال ہوئی ہے… کبھی اللہ نے عذاب کا کوڑ ابر سایا ہے؟… ان ہاتھوں نے کتنا غلط لیا …اور دیا… کتنا غلط لکھا ہے …کبھی اللہ نے ہاتھ توڑا ہے ؟… یہ پاؤں کتنی غلط محفلوں میں اٹھے ہیں… کبھی اللہ نے پاؤں کا ٹا ہے …اس دماغ نے کتنا غلط سو چا ہے… کبھی اللہ نے دماغ کو خراب کیا ہے؟… اس دل نے کتنا غیر کو چا ہا… کتنی مخلوق کی محبت اس دل میں آئی ہے …کبھی اللہ پاک نے اس دل کو اندھا کیا ہے …

موتیوں کا تھیلا

 4۔۔۔۔ قاضی محمد بن عبد الباقی بن محمد بصری بزارز رحمتہ اللہ تعالیٰ بہت بڑے عالم… مشہور محدث اور صاحب مکارم اخلاق تھے … جامع فضائل علمیہ عملیہ تھے …۴۶۱ھ میں ان کی وفات ہوئی… ان کی عمر کا آخری زمانہ بڑا آسودہ تھا… ان کے پاس مال ودولت کی بڑی فراو انی تھی … حالانکہ ابتدائی میں وہ بڑے غریب اور فقیر تھے …
دولت کی فراوانی اور بہتات کا سبب ان کا شدید احتیاط اور شدید تقویٰ پر متفرع ایک عجیب واقعہ تھا … وہ خود اس ایمان افر وز قصے کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں…
 میں مکہ مکرمہ میں مجاور و مقیم تھا … ایک مرتبہ میں شد ید فاقے اور بھوک میں مبتلا ہوا… کئی روز بھوکا رہا … میرا ضعف حد سے بڑھ گیا … کھانے کے لئے کچھ نہیں مل رہاتھا اور نہ میرے پاس کوئی رقم تھی کہ اس سے کھا نے کی کوئی چیز خرید سکوں…
 اسی اثناء میں مجھے ایک ریشمی تھیلا ملا جو ترکی ٹوپی کے پھند نے جیسے ریشمی دھا گوں سے باندھا ہوا تھا … میں نے گھر میںاسے کھولا تو اس میں سے ایک قیمتی ہا ر ملا… وہ اتنا حسین اور قیمتی تھا کہ …میں نے زندگی بھر موتیوں کا اتنا حسین و اعلیٰ ہار نہیںدیکھا تھا…
 میں گھر سے نکلا تو دیکھا کہ ایک پریشان حال شیخ کپڑے میں پانچ سو دینار (یہ اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی)… باندھے ہوئے یہ منادی کررہا تھا کہ یہ پانچ سو دینار میں اس شخص کو انعام وشکر یے کے طور پر دوں گا …جو مجھے مو تیوں کا گمشد ہ تھیلا واپس کر دے…
 میں نے دل میں یہ خیال کیا کہ میں محتاج ہوں اور شدید فا قے کی وجہ سے نڈھا ل ہوں … وہ تھیلا شاید اس شخص کا ہے … میں اس شخص سے یہ حلال پانچ سو دینار لے کر ان سے اپنی ضرورت پوری کر سکو ں گا … لہٰذا موتیوں کا وہ تھیلا اسے واپس کر دینا چاہئے … کیونکہ وہ تھیلا میں نے اپنے پاس مالک کو واپس کر نے کے لئے بطور رامانت محفوظ رکھا تھا…
 شیخ ابو بکر بزاز رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس پر یشان حال شیخ سے کہا میرے ساتھ آئیے… میں اسے اپنے گھر لے آیا اور تھیلے کی اور اس کے اندر موتیوں کے ہار کی علامات تفصیلا پو چھیں… اس نے سب علامتیں ٹھیک ٹھیک بیان کردیں … مجھے تسلی ہوئی کہ وہ تھیلا اس شیخ کا ہی ہے 
 چنانچہ میں نے وہ تھیلا اس کے سپر د کر دیا … وہ بڑا خوش ہوا اور حسب اعلان اس نے مجھے پانچ سو دینار دینا چاہے… میرے لئے وہ پانچ صدر دینار از روئے شرع بالکل حلال تھے لیکن میرے خیال میں ان کا لینا مرو ت دیانت شدت تقویٰ اور کامل احتیاط کے خلاف تھا…
اس لئے میں نے اس شیخ سے کچھ لینے سے انکار کر دیا …حالانکہ میں کئی دنوں سے بھوک اور فاقوں میں مبتلا تھا … اس شیخ نے بڑا اصرار کیا کہ میں اس کے یہ پانچ سود دینار قبول کرلوں مگر میں نے قبول کرنے سے شدید انکار کر دیا چنانچہ وہ شیخ چلا گیا اور یہ قصہ ختم ہوا…
 شیخ قاضی ابو بکر بزاز رضی اللہ عنہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
 اخلاص کامل سے ایک مسلمان کی دلجوئی اور اسے اپنی قیمتی گمشدہ چیز صحیح وسالم واپس کرنے اور شدت تقویٰ وشدت احتیاط مروت ایمانی کے جذبے کے مطابق عمل کرنے کا بدلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ کچھ مدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے غیبی اسباب کے ذریعے مجھے اس بے بہا قیمتی ہار کا مالک بنادیا …
تقویٰ واحتیاط شدید کے ثمرات ونتائج نہایت بلند ہوتے ہیں… قاضی ابو بکر فرماتے ہیں کہ شدت تقویٰ کے مقتضیٰ کے مطابق میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر پانچ سو دینار قبول کرنے سے انکار دیا … اللہ عزّ وجل نے اس کا صلہ اخروی ثواب کے علاوہ دنیا میں یہ دیا کہ ایک لاکھ دینار والا وہ ہار اللہ تعالیٰ نے اپنے غیبی ذرائع سے میری ملکیت میں پہنچا دیا …
 وہ غیبی اسباب وذرائع کس طرح رو نما ہوئے اس کا بیان خود قاضی ابو بکر بزاز کی زبانی سنئے …
 وہ فرماتے ہیں کہ میں سابقہ واقعہ کے کچھ مدت بعد مکہ مکر مہ سے بحری جہاز کے ذڑیعے ایک سفر پر روانہ ہوا … اتفاق سے طوفان آیا اورجہاز ٹوٹ گیا لوگ غر ق ہو گئے … ان کے اموال تباہ ہو گئے …
 میں جہاز کے ٹوٹے ہوئے ایک تختے پر سوار ہوا … وہ تختہ سمندر کی موجوں کے ذریعے ایک جزیرے کے ساحل پر پہنچا… میں پر یشان حال اور نہایت غمگین تھا … جزیرے کی ایک مسجد میں بیٹھ گیا … 
میں نے بطور شکرانہ ذکر اللہ اور قرآن کی تلاوت شروع کی … جز یرے والوں کو جب پتہ چلا کہ میں اچھی طرح قرآن پڑھ سکتا ہوں تو ان لوگوں نے مجھ سے قرآن پڑھا نے اور سکھا نے کی درخواست کی … میں نے ان کی درخواست غنیمت سمجھتے ہوئے قبول کی اور انہیں قرآن سکھا نا اور پڑھانا شروع کر دیا جزیرے والوں کی طرف سے بطور ہمدردی مجھے بڑامال حاصل ہوا…
پھر انہیں پتہ چلا کہ میں خط لکھنا ابھی جانتا ہوں تو انہوں نے اپنے چھوٹے بچوں اور جوانوں کو خط سیکھنے کے لئے میرے پاس بھیجا … میں نے انہیں خط اور لکھائی سکھانی شروع کی… اس سے مجھے مز ید مالی منفعت حاصل ہوئی … ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس جز یرے کے با شندے جو کہ مسلمان تھے ان پڑھ تھے…
قاضی ابو بکر بزاز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس طرح اہل جز یرہ ہ کی مجھ سے عقیدت اور محبت بہت بڑھ گئی … چنانچہ ایک دن انہوں نے مجھ سے ایک یتیم لڑ کی سے شادی کرنے کی درخواست کی …
فَقَالُوْا لِیْ بَعْدَ ذٰلِکَ: عِنْدَنَا صَبِیَّۃٌ یَتْمِیْۃٌ وَلَھَا شَیْئٌ مِنَ الدُّنْیَا نُرِیْدُ اَنْ تَزَوَّجَ بِھَا۔ فَاِمْتَنَعْتُ فَقَالُوْا : لَاُبَدّ وَألْزِمُوْنِی فَاَجَبْتُھُمْ اِلٰی ذٰلِکَ…
 ’’جز یرے والوں نے کچھ دنوں کے بعد مجھے کہا کہ ہمارے ہاں ایک یتیم لڑ کی ہے جس کے پاس دنیاوی مال ومتاع بھی ہے (جو اسے ورثے میں ملا ہے) ہماری یہ خواہش ہے کہ آپ اس یتیم لڑ کی سے نکاح کرلیں… میں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا … جز یرے والوں نے کہا کہ ہر صورت میں آپ کو اس لڑکی سے نکاح کرنا ہوگا اور شد ید اصرار کرنے لگے… چنانچہ میں نے ان کی بات مان لی اور اس یتیم لڑکی کے ساتھ شادی کرنے پرراضی ہو گیا…‘‘
 قاضی ابو بکر بزاز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فَلَمَّا زَفُّوْ ھَا اِلیَّ مَدَدْتُ عَیْنِیْ اَنْظُرُ اِلَیْھَا فَوَ جَّدْتُ ذٰلِکَ الْعَقْدُ بِعَیْنِہٖ مُعَلَّقاً فِیْ عُنُقِھَا فَمَا کَانَ لِیْ حِیْنَئِذٍ شُغْلٌ اِلَّا النَظْرُ اِلَیْہٖ…
’’جب ان لوگوں نے اس لڑ کی کو رخصت کیا اور دلہن بنا کر میرے پاس بھیجا تو مقام خلوت میں نگاہ اٹھا کر میں نے اس لڑ کی کی طرف دیکھا تو حیران رہ گیا… کیونکہ میں نے وہی ہار (جو اس شیخ کو میں نے مکہ مکرمہ میں واپس لو ٹایا تھا) اس کے گلے میں لٹکا ہوا پایا (یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی… فرماتے ہیں کہ) میں ساری رات (قدرت کی نیر نگیوں میں سو چتے ہوئے حیرت سے) اس ہار کی طرف دیکھتا رہا (اور لڑکی کوہاتھ تک نہ لگایا)…
 جب صبح ہوئی اور لوگوں کو لڑ کی یعنی میری بیوی کے ذریعے پتہ چلا کہ میں ساری رات حیران وششدر اور تعجب سے اس کے گلے کے ہار ہی کی طرف دیکھتا رہا تو لوگ بھی حیران ہوئے کہ یہ کیسا شخص ہے کہ نہ بیوی کو ہاتھ لگایا اور نہ اسے دیکھا … بس اس ہار ہی کود یکھتا رہا اور اسی میں غور فکر رکرتا رہا …
 چنانچہ وہ لوگ میرے پاس آئے اور یہ شکایت کی کہ یہ آپ نے کیا کیا؟… اورکیوں ایسا کیا؟… اور ہار کے بارے میں آپ کو اتنی حیرت کیوں ہوئی؟… اس کا سبب کیا ہے ؟…
 فَقَالُوْا: یَا شِیْخُ !… کَسَرْتَ قَلْبَ ھٰذِہٖ الْیَتِیْمَۃِ مِنْ نَظْرِکَ اِلٰی ھٰذَا الْعَقْدِ وَلَمْ تَنْظُرْ اِلَیْھَا فَقَصَصْتُ عَلَیْھِمْ قِصَّۃَ الْعَقْدِ … فَصَا حُوْا وَصَرَّ خُواْ بِالتَّھْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ حَتَّی بَلَغَ اِلٰی جَمِیْعِ اَھْلِ الْجَزِ یْرَۃِ 
فَقلت: مَا بِکُمْ؟… فَقَا لُواْ : ذٰلِکَ الشَّیْخُ الَّذِیْ اَخَذَ مِنْکَ الْعَقْدَ اَبُوْھٰذِہِ الصْیَۃِ وَکَانَ یَقُوْلُ: مَا وَجَدْتُ فِی الدُّنْیَا مُسْلِماً اِلَّا ھٰذَا الَّذِیْ رَدَّ عَلَیّ ھٰذآ العَقْدَ … وَکَانَ یَدْ عُوْ وَیَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اِجْمَعْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہٗ حَتّٰی اُزَوِّجَہٗ بِابِنْیَتِیْ…
 وَآلاء نَ قَدْ حَصَلَتْ… فَبَقِیْتُ مَعَھَا مُدَّۃً وَرُزِقَتْ مِنْھَا بَوَ لَدَیْنِ… ثُمَّ اِنَّھَا مَاتَتْ فَوَرِثت العقد انار وولداری ثُمَّ مَاتَ لِوَ الَدَانِ … فَحَصَلَ الْعَقْدُ لِیْ فَبِعْتُہٗ بِمِائَۃِ اَلْفِ دِیْنَارِ … وَھٰذَا الْمَالُ اَلَّذِیْ تَرَ وْنَ مَعِیَ مِنْ بَقَایَا ذٰلِکَ الْمَالِ… (ذیل علی طبقات الحنا بلۃ ج۱ص ۱۹۶)
’’اہل جز یرہ نے کہا کے اے شیخ(اپ نے اچھا نہیں کیا) آپ نے اس یتیم بچی کا دل توڑا ہے … آپ ساری رات اس کے گلے کے ہار کی طرف ہی دیکھتے رہے اور اس لڑ کی کو دیکھا تک نہیں…
 قاضی ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے سامنے وہ ہار والا سارا قصہ(جو میرے ساتھ مکہ مکرمہ میں پیش آیاتھا اور میں نے وہ ہار ایک شیخ کو لوٹا دیا تھا) بیان کیا… لوگ یہ قصہ سن کر(فرط جذبات اور حیرت سے) زور زور سے تکبیر وتہلیل (یعنی لا الہ الا اللہ) کہنے لگے) یعنی انہوں نے بلند آواز سے نعرہ تکبیر لگا نا شروع کردیا) یہاں تک کہ اس قصہ کی خبر پورے اہل جز یرہ تک پہنچ گئی (اور سب اہل جز یرہ تعجب اور خوشی سے زور زور سے نعرہ تکبیر لگا نے لگے)…
 میں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے (کو نسی ایسی عجیب بات تم نے سن لی جس کی وجہ سے تم اس قدر حیران اور خوش ہو؟) …کہنے لگے کہ وہ شیخ جس کو آپ نے ہار لو ٹا یاتھا وہ اس لڑ کی کا باپ تھا …
اور (جب سے وہ مکہ مکرمہ سے لوٹا تھا) وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میں نے دنیا میں کوئی کامل مسلمان نہیں پایا …مگر ایک شخص کو جس نے مجھے میرا گمشدہ ہار لوٹادیا …
 وہ شیخ ہمیشہ دعا کرتے ہوئے یہ کہا کر تاتھا کہ اے اللہ!…(ایک دفعہ پھر) مجھے اور اس آدمی کو (جس نے مجھے ہار واپس کیا تھا) اکٹھا کردے تا کہ میں اپنی بچی کا نکاح اس سے کردوں(کیونکہ وہ انتہائی امانتدار تھا)…
 اہل جز یرہ کہنے لگے کہ …اب اس شخص کی یہ نیک آرزو پوری ہوئی (یعنی ہم نے اس کی بچی کا نکاح آپ سے کر دیا ہے … اس لئے ہم تعجب سے خوش ہو رہے ہیں)
قاضی ابو بکر بزاز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ …میں نے اپنی اس بیوی کے ساتھ زندگی کا ایک عرصہ گزارا … اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے کے بطن سے دو بچے عطا فرمائے …
 پھر میری بیوی فوت ہو گئی اور میں اور میرے دونوں بچے اس ہار کے وارث ہوئے … پھر کچھ عرصے کے بعد میرے وہ دونوں بچے بھی دنیا سے رخصت ہو گئے… اور وہ ہار بطور وارثت میرے پاس رہا …
 میں نے وہ ہار ایک لا کھ دینار کے بدلے میں بیچ دیا … چنانچہ آج یہ مال جو تم دیکھ رہے ہو (حاضرین مجلس سے کہا) یہ اسی ہار سے حاصل ہونے والے مال کا بقیہ ہے…‘‘
 افسوس صدا فسوس … کہ آج کل اکثر مسلمان غفلت کی زندگی گزار رہے ہیں… بلکہ یوں کہنا بے جانہ ہوگا کہ حیوانوں کی طرح وہ رزق کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں… حلال وحرام کی تمیز نہیں… رزق کو اکل وشرب کو اور لہوو لعب کو انہوں نے زندگی کا اصل مقصد ٹھہر الیا ہے …
اکثر مسلمان دین سے بہت دو ر جارہے ہیں… دین کو انہوں نے مقاصد دینو یہ حاصل کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے … دنیا سنوار نے کے لئے دین کا نام لیتے ہیں… اسی طرح وہ دین کو دنیا کی اصلاح کے لئے ٹکڑے ٹکڑے کررہے ہیں جس کا نتیجہ خسارہ ہی خسارہ اور تباہی ہی تباہی ہے …

گناہ کبیرہ میں دس خرابیاں


 ابو اللیث ثمر قندی رحمتہ اللہ علیہ تنبیہ الغافلین میں فرماتے ہیں کہ …ہر کبیرہ گناہ کے اندر دس باتیں ہوتی ہیں…
 ۱… اس شخص سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں … جو بھی گناہ کا ار تکاب کرتا ہے وہ اپنے مالک کو ناراض کرتا ہے …
۲… وہ شیطان کو خوش کرتا ہے … کیونکہ گناہ کے صدور سے دشمن شیطان خوش ہوتا ہے…
۳… وہ جہنم کے قریب ہوجاتا ہے 
۴… وہ جنت سے دور ہوجاتا ہے 
۵… وہ اپنے نفس کے ساتھ بے وفائی کرتا ہے گو یا اس نے اس کو آگ میں پڑ نے کے قابل بنادیا …
۶… وہ اپنے نفس کو نا پاک کر لیتا ہے … ہر گناہ باطنی نجا ست کی مانند ہے جس طرح ظا ہری نجاست پانی سے دھلتی ہے اسی طرح گناہوں کی نجاست تو بہ سے دھلتی ہے …
۷… وہ اپنی نگرانی پر مامور فرشتوں کو تکلیف پہنچا تا ہے … وہ نگرانی کرتے ہیں اور یہ تکلیف پہنچا تا ہے …
۸… وہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبر مبارک میں غمگین کرتا ہے … فرماتے ہیں کہ… ہمارے نامہ اعمال نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہنچا ئے جاتے ہیں…تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اپنے امتی کے گناہ دیکھتے ہیں …تو نبی علیہ السلام کو غم پہنچتا ہے …
۹… وہ باقی مخلوق کے ساتھ بھی خیانت کرتا ہے … اس لئے کہ گناہ کے صدور سے اللہ رب العزت کی اتر نے والی بر کتیں بسا اوقات رک جاتی ہیں… اس طرح دوسری مخلوق بھی محروم رہ جاتی ہے … مثلا بار شیں رک جاتی ہیں تو باقی مخلوق بھی اس سے متاثر ہوتی ہے …
۱۰… انسان جہاں گناہ کرتا ہے وہ زمین کے اس ٹکڑے کو قیامت کے دن کے لئے اپنے خلاف گواہ بنالیتا ہے…(خطبات فقیر بحوالہ تنبیہ الغافلین)
 اعمش کی سند سے بیان کیا کہ …ابو وائل کہتے ہیں کہ ہمارارب کتناپیارا ہے کہ… اگر ہم اس کی نافرمانی کریں بھی تو وہ ہم سے دشمنی نہیں کرتا …
 میرے دوستو!… قربان جائیں اس ذات کی …جو باوجود ہماری سر کشی اور نا فرمانی کے ہمیں رات کو میٹھی نیند سلاتی ہے …ہمارے لئے رزق کا دروازہ بند نہیں کرتا…

انو کھی شرط


5 ۔۔۔۔۔ اسے بہت زیادہ بھوک لگی ہوئی تھی …بھوک کی شدت سے اور سفر کی تھکاوٹ سے وہ نڈھال ہو چکا تھا …وہ چلتے چلتے ایک باغ میں داخل ہوااس نے بھوک مٹانے کے لئے درختوں پر نگاہ ڈالی …باغ میں سب کادرخت نظر آیا… چنانچہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور سیب توڑ کر اس کا آدھا حصہ کھالیا … پھر باغ کے قریب ایک نہر کے پانی سے اپنی پیاس بجھائی… لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اپنی غفلت سے ہوش میں آیا …کیونکہ بھوک کی شدت کے سبب اس نے سیب کھا نے سے پہلے سو چانہ تھا… اب جب جسم میں طاقت آئی تو ساتھ ہی سوچ غالب آئی … وہ خود کو مخاطب کر کے کہنے لگا… تیرا ناس ہو… بغیر اجازت کے کسی کا پھل کھا نا تیرے لئے کیونکر جائز ہو سکتاہے؟… 
پھر اس نے قسم کھائی کہ …جب تک باغ کے مالک سے مل کر معافی نہ مانگ لے گا… وہ واپس گھر نہیں جائے گا …چنانچہ اس نے باغ کے مالک کوتلاش کرنا شروع کیا … اور اس کا گھر پا کر دروازے پر دستک دی… 
مالک باہر آیا تو اس جو ان نے اپنی آمد کی تفصیل بیان کی…دراصل میں بہت بھو کا تھا …میں نے آپ کے باغ میں سے ایک سیب کا آدھا حصہ کھا لیا …بعد میں مجھے خیال آیا کے بغیر اجازت سیب کھانا میرے لئے جائز نہیں تھا …اس لئے میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں کہ …آپ میری معذرت قبول فرمالیں… یا پھر اس کا معاوضہ لے لیں…
 باغ کے مالک نے جب اس نوجوان کی بات سنی …تو اسے اپنی کانوں پریقین نہ آیا …اس نے سو چا دنیا میں اتنے متقی لو گ بھی موجود ہیں… اور پھر اچانک اسے ایک خیال آیا…اس نے نوجوان سے کہا…میں تمہیں معاف نہیں کر سکتا …ہاں معافی کی صرف ایک صورت ہے کہ… تم میری ایک شرط قبول کر لو!… 
نوجوان نے کہا…فرمائیے !… کونسی شر ط ہے…
باغ کے مالک نے کہا …میری شرط یہ ہے کہ تمھیں میری بیٹی سے شادی کرنا ہو گی۔
 نوجوان نے کچھ دیر سوچا …اور موافقت میں سرہلا دیا…
 مالک کہنے لگا… اس قدر خوش ہونے کی ضرورت نہیں… میری بیٹی اندھی… کونگی … اور بہری ہے… میں مدت سے اس کے لئے خاوند کی تلاش میں تھا… کوئی مناسب شخص نہ ملتا تھا…
 نوجوان یہ سن کر غور و فکر کرنے لگا کہ …اس بھنور سے نکلنے کا راستہ کیا ہے …اور ایسی صورت میں اب کیا کرنا چا ہے …اس نے اپنے دل میں کہا کہ… ایسی عورت سے شادی کر کے اس کی تر بیت اور خدمت کے ذریعے آزمائش میں پڑ نا …اس بات سے کہیں زیادہ آسان ہے کہ… میں نا جائز طریقہ سے سیب کھا نے کی وجہ سے جہنم میں جاؤں… اور یہ دنیوی زند گی تو چند دنوں کی ہے …لیکن آخر ت کی زندگی ہمیشہ رہنے کی ہے …اس لئے کیوں نہ دنیاوی مصیبت ہی جھیل لی جائے …
چنانچہ اس نے نا گواری کے ساتھ ہی سہی …اللہ تعالیٰ سے اجرو ثواب کی امید کے ساتھ یہ رشتہ قبول کر لیا … جب شادی کے تمام مراحل طے ہوچکے …اور نوجوان کا نیا گھر آباد ہو گیا تو اس پر رنج وغم چھا گیا …اس کے دل میں بار بار یہ بات آرہی تھی کہ …ایک عورت جو بات نہیں کر سکتی …دیکھ نہیں سکتی …سن نہیں سکتی …ایسی عورت سے زندگی بھر کا نبھا کیسے ہو گا؟… بہر حال نوجوان اپنی تقد یر پر راضی ہوا… اللہ پر بھروسہ کیا اور کہا:
لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ …
شب کو جب وہ اپنی دلہن سے ملنے اپنے کمرے میں داخل ہو ا تو دلہن جلدی سے اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہوئی اور ’’السلام علیکم‘‘ کہا … جب نوجوان نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک نہایت خو بصور ت دا نا وبینا صحیح سلامت لڑ کی کھڑی تھی… اس نے تھوڑا توقف کیا اور پھر کہا…’’یہ کیا ہے؟… مجھ سے تو کہا گیا تھا کہ تمہاری دلہن اندھی… کونگی… اور بہر ی ہے… 
لڑ کی کہنے لگی… میرے والد محترم نے آپ سے جو کچھ بھی میرے متعلق کہا ہے… وہ بالکل سچ ہے…
 نوجوان نے کہا…مجھے ان ساری باتوں کی حقیقت سے آگاہ کر وہ جو تمہارے والد نے مجھ سے کہی تھی ؟… 
لڑ کی نے کہا…میرے بابا جان نے کہا تھا کہ …میں گو نگی ہوں …تو یہ اس لئے کہ میں نے اپنی زبان سے کبھی کوئی غیر شرعی کلمہ نہیں نکالا ہے… اور نہ میں نے کبھی کسی ایسے شخص سے بات کی ہے جو میرا غیر محرم ہو … اور میرے ابو جان نے آپ سے جو میرے بارے میں کہا تھا کہ …میں بہری ہوں تو یہ اس لئے کہ میں کبھی کسی ایسی مجلس میں نہیں بیٹھی …جس میں غیبت… چغلی …یا بے کار و بے مقصد باتیں زینت مجلس بنتی ہوں … اورمیرے ابو جان نے جو یہ کہا تھا کہ …میں اندھی ہوں تو یہ اس لئے کہ میں نے اپنی نگاہ کبھی ایسے شخص کی طرف نہیں اٹھائی… جو میرے لئے حلال نہ ہو(یعنی غیرمحرم ہو) …
نوجوان لڑ کی کی گفتگو سن کر خوشی سے سر شار ہو گیا …
پیارے ساتھیو!… آپ جانتے ہیں یہ نوجوان کو ن تھے؟… ’’یہ ثابت بن نعمان‘‘ تھے… اس متقی شخص کی بیوی بہت پر ہیز گار اور نیک فطرت تھی …

 اللہ کی محبت کا چراغ


میرے دوستو… دنیا کے چراغ مٹی کے تیل سے جلتے ہیں… اور اللہ کی محبت خون آرزو کو حرام کرنے سے جلتے ہیں… اگر اپنے دل میں اللہ کی محبت کی شمع روشن کرنا چاہتے ہو تو لوٹ آؤ اللہ کی طرف …بہت سال گناہوں کی گٹرلائن میں گرے ہوئے ہو گئے…
میرے بھائیو!… ہم دنیا میں عیاشی کے لئے نہیں آئے …وہ تو کہتا ہے کہ …
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثَا…
میرے بندو تمہارا کیا خیال ہے کہ …بیکار ہو ؟… کوئی کام نہیں؟… بس نا چنا کو دنا …پیسے اکھٹے کرنا یہی کام ہے… نہیں …
 اَیَحْسَبُ الِانْسَانُ اَن یُّتْرَکَ صُدَا…
 میں نے یوں ہی تیرا سارا بیکار کا ما بنایا ہے… تجھے ایسے ہی چھوڑدوں گا…فارغ چھوڑدوںگا…تیرے اوپر کوئی نہیں ہے ؟… ہے…
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصْرَ وَالْفُوَادَ کُلُّ اُولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلَا…
…تیری آنکھوں سے پو چھوں گا …کیا دیکھا؟…
… تیرے دل سے پو چھوں گا … کیا کچھ جذبے لے کرآیا؟…
… تیرے کانوں سے پو چھوں گا …کیا سن کر آیا؟…
 یہ تو اوپر سے ایک نظام چل رہا ہے جس نے ہمیں جکڑا ہوا ہے …میرے بھائیو… لا الہ الا اللہ کا مطلب یہ ہے کہ …آج کے بعد ہم اپنی مرضی نہیں  کریں گے… جو تو چاہتا ہے …تیری مان کر چلیں گے …من چا ہی پر نہیں چلیں گے … تیری چاہت پر چلیں گے…

گناہوں پر رحمت الٰہی کا پردہ 


 میرے دوستو!… اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہمارے گناہوں پر ستاری کا پر دہ ڈال دیتا ہے کہ …بیشک میرے بندہ نے میرے نعمتیں کھا کر میری نا فرمانی کی ہے …اگر میں نے اس کے گناہوں کو نہ چھپا یا …تو یہ مخلوق میں ذلیل ہو جائے گا …شاید یہ بندہ کبھی سچی تو بہ کر کے میرے پاس لوٹ آئے…
 میرے دوستو!… اگر گناہوں سے بو آیا کرتی… تو شا ید کو ئی آدمی بھی ہمارے پاس آکر نہ بیٹھتا … یہ تو پر وردگار کی طرف سے سترپوشی ہے کہ اس نے ہماری اصلیت کو چھپا دیا ہے … 
ایک بزرگ بہت ہی پیاری بات ارشاد فرمایا کرتے تھے … مجھے وہ بات بہت اچھی لگتی ہے … فرماتے تھے کہ اے دوست !… جس نے تیری تعر یف کی اس نے درحقیقت تیری پر وردگار کی ستاری کی تعریف کی جس نے تجھے چھپا یا ہوا ہے… اور تیری گند گیوں کے باوجود لوگ تیری تعریفیں کرتے پھر تے ہیں… لہٰذا جو ہماری تعریفیں کررہا ہوتا ہے … وہ ہماری تعر یفیں نہیں کررہا ہوتا …بلکہ وہ اس پر ور دگار کی صفت ستاری کی تعریفیں کررہا ہوتا ہے … یہ تو پر وردگار کی رحمت ہے کہ …اس نے پر دے  ڈالے ہوئے ہیں… ہمیں چا ہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے فائدہ اٹھائیں …اور قبل اس کے کہ یہ مہلت ختم ہوجائے… اپنے نفس کی اصلاح کر لیں… ورنہ جو صاحب نظر ہوتے ہیں … وہ بندے کی با طنی کیفیت کو محسوس کر لیتے ہیں…

حرام سے بچنے پر خزانہ اور زنانہ کا انعا م


6 ۔۔۔۔شام کے مشہور عالم دین شیخ طنطاوی نے اپنی یادداشتوں میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے … واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک لڑ کا نیک وصالح تھا … اس میں تقویٰ اور پر ہیز گاری تھی …البتہ حصول علم میں کوئی زیادہ دلچسپی نہ تھی… وہ ایک دینی مدرسے میں پڑھتا تھا … جو استاد کہتا اسی پر عمل کرتا … جب اس نے اپنے استاد کی خدمت میں رہ کر ضرورت کے مطابق علم حاصل کر لیا …تو استاد نے اسے اور اپنے دیگر شا گر دوں کو نصیحت فرمائی…
لَاتَکُوْ نُوْا عَا لَۃً عَلَی النَّاسِ فَاِنَّ الْعَالِمَ الَّذِیْ یَمُدُّ یَدَہٗ اِلٰی اَبْنَائِ الدُّنْیَا لَایَکُوْنُ فِیْہٖ خَیْرٌ فَلْیَذْ ھَبْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ وَلِیَشْتَغِلْ بِالصَّنَعَۃِ الَّتِیْ کَا نَ اَبُوْہٌ یَشْتَغِلُ بِھَا وَفَیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْھَا …
 ’’لوگوںکے محتاج نہ بنو… کیوں کہ دنیا داروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا عالم خیر وبھلائی سے محروم ہوتا ہے …(اس لیے کہ جو کچھ دنیا دار کہتے اور کرتے ہیں …عالم اس پر انکار کرنے کی جرأت نہیں کرے گا… کیونکہ وہ ان کے احسان تلے دبا ہوتا ہے)… لہٰذا تم میں سے ہر طالب علم جا کر اپنے باپ کا پیشہ اختیار کر لے… (اور اس سے معاش پیدا کرے)… اور اپنے پیشے میں اللہ کا خوف اور تقویٰ ملحوظ خا طر رکھے‘‘…
 لڑ کے اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے …یہ لڑکا بھی استاد کی نصیحت سن کر اپنے گھر گیا اور اپنی ماں سے پو چھا… امی جان!… ذرا مجھے بتائیں کہ میرے ابو جان کا پیشہ کیا تھا …وہ کیا کام کرتے تھے؟…
 بیٹے کے اس سوال سے ماں گھبر اسی گئی اور پوچھا…
 بیٹے… تیرے والد کا مدت ہوئی انتقال ہوچکا ہے… تمہیں اپنے باپ کے پیشہ سے کیا لینا دینا… جو یہ سوال کررہے ہو؟…
بیٹے نے اب اصرار کے ساتھ اپنے باپ کا پیشہ جاننا چاہا اور ماں اس سے ٹال مٹول کرتی رہی … جب بیٹے نے ضد کی توماں نہ چاہتے ہوئے بھی گو یا ہوئی …بیٹے جب تم بار بار مجھ سے اپنے باپ کے پیشے کے بارے میں پو چھ رہے ہو …تو مجبورا زبان کھولنی پڑرہی ہے … اگر کوئی اچھا پیشہ تمہارے باپ کا ہوتا …تو مجھے بتا نے میں اس قدر تذبذب سے کام نہ لینا پڑتا …لیکن جب تمہارا اصر ار ہی ہے تو سنو !… تمہار اباپ چو رتھا… چور!… چوری ہی اس کا پیشہ تھا…
 بیٹے نے ماں کا جواب سن کر کہا…
 امی جان استاد محترم نے تمام طلبہ سے کہا ہے کہ… جاؤ اور اپنے اپنے باپ کا پیشہ اختیار کرلو …اور اس میں تقویٰ کا خیال رکھنا…
 ماں نے کہا…
تیراناس ہو !… بھلا چوری میں تقویٰ شعاری !… یہ کیسی بات ہے؟…
بیٹے نے ماں سے کہا… لیکن امی جان… استاد محترم نے یہی بات کہی ہے… جو میں نے آپ کو بتائی ہے…
پھر نوجوان لڑکے نے چوری کے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کیں… باقاعدہ ٹریننگ لی کہ… چوری کیسے کرتے ہیں؟… اس کے لئے ضروری اوزار مہیا کئے… اور وہ دن بھی آگیا… جب اس کی ٹریننگ مکمل ہوگئی… اور وہ چوری کرسکتا تھا…
پھر اس نے خاصے غور و خوض کے بعد پروگرام بنایا کہ… آج سے اپنے والد کے پیشے پر عمل کرنا ہے… عشاء کی نماز پڑھ کر وہ لوگوں کے سونے کا انتظار کرتا… جب لوگ سوگئے… اور چاروںطرف سناٹا چھا گیا… تو اس نے سب سے پہلے پڑوسی ہی کے گھر سے چوری کا آغاز کرنے کا ارادہ کیا… جب پڑوسی کے گھر میں داخل ہونا چاہا… تو اسے اپنے استاد کی نصیحت یاد آگئی کہ… اپنے پیشے میں تقوے کا پاس و لحاظ رکھنا… اس نے دل میں کہا…
پڑوسی کے گھرمیں چوری کرنا… اور اسے تکلیف دینا تو سراسر تقویٰ کے خلاف ہے… اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہوگا… چنانچہ وہ پڑوسی کا گھر چھوڑ کر اگلے گھر کی طرف بڑھا … وہ یتیم بچوں کاگھر تھا… اس نے کہا…
یہ یتیم بچوںکا گھر ہے… اس میں چوری کرنا تقوے کے خلاف ہے… کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کا مال کھانے سے منع فرمایا ہے… وہ یہ گھر بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گیا …
اسی طرح جب کوئی گھر آتا… اور یہ چوری کرنے کا ارادہ کرتا… تو کوئی نہ کوئی بات اس کے ذہن میں آجاتی… جس کو تقوے کے خلاف کہہ کر وہ آگے بڑھتا چلا جاتا… یہاں تک کہ ایک تاجر کا گھر آیا… یہ تاجر خاصا امیر آدمی تھا… اس کی صرف ایک ہی بیٹی تھی… چور نے کہا…
ہاں… یہ گھر ہے… جس میں چوری کی جاسکتی ہے… پھر اس نے بہت ساری کنجیاں نکالیں… جو پہلے سے بنوا رکھی تھیں… اور دروازہ کھول لیا… جب گھر کے اندر داخل ہوا… تو دیکھا کہ گھر تو بہت بڑا ہے… اور کمرے بھی بہت زیادہ ہیں… چنانچہ وہ گھر میں گھومنے لگا… جیسے کوئی چور نہیں مہمان ہو… بالآخر اس کی نگاہ اس جگہ پر پڑگئی جہاں مال رکھا ہوا تھا… اس نے تجوری کھولی… تو وہ سونے چاندی اور روپے پیسے سے بھری پڑی تھی… چورنے تجوری سے مال نکالنا چاہا… لیکن اسے اپنے استاد کی نصیحت یاد آگئی… اور کہنے لگا… 
استاد محترم نے تو تقویٰ اختیار کرنے کی بات کہی تھی… ہاں… پتا نہیں اس تاجر نے اپنے مال کی زکوٰۃ نکالی ہے… یا نہیں…کیونکہ نہ پہلے اس کی زکوٰۃ کا حساب کتاب کرلیا جائے… یہ سوچ کر اس نے حساب کتاب کے رجسٹروں کو نکالا… اپنے ساتھ لائی ہوئی چھوٹی سی لالٹیں روشن کی… اور اس کی روشنی میں رجسٹروں کی چھان بین کرنے لگا…
وہ حساب کتاب کا بہت ہی ماہر تھا… چنانچہ اس نے جلدی جلدی پورے مال کاحساب کیا… اور اس کی زکوٰۃ کا حصہ نکال کر الگ کردیا… پھر وہ حساب کتاب میں اس قدر مستغرق ہوگیا… کہ وقت کا احساس ہی نہ رہا… اچانک اسے محسوس ہوا کہ فجر کا وقت ہوچکا ہے… اس نے اپنے آپ سے کہا… تقوے کا تقاضا ہے کہ پہلے نماز فجر ادا کی جائے…اور پھر بعد میں اپنا کام کیا جائے… وہ گھر کے آنگن میں آیا… اور اس سے پانی لے کر وضو کیا… پھر نماز کے لئے اقامت کہنے لگا… گھر کے مالک نے جب اقامت کی آواز سنی… تو گھبرا کر نیند سے بیدار ہوا… نیچے جھانکا… دیکھتا کیا ہے کہ ایک چھوٹی سی لالٹیں روشن ہے… تجوری کھلی ہوئی ہے… اور سامنے ایک نوجوان نماز کے لئے اقامت کہہ رہا ہے… 
مکان مالک کی بیوی بھی جاگ گئی… اور دیکھ کر شوہر سے پوچھا… یہ سب کیا ہے؟… 
مکان مالک نے بتایا…
اللہ کی قسم!… مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے… پھر وہ گھر کی دوسری منزل سے نیچے اتر کر اس نوجوان کے پاس گیا… اور کہا… تمہارا ناس ہو… آخر تم ہو کون؟… اور یہ کیا کررہے ہو؟…
چور نے کہا…
اَلصَّلوٰۃُ أَوَّلًا ثُمَّ الْکَلَامِ…
’’پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں… بعد میںبات ہوگی‘‘…
مالک خاصا گھبرایا ہوا تھا… نوجوان نے اسے حکم دیا… جلدی سے وضو کرکے آئو… وہ وضو کرکے آیا… تو نوجوان نے اس سے کہا… چلو تم جماعت کرائو… 
اس نے نوجوان سے کہا… نہیں… تم ہی امامت کرائو…
نوجوان نے کہا… تم گھر کے مالک ہو… اور زیادہ حق دار ہو کہ امامت کرائو…
مالک مکان کے لئے اس کی حکم عدولی کا کوئی تصور نہیں تھا… اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے… اس نے جماعت کرائی… اب نماز اس نے کیسی پڑھی؟… اللہ ہی کو اس کی کیفیت کا علم ہے… خوف اور رعب کے مارے اس کا برا حال تھا…
بہرحال جب نماز ختم ہوئی تومالک مکان نے پوچھا… مجھے بتائو کہ … تم ہو کون… اور یہاں کس نیت سے آئے ہو؟…
نوجوان نے بتایا… 
میں چور ہوں… اور چوری کرنے کے لئے آیا ہوں… مگر تم بتائو کہ زکوٰۃ کیوں نہیں ادا کرتے؟… میں نے تمہارے رجسٹروں کو چیک کیا ہے… تم نے چھ سالوں سے زکوٰۃ نہیں دی… یہ اللہ کا حق ہے اور فرض ہے… میں نے حساب کردیا ہے… اور زکوٰۃ کا مال علیحدہ کردیا ہے… تاکہ تم اسے اس کے مستحق تک پہنچادو…
یہ سننا تھا کہ مکان مالک جیسے تعجب سے بوکھلا گیا… اور گویا ہوا… تیرا ناس ہو… تو یہ کیا کہ رہا ہے؟… کیا تو پاگل ہے؟…
اس نے کہا… میں پاگل نہیں… بالکل تندرست… صحت مند… اور توانا ہوں… 
مکان مالک نے پوچھا… تو پھر تم چوری کیوں کررہے ہو؟…
اس کے جواب میں نوجوان چور نے اپنی ساری داستان اس تاجر سے کہہ سنائی…
جب تاجر نے نوجوان کا بھولا پن او راس کی بھولی بھالی… پیاری شکل و صورت اور حساب کتاب میں اس کی مہارت دیکھی… تو اپنی بیوی کے پاس گیا… اور نوجوان چور کے متعلق سب کچھ بتایا… اور کہا کہ تم اپنی بیٹی کے رشتے کے لئے پریشان تھیں… اللہ نے رشتہ تمہارے گھر بھیج دیا ہے… اس کی بیوی نے بھی موافقت کرلی…
اب وہ اس نوجوان کے پاس آیا… اور کہا… دیکھو… چوری کرنا نہایت بری بات ہے …تمہیں مال و دولت چاہئے… اگر تم چاہو تو میں تمہیں اپنے مال میں حصہ دار بناسکتا ہوں… 
نوجوان نے کہا… وہ کیسے؟…
تاجر کہنے لگا… میری ایک ہی بیٹی ہے… میں اس کی شادی تم سے کردیتا ہوں… میں تمہیں اپنا چیف اکائونٹنٹ بھی بنانے کے لئے تیار ہوں… رہنے کے لئے تمہیں گھر بھی دوں گا… اور مال بھی… تم اپنی والدہ سے مشورہ کرلو…
نوجوان نے اس پر اپنی رضامندی ظاہر کردی… اس کی والدہ نے بھی اس رشتے کو سراہا… اور اگلے دن اس تاجر نے گواہوں کی موجودگی میں اپنی بیٹی کی شادی اس نوجوان سے کردی… 
میرے دوستو!… اللہ تعالیٰ بندہ پر بڑا ہی مہربان ہے…وہ اپنے بندے کی قربانی کو ضائع نہیں کرتا… بلکہ حضور ا کا فرمانا ہے…
مَنْ تَرَکَ للّٰہ شَیْئاً…
جو اللہ کے لئے کسی گناہ یا چیز کو چھوڑ تا ہے…
عَوَّضَہُ اللّٰہٗ خَیْراً مِنْہٗ…
اللہ اس کو اس سے بہت بہتر عطا فرماتے ہیں…
میرے دوستو! … اس کا تو اعلان ہے…میری طرف تو آئو…
فَفِرُّوْا اِلَی اللّٰہ…
اے میرے بندو!… میری طرف کو دوڑو… ففروا الی اللہ… میری طرف کو آئو…

مہربان اللہ… نافرمان بندے 


حدیث قدسی ہے:
یَااِبْنِ آدَمَ اِنِّیْ لَکَ مُحِبٌّ فَبِحَقِّیْ عَلَیْکَ کُنْ لِیْ مُحِبًّا…
میرے بندے… مجھے تجھ سے محبت ہے… تجھے میری عزت کی قسم… میرے حق کی قسم… تو بھی تو میرے سے محبت کر… تو کس کے پیچھے دوڑتا ہے… میں نے تجھے پروان چڑھایا… پالا پوسا… جوان کیا… رزق دیا… عقل اور فہم دی… اب تو بیوی کی خاطر مجھے ٹھکراتا ہے … اور دکان کی خاطر مجھے ٹھکراتا ہے… اور کسی کی خاطر تو میرے امر کو توڑتا ہے… میرے امر سے تجھے حکومت ملی… میرا امر تیری حکومت کو فنا کے گھاٹ اتار دے گا… میرے امر سے تجھے عزت ملی… میرا امر تجھے ذلت کی وادیوں میں پھینک دے گا… میرے امر سے تجھے زندگی ملی… اور میرا امر تجھے موت کی وادی میں بھٹکا دے گا… تو کدھر کو بھاگتا ہے… مجھے چھوڑ کر… میں نے تجھے پیدا کیا… پروان چڑھایا… اور سارے عالم سے بہتر بنایا… اور تجھے اس طرز پر اٹھایا… اور پروان چڑھایا… 
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں… 
اپنے فرشتوں کو تمہاری حفاظت کے لئے مقرر کرتاہوں… اگر تمہاری حفاظت کے لئے میرے فرشتے نہ اتریں… تو تمہیں ساری میری پوشیدہ بلائیں چیر پھاڑ کر کھا جائیں … میرے فرشتے حفاظت میں چل رہے ہیں… چھپے ہوئے فتنوں کو تم سے دور کررہا ہوں… اور تم سے ساری بلائوں کو دھکیل رہا ہوں… تم مجھ کو چھوڑ کر کہاں بھاگ گئے ہو… اور میرے غیر کی طرف متوجہ ہوتے ہو… میں اکیلا ہوں… میں ہی تن تنہا ہوں… ھواللہ احد… میں ہی اکیلا ہوں… کوئی میری مثال نہیں…کوئی مرا بدل نہیں کہ …لامثل… کوئی مثال نہیں کہ… لاشریک … کوئی میرے مشابہ نہیں… لاضد… کوئی میرا مقابل نہیں… کوئی میرے سامنے نہیں آسکتا… میں ہی اکیلا تن تنہا ہوں… جو تمہیںعدم سے وجود دے رہا ہوں… 
سوچ تو سہی… تو کیا تھا…
ھَلْ اَتَا عَلَی الاِنْسَانِ حِیْنٌ مِنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَذْکُوْرًا…
جب تیرا نہ زمینوں میں ذکر تھا… میں نے آسمانوں کی چکی کو چلایا … سورج چاند کی گردش کو چلایا… اور تجھے مٹی میں نطفہ بنایا…
مِنْ سُلَالَۃٍ مِنْ طِیْنٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَکِیْنٍ…
پھر تجھے نطفہ بناکے ماں کے پیٹ میں ٹھہرایا…
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً…
پھر تجھے خون سے بدلا…
فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً…
پھر تجھے لوتھڑے میں بدلا…
فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظَامًا…
پھر تجھے ہڈیوں سے بدلا…
فَکَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا…
پھرتم پر گوشت چڑھایا…
ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلَقاً…
آخر پھر تجھے ایک نئی خوبصورت شکل دی… 
پھر بھی تو میرے سے بھاگتا ہے…
میں تجھے یاد کرتاہوں

ایک دوسری حدیث قدسی میں ہے:
یَااِبْنَ آدَمَ اِنْ ذَکَرْ تَنِیْ ذَکَرْتُکَ
تو مجھے یاد کرتا ہے… میں تجھے یاد کرتا ہوں…
اِنْ نَسِیْتَنِیْ ذَکَرْتُکَ…
تومجھے بھول جاتا ہے… 
میں پھربھی تجھے یاد کرتا ہوں… اور میں تیری طرف نگاہ لگائے رکھتا ہوں… کہ میرا بندہ مجھے بھولا ہوا ہے… اسے مہلت دو… اسے ڈھیل دو… شاید یہ میری طرف کبھی لوٹے… میں موت تک تجھے مہلت دیتا چلا جاتا ہوں… آج آجائے… آج آجائے… یا اللہ تیری رحمت اللہ اکبر… میرے بنائے ہوئے سمندروں میں جوش اٹھتا ہے … میری زمین میں زلزلے آتے ہیں…
تَکَادُ السَّمٰوَاتِ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَق الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالْ…
زمین پھٹنے کو آتی ہے… آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہونے کو ہوتا ہے… پہاڑ ریزہ ریزہ ہونے کو ہوجاتی ہیں… جب تم میرا شریک ٹھہراتے ہو… میں ہوں…
یَمْسِکُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلاً…
زمین آسمان کو گرنے سے روک لیتا ہے… کہ نہیں… نہیں… مجھے گرانا ہے …ابھی مت گرو… میں انسان کا انتظار کررہا ہوں… اس کی توبہ کا منتظر ہوں…
میری تلاش میں نکل

میرا بندہ… میری تلاش میں مجھے پالے گا… تو سب کچھ پالے گا… مجھے گم کردیا تو سب کچھ گم کردیا…
رحم ایذدی کہ انتہاء نہیں…غضب ایسا کہ انتہاء نہیں… صفات دونوں میں جمع ہوجاتی ہے… غصب و رحم پوری صفتوں کے اللہ کے ننانوے نام تو حدیث میں ہیں… اس کے ناموں کی کوئی حد نہیں… ان سب کو جمع کیا جائے تو وہ بنتے ہیں… رحیم… قاہر… جبار… رحمان… پھر ان دو کو جمع کیا جائے… تو اللہ نے خود فیصلہ کردیا کہ عرش کے اوپر اللہ کے سوا کوئی مخلوق نہیں…
عرش کے اوپر ایک بہت بڑی تختی ہے…جس کی لمبائی… چوڑائی کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا… اللہ نے خود لکھوایا ہوا ہے… میری رحمت میرے غصے سے آگے چلی گئی … (اللہ فرماتے ہیں) … اے میرے بندے میں تو تجھے یاد رکھتا ہوں… تو مجھے بھول جاتا ہے… میں تو تیرے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہوں… تو پھر بھی مجھ سے نہیں ڈرتا … میں پھر بھی تجھے یاد رکھتا ہوں… تو مجھے بھول جاتا ہے… میں پھر بھی تجھے یاد رکھتا ہوں… تو ناراض ہوکر منہ پھیر جاتا ہے… میں نہیں منہ پھیرتا… میں تیرے انتظار میں رہتا ہوں… 
میرے بھائیو!
اللہ کی رحمت کا مطلب یہ تھوڑا ہے کہ اللہ بڑا مہربان ہے… اس کی نافرمانی کرو… اللہ نے سورہ عادیات میں کیسا گلہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی کیوں قسمیں کھائیں؟ … اے میرے بندے!… نہ تو نے گھوڑا بنایا… نہ تو نے اسے پالا… میں نے تیری ملکیت میں دیا… چند دن تو نے دانہ کھلایا… پانی پلایا… اب تو اس پر زین رکھتا ہے… اس کو ایڑ لگاتا ہے… اور وہ تیری مان کے چلتا ہے… دشمن پر حملہ کرتا ہے… سینے پر تیر کھاتا ہے… تھکا ہارا آتا ہے… پھر تو صبح اٹھ کر اس کی پیٹھ پر زین رکھتا ہے… پھر اس کو ایڑ لگاتا ہے… وہ نہیں کہتا میں تھکا ہوا ہوں… چھوڑ دو… مجھے آرام کرنے دو… نہیں… تیری لگام کے اشارے کو سمجھتا ہے… تھاپ مارتا…چنگاری اڑاتا ہے…دوڑتا جاتا ہے… غبار اڑاتا ہے… دشمن کے درمیان گھستا ہے…
اے میرے بندے!… گھوڑے نے تو تیری فرمانبرداری کی… پر تو میرا نافرمان نکلا… میرا ناشکرا نکلا… کیسا گلہ اللہ نے کیا؟… تجھے کس نے دھوکہ میں ڈال دیا… مجھ سے جس کی رحمت کی انتہاء نہیں… پوری دنیا مل جائے… تو اتنے گناہ نہیں کرسکتی کہ زمیں بھر جائے… آسمان اور خلاء بھر جائے… پوری دنیا مل جائے تو اتنے گناہ نہیں کرسکتی… لیکن اس کی رحمت پر قربان جائیں…
گناہ سے بچنے پر حور سے نکاح

7… بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا… 
میں نے ایک ایسی عورت دیکھی جو دنیا کی عورتوںکے مشابہ نہیں تھی… میں نے پوچھا…تو کون ہے؟…
اس نے کہا… میں حورہوں!…
آدمی نے اس سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا… 
وہ کہنے لگی… بہت اچھا… البتہ تم میرے آقا کے پاس اپنا پیغام بھیجو!… اور میرا حق مہر ادا کرو!… 
میں نے کہا… تیرا حق مہر کیا ہے؟…
کہنے لگی… اپنے آپ کو نفسانی خواہشات سے بچانا۔ (احیاء العلوم)
میرے بھائیو!…
بنی اسرائیل کافر نہیں تھے… مسلمان تھے… جو بندر و خنزیربنے… سن رہے ہیں میری بات؟… بنی اسرائیل کافر نہیں تھے… مسلمان تھے… اللہ نے کہا … مچھلی نہ کھائو… تو انہوں نے چکر چلایا… ہفتہ کے دن نہیں کھانی… ہفتہ کو پکڑ کے اتوار کو کھا لیتے تھے… ایمان والے تھے… مسلمان تھے… کافر نہیں تھے… اللہ نے کہا…
کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَ…
ہوجائو بندر بن کے ذلیل…
سب بندر بنادیئے گئے…
عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے والے کافر نہیں تھے… اہل ایمان تھے… اللہ نے کہا… خنزیر بن جائو…
وَجَعَلَنَا مِنْھِمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ…
تو کیا خیال ہے زنا کرنا… مچھلی کھانے سے بڑا گناہ ہے… مائوں کی نافرمانی مچھلی کھانے سے بڑا گناہ ہے… قاضی کے قلم کا بک جانا چند ٹکوں پر… یہ مچھلی کھانے سے بڑا گناہ ہے… سود کھانا مچھلی کھانے سے بڑا گناہ ہے… قتل کے بازار گرم کردینا مچھلی کھانے سے بڑا گناہ ہے… ہم کیوں نہ بنے بندر اور خنزیر…
آج ہم دن رات اللہ کی نافرمانیاںکرتے ہیں… پر وہ ہمیں بندر نہیں بناتا… یا پھر کوئی اور بڑا عذاب نہیں دیتا… کہ ہم حضور ا کے امتی ہیں… حضور ا نے دعا کی تھی … کہ اے اللہ میری امت کو بڑی عذاب سے بچانا… 
میرے دوستو!…
جیسے مالک اپنے باغ سے بڑے اور خوبصورت پھل چُھنتا ہے… بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضور ا کے ایک ایک امتوں کو تمام امتی کے لوگوں میں سے منتخب کیا ہے… مگر افسوس آج ہم اس فضیلت کوبھول کر رب کی نافرمانی میں لگے ہوئے ہیں… اور وہ ذات بھی ایسی کریم ذات ہے… جو ہمیں ڈھیل دیتی چلی جارہی ہے… کہ شاید کسی دن میرا بندہ میرے پاس لوٹ آئے۔
ایک نوجوان گناہ سے کیسے بچا؟… عجیب واقعہ

8…ایک واقعہ کتابوں میں لکھا ہے… عبرت کے لئے… نصیحت کے لئے بہت اچھا ہے… ایک شہزادی جنگل میں گئی سیر کرنے کے لئے اپنی سہیلیوں کے ساتھ … راستہ بھول گئی… دیر ہوگئی… سہیلیاں تتر بتر ہوگئیں… باڈی گارڈ اِدھر اُدھر ہوگئے… اکیلی رہ گئی… پھرتے پھراتے بڑی دیر بعد دور جنگل میں اسے تھوڑی سی روشنی نظر آئی … وہ اس طرف چل پڑی… جب وہاں گئی تو دیکھا کہ جھونپڑی کے اندر ایک چراغ پڑا ہوا ہے… چراغ جل رہی ہے… ایک نوجوان طالب علم بیٹھا ہوا تھا… اس کے سامنے کتاب رکھی ہوئی تھی … اور وہ مطالعہ کررہا تھا…
اب شہزادی جھونپڑی کے باہر کھڑی ہے… سوچتی ہے کہ اگر جاتی ہوں تو خطرہ ہے … جنگل ہے… بیابان ہے… یہ نوجوان ہے… اس کے بغیر کوئی راستہ نہیں… باہر ٹھہرتی ہوں… اندھیری رات ہے… جنگل ہے… شیر پکڑ کر لے جائے… چیتا اٹھا کر چیر پھاڑ دے… کیا کروں؟…
اسی پریشانی میں تھی… کافی دیر کے بعد اس نے کہا… چلو اندر جاتی ہوں… دیکھا جائے گا … کیا ہوتا ہے؟…
اس نے آواز دی… وہ طالب علم متوجہ ہوا… اس نے دیکھا… پوچھا… ’’کیا بات ہے؟…
کہنے لگی… میں راہ گم کرچکی ہوں… راہ بھول گئی ہوں… اگر تمہاری اجازت ہو تو رات تمہارے پاس گذار لوں؟…
اس نے دیکھا غور سے… حسین و جمیل … بہت خوبصورت جوان لڑکی ہے…
اس نے کہا… آجائو… میں تو طالب علم ہوں… یہی ایک بسترا ہے میرا … اسی پر میں سوتا ہوں… آج تم مہمان ہو… سوجائو… میں بیٹھ کے رات گذار لوں گا…
چنانچہ وہ لیٹ گئی… پر نیند کہاں؟… اور ایسی حالت میں نیند کہاں آتی ہے… وہ طالب علم مطالعہ کرتے کرتے تھوڑی دیر کے بعد اپنی انگلی دیئے کی آگ کے اوپر رکھتا … وہ جونہی جلتی… تو کھینچ کے پیچھے کرکے ملتا … اور پھر مطالعہ شروع کردیتا… پندرہ بیس منٹ گذر جاتے… پھر وہ اپنی انگلی اس آگ کے اوپر رکھتا… پھر وہ جلتی… پھر وہ اسے ملتا… رات گذر گئی… صبح ہوگئی… 
شہزادی نے اس سے کہا… تیرا بڑا احسان ہے… اگر تیری اجازت ہو تو میں چلی جائوں؟…
اس نے کہا… چلی جائو… 
اسے کیا پتہ تھا کہ شہزادی ہے؟… اس نے سمجھا راستے میں گذرنے والی کوئی لڑکی ہے… 
اِدھر بادشاہ نے اس کی تلاش میں اپنے فوجی دستے بھیج دیئے… وہ بھی پہنچ گئے… انہوں نے اس کو پکڑا… اور جاکر بادشاہ کے سامنے پیش کردیا…
بادشاہ نے اس سے پوچھا… رات کہاں تھی؟…
اس نے کہا… میں راستہ بھول گئی تھی… اور ایک نوجوان طالب علم تھا… مطالعہ کررہا تھا… اس کے پاس چلی گئی… رات وہاں رہی…
اب اس زمانے کے بادشاہ تھے نا جی… یہ ہمارا والا حال تو نہیں تھا؟…یہاں تو جو ہوتا ہے… آپ کو پتہ ہے… یہاں تو خود ہی کہتے ہیں… بیٹی چلی جائو…یا پھر … ابا میں ٹور پر جارہی ہوں… ہاں چلی جائو… پھر ابا… میں آٹھ دن کے بعد آجائوں گی… ٹھیک ہے… جائو… جوان بیٹی… میک اپ کیا ہوتا ہے… آزادی ہوتی ہے … آپ کو پتہ ہے… یہاں آپ کے پاس سے گذرتے ہیں… قہقہے مارتے ہیں… اٹھکیلیاں کرتے ہین… پندرہ جوان لڑکے… پندرہ جوان لڑکیاں… باپ کا پتہ نہیں… ماں کا پتہ نہیں… کوئی کہاں کی… کوئی کہاں کی… اور جناب ادھر کتنے دن ٹور پر جارہی ہیں… پندرہ پندرہ دن… بیس بیس دن کا ٹور ہوتا ہے… 
پھر واپسی پر کہتی ہیں …ڈیڈی…فلاں لڑکا میرا کلاس فیلو ہے… میں نے اس کو پسند کرلیا ہے… بس وہ ہر لحاظ سے ٹھیک ہے… تو بس … میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں… تو وہ بھی کہتا ہے… اچھا جی… ہماری بیٹی کی پسند بڑی اچھی ہوگی… ہم بھی اسی کے ساتھ تمہاری شادی کریں گے… چل… یہ بے غیرتی ہے کہ نہیں؟… کتنی بڑی بے حیائی ہے… تو اس وقت ان لوگوں میں غیرت ہوتی تھی…
بادشاہ کہنے لگا… اپنے خاص آدمیوں سے کہ… بیٹی میری رات کو باہر رہی ہے … واللہ اعلم کیا ہوا ہو؟… رات کا وقت … جنگل… ایسا کرو کہ اس طالب کو لے آئو … اور اس کو قتل کردو … تاکہ خدانخواستہ کوئی بات ہوئی بھی ہو تو باہر نہ نکلے… یہیں ختم ہوجائے…
بادشاہ نے پکڑوالیا اس کو… وہ آیا… بادشاہ نے کہا… مارو اس کی گردن…
جب شہزادی کو پتہ چلا… اس نے باپ سے کہا کہ… مجھے پتہ چلا ہے کہ جس جگہ میں رات رہی… آپ نے اس آدمی کو بلایا ہے… اور اس کے قتل کا حکم دیا ہے؟…
بالکل… میں اسے قتل کردوںگا…
شہزادی کہنے لگی… مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں… بے شک اس کو ماردو… لیکن میری چھوٹی سی گذارش ہے؟…
کیا؟…
آپ اس سے یہ پوچھیں کہ … وہ جو رات کو ایک لڑکی تمہاری پاس آئی تھی… اور تم مطالعہ کرتے کرتے تھوڑی دیر کے لئے اپنی انگلی شمع کی آگ پر رکھتے تھے… یہ تم کیا کرتے تھے؟…بس یہ پوچھ لیں… باقی ماردیں… مجھے کیا؟…
بادشاہ نے اس طالب علم سے پوچھا کہ … رات کیا ماجرا ہوا؟…
اس نے کہا… بادشاہ سلامت!… رات ایسے ہوا… اب اس کو نہیں پتہ کہ شہزادی تھی… اور اس کی بیٹی تھی… 
رات کو میں مطالعہ کررہا تھا… اچانک ایک بہت خوبصورت دوشیزہ میری جھونپڑی میں آگئی… اس نے مجھ سے رات گذارنے کی اجازت چاہی… میں نے کہا… رات گذار لو… تو وہ میرے کمرے میں… میری کٹیا میں آگئی… تو شیطان اور نفس مجھے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اکساتا کہ… تو بھی جوان … یہ بھی جوان… کون ہے دیکھنے والا؟… کون ہے پوچھنے والا؟… مجبور ہے… باہر جا نہیں سکتی… اور زندگی میں ایسا موقع کبھی ملتا بھی نہیں… اپنی ضرورت… اپنی خواہش پوری کرلو…
جب یہ خیال آتا… اور بڑی شدت کے ساتھ خیال آتا… تو فوراً میرا ذہن قیامت کی طرف منتقل ہوجاتا کہ… اے انسان! اس تھوڑی دیر کے لطف و سرور کے لئے … جب تمہیں اس کی پاداش میں جہنم میں ڈالا جائے گا… تو کیا اس جہنم کی آگ کی تپش کو برداشت کرلے گا؟… جب یہ خیال آتا… تو فوراً میں اپنی انگلی شمع کی آگ پر رکھتا … کہ اگر میری انگلیاں اس تپش کو برداشت کرسکتی ہے… تو جسم بھی برداشت کرلے گا… لیکن چند ہی سیکنڈ گذرتے… میری انگلی جلنا شروع ہوجاتی… میں فوراً کھینچ لیتا… نہیں نہیں… دنیا کی آگ جو کتنی دفعہ ٹھنڈی کی جاچکی ہے… اس آگ کی تپش کو میری ایک انگلی برداشت نہیں کرسکتی… تو جب میرا سارا جسم جہنم میں ڈالا جائے گا… یہ میں کس طرح برداشت کرلوں گا؟… یہ خیال آتے ہی فوراً میں اس گناہ سے رک جاتا… پندرہ بیس منٹ گذر جاتے… پھرشیطان ابھارتا… اوئے چھوڑ! … دیکھی جائے گی قیامت… بڑا دور ہے معاملہ… یہاں جو کرنا ہے کرلو… کون ہے پوچھنے والا؟… میں پھر انگلی رکھتا کہ نہیں… اگر یہاں کی تپش برداشت کرسکتی ہے میری انگلی… تو یہ جسم جہنم کی آگ برداشت کرلے گی… لیکن آگ کہاں برداشت کرسکتا ہے انسان…اس لئے میںفوراً پیچھے ہوجاتا… اے بادشاہ!… میں یہ عمل کرتا رہا… تاآنکہ صبح ہوگئی… اور وہ لڑکی اٹھ کر چلی گئی… اللہ نے اس طرح مجھے گناہ سے بچالیا…
بادشاہ بڑا حیران ہوا… کہنے لگا… اتنا نیک آدمی… اتنا متقی شخص… تجھے پتہ نہیں کہ وہ لڑکی میری بیٹی تھی… اور مجھے کسی ایسے ہی نیک شخص کی ضرورت تھی… میں اس کے ساتھ تیرا نکاح کرتا ہوں… اسی کو تیری زوجیت میں دیتا ہوں… تجھے داماد بناتا ہوں… 
یہ قصہ ہے… ممکن ہے صحیح ہو… لیکن میرے بھائیو اور عزیزو! … ہمارے سمجھنے کے لئے… نصیحت کے لئے تو ہے کہ… ایک انسان دنیا کی چند روزہ زندگی کی مسرتیں… لطف و سرور حاصل کرلیتا ہے… لیکن اس کے بدلے میں جو ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب ہیں… ہمیشہ ہمیشہ کی پکڑ اور سختیاں ہیں… وہ انسان کیا برداشت کرسکتا ہے؟ … یہ اگر انسان سوچے تو ہر گناہ سے بچ سکتاہے…
میرے بھائیو! اللہ کی ذات بہت بڑی ذات ہے… جس کا مثل ساری دنیا میں کوئی نہیں ہے… مگر افسوس… آج ہم ہگنے موتنے والی لاشوں کے چکر میں… اللہ سے دور ہوچکے ہیں…
اللہ کیسے ملتا ہے؟

عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتھم نے ارشاد فرمایا… 
میرے دوستو! اللہ ملتا ہے ہمت اور قربانی سے… گناہ کی خواہش پیدا ہو تو اس خواہش کو جلائو… اس پر عمل نہ کرو… دل پر غم اٹھائو … اللہ کی محبت کا ایک ذرہ غم ساری دنیا کی سلطنت اور دولت سے افضل ہے… اللہ کو راضی کرنے میں… اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے میں جو غم آتا ہے… اسی غم سے اللہ تعالیٰ ملتے ہیں…لوگ سمجھتے ہیں کہ … اللہ تہجد سے ملتا ہے… تو خوب سمجھ لو… کہ تہجد سے … نوافل سے… وظیفوں سے خدا نہیں ملتا… گناہ کو چھوڑنے سے …گناہ کے چھوڑنے کا غم اٹھانے سے اللہ ملتا ہے…
اِنْ اَوْلِیآئَ ہٗ اَلَّا الْمُتَّقُوْنَ…
اللہ اسی کو اپنا ولی بناتا ہے… جو تقویٰ سے رہتا ہے… گناہوں سے بچتا ہے… گناہوں سے بچنے کا غم اٹھاتا ہے…
عبادت تو حلوہ ہے… گناہ چھوڑنا بلوہ ہے… حلوے کے لئے سب تیار ہیں… بلوے کے لئے تیار کوئی تیار نہیں… یعنی عبادت کے لئے سب تیار ہیں… لیکن گناہ چھوڑنے کے لئے تیار نہیں… اگر عبادت سے خدا مل جاتا تو بہت آسان تھا… مگر گناہ چھوڑنے سے اللہ ولی بناتا ہے… کیونکہ وہ بلوہ ہے… اس میں تکلیف ہوتی ہے… تواللہ چاہتا ہے کہ میرے بندے تکلیف اٹھا کے مجھے پائیں… حلوہ کھا کے نہیں پائیں … حلوہ کھانا کیا کمال ہے… گناہ چھوڑنے کی تکلیف اٹھانا کمال ہے… اس لئے گناہ چھوڑنے ہی سے اللہ ملتا ہے…

No comments:

close