nadamat ke aansoo - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, May 26, 2019

nadamat ke aansoo

 

ندامت کے آنسو



اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُوْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہ  ۔۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا  ۔۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہ  ۔۔ وَنَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ   وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ  ۔۔۔۔

 اَمَّا بَعْد۔۔۔۔ُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  ۔۔۔ قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہ ۔۔۔ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔۔۔ وَسُبْحَنَ اللّٰہ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔۔۔وَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ یَا اَبَا سُفْیَان جِئتُکُمْ بِکَرَامَۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ 



کائنات کی وسعت


یہ کائنات اتنی لمبی چوڑی ہے …کہ اس میں جو کہکشائیں ہیں… اس میں جوسیارے گردش کررہے ہیں… ان کا اگر کوئی فرضی نام رکھا جائے جیسے ہم نے سورج… چاند… عطارد… اسی طرح ہر ستارے کا کوئی نہ کوئی نام رکھ دیا تو ان ستاروں کو صرف گنے کے لئے تین سو کھرب سال چاہئیں اور اتنی لمبی پھیلی ہوئی کائنات میں ہماری زمین ایک چھوتی سی گیند ہے… اس میں تین حصے پانی ہیں اور ایک حصہ خشکی ہے… اس ایک خشک حصے میں دو حصے جنگل ہیں… دریا ہیں… پہاڑ ہیں… صحراء ہیں… صرف ایک حصہ آبادہے… 

ساری کائنات میں صرف زمین کا تیسرا حصہ آباد ہے… اس ایک حصے میں ایک چھوٹا سا پاکستان ہے… اس میں ایک چھوٹا سا حیدرآباد ہے …اور اس میں ایک چھوٹا سا ڈاکٹر ہے… اور پروفیسر ہے اور وہ کہتا ہے …کہ میں سب کچھ جانتا ہوں …کہ تو اس سے بڑا بے وقوف کون ہوگا… عقل بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی …کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں… پہلے عام طور پر یہ ہوتا تھا …کہ ارے جی! کوئی نئی بات بتائو! باقی ہم جانتے ہیں… الحمدللہ آج کل یہ کم ہوگیا ہے…

{واسرو قولکم اواجھروا بہ انہ علیم بذات الصدور}… تم آہستہ بولو… زور سے بولو… میں تو دل کے بھید کو بھی جانتاہوں… وہ بھاگیں گے کہاں ؟تو چھپیں گے کہاں…  یعلم مایلج فی الارض… زمین کے اندر چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے…

 ومایخرج فیھا……… زمین سے نکلنے والی ہر چیز کو جانتا ہے…

 وما ینزل من السمآء  …  آسمان پہ چڑھنے والی ہر چیز کو جانتا ہے… 

یعلم عدد ورق الاشجار …دنیا میں درختوں کو کوئی نہیں گن سکتا… 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں… میں ساری دنیا کے درختوں کی تعداد کو بھی جانتا ہوں…

 پھر اس میں پتے کتنے ہوں گے… اس کو بھی جانتا ہوں آج کتنے گرے ہیں…

 ماتسقط من ورقۃ الا یعلمھا …آج کتنے پتے گر گئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں مجھے تو پتہ ہے۔

ہم اپنے گھر کے درخت سے گرنے والے پتوں کو نہیں گن سکتے… اللہ تعالیٰ کائنات میں پھیلے ہوئے لمبے لمبے سینکڑوں میل کے جنگلات اور کہیں کنارے میں کہیں پہاڑی پر کہیں دامن میں کہیں وادی میں کہیں صحرا میں کتنے درخت ہیں… ان تمام کے عدد کو جانتا ہے…

 ان کے پتوں کو جانتا ہے… ……………  سبز کو جانتا ہے…

 گرے ہوئے کو جانتا ہے… جو گرنے والا ہے…   ا سے جانتا ہے… 

جس پہ کلی بنی ہے اسی جانتا ہے… جو خوشہ بنے گا…  اسی جانتاہے…

اس خوشے پہ کتنے پھل لگیں گے…………… اس کو جانتا ہے…

 وہ پھل کب پکے گا ……………………اس وقت کا پتہ ہے… 

کب کٹے گا ؟………………………اس وقت کا پتہ ہے…

طوطا کھائے گا… کو ا کھائے گا…گلہری کھائے گی… اس کا بھی پتہ ہے…

 پھر کون سی منڈی میں فروخت ہوگا؟…………  اس کا بھی پتہ ہے…

 کون اسے خرید کے کھائے گا؟……………   اس کا بھی پتہ ہے… 

یہ گٹھلی کہاں پھینکی جائے گی اس کا بھی علم ہے… وہ گٹھلی آگے کہاں دخت بنے گی… اس کا بھی علم ہے… اس سے آگے کتنے درخت بنیں گے اس کا بھی علم ہے… ایک گٹھلی سے کتنے درخت بننے والے ہیں… اس کا بھی علم ہے… ہر ایک پر کتنے پھل لگنے والے ہیں… ان پھلوں کو کون کون کھانے والا ہے…

اللہ کا علم اتنا کامل اتنا تم کہ… وعدد مثاقیل الجبال… پہاڑوں کے وزن کو جانتا ہے… ان میں کتنے خزانے گھسے ہیں اسے… جانتا ہے…

 اس میں ہیرا کہاں پر ہے… یاقوت……… کہاں پر ہے… 

زمرد کہاں پر ہے؟………………… اسے جانتا ہے

… سمندر میں کتنا پانی؟……………… اس کا پتہ… 

کتنی مچھلیاں اس کا پتہ، چھوٹی کتنی… بڑی کتنی …اس کا پتہ… 

کتنی اس میں آج پیدا ہوئیں… کتنو ں کو آج بڑی مچھلیوں نے کھایا…

 یہ مچھلی کون سی مچھلی کھائے گی……… اسے کون سی مچھلی کھائے… 

پھر اس مچھلی کو کون سی مچھلی نے کھایا…… پھر یہ مچھلی کون سے شکاری کے جال میں پھنسے گی۔

 یورپ کا شکاری لے جائے گا ………کہ ایشیاء کا شکاری لے جائے۔

 پھر وہ کس کشتی میں سفر کرے گی… ……کس منڈی میں بکے…

 ………………………  کس ملک میں فروخت ہوگی… 

اس کے دس ٹکڑے ہوں گے ………  کہ آٹھ ہوں گے…

 …………………………اسے کون کون کھائے گا…

 اس کے پنجرے کو کون سی بلی کھائے گی…… کون سا کتا کھائے گا…

 اللہ کا علم اتنا کامل ہے اس سے ہم کیسے چھپ سکتے ہیں…

…وہ اللہ… جس نے آسمان اٹھا دیئے…

…وہ اللہ… جس نے زمین بچھادی…

…وہ اللہ… جس نے سورج چمکا دیا…

…وہ اللہ… جس نے چاند کو گھٹا دیا… بڑھا دیا…

…وہ اللہ… جس نے رات کو اندھیرا دے دیا…

…وہ اللہ… جس نے دن کو روشنی دے دی…

…وہ اللہ… جس نے ستاروں کو جگمگاہٹ دے دی…

…وہ اللہ… جس نے انسانوں میں روح ڈال دی…

…وہ اللہ… جو ہوائوں کا مالک …

…وہ اللہ… جو فضاء کا مالک…

…وہ اللہ… جو بحر و بر کا مالک

…امن خلق السموت والارض…کس نے زمین… آسمان بنائے؟ اللہ خود سوال کرتا ہے…

…وانزل لکم من السمآء مآئ…پانی کس نے اتارا؟…

فانبتنا بہ حدائق ذات بھجہ…یہ خوبصورت… سرسبز درخت کس نے اگائے؟

…ماکان لکم ان تنبتوا شجرھا…

…تم سارے انسان اکٹھے ہوکر ایک درخت اللہ کے بغیر پیداکرکے دکھادو!

…ء الہ مع اللہ ………ہے کوئی میرے علاوہ؟

…بل ھم قوم یعدلون…تمہارا کیا کہوں میں پھر بھی تم مجھے چوڑ کر میرے غیر کے پاس چلے جاتے ہو

…امن جعل الارض قرارا……یہ زمین میں قرار کس نے رکھا؟

…وجعل خلھا انھارا……اس میںنہریں کس نے چلائیں؟

…وجعل لھا رواسی ……پہاڑ کس نے گاڑے؟

…وجعل بین البحرین حاجزا…کڑوے…میٹھے پانی کو جدا کس نے کیا؟

…ء الہ مع اللہ ……ہے کوئی اللہ کے سوا؟

…بل اکثرھم لایعلمون…تو میں کیا کروں… تم میں سے اکثر کو سمجھ نہیں…

پانی اللہ کی قدرت کی نشانی

والسحاب المسخربین السمآء والارض

زمین و آسمان کے درمیان بادلوں کا مسخر ہوکر کھڑے ہوجانا…

 ایسے پانی کے ٹینکر جن کی نہ کوئی ٹنکی ہے… نہ کوئی ٹونٹی ہے…

نہ کوئی چھت ہے… نہ کوئی گیٹ ہے… نہ کوئی وال پمپ ہے اور

نہ کوئی اس پر والو لگا ہوا ہے…  نہ کوئی پریشر پمپ ہے…

دھواں ہے… دھواں… اندر جائو تو دھواں اور برسنے لگے تو ساری دنیا ڈبودے…

پھر اس کا پانی ختم نہ ہو…پانی کو اوپر پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا غیبی نظام چلایا …اور ٹنوں ٹن پانی اللہ تعالیٰ نے فضا میں کھڑا کردیا… اتنا بے وزن ہے …کہ اگر آپ اندر جائیں تو دھوئیں کی طرح بکھرتا نظر آئے…اور اس کے بادلوں میں ایک قطرہ پانی کی کمی نہیں آئے گی… 

وہ مون سون کا محتاج نہیں… اس کا امر ہی سب کچھ ہے… جب امر ہوتا ہے تومون سون ہو یا نہ ہو اللہ تعالیٰ دوسری ہوائوں کو ہی مون سون بنادیتا ہے… اور اسی فصاء کو اللہ تعالیٰ پانی میں تبدیل کردیتا ہے…

کہا…  الایات …کہا… میری نشانیاں ہیں… لیکن کس کے لئے؟ فرمایا:

لقوم یعقلون …جو تھوڑی سی عقل رکھتے ہین… ان کیلئے ان سب میں نشانیان ہیں،

چھپکلی کے الٹے چلنے پر غور کرو


ایک دفعہ میں لیٹا ہوا تھا… چھپکلی اوپر جارہی تھی… میں نے کہا یااللہ تیری کیسی قدرت ہے… یہ الٹی چل رہی ہے… تھوڑی کے بعد مجھے خیال آیا …کہ ہم بھی تو الٹے بیٹھے ہوئے ہیں… یہ زمین ہے اور یہ پائوں ہے اور سر فضا میں ہے… ہم سارے کے سارے الٹے زمین کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں… کبھی محسوس ہوا …کہ ہم الٹے چل رہے ہیں؟…چھپکلی کو الٹا دیکھتے ہیں… تو بھئی اللہ کی کیا قدرت ہے… دیکھو بھئی الٹی چل رہی ہے… گری بھی نہیں آپ بھی تو پچاس سال سے الٹے چل رہے ہیں… کبھی گرے ہیں؟

آم کی جگہ تربوز لٹکے ہوتے تو؟


ایک آدمی جارہا تھا… تربوز دیکھا اتنا بڑا… آدم دیکھا چھوٹا سا… کہنے لگا… اتنا بڑ ا تربوز زمین میں رکھ دیا… چھوٹے چھوٹے آم اوپر لٹکادیئے… اسی سوچ میں تھا …کہ ایک آم سر پر گرا… کہا اے اللہ تیرا شکر ہے… تربوز ہوتا تو سر ہی ٹوٹ جاتا… اب سمجھ میں آیا …کہ تربوز زمین پر ہے… یہ اللہ کا نظام بالکل ٹھیک ہے…

بلی کی تربیت کون کررہا ہے؟


بلی حاملہ ہوتی ہے تو وہ کونہ تلاش کرنے لگتی ہے… بچہ دینے کے لئے… اس کو اس کی ماں نے نہیں بتایا …کہ تجھے بچہ دینا ہے …تو کسی کونے میں چھپنے کی جگہ دیکھنی ہے۔۔۔

کسی ٹیچر سینٹر سے نہیں سیکھا… کسی نرسنگ ہائوس سے ٹریننگ نہیں لی… اس کو اوپر سے الہام ہے …کہ میں ایک ایسی جگہ بچہ دے دوں …کہ وہ ضائع نہ ہوجائے… اس کا کوئی ٹیچر یا استاذ نہیں … اللہ کا اوپر سے نظام ہے… اس کو بھی ہدایت دیتا چلا آرہا ہے… بلی کونے میں جاکر بچہ دیتی ہے تو بچہ کو نہیں پتہ …کہ میری ماں کی چھاتی کہاں ہے اور اس میں میری غذا ہے…

 اس کو ماں نے نہیں بتایاہم تو خود اپنے بچے کوسینے سی لگاتے ہیں… اور اس کے منہ میں چھاتی دیتے ہیں …  وہ چوستا ہے… بلی تو ایسی نہیں کرتی… اس کے بچے کی آنکھیں بند ہوتی ہیں…

 خودسرکتا ہوا ادھر کو چل رہا ہے… اس کی تقدیر اور اللہ کی ربوبیت اس کو اس طرف لے جارہی ہے … اس کو چوسنے کا طریقہ بتارہی ہے… ہم تو بچے کی منہ میں چوسنی دے دیتے ہیں تو اس کو چوسنے کا طریقہ آجاتا ہے اور اس کی مختلف طریقوں سے تربیت کرتے ہیں تو وہ سیکھتا ہے… 

بلی کا بچہ ہے جس نے کبھی دیکھا نہیں سنا نہیں… وہ خودبخود چھاتی کی طرف لپکتا ہے اور دودھ پیتا ہے… یہ سارے کا سارا نظام اللہ تعالیٰ غیب کے پردوں سے چلا رہا ہے…

اس بچہ کو کس نے سکھایا


ایک مادہ ہے وہ انڈے دیتی ہے… انڈے دینے کے بعد وہ کیڑے کو ڈنگ مارتی ہے… ایسے ڈنگ مارتی ہے …کہ وہ مرے نہیں بے ہوش ہوجائے… مرجائے تو گر جائے گا… سڑ جائے گا تو اتنا ڈنگ مارتی ہے …کہ بے ہوش ہوجائے… مرے نہیں۔

 وہ ان کیڑوں کو اپنے انڈوں کے پاس رکھ لیتی ہے… اور ان کی بے ہوشی اتنی ہوتی ہے …کہ جب تک وہ بچے انڈے سے باہر نہیں آتے ہیں تو ان کو ہوش نہیں آتا… جب وہ بچہ انڈے کے اندر سے نکلتا ہے… تو پہلے سے اس کے لئے گوشت کا انتظام کیا جاچکا ہوتا ہے…

 وہ ماں چلی جاتی ہے… انڈے سے نکلنے والا بچہ جب دیکھتا ہے …کہ میرے لئے کھانا تیار ہے… تو پھر اس کو کھاتا ہے… پروان چڑھتا ہے… پھر اس کے پر لگتے ہیں… پھر پورے گائوں میں بکھر جاتے ہیں… یہ بچہ جب بڑا ہوکر انڈے دینے پر آتا ہے تو اسی کام کو کرتا ہے جو اس کی ماں نے کیا تھا… نہ وہ اپنی ماں کو دیکھتا ہے نہ اپنی ماں سے سنتاہے… نہ اپنی ماں سے سیکھتا ہے

{صببنا المآء صبا ثم شققنا الارض شقا فانبتنا فیھا حبا وعنبا وقضبا وزیتونا ونخلا وحدآئق غلبا وفاکھۃ وابا متاعاً لکم ولا نعامکم}

قربان جائوں تیری قدرت پر 


ہوائیں چلیں… بادل اٹھے… فرش سے قطرہ قطرہ بن کر زمین پر پھیلی… دانہ پانی اندر گیا… بلبل زرخیز ہوئی… پھر ہم نے دانہ ڈالا… اس کی ایک شاخ اوپر گئی… اس کی جڑ نیچے گئی… اس کو غذا پہنچائی… زمین کی رگوں سے سمیٹ کر جڑتک غذا کو پہنچایا… 

پھر اس کو اٹھایا ہے جو اوپر اٹھایا ہے… کہیں شاخ نکلی… … کہیں ڈالی نکلی…

 کہیں پھول نکلا… ………کہیں شگوفہ نکلا… … کہیں پھل لگا…

اس میں مٹھاس ڈالی……… اس میں رس ڈالا…  اس میں رس بھرا …

 اس میں ذائقے بدلے… …اس میں ذائقے بھرے،…  ہر رنگ الگ…

 مٹھاس الگ……………… ذائقہ الگ…… خوشبو الگ… 

ہر ایک پر ٹائم لکھا…… فرشتوں کو مقرر کیا …

کہ جب تک یہ آم میرے بندے کے منہ میں چلا نہ جائے میرے پاس واپس لوٹ کے مت آنا…اتنے بڑے رحیم و کریم نظام چلانے والے کے سامنے سر جھکانے کے بجائے شیطان کے سامنے جھکائیں گے… تو کہاں جائیں گے؟

بوٹ پالش کرنے والا آئن اسٹائن سے عقلمند


ایک چھوٹا ساسیل ہے… انسان کے جسم میں وہ ہمیں نظر نہیں آتا …سوائے خوردبین کے …کہ اس کے ساتھ دیکھنے سے نظر آتا ہے… ایک فیٹس ہے جو انسولین بناتا ہے… اس کے بگڑنے پر انسان کو شوگر ہوجاتا ہے…جب یہ انسولین بنانا چھوڑدیتا ہے تو اس کو کنٹرول کرنے سے شوگر کا جو سسٹم ہے وہ خراب ہوجاتا ہے… پھر شوگر کی وجہ سے کھانا ہضم نہیں ہوتا… اس لئے سارا کام خراب ہوجاتا ہے… اس ایک سیل جو …کہ خوردبین سے نظر آتا ہے… بغیر اس کے نظر نہیں آتا… اس وقت تک اس پر لاکھوں انسان پی ایچ ڈی کرچکے ہیں…

 ارب ہا ارب ڈالر اس پر خرچ ہوچکے ہیں… تو اس ایک سیل کے فنکشن کا پورا حال معلوم نہیں ہوسکا توانسانی جسم کل ۲۵ کھرب سیل پر مشتمل ہے… یہ سارے اندازے ہیں ۔۲۵،۲۶ کھرب سیل سے بنا ہوا انسان ہے… توایک سیل میں اتنے جہاں کا دماغ لگا اور اتنے پیسے لگے اور نتیجہ یہی ہے …کہ ابھی تک پورا فنکشن معلوم نہیں ہوا…



… اللہ کون ہے؟ …


جو بنجر زمین میں پھل پھول اور تناور دخت کو اگاتا ہے … جو دل کو پھاڑتا ہے… گٹھلی کو توڑتا ہے… زمین کی رگوں سے غذا کو کھینچ کر جڑوں تک پہنچاتا ہے… زمین کی رگوں سے اس کے لئے پانی آرہا ہے… غذا آرہی ہے… پھر اللہ نے جڑوں میں چھلنیاں لگادیں… ضرور تکی غذآکو اپور لارہا ہے اور غیر ضروری غذا کو وہیں چھوڑ دیتا ہے… یہ تمام کام ہم تو نہیں کررہے… بل…کہ یہ رب العالمین کررہا ہے… پھر یہ اللہ تعالیٰ درخت کی شاخ کو حکم دیتاہے تووہ موٹی ہوتی ہے… پھر اس کو حکم دیتا ہے تووہ تنا بنتا ہے… پھر اس کو حکم دیتا ہے …تو وہ شاخیں نکلتی ہیں… پھر وہ شاخیں اس کے حکم سے پتے نکالتے ہیں… پھر ا ن کو حکم دیتا ہے …تو اس میں پھول آتے ہیں… پھر اللہ کے حکم سے وہ خوشے بنتے ہیں… پھر اس کے حکم سے اس میں پھل بنتا ہے… وماتخرج من ثمرات من أکمامھا … تیرا رب ہی ہے …کہ درخت کی شاخوں سے پھول او رپھول سے پھل پیدا کرتا ہے! یہ کون کررہا ہے… رب العالمین…

پھیکے پانی سے میٹھے آم کا پیدا ہونا


پھر اس کو الگ کردیا… پھر اس میں مٹھاس بھردی… خوشبو بھردی…ہم نے تو زمین کے اندر چینی کو دفن نہیں کیا… لیکن زمین کے اندر اللہ پاک گنے کو چینی سے بھر کر اس میں مٹھاس پیدا کرکے اوپر لاتا ہے… یا آم کے درخت کے نیچے ایک دو بری شکر ڈال دو…

 آم کا درخت یہاں کی شوگر لے لے کے میٹھا ہوجائے گا… سبحان اللہ… پھیکی زمین اور پھیکے پانی سے آم میں میٹھا پانی پیداکررہا ہے… ہوائوں کو چلنا… سورج کی کرنیں اور چاند کی چاندنی … یہ اللہ کا نظام ہے… 

چھ مہینے کے بعد خوبصورت آم اور سیب ہمارے لئے تیار ہوکے آتا ہے… یہ تمام امور انجام کس نے دیئے؟ یہ خوبصور ت رنگ والے سیب کہاں سے لے کر آیا؟ سیب کیسا خوبصورت رنگ پکڑتا ہے… ایک سیب رکھا ہوا ہو تو وہ سارے کمرے کو مہکادیتا ہے… یہ خوشبو سیب کے اندر کہاں سے آگئی… رب العالمین کی طرف سے…

بادل اللہ کی قدرت کا نمونہ


یہ پانی بادل کی صورت میںسمندر پر برسا… شہروں پر برسا… بیابانوں میں برسا… صحرائوں میں برسا… ایک پانی سے اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کا رنگارنگ نظام دکھا رہا ہے… 

اسی پانی کو گائے پی رہی ہے………… تو دودھ بن رہا ہے… 

سانپ اور بچھو پی رہے ہیں………… تو زہر بن رہا ہے…

 انسان پی رہا ہے تو……………… زندگی کا سامان بن رہا ہے…

 درخت پی رہے ہیں……………    تو پھل میوے بن رہے ہیں…

 پھول پی رہا ہے… تو کلیاں بن رہی ہیں… خوشبو پھیل رہی ہے او رمہک رہی ہے۔۔۔۔۔

 ہم اوپر ٹنکی میں پانی پہنچانے کے لئے پریشر موٹر لگاتے ہیں…جو پانی کو پمپ کرکے پانی کو اوپر پہنچاتی ہے… اللہ تعالیٰ کے درخت ہیں …جو سو دو سو فٹ اونچے ہوتے ہیں… اللہ تعالیٰ پانی زمین کی رگ سے اٹھاتا ہے… اور جڑ میں پہنچاتاہے… اوربغیر کسی پریشر موٹر کے درخت کے آخری پتے تک زمین کا پانی پہنچانا ہوتا ہے…

پھر اللہ تعالیٰ اس پانی کو مساوی اور برابر تقسیم کرتا ہے… تنے میں پہنچاتا ہے… ڈالیوں میں پہنچاتا ہے… پتوں اور شاخوں میں پہنچاتا ہے… پھر پانی خوشبوئوں تک اور پھلوں تک پہنچاتا ہے… پھر پانی کورس میں بدلتا ہے… پھر رس میں مٹھاس پیدا فرماتا ہے… پھر اس کو رنگ میں تبدیل کرتا ہے… پھر اس کو ذائقہ دیتا ہے… یہ سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا نظام ہے… جو فرعون کے لئے بھی چل رہا ہے… اور موسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی چل رہا ہے…

 اتنے بڑے عظیم الشان رب کا دربار ہے… جو دشمنوں کے لئے کھلا رہتا ہے… اور دوستوںکے لئے بھی کھلا رہتا ہے… اپنے کو بھی دیتا ہے… اور پرائے کو بھی دیتاہے… ماننے والے کو بھی دیتا ہے… اور نہ ماننے والے کو بھی دیتا ہے… حرام کھانے والے کو بھی اور حلال کھانے والے کو بھی دیتا ہے… جھوٹ بول کے کمانے والے کو بھی دیتاہے… اورسچ بول کر کمانے والی کو بھی دیتا ہے… رشوت دینے والے کو بھی دیتا ہے… اور حلال پر گزارہ کرنے والے کو بھی… نظام اس کا سارا چلتا ہے…

اللہ کو ناراض کرنا بہت بڑا ظلم ہے


میرے بھائیو! ایسے رب کو نہ ماننا او راس کی اطاعت نہ کرنا بہت بڑی زیادتی ہے… بہت بڑی ہلاکت ہے… او ربہت بڑا ظلم ہے… میرے دوستو! اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا… ہم ہی اپنے جانوں پر ظلم کرتے ہیں… اللہ کی ربوبیت کا یہ نظام ہمیشہ سے چل رہا ہے اور آئندہ بھی چلے گا

تو بھائیو

ہم خود ہی توبہ کریں …کہ اللہ سے کٹ گئے… بچہ ماں سے بچھڑ کے اتنا نہیں تڑپتا … جتنا اللہ سے بچھڑ کے انسانیت تڑپتی ہے او رایک بات بتائوں… ماں سے بچھڑ کر ماں کو بچے کے لوٹنے کا اتنا انتظار نہیں ہوتا جتنا اللہ کو اپنے نافرمان بندے کے لوٹنے کا انتظار رہتاہے … ماںرات کو کنڈی نہیں لگاتی… ذرا کھلا رکھتی ہے شاید… شاید… رات کے کسی وقت آجائے… وہ ہوا کے جھونکے کو بھی بیٹے کے قدم کی آہٹ سمجھ کر اٹھ بیٹھتی ہے…

 وہ ہر دستک میںاپنے بیٹے کی آواز سنتی ہے… اس سے زیادہ اللہ کو انتظار ہوتا ہے … نافرمان بندے کا …کہ آجا میرے بندے! آجا… تیرے لئے راہیں کھلی ہیں… بازو پھیلے ہیں… دامن کشادہ ہے تو آ تو سہی… توبہ تو کر… پھر دیکھ تیرا میرا تعلق بنتا کیسے ہے؟

سب سے بنا دیکھی………  اب مولا سے بھی بنا کے دیکھ لے…

سارے ہی گھاٹ کاپانی پی لیا… اب نبوی گھاٹ کا بھی پانی پی کے دیکھ لے…

نظر اٹھانے کے مزے چکھ لئے… نظر جھکانے کا بھی مزہ چکھ لے…

تو توبہ کر پھر دیکھ میری رحمت


… من اقبل الی… جو میری طرف چل پڑتا ہے… چاہے سارا دامن اس کا گناہوں سے آلودہ ہے… اور روواں روواں اس کا گناہوں میں جکڑا ہوا ہے… میری طرف چل پڑے… تلقیۃ من بعید… میں آگے بڑھ کر اس کا استقبال کروں گا… اللہ اکبر… جس سے آپ کو تعلق ہوتا ہے ناں آپ اسے دیکھ کر اٹھ پڑتے ہیں…

 اور آگے بڑھ کر اس کو ملتے ہیں… نہیں ملتے…؟ اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں…

 جو میری طرف آجائے……………میں آگے بڑھ کر اس کو ملوں گا…

 پھر یہی نہیںجو ہم سے منہ موڑے……… ہم دس د فعہ منہ موڑتے ہیں…

 اللہ کیا کہہ رہے ہیں… ومن اعرض عنی… اور جو مجھ سے منہ موڑ لیتا ہے…

 نادیتہ عن قریب… میں اس کے قریب جاکر اسے کندھے سے پکڑ کر یوں بلاتا ہوں …

اے میرا بندہ کہاں جارہا ہے… مسئلہ تو ادھر حل ہوگا… مجھے چھوڑ کر کہاں چل دیا… اور اس کو قرآن میں اللہ نے یوں بیان کیا ہے:

{… یاایھاالناس… ماغرک بربک الکریم…}

اے میرے پیارے بندے… تجھے کس نے دھوکہ دے دیا… اپنے رب کی ذات کے بارے میں …جو تو رب سے دور جا کر بیٹھا اور مخلوق سے وفا کر بیٹھا ہے… ماغرک بربک الکریم … کیا ہوا تجھے …کہ رب کو بھلا کر مخلوق کے پیچھے بھاگ پڑا؟ یہ قرآن کے الفاظ ہیں…

…تو بھائیو! اللہ کی طرف آئیں جو انتظارمیں ہے… 

…اس کا فضل… اس کا کرم اس کی پکڑ سے آگے…

…اس کا درگزر اس کا انتظام سے آگے…

اللہ کے نافرمانوں کے لئے خوشخبری

…عرش پر کچھ نہیں… سوائے اللہ کے…اس پر اس نے ایک تختی پر خود لکھوایا ہوا ہے:

…{ان رحمتی سبقت غضبی}…’’میر ی رحمت میرے غصے سے آگے ہے…‘‘

…{یداود بشر المذنبین}……اے دائو!جائو میرے نافرمانوں کوخوشخبری سنادو…

…دائود علیہ السلام حیران… یااللہ! تیرے نافرمانوں کو کیا خوشخبری سنائو؟ کون ہیں بتائو؟

…{لایتعازم علی ذنب ان اغفرہ}…

تمہارا رب بڑے سے بڑا گناہ معاف کرتے ہوئے نہیں گھبراتا… پس ادھر تم توبہ کرتے ہو اور ادھر وہ معاف کردیتا ہے… ایک ماں کو منانا ہو تو دانتوں پسینے آتے ہیں… باپ کو منانا ہو تو کیا کیا پائوں پکڑنے پڑتے ہیں…

میرے بھائیو!آج تک جو ہو ا اپنے اللہ کے سامنے سرجھکادو… یااللہ! بس میری توبہ! میں آگیا…جئتک تائبا فاقبلنی: میری توبہ! بس قبول فرما !

اور ادھر بھی اتنا کھلا دربارہے… لاالہ الااللہ… 

شیطان نے کہا : ولاابرح اغفا عبادک: تیرے بندوں کو مسلسل گمراہ کروں گا… 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولا ابرح اغفرلھم استغفرلی: او ر میں بھی انہیںمسلسل معاف کروں گا… جب تک وہ توبہ کرتے رہیںگے… شیطان نے گمراہی کا در کھولا اور اللہ نے معافی کا در کھولا… اس نے گمراہی کے اسباب بنائے… اللہ نے توبہ کے اسباب بنائے…

 کہا: چل توبہ کر !تیرے لاکھ برس کے ہوں… یا ہزار برس کے ہوں… تیرے ایک بول پر سب معاف کردوں گا… کہاں تک ہوں؟ آسمان کی چھت تک گناہ چلے جائیں…

اتنے کرے گا کون؟ …اور کون کرسکتا ہے؟

اور کیسے کرسکتا ہے؟ …اور کیسے ہوسکتے ہیں؟

زمین آسمان کے برابر گناہ اور اللہ کی معافی

 اللہ کہتا ہے …کہ تو اتنے کر اور سارے دل کے ارمان نکال… اور کائنات کو اپنے گناہوں سے بھر کر آسمان کی چھت تک اپنے گناہوں کو پہنچادے… تو تیرے ایک بول پر کہ:یاللہ! معاف کردے… میں سارے معاف کردوں گا… اور مجھے کوئی پرواہ نہ ہوگی… 

لاابالی کہا: مجھے پرواہ ہی نہیں… کیا ہوا…ان استطالنی اقلت لہ: اگر تو پھر توبہ توڑ دے اور پھر منہ مارلے گناہوں میں… پھر آجا پھر توبہ کرلے… ہم پھر معاف کردیں… پھر ٹوٹ گئی … پھر توبہ کرلے ہم پھر معاف کردیں گے… کیوں؟

{…لاتضرہ الذنوب ولاتنقصہ المغرہ…}

ہمارے گناہوں سے اس کو نقصان نہیں ہوتا… اور معاف کرنے سے وہ کم نہیں پڑتا… لہذا وہ انتظار میں ہی رہتا ہے …کہ کب توبہ کرے اور ہماری معافی کا پروانہ دے دیا جائے…

ماتھوں کو سجدہ سے سجا لو

میرے بھائیو!اللہ کے واسطے اللہ کی گھروں کو آباد کرلیں…

ان ماتھوں کو سجدہ سے سجالیں…

اس زبان کو سچ سے مزین کرلیں…

اس دامن کو پاک کرلیں… پاکیزہ کرلیں…

اور اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی دیر… دیر نہیں… ادھر ہم توبہ کریں گے…

 اور ادھر ساری زندگی کے گناہ دھوکے اللہ تعالیٰ باہر نکال دے گا…

 اور ایک دفعہ بھی طعنہ نہیں دے گا… دیر سے کیوں آئے ہو؟

ماں طعنے دے گی… باپ طعنے دے گا…

بچے طعنے دیتے ہیں… دوست طعنے دیتے ہیں…

پہلے کہاں تھے؟اللہ طعنہ نہ دے گا… پچاس سال کے بعد توبہ کرنے آگئے ہو… پہلے کہاں تھے؟

وہ تو جوں ہی ہم کہیں گے:یااللہ! میں آگیا…اللہ تعالیٰ کہے گا: مرحبا!

میں تو پچاس سال سے تیرے انتظار میں بیٹھا تھا… مرحبا! آجائو… 

میں ستر سال سے تیرے انتظار میں بیٹھا تھا… مرحبا! 

میں تو بیس سال سے دیکھ رہا تھا …کہ کب تیری زندگی میری طرف مڑجائے…

آجائو! آجائو!آجائو… میرے راستے کھلے ہیں… میری بانہیں کھلیںہیں… میرا در کھلاہے… میرا دربار کھلاہے… تیری توبہ ہوئی اور ساتوں آسمان پہ ڈنکا بجا… ساتوں آسمان یہ چراغاں ہوتا ہے…ساتوں آسمان پہ روشنیاں… جیسے شادی والے گھر میں روشنی… پتہ چلا شادی ہورہی ہے… ساتوں آسمان میں روشنی… فرشتے کہتے ہیں… یہ روشنی کیسی روشنی ہے؟

اللہ کا پسندیدہ بول ،اللہ میری توبہ!


میرے بھائیو! اللہ پاک کی ذات منفعل ہے… منفعل عربی زبان کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے کسی واقعے سے دل پر اثر نہ لینا… اللہ پاک کی ذات منفعل ذات ہے … اثر سے پاک ذات ہے… یہ نہیں کہتا…اچھا اب آئے ہو جب منہ میں دانت نہیں رہے اور نظر آتا نہیں… اب آئے ہو توبہ کرنے… نہیں نہیں… زندگی کے آخری سانس میں بھی توبہ کرے تو قبول ہے… پر توبہ کرے… اے اللہ مجھے معاف کر… یہ جملہ اللہ کو ایسا پسند ہے …کہ حضور اکرم  ﷺ نے فرمایا! تم اگر سارے فرمانبردار بن جائو اور تم میں کوئی گناہ نہ کرے …تو اللہ تم سب کو موت دے کر ایسی قوم لائے جو گناہ کرے … پھر توبہ کرے… پھر اللہ ان کو معاف کرے… لوجداللہ توابارحیما… کہا… تم مجھے مہربان پائوگے توبہ کرو…

 میری توبہ ہوگئی… میری دنیا او رآخرت کی مصیبتیں اب ٹل جائیں گی… خوشی اللہ تعالیٰ منارہے ہیں… جس کو ہماری توبہ کی پرواہ نہیں… ہم توبہ کریں تو وہ غنی… ہم ناز پڑھیں تو وہ غنی… نہ پڑھیں پھر غنی…

ہماری اطاعت اس کو اونچا نہیں کرتی…

ہماری نافرمانی اس کو پست نہیں کرتی…

ہماری فرمانبرداری سے اس کی عزت زیادہ نہیں ہوتی…

ہمار نادانی سے اس کی عزت کم نہیں ہوتی…

لیکن پھر بھی وہ چراغاں کرتا ہے… چلو بھئی میرا بندہ میرے پاس آگیا…

اور جو مجھ سے روٹھ جاتا ہے تو میں اس کے پیچھے جاتا ہوں… اسے کندھے سے پکڑتا ہوں… ادھر آجا… ادھر آجا… جیسے ماں شفقت سے بچے کو پکڑتی ہے ادھر آجا میرا بچہ… اسی طرح اللہ اپنے بندے اور بندی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتا ہے… ادھر آجا… ادھر تیرے لئے ہلاک کے سوا کچھ نہ ہوگا… میں تیرا انتظار کررہا ہوں…

میں تیرے انتظار میں ہوں تو آ تو سہی


 ان ذکرتنی ذکرتک

تومجھے یاد کرتا ہے میں تجھے یاد کرتا ہوں…

ان نسیتنی ذکرتک

تو مجھے بھول جاتا ہے میں پھر بھی تجھے یاد کرتا ہوں…

طوالینی واوالیق

تو مجھ سے دوستی لگاتا ہے میں تجھ سے بڑھ کے دوستی لگاتا ہوں…

اللہ کہہ رہا ہے:

نحن اقرب الیہ من حبل الورید

میں تیری اس شہ رگ سے زیادہ تیرے قریب ہوں اور اللہ مل گیا… سب کچھ مل گیا… مال نہیں ملا کوئی بات نہیں… مل گیا… الحمدللہ… نہ ملا پھر بھی الحمدللہ… اللہ مل گیا… سب کچھ مل گیا…

تو مل گیا توسب مل گیا 


لیتک تحلو ولایام مریرۃ… لیتک ترضٰی… ولانام غطاب

تو مل گیا مگر سارا جہان روٹھ گیا تو کوئی پرواہ نہیں

لیت الذی بینی وبینک عامر… وبینی وبین العالمین خراب

تیرا میرا تار جڑ گیا مگر سارے جہان سے میرا تار کٹ گیا تو کوئی پرواہ نہیں…

فاذاتح منک الود فلکل ھین وکل الذی فوق التراب التراب

اے میرے مولا… تیرے میرے تعلق میں کوئی حرف نہ آئے… کوئی فرق نہ آئے اور سارا جہاں چھن چھن جائے اور مٹی ہوجائے… چاہے میں بھی مٹی ہوجائوں… پر کوئی پرواہ نہیں …کہ میری تیری محبت باقی رہے گی… او راسی پر تو مجھے اٹھائے گا…

ادھر توبہ ! ادھر مغفرت کا پروانہ


 میرے بھائیو!جب اللہ اتنا کریم ہے تو آج نیت تو کرلو… یااللہ  میری توبہ… ارے بولو تو سہی… بھائی ہم آج توبہ کرلیں… اب خوشخبری سنو… مجھے نہیں پتہ …کہ کس نے سچی کی… کس نے منہ زبانی کی… لیکن جس نے سچی توبہ کی ہے…مجھے اس رب کی قسم جس نے :

٭… آسمان کی چھت کو تانا…

٭… زمین کے فرش کو بچھایا…

٭… چاند کو گٹھایا اور بڑھایا…

٭… رات کو اندھیرا بخشا…

٭… دن کو اجالا بخشا…

مجھے اس ذوالجلال والا کرام کی قسم… جو اس مجمع میں سچی توبہ کرچکے ہیں انہیں مبارک ہو… آج اس وقت وہ ویسے ہیں …کہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں … موج کرو… تمہارے الٹے ہاتھ والی فائل اللہ نے پھاڑ دی… پھینک دی… فرشتے کی تیس سالہ محنت ضائع چلی گئی… بیس سالہ … پچاس سالہ… ستر سالہ… اسّی سالہ… پچیس سالہ… چالیس سالہ… اس کی محنت ضائع ہوگئی… ساری فائل اللہ نے پھاڑ دی… جلادی اور فرمایا نئی لگادو…

 مبارک ہو اس کو جنہوں نے سچی توبہ کی… اب جنہوں نے جھوٹ موٹ کی ہے وہ اب سچی توبہ کرلیں… معاملہ پاک ہوجائے… صاف ہوجائے… اب کیا ہوا چند معاف… حقوق باقی… سور روپے دبالیا… سو روپے کی چوری معاف ہوگئی… سو روپے ادا کرنا باقی ہے…

 نماز چھوڑی … نماز کا چھوڑنایہ جرم معاف… نماز کی ادائیگی باقی… اس لئے کہہ رہاہوں… سارے معاف ہوگئے… ہاںحقوق ہیں … ان کی ادائیگی رہ گئی… جرم معاف ہوگیا تو بھائی یہ کام تو کرلیا سب نے؟

آج شیطان بھی اللہ سے امید لگائے بیٹھا ہے


اللہ اس درجے کا رحیم ہے …کہ ایک حدیث میں آتا ہے …کہ اگر شیطان کو بھی اللہ کی رحمت کا پتہ چل جائے تو وہ بھی جنت کا امیدوار بن جائے… حالانکہ اس کو اللہ نے کہہ دیا ہے …کہ تیرے لئے جہنم ہے… اللہ کے ہاں شدت نہیں ہے… مریض کا آپریشن ہو تو کیا ڈاکٹر ظلم کرتاہے؟ مسلمانوں کے پاس وسائل نہیںہیں تو کیا مطلب اللہ غافل ہے؟… نہیں عین رحمت ہے …کہ ان کو دنیا میں گناہوں سی دھونا چاہتاہے… آگے پکڑے تو برباد ہوجائیں…     ہماری گاڑی کا پہیہ پنکچر ہے… ورنہ سڑک تو بہت اچھی ہے… جب ہماری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو تو سڑک پر کیسے چلے؟



نافرمانی کے باوجود اللہ کی کرم نوازی تو دیکھئے


اللہ فرماتے ہیں میرے بندے جب تم میں جوانی کی لہر اٹھی… اور توبڑا ہوا… تیرے بازو مضبوط ہوئے… تو نے کیا کیا؟ اے برے انسان تو میرا ہی نافرمان بن گیا… تو نے مجھے کیسے للکارا… میرا نافرمان ہوگیا… میرے حکموں کو توڑ دیا۔

… بالمعاصی… نافرمانی کے ساتھ مجھ سے ٹکر لی… ماذالک… اس کے باوجود …

کہ تو میرا نافرمان ہے… ماذالک… ان سالتنی اعطیتک… تو مانگتاہے میں دیتا ہوں

 استغفرتنی غفرۃ لک… تو توبہ کرتا ہے… میں تیری توبہ کو قبول کرلیتا ہوں۔۔۔

… استغلتنی اغلت لک… تو پھر توبہ توڑتا ہے… پھر آکے توبہ کرتا ہے…

 میں تیری توبہ قبول کرلیتا ہوں…ھکذا جزاء من احسن الیک … اللہ تعالیٰ فرماتا ہے! 

 فیصلہ کر …کہ احسان کرنے والے کے ساتھ یہی کیا جاتا ہے… جو تو میرے ساتھ کررہا ہے؟…ھکذآ جزاء من احسن الیک… یہی کیا جاتا ہے جو تم کررہے ہو؟۔۔۔۔

ماں باپ کیوں دکھی ہوتے ہیں اولاد پر … اولاد نافرمان ہوتی ہے… احسان یاد آتے ہیں ہم نے یہ کیا… یہ کیا… اللہ کا احسان تو دیکھ …کہ اس نے گندے پانی سے خوبصورت انسان بنایا… پھر اس کا کتنا بڑا احسان ہے …کہ اس نے اسلام کی دولت بخشی… کتنا بڑا ظلم… کتنی بڑی ہلاکت ہے کفر پر مرجانا… کبھی بھی تو نہیں جہنم سے نکلیں گے… وماھم بخارجین من النار… کوئی تو دن آتا …کہ یہ جہنم سے نکلتے… کوئی دن نہیں آتا… کتنا بڑا اللہ نے احسان کیا …کہ ایمان کی دولت دی…



میں تیرے انتظار میں بیٹھا ہوں


عرش کے اوپرایک بہت بڑی تختی ہے… جس کی لمبائی چوڑائی کو اللہ کے علاوہ کوئی جانتا… اللہ نے خود لکھوایا ہے… میری رحمت میرے غصے سے آگے چلی گئی… (اللہ فرماتے ہیں) اے میرے بندے میں تو تجھے یاد رکھتا ہوں… تو مجھے بھول جاتا ہے… میں تو تیرے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہوں… تو پھر بھی مجھ سے نہیں ڈرتا… میں پھر بھی تجھے یاد رکھتاہوں تومجھے بھول جاتا ہے…میں پھر بھی تجھے یاد رکھتا ہوں… تو ناراض ہوکر منہ پھیر جاتا ہے… میں نہیں منہ پھیرتا… میں تیرے انتظار میں رہتا ہوں…  

گھوڑے سے وفاداری سیکھو


میرے بھائیو ! اللہ کی رحمت کا مطلب یہ تھوڑا ہے …کہ اللہ بڑا مہربان ہے… اس کی نافرمانی کرو… اللہ نے سورہ عادیات میں کیسا گلہ کیا ہے؟…

 اللہ تعالیٰ نے گھوڑے کی کیوں قسمیں کھائیں؟… اے میرے بندے! نہ تو نے گھوڑا بنایا ہے… نہ تو نے اسے پالا… میں نے تیری ملکیت میں دیا… چند دن تونے دانہ کھلایا… پانی پلایا… اب تو اس پر زین رکھتا ہے؟ اس کو ایڑ لگاتا ہے اور وہ تیری مان کے چلتا ہے… دشمن پر حملہ کرتا ہے  سینے پر تیر کھاتا ہے… تھکا ہارا آتا ہے… پھر تو صبح اٹھ کر اس کی پیٹھ پر زین رکھتا ہے…

 پھر اس کو ایڑ لگاتا ہے… وہ نہیں کہتا میں تھکا ہوا ہوں… چھوڑ دو… مجھے آرام کرنے دو… نہیں  تیری لگام کے اشارے کو سمجھتا ہے… تھاپ مارتا ہے… چنگاڑی اڑاتا ہے… دوڑتا جاتا ہے… غبار اڑاتا جاتا ہے… دشمن کے درمیان میں گھستا ہے…

اے میرے بندے! گھوڑے نے تو تیری فرمانبرداری کی پر تو میرا نافرمان نکلا…    میرا ناشکرا نکلا… کیسا گلہ اللہ نے کیا… تجھے کس نے دھو…کہ میں ڈال دیا… 

مجھ سے جس کی رحمت کی انتہاء نہیں… پور دنیا مل جائے تو اتنے گناہ نہیں کرسکتی ۔۔۔

کہ زمین بھرجائے… آسمان اور خلاء بھر جائے ۔۔۔۔۔پوری دنیا مل جائے تو اتنے گناہ نہیں کرسکتی…

 لیکن اس کی رحمت پہ قربان جائیں…ایک آدمی کو اللہ بلائے گا قیامت کے دن جو توبہ کرچکا ہے ۔ میرے بندے تو نے یہ گناہ کیا… جی ہاں… یہ گناہ کیا ہے… اللہ گناہ گنتا جائے گا او روہ کانپتا جائے گا …کہ اب مرگیا… تو جب اس کی حالت غیر ہوگی تو اللہ فرمائے گا…

     اچھا سنو… تو نے جتنے گناہ کئے ہیں… میں نے سب کو نیکیوں سے بدل دیا تو وہ جلدی سے کہے گا اے اللہ! وہ میرے گناہ تو تو نے گنوائے ہی نہیں… جو پچھلے کئے ہوئے ہیں تاکہ اور نیکیاں مل جائیں… یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی آگے ہے …کہ ان کے گناہوں کوبھی اللہ نیکیوں سے بدل دے گا…

کسی نے بے شمار گناہ کئے ہوں اور ہزاروں سال کے بعد ایک دفعہ کہہ دے یا اللہ! معاف کردے… اللہ وہیں کہتا ہے: آجا ! آجا! میں نے معاف کردیا…

لاکھ بار گناہ !لاکھ بار توبہ


ماں کو منانا پڑتا ہے… منتیں کرنی پڑتی ہیں… اللہ کی تو منت نہیں کرنا پڑتی… اتنا کہنا پڑتا ہے… یااللہ معاف کردے… اللہ کہتا ہے میں تو کب سے انتظار میں تھا… تو ایک دفعہ تو کہہ معاف کردے… جا میں نے معاف کردیا… جا میں نے معاف کردیا… اور دیکھ سن لے اگر توبہ ٹوٹ جائے تو گھبرانا نہیں… پھر آجانا… پھر معاف کردوں گا…پھر ٹوٹ جائے…

 پھر آجانا… میں پھر معاف کردوں گا…میں دنیا کا بادشاہ نہیں ہوں …کہ تنگ پڑجائوں… تیری توبہ لاکھ دفعہ ٹوٹ جائے… تو لاکھ دفعہ جوڑے اور ہو توسچا… سچے دل کے ساتھ تو میں لاکھویں دفعہ بھی اسی محبت کے ساتھ تیری توبہ کو جوڑ دوں گا… جیسے تیری پہلی توبہ کو قبول کرکے جوڑا تھا… اسی سے بغاوت کرنی ہے…

جب آدمی توبہ کرتا ہے تو سارے آسمان پر چراغاں کیا جاتا ہے… ارے بھائی یہ کیا ہورہا ہے… توایک فرشتہ اعلان کرتا ہے …کہ آج ایک بندے نے اپنے اللہ سے صلح کرلی… اور توبہ کرلی ہے… اس کی خوشی میںچراغاں ہے… چراغاں تو وہ کریں… جس نے توبہ کی ہے… چراغاں وہ کررہا ہے… جس کو ہماری توبہ کی ضرورت ہی نہیں… اللہ اکبر…

گناہگار کی توبہ پر اللہ کی خوشی 


جب آدمی توبہ کرتا ہے… تو آسمان پہ ایسے چراغاں ہوتی ہے… جیسے یہ آپ نے لائٹیں جلائی ہوئی ہیں… تو فرشتے کہتے ہیں کیا ہوا بھائی… یہ روشنیاں کیوں ہیں؟… تو فرشتہ اعلان کرتا ہے… اصطلح العبد علی مولاہ … بھائی آج ایک بندے نے اپنے مولا سے صلح کرلی ہے… توبہ کرلی ہے… اللہ تعالیٰ نے کہا ہے …کہ اس خوشی میں چراغاں کرو! …کہ میرا بندہ آگیا… تو بھائی ہم چاہے پولیس والے ہوں … چاہے زمیندار ہوں… چاہے تاجر ہوں… مسئلہ تو ہم سب کا اللہ ہی سے جڑا ہوا ہے… لہذا بھائی ہم اپنے اللہ کو منانے کے لئے اللہ کی طرف رجوع کریں… اور توبہ کریں…مزے ہوگئے بھائی کیا کریں؟ بھائی توبہ کرلیں۔

شیطان کی اسکیم


شیطان کیا کہتا ہے… اللہ بڑا غفورالرحیم ہے… لہذا سب کام کرو… جھوٹ بھی بولو… شراب بھی پیو… رشوت بھی لو… یہ تمام کام کیوں کرو …کہ اللہ بڑا غفور الرحیم ہے… یہ عجیب فلسفہ چل پڑا ہے… اللہ بڑا مہربان ہے… جی… لہٰذاب سب جھوٹ… رشوت… بددیانتی… خیانتی… خیانت… تمام کام کرو… کیوںکہ اللہ بڑا مہربانی ہے… ہاں بھئی کتے سے سبق لو …کہ ایک روٹی کے ساتھ وہ وفا کرتاہے …کہ ساری زندگی آپ کا در نہیں چھوڑتا… آپ اس کو ماریں تو آگے ٹوں کرتا ہے … کاٹتا نہیں ہے… آپ کے سامنے لیٹ جاتا ہے اور پٹنے کو تیار ہوجاتاہے… دو دن روٹی نہ ڈالو… آپ کے در کو چھوڑ کے کسی دوسرے کے در پر نہیں جاتا… اللہ تھوڑا اسے چھٹکارا دے دے تو سب کی ہائے ہائے… ہم ہی ملے ہیں اللہ کو اور کوئی ملا ہی نہیں

تو بھائی اللہ کریم ہے تو ہم کیا کریں …کہ ہم توبہ کریں …جو میرے اوپر اتنا احسان کررہا ہے… تو میں بھی اس کے احسان کا بدلہ دوں… جس نے ہوائوں کو حکم دیا… چلو میرے بندے کے لئے کبھی بادلوں کے ٹولے لے کر… کبھی کشتیوں کو لے کر… جس نے زمین کو حکم دیا …کہ نکالو اپنے خزانے…کبھی سونے کی شکل میں… کبھی چاندی کی شکل میں… کبھی پیتل کی شکل میں… کبھی لوہے کی شکل میں… کبھی تانبے کی شکل میں… کبھی کھوٹ کی شکل میں… کبھی تلواروں کی شکل میں… جس طرح بادلوں کو حکم دیا …کہ برسو !میرے بندوں پر قطرہ قطرہ بن کے

میں تجھے عذاب دے کر کیا کروں گا


اور ایک وجہ نہ پکڑنے کی یہ ہے …کہ اللہ اپنے بندوں پہ مہربان ہے… رحیم ہے … کریم ہے… ان سے توبہ چاہتا ہے… 

…{مایفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وامنتم وکان اللہ شاکراً علیماً}…    میں تمہیں عذاب دے کے کیاکروں گا… اگر تم ایمان لے آئو اور میرے فرمانبردار بن جائو …   تو میں تمہیں عذاب دے کر خوش نہیں ہوں… 

اللہ تعالیٰ اپنے عذاب کو ٹالتاہے… بندے کی توبہ کا انتظار کرتا ہے… سبحان اللہ… قربان جائیں اس کی رحمت پر…میں اس ظالم کی توبہ کا انتظار کررہا ہوں…

…{ان اعطانی لیلاً قبلتہ}…شاید کسی رات میں توبہ کرلے…

…{ان اعطانی نھاراً قبلتہ}…شاید کسی دن میں توبہ کرلے…

 کوئی وقت تو آئے گا اس پر… کسی رات تو خیال آئے گا… کسی دن میں تو خیال آئے …کہ اب توبہ کرلوں… اب اللہ کی طرف لوٹوں اور جب توبہ کرتا ہے… السبحان الخالق… سارے متقی ہوجائیں… اسے پرواہ نہیں… سارے مجرم ہوجائیں اسے پرواہ نہیں… اس کے باوجود وہ اللہ وہ رحیم … کریم … حنان… منان… مہربان ہے …

آنسوئوں کی کرامت


جب کوئی مرد یا عورت اپنی پچھلی زندگی سے توبہ کرتا ہے… اور اللہ کی طرف جھکتاہے… اور اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کے دو قطرے نکلتے ہیں… تو اللہ تعالیٰ اس خوشی میں سارے آسمان پر چراغاں کردیتے ہیں… پورے آسمان پہ روشنیاں ہی روشنیاں ہوتی ہیں۔

فرشتے کہتے ہیں یہ کیوں روشنیاں ہورہی ہیں؟

تو اوپر سے اعلان ہوتا ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے:

…{اصلح العبد علی مولاہ}…

آج ایک روٹھا ہوا بندہ اپنے مولیٰ کے پاس پہنچ گیا اور اپنے رب سے صلح کرلی… 

ہمیں ضرورت ہے چراغاں کرنے کی یااللہ کو ضرورت ہے… توبہ کی ہمیں ضرورت ہے …یااللہ کو ضرورت ہے اور میں ضرورت مند… محتاج ہوں… قدم قدم پر ہر سانس ہر آن… ہر گھڑی میں اللہ کا محتاج ہوں… بجائے اس کے …کہ ہم خوش ہوں… اللہ خوش ہورہا ہے… اللہ تعالیٰ فرشتوںمیں اعلان کررہا ہے… جائو جائو… اعلان کرو… آج میرا ایک بندہ جو مجھ سے روٹھا ہوا تھا… آج مجھ سے مل گیا اور اس نے توبہ کرلی…

میں تو ماں سے بھی زیادہ مہربان ہوں 


 آج میری ایک باندی نے… آج میری ایک بندی نے جو مجھ سے روٹھی ہوئی تھی… آج اس نے توبہ کرلی ہے اور میرے در پہ آگئی ہے… اللہ خوش ہورہے ہیں… اس لئے اللہ نہیں پکڑتا ہے… بل…کہ اللہ مہلت دیتا ہے… اے میرا بندہ کرلے توبہ کرلے… توبہ کرلے… توبہ…وہ ایسا رحیم و کریم ہے …کہ جب تک آدمی توبہ کرتا ہے… معافی ہوتی رہتی ہے… ماں باپ سے آدمی ایک دفعہنا فرمانی کرکے معافی مانگے وہ کردیں گے… دوسری دفعہ…تیسری دفعہ کریں گے… تو پھر وہ کہیں گے… تو نے وتیرہ بنارکھا ہے… ہمارا مذاق اڑاتا ہے… تو ہماری بے فرمانی کرتا ہے… پھر کہتاہے معاف کرو…

اللہ پاک کی ذات کے قربان جائیں… ساری زندگی توبہ توڑتا ہے اور ساری زندگی کہتا ہے اے اللہ معاف کردے… پر ہو سچی توبہ… اللہ تعالیٰ کہتا ہے:

…{ان تستغفرنی غفرت لک}…

اے بندہ تو کہتا ہے …کہ معاف کردے تو میں معاف کرتا ہوں… تو پھر توبہ توڑتا ہے او رپھر کہتاہے :…{یاللہ ان استقالنی}… پچھلا معاملہ تو خراب ہوگیا اب میں نیا معاہدہ کرتا ہوں… پھر نئے سرے سے توبہ کرتا ہوں… میرے پچھلے جرم کو معاف کردے… تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے:…{ان استقالنی عفوتہ}…بندہ کہتا ہے …کہ پچھلی چھوڑ دو تو میں کہتا ہوں …  کہ اچھا چھوڑ دیئے… ختم کردیئے…

…{ان استعاذنی اعذتہ}…بندہ کہتا ہے اے پناہ دے دے… تو میں دوبارہ پناہ دے دینے کیلئے تیار ہوجاتا ہوں…

…{لوبلغت ذبونک عناک السمائ}…تم اتنے گناہ کرو …کہ زمین بھرجائے… سیارے… ستارے بھر جائیں… پھر تمہارے گناہ میرے آسمان کو لگ جائیں… میرا آسمان تیرے گناہوں سے کالا ہوجائے… لیکن پھر تجھے خیال آئے توبہ کااور تو کہے اے اللہ تو مجھے معاف کردے تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں:…{غفرت لک ولا ابالی}…

ماں سے زیادہ پیار کرنے والا کون؟


میں سارے ہی معاف کردیتاہوں… مجھ سے کوئی پوچھنے والا نہیں… ایسا کوئی نہیں ملے گا …کہ جب ہم کہتے ہیں یااللہ وہ آگے سے کئی دفعہ کہتا ہے… لبیک لبیک یاعبدی

جو ماں کا اکلوتا بیٹا جگر کا ٹکڑا آنکھوں کا تارا جب کہتا ہے ماں! وہ کہتی ہے جی وہ کہتا ہے اماں! وہ کہتی ہے جی… پھر وہ کہتا ہے اماں!… وہ کہتی ہے چپ کر سر نہ کھا…

باپ بھی یہی کہتا ہے… وہ کہتاہے ابا! تو وہ کہتا ہے جی! وہ کہتا ہے ابا! وہ کہتا ہے ہوں! وہ کہتا ہے ابا!… وہ کہتا ہے بکواس نہ …

اس مالک کے قربان جائیں پور اجسم نافرمانی میں نمایاں ہے… رواں رواں اللہ کی بے فرمانی سے داغدارہے… سارا دامن تارہے… اس زندگی کا کوئی گوشہ خیر کا نہیں… کوئی عمل بھلائی کا نہیں… اس ساری گندیوں کے باوجود اگر وہ ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے …یااللہ تو کہتا ہے: لبیک لبیک یا عبدی اور میرا بندہ بول تو سہی… کیا کہتا ہے؟ ہم اللہ اللہ پکارتے ہیں… وہ لبیک لبیک کہتا ہے رہے گا… ہم پکارتے پکارتے تھک جائیں گے… جواب دیتا نہیں تھکے گا…

ایک گلوکار کی توبہ کا محبت بھرا واقعہ


حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک گویا تھا… چھپ چھپ کے گاتا تھا… گانا بجانا تو حرام ہے… چھپ چھپ کر گاکے وہ اپنا شوق پورا کرتا تھا… لوگ کچھ اس کو پیسے دے دیتے تھے… ایک دفعہ جب وہ بوڑھا ہوگیا… آواز ختم ہوگئی… تو آیا فاقہ… آئی بھوک… اب گیا جنت البقیع میں ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ گیا اور کہنے لگا اے اللہ! جب آواز تھی تو لوگ سنتے تھے…   جب آواز نہ رہی تو سننا چھوڑ گئے تو سب کی سنتا ہے… تجھے پتہ ہے میں ضعیف ہو… کمزور ہوں… بے شک تیرا نا فرمان ہوں… پر اے اللہ میری ضرورت کو پورا فرما…

ایسی آواز لگائی… ایسی صدا بلندکی …کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسجد میں لیٹے ہوئے تھے… آواز آئی …کہ میرا بندہ مجھے پکار رہا ہے… اس کی مدد کو پہنچو…بقیع میں فریادی ہے اسی کی فریادرسی کرو…

عمر رضی اللہ عنہ ننگے پائوں دوڑے… دیکھا تو بڑے میاں جھاڑی کے پیچھے اپنا قصہ سنارہے ہیں… جب انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو اٹھ کر دوڑنے لگے… کہا بیٹھو بیٹھو… ٹھہرو… ٹھہرو … میں آیا نہیں بلکہ بھیجا گیا ہوں… کہا کس نے بھیجا ہے؟…

کہا… جسے تم بلارہے ہو… اسے نے بھیجا ہے… جسے تم پکار رہے ہو اسی نے بھیجا ہے…

تو اس نے آسمان پر نگاہ ڈالی … اے اللہ ستر سال تیری نا فرمانی میں گذرے… تجھی کبھی یاد نہ کیا… جب یاد کیا تو اپنے پیٹ کی خاطر یاد کیا…تو نے پھر بھی میری آواز پہ لبیک کہا… اے اللہ مجھ نا فرمان کو معاف کردے… اور ایسا رویا …کہ جان نکل گئی… موت ہوگئی۔

حضرت عمر ؓ نے خود اس کا جنازہ پڑھایا… تو میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ پکڑتے اس لئے نہیں …کہ اللہ جل جلالہ رحیم ہیں… کریم ہیں اور اپنے بندے پر رحم چاہتے ہیں… اپنے بندے پر فضل کرنا چاہتے ہیں… اپنے بندے کو جہنم میں میں ڈالنا نہیں چاہتے… تو میرے بھائیو! اللہ تعالیٰ نے دروازے کھول دیئے ہیں… موت تک کے لئے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں… باب التوبۃ مفتوح مالکم یغرغر … توبہ کا دراوزہ کھلا ہوا ہے… جب تک آدمی کی جان نکل کر حلق میں نہ آجائے… غرغرہ کے شروع ہونے سے پہلے پہلے توبہ کا دروازہ کھلاہوا ہے… مردوں کے لئے بھی عورتوں کے لئے بھی…

گنہگار بندے کی توبہ کا حیرت انگیز واقعہ


بنی اسرائیل میں ایک نوجوان تھا… بڑا نافرمان تھا… شہر والوں نے اس سے بائیکاٹ کردیا… اس کو شہر سے باہر نکال دیا… وہ ویرانے میں چلا گیا… کسی کو راہ رات پرلانے کا یہ طریقہ نہیں ہوتا …کہ اس کا بائیکاٹ کردیا جائے… بل…کہ اس سے محبت کی جائے… اس کے لئے دعا کی جائے… اس کو سمجھایاجائے تو انہوں نے نکال دیا… وہ ویرانے میں چلا گیا…وہاں کوئی آنے والا نہیں… جانے والا نہیں… حالات کی تنگی نے جب جھٹکادیا تو بیمار ہوگیا… بیمار ہوا تو کھانے کو کچھ نہیں… پینے کو کچھ نہیں… موت کے آثار شروع ہوئے… مرتے دم تک توبہ نہیں کی… اکڑتا رہا… جب موت کے آثار نظر آئے تو اب کہنے لگا…

 اے اللہ! ساری زندگی کٹ گئی تیری نافرمانی میں… اب موت دیکھ رہا ہوں… سامنے ہے… لیکن مجھے بتا مجھے عذاب دینے سے تیرا ملک زیادہ ہوجائے گا؟ اور معاف کرنے سے تیرا ملک تھوڑا ہوجائے گا؟… اے میرے رب! اگر مجھے یہ پتا ہوتا …کہ مجھے عذاب دے گا اور تیرا ملک بڑھ جائے گا اور معاف کردے گا تو تیر املک گھٹ جائے گا …تو میں تجھ سے کبھی بخشش نہ مانگتا… مجھے پتہ ہے …کہ مجھے عذاب دے تو تیرے ملک میں زیادتی نہیں… مجھے معاف کرے تو تیرے ملک میں کمی نہیں… یہ دیکھ لے میںنافرمان تو ہوں …اور بڑے ذلت میں مررہا ہوں… کوئی میر اسنگی نہیں… کوئی ساتھی نہیں… سب نے مجھے چھوڑ دیا… میرے سارے سہارے ٹوٹ گئے ہیں… اب تو مجھے نہ چھوڑ… مجھے معاف کردے… مجھے معاف کردے اور اتنے میں جان نکل گئی…

موسیٰ علیہ السلام پر وحی آئی …کہ ’’اے موسیٰ! میرا ایک دوست وہاں کھنڈرات میں مرگیا ہے… اس کا جاکے غسل کا انتظام کرو… اس کا جنازہ پڑھو اور شہر کے سارے نافرمانوں میں اعلان کرو… آج جو بخشش چاہتا ہے اس کا جنازہ پڑھ لے… اس کی بھی بخشش ہوجائے گی…‘‘

جب موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کیا تو لوگ بھاگے ہو ئے گئے… دیکھا تو وہی جواری … شرابی… زانی… تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا آپ کیا کہتے ہیں… یہ تو وہ ہے جس کو ہم نے نکال دیا تھا اور آپ کا رب کہہ رہا ہے …کہ جس کو بخشش چاہئے… اس کا جنازہ پڑھ لے… 

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جب عرض کی تو اللہ پاک نے فرمایا… ’’یہ بھی سچے ہیں… میں بھی سچا ہوں… یہ ایسا ہی تھا جیسے بتارہے ہیں… لیکن یہ مرنے لگا:

…{فرأیت نفسہ حقیرہ وسعیرہ وذلیلہ}…

میں نے اس کو دیکھا …کہ ذلیل ہوکر مررہا ہے… تنہائی میں مررہا ہے… ولا کریما ولا قریبا …کوئی دوست نہیں… کوئی رشتہ دار نہیں… ایسی بے بسی میں جب اس نے کہا:

اے اللہ! سب نے چھوڑا تو نہ چھوڑنا تو میری رحمت کو اور میری محبت کو جوش آیا… میری غیرت کو جوش آیا …کہ جب سب چھوڑچکے ہیں… میں اپنے بندے کو نہیں چھوڑوں گا… اے موسیٰ!میری عزت کی قسم وہ کم ظرف نکلا… صرف اپنی بخشش مانگی… میری عزت کی قسم اگر آج پوری دنیا کے انسانوں کی بخشش مانگتا تو میں سب کو معاف کردیتا…

ہم صرف کہتے ہیں …کہ اس رب سے صلح کرلیں اور ہم کچھ نہیں کہہ رہے… ہم کہتے ہیں اللہ سے جڑ جائو بھائیو… اور کچھ نہیں کہہ رہے… کیوںکہ ہمارا واسطہ اللہ کی ذات سے پڑنے والا ہے… یہ جہاں چھوٹ جائے گا او رپھرمسئلہ آسان ہے …کہ اللہ پاک کو راضی کرنے کے لئے ہمیں یہ گھر نہیں چھوڑنے… ان گھروں کے طریقے چھوڑنے ہیں… ہمیں یہ شہر کو نہیں چھوڑنا… اس میں غلط طریقوں کو چھوڑنا ہے اور اللہ کے محبوب مصطفی سید الکونین تاجدار مدینہ  ﷺ کا طریقہ داخل کرنا ہے… بس اور کچھ نہیں کرنا… بس ہم وہ کریں جو اللہ کاحبیب ہمیں بتاگیا ہے

 جادوگری چھوڑی تمغہ شہادت مل گیا


بھائی سمجھ میں نہیںآرہا کہ ایک ڈاکٹر تھا وہ ایک منٹ کی ایک ہزار ڈالر فیس لیا کرتا تھا… دنیا کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اس کے پروگرام ہوتے تھے… اور اس نے مسخر کئے ہوئے تھے… شیاطین اور پتہ نہیں کیا چیز عجیب چیز تھا وہ… ہمیں بھی اس نے بہت سی چیزیں دکھائیں… تو ایک دن مجھ سے کہنے لگا… جمعے کی نماز کے بعد میرے پاس آکر کہنے لگا…     میرا شیطان آیا تھا …میرے پاس اور آکے بیٹھ کر رونے لگا …کہنے لگا ڈاکٹر راکی… راکی اس نے اپنا نام رکھا ہوا تھا …عبدالقادر تھا …ویسے وہ عبد القادر جیلانیؒ کی نسل میں سے تھا …نسل عربی… حسنی… قادری… اور کام یہ کررہا تھا ۔تو کہنے لگا …کہ آج میرا شیطان میرے پاس آیا تھا …اور کہہ رہا تھا …کہ ڈاکٹر را کی تم نے بیس سال کی دوستی کو پانچ منٹ میں توڑ دیا …

تو میں نے ان سے کہا بیس سال میں نے جھوٹ کو آزمایا ہے …اب کچھ دن سچ کو بھی آزمانے دو تو آگے مجھ سے کہتا ہے …بات تو تمہاری ٹھیک ہے …کہ سچ ہی میں نجات ہے… لیکن پھر بھی جلدی کیا ہے… بعد میں توبہ کر لینا …یہاں آکے ماردیتا ہے …کہ ابھی جلدی کیا ہے… پھر توبہ کر لینا …اس میں بہت سے بغیر توبہ کے مرجاتے ہیں… دوسرا کیا کہتا ہے… توبہ کا کیا فائدہ ادھر کروں گا …توٹوٹ جائے گی… ایسی توبہ کا کیا فائدہ…

شیخ عبدالقادر جیلانی قافلے میں علم حاصل کرنے کے لئے جارہے تھے … چودہ سال کی عمر تھی… راستے میں ڈاکہ پڑ گیا لوٹ لیا انہوںنے… یہ بچے تھے کسی کو خیال نہیںآیا …کہ ان کے پاس کچھ ہوگا… ایک ڈاکو نے ایسے ہی سرراہ پوچھا بیٹا تیرے پاس کچھ ہے… کہا ہاں ہے … کیا ہے … کہا چالیس دینار ہیں… چالیس دینار کا مطب تھا …کہ وہ پورے ایک سال کا راشن ہے تو بہت بڑی دولت تھی…۴۰ دینار… تو وہ حیران ہوگیا …کہنے لگا کہاں ہیں کہاں۔یہ میرے اندر سیئے ہوئے ہیں… اندر کی آستین میں… اس نے کہا :بچہ اگر تو مجھے نہ بتاتا تو مجھے کبھی خبر نہ ہوتی … …کہ تیرے پاس ہیں… تو تونے کیوں بتا دیا … کہا مجھے میری ماں نے کہا تھا …کہ بیٹا سچ بولنا… چاہے جان چلی جائے… اب یہ ماں کا سبق ہے ناں …

اور جب ماں کو ہی نہ پتا ہو …کہ سچ بولنے میں نجات ہے …تو وہ بچے کو کیا بتائے گی… تو وہ ڈاکو اس کو پکڑ کر …ڈاکوؤں کے سردار کے پاس لے گیا …کہ سردار اس بچے کی بات سنو… تو ساری کہانی سنائی …تو سردار نے کہا بیٹا کیوں تونے بتا دیا ۔۔۔نہ بتاتا تو ہمیں تو کوئی پتا نہ چلتا… کہا میری ماں نے مجھے کہا تھا… جھوٹ نہ بولنا۔۔۔ سچ بولنا… چاہے جان چلی جائے … اس پر جووہ رویا ہے ڈاکوؤں کا سرداراور اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔۔۔۔

 اے اللہ یہ معصوم بچہ اپنی ماں کا اتنا فرمانبردار اور میں پور امر دجوان ہو کر تیرا نافرمان مجھے معاف کر دے …سارے ڈاکو ؤں سے توبہ کر وائی …اور اس کا ذریعہ وہ ماں بنی جو گیلان میں بیٹھی ہوئی ہے …جس کو پتہ بھی نہیں ہے …کہ اس کا بچہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے…

ادھر توبہ! ادھر مغفرت کا پروانہ مل گیا


بنی اسرائیل میں قحط آیا… جو بڑا زبردست قحط تھا… بنی اسرائیل نے کہا! اے موسیٰ دعا کرو اللہ قحط دور کر دے … موسیٰؑ نے ستر ہزار لوگوں کو لے کر نماز پڑھی اور دعا مانگی … اے اللہ بارش برسا… فما زادت الشمس الا تقشعا… سورج کی آگ اور بڑھ گئی…… وہ کہیں یا اللہ ہم بارش کی دعا کررہے… آپ سورج کی تپش کو بڑھارہے ہیں… تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا… ان فیکم رجلا یبار زنی بالمعاصی منذاربعین عام…تم میں ایک آدمی ہے … جس نے پچھلے چالیس سال میں ایک نیکی بھی نہیں کی اور چالیس برس ہوگئے… مجھے للکار رہا ہے… اور میری نافرمانی پہ تلا ہوا ہے… اس کی وجہ سے بارش رکی ہوئی ہے … اسے کہو …  کہ باہر آکر اپنے آپ کو ظاہر کرے… تب بارش ہوگی…

 موسیٰؑ نے فرمایا… یا من عصی اللّٰہ اربعین سنۃ … ارے او بد بخت انسان… جسے چالیس سال گزر گئے …کوئی اچھا کام نہ کیا … باہر آ!تیری وجہ سے ہم عذاب میں ہیں… اسے تو پتہ ہے …کہ میں کون ہوں… لیکن کسی کو نہیں پتہ …کہ کون ہے… نہ اللہ نے بتایا …کہ فلاں آدمی ہے… اب لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا… کوئی بھی باہر نہ نکلا… وہ اپنے دل میں کہنے لگا …میں اگر باہر نکل کے آؤ ں تو اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کروں …اور اگر کھڑارہوں تو میری وجہ سے بارش رکے… ساری مخلوق پریشان ہوگی …

اس نے اپنی چادر میں اپنے منہ کوچھپا لیا …کہ کوئی دیکھے نہیں …کہ میرے آنسو نکل پڑے ہیں… سرجھکا یا اور سر پر چادر ڈال کر آنسوؤں کے دو قطرے نکالے اور کہنے لگا:

 یا اللہ … عصیتک اربعین سنۃ فامھلتی… یا اللہ میں چالیس سال نافرمانی کرتا رہا اور تومجھے مہلت دیتا رہا … تو نے کسی کو نہ بتایا …کہ میری رات کیسے گزرتی ہے … تو نے کسی کو نہ بتایا …کہ میرا دن کیسے گزرتا ہے… فجئتک تائبا فاقبلنی… اب میں تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں…   تو کسی کو نہ بتا میری توبہ قبول کر لے… 

ابھی اس کی دعا پوری نہیں ہوئی …کہ کالی گھٹا اٹھی اور چھما چھم بارش ہوئی موسیٰؑ کہنے لگے یا اللہ نکلا تو کوئی بھی نہیں… تو بارش کیسے ہوگئی؟… ارشاد فرمایا جس کی وجہ سے رکی تھی… ا س کی وجہ سے کردی… وہ تائب ہوگیا ہے … ایسا بڑا زمین وآسمان کا بادشاہ اور مہربان ایسا …کہ چالیس سال کی نافرمانیوں کو دو آنسوؤں سے دھودیا… موسیٰؑ فرمانے لگے یا اللہ اب تو بتا دے وہ کون ہے؟ …ارشاد فرمایا… جب میرا نافرمان تھا… تو میں نے کسی کو نہ بتایا جب میرا فرمانبردار ہوگیا ہے تو اب میں کسی کو کیسے بتاؤں…؟

تو روٹھتا رہے گا میں مناتا رہوں گا


…تعرض عنی وانا مقبل الیک… تو مجھ سے روٹھ جاتاہے میں پھربھی تیرا پیچھا کر تا ہوں …کہ میری طرف آجا…

حضرت ابراہیمؑ کا مہمان آیا… تھا کافر… انہوںنے پوچھا مسلمان ہو… کہا نہیں! … کہا میں کافر کو روٹی نہیںکھلاتا… وہ اٹھ کے چلا گیا… اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیجا… کس کے لئے؟ ایک کافر کے لئے… فرمایا…

 اے ابراہیمؑ ! نافرمان تو میرا تھا… ستر سال سے میں نے تو روٹی بند نہیں کی…    ایک وقت کی تجھے کھلانی پڑی تو تو نے کیوں بند کر دی؟… جاؤ اس کو واپس بلاؤ اور اس کو روٹی کھلاؤ … جو رب کافر پہ ایسا مہربان ہو… تو حضور کی امت پر کیسے مہربان نہ ہوگا… مگر ہم توبہ توکریں…مسلمانو! ہم اپنی زندگی سے بہت دور نکل گئے ہیں …آیئے واپسی کی راہ اختیار کریں اور گذشتہ زندگی سے توبہ کریں … اللہ کا فرمان ہے :

…{توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المؤمون}…

اے ایمان والو اکٹھے مل کر اللہ کے دربار میں توبہ کرو…

 یاد رکھو ادھر ہم توبہ کریں گے… ادھر اللہ پاک ایک ایک کانام لے کر اعلان کرے گا …کہ فلاں ابن فلاں نے توبہ کر لی ہے… فرشتو! تم گواہ بن جاؤ میں نے ان کو بخش دیا … اللہ کی قسم نو سو نہیں نوکڑ ور چوہے کھائے ہوں پھر بھی توبہ کرلو…

  آج کا تو کافر بھی قارون سے بہتر ہے… ہم تو سارے اللہ کے حبیب  ﷺ کے امتی بیٹھے ہیں… ایک آنسو ندامت کا یا اللہ کے خوف کا جو چہرے پر نہ ڈھلکے صرف ایک آنکھ کے کٹورے کو تر کر دے… اس ایک آنسو سے اللہ ستر سال کے گناہ دھودے گا… ایک کرتہ دھونا ہو تو دو بالٹیاں پانی کی ضرورت ہے… ادھر ۷۰ برس کے گناہوں کو دھونے کے لئے صرف ایک قطرہ پانی اللہ کو دے دے… اگر آنسو نہ نکلے تو ہائے کردو اللہ اس ہائے کو برسات بنا دے گا اور گناہ دھو دے گا…ادھر آپ توبہ کریں گے … ادھر آسمان پر نقارہ بج جائے گا…

ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے …کہ اس محفل میں ہو…


 اے اللہ! بس اب ان راہوں پر نہ لوٹوں گا… اے اللہ! بس اب میں نے تجھے راضی کر نا ہے … میری جان چلی جائے… مال چلا جائے … میں بک جاؤں … مگر تیرے نام کو نہ چھوڑوں گا… سود نہیں کھاؤں گا… جھوٹ نہیں بولوں گا … گانے نہیں سنوں گا … وہ جنید جمشید گانے اور ناچنے والا اللہ کی قسم چار ماہ میں چل رہاہے … مجھے فیصل آباد میں ملا ہے کہتا پھرتا ہے… لوگوں نے گندی زندگی سے توبہ کر لی ہے … اب میں اللہ کے حبیب ﷺ کی زندگی سیکھ رہا ہوں … گانا گانے والے توبہ کر رہے ہیں… گانا سننے والو تم بھی توبہ کر لو… ڈرو نہیں…

 اگر توبہ ٹوٹ گئی تو پھر کر لینا… ہاں وہ دنیا کے حکمرانوں کی طرح نہیں …کہ دل میں کددورت رکھ لے گا بل…کہ وہ تو کریم ہے ادھر ہائے ہوتی ہے… اس کی باہیں کھل جاتی ہیں آ میرے بندے آجا…

…{وآخر الدعونا ان الحمد للّٰہ رب العالمین}…


No comments:

close