TAQWA KYA HY - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, May 12, 2019

TAQWA KYA HY





تقوی کیا ہے



اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُوْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہ  ۔۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا  ۔۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہ  ۔۔ وَنَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ   وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ  ۔۔
 اَمَّا بَعْد۔۔۔۔ُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  ۔۔۔ قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہ ۔۔۔ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔۔۔ وَسُبْحَنَ اللّٰہ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔۔۔وَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ یَا اَبَا سُفْیَان جِئتُکُمْ بِکَرَامَۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ 
میرے محترم بھائیو… دوستو… بزرگو!
اللہ نے اس انسان کو بہت بڑی آزمائش میں ڈالا ہے۔ یہ وہ بوجھ ہے جس کو اٹھانے سے پہاڑوں نے انکار کردیا۔
زمین نے انکار کردیا۔
{اِنَّا عرضنا الامانت علی السموات والاض والجبال فابین ان یحملنھا واشفقن منھاو حملھا الانسان… انہ کان ضلوماً جھولا}
اللہ نے اس امانت کو زمین و آسمان پر پیش کیا تو انہوں نے اللہ کے دربار میں معذرت کی… ہاتھ جوڑدیئے… اے اللہ یہ کام ہماری طاقت سے باہر ہے۔ 
پھر کیا ہوا:
{وحملھا الانسان }  اس بوجھ کو انسان نے اٹھالیا۔
انہ کان ظلوماً جھولا… یہ نادانی میں یہ بوجھ اٹھا بیٹھا۔
 اب بہت بڑا امتحان ہمارے سر پر ہے۔ ایک ابدی زندگی ہے۔ جہاں دو بڑے امتحان ہمارے سر پر ہیں۔ فریق فی الجنہ و فریق فی السعیر ایک طبقہ کو ہمیشہ کی آگ میں جلنا ہے اور ایک طبقہ کو ہمیشہ کی نعمتوں میں زندگی گزارنی ہے۔
یہ جو چند دن زندگی کے ہیں اس پر آخرت کی زندگی کا دارومدار ہے۔
 یہ زندگی کیسے گزرتی ہے۔ یہ سانس۔ یہ وقت۔ یہ گھڑیاں۔ یہ گھنٹے ۔ ہم کیسے گزارتے ہیں… اس پر اس زندگی کا فیصلہ ہوگا۔ کامیابی کا… یا ناکامیابی کا امتحان اب یوں شکل اختیار کرگیا کہ اللہ نے اصلی زندگی چھپادی اوردنیا کی ظاہری کامیابی کو واضح کرکے دکھادیا۔
شیطان نے ہمیں عزت دنیا کی دکھائی۔ … مال دنیا کا دکھایا … کامیابی دنیاکی دکھائی۔۔۔۔
مگر اللہ نے آخرت کو کامیابی بتلایا۔
اللہ کا علم کامل ہے… ہمارا علم ناقص اور تھوڑا ہے اللہ کہہ رہا ہے۔
{قل ھل عندکم من علم فتخرجوہ لنا ان تتبعون الظن و انتم الا تخرصون}… 
 اللہ تعالیٰ یوں فرماتے رہے ہیں تمہارے پاس علم ہے ہی کوئی نہیں جس پر تم دعویٰ کرو۔ تمہارا علم تو اندھیرے کا تیر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ میں 7 قسمیں کھا کر ہمیں کامیابی اور ناکامی کا بتلایا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں سچا ہے اسے کسی قسم کی کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اس نے اس مضمون کو سمجھانے کے لئے اتنی قسمیں اٹھائی ہیں کہ پورے قرآن میں کسی بات کو سمجھانے کے لئے اتنی قسمیں نہیں کھائیں ہیں۔ مضمون کیا ہے؟ کہ اس زندگی کے پرچے میں کامیاب کون ہوگا ناکام کون ہوگا۔ یہ وہ مضمون ہے جس میں انسانیت فیل ہوتی چلی جارہی ہے ۔ چونکہ اس مضمون میں بہت سے لوگ دھوکا کھا چکے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اس پر7 قسمیں اٹھائی ہیں … نہ1 … نہ2… نہ 3… نہ4 اکٹھی سات قسمیں کھائیں اور سارے قرآن میں کسی جگہ بھی سات قسمیں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔
قسم کا اٹھانا اگلے کے شک کو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ ساری دنیا کو شک پڑا ہوا ہے کہ کامیاب کون ہے… ناکام کون ہے۔ یہ قسمیں سورۃ الشمس میں کھائی گئی ہیں اور یہ سورت اتنی مبارک سورت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس کی تلاوت کرلے وہ ایسا ہے جیسا کہ اس نے پوری دنیا اللہ کے نام پر صدقہ کردی۔
ساری دنیا صدقہ کرنے کا ثواب ساری دنیا میں کیا کچھ ہے… ہم تو جیب سے ایک روپیہ نہیں دیتے۔
وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا ٭ وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰہَا٭ وَالنَّھَارِ اِذَا جَلّٰہَا٭وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰہَا ٭ وَالسَّمَآئِ وَمَا بَنٰہَا٭ وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰہَا ٭ وَنَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰہَا٭ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا٭ قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا٭ وَقَدْخَابَ مَنْ دَسّٰھَا٭ کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰھَا٭ اِذِنْبَعَثَ اَشْقھَا٭ فَقَالَ لَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا٭ فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْھَا فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّھُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوّٰھَا٭ وَلاَ یَخَافُ عُقْبٰھَا٭
یہ چھوٹی سی صورت جو اس کو پڑھ لے گا آپ کے فرمان کے مطابق اسے ساری دنیا صدقہ کرنے کا ثواب مل گیا۔ میں کروں گا مجھے مل جائے گا آپ کریں گے آپ کو مل جائے گا۔۔۔۔
اور اس سورت جیسا مضمون سارے قرآن میں کہیں نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں … مجھے قسم ہے سورج کی۔ مجھے قسم ہے چاند کی… مجھے قسم ہے دن کی… مجھے قسم ہے رات کی… مجھے قسم ہے آسمان کی… مجھے قسم ہے زمین کی… مجھے قسم ہے تمہاری جان کی… سات قسمیں کھائیں۔
ایک آدمی قسموں پر قسمیں کھائے اور اگلی بات نہ بتلائے تو سننے والا پریشان نہیں ہوجاتا ہے کہ یہ کیوں قسمیں کھاتا جارہا ہے۔ اس کو کیا ہوا… اللہ کی قسم اللہ کی قسم رب کی قسم… جبار کی قسم… رحمان کی قسم۔ اللہ کے بندے بتا تو صحیح یہ قسمیں کس بات پر کھارہا ہے۔ تو اگلا بندہ پریشان ہوجاتا کہ بتا تو سہی تو قسمیں کیوں کھارہا ہے۔ تو یہی اللہ کہہ رہا ہے۔ اب اتنی قسمیں کھا کر اللہ نے کیا بتلایا اس کو غور سے سنئے گا۔اللہ کہہ رہا ہے
…{ قد افلح من زکھا۔ وقدخاب من دساھا}…
سن لو میرے بندو! سن لو میرے بندو! مجھے سات مرتبہ قسم ہے کہ کامیاب وہ ہے جس نے اپنے آپ کو پاک کرلیا (گناہوں سے) اور ناکام وہ ہے جس نے اپنے آپ کو گندا کرلیا۔
پاک کرنے کا کیا مطلب؟۔اللہ کے نبی کی دعا سنو:
…{اللھم ات نفسی تقوٰھا و زکھا}…
یا اللہ مجھے تقویٰ نصیب فرما… میرا تزکیہ فرما… مجھے پاک فرما۔
اللہ نے ہمارے نبی کے بارے میں فرمایا… یتلو علیہم آیاتہ ویزکیھم ویعلمہم الکتاب والحکمہ یہ وہ نبی ہے جو اللہ کے کلام کی آیات ان کو پڑھ پڑھ کر سناتا ہے۔ ان کو پاک کرتا ہے ان کو تعلیم دیتا ہے ان کو حکمت سکھاتا ہے ان کو کتاب سکھاتا ہے ۔ اس آیت میں بھی بتلایا کہ اللہ کے نبی ان کو پاک کرتے ہیں۔
اوپر اللہ سات قسمیں کھا کر پاکیزگی کی دعوت دے رہے ہیں۔
پاک کرنا کیا ہے؟ اپنے نفس کو پاک کرو اللہ کی اطاعت کے ساتھ… تقویٰ کے ساتھ جسم صاف ہوتا ہے صابن سے پانی سے اور نفس پاک ہوتا ہے اللہ کی اطاعت اور تقویٰ سے۔
اللہ کا ارشاد ہے:فالھما فجورھا و تقوھا:
مجھے قسم ہے کہ میں نے تیرے نفس میں نیکی کو بھی رکھا ہے… تقویٰ کو بھی رکھا ہے۔ اس آیت میں برائی کو پہلے ذکر کیا ہے اور تقویٰ اور نیکی کو بعد میں ذکر کیا ہے۔
وقد خاب من دسھا:جو گندگی میں ڈوب گیا وہ ناکام ہوگیا مراد جس نے اپنے آپ کو گناہوں میں ڈبودیا وہ ناکام ہے۔ عربی زبان میں بڑی فصاحت ہے صرف سوار کے ۵۰۰ نام ہیں گھوڑے کے ۱۰۰۰ ے قریب نام ہیں۔
مذکورہ سورت میں اللہ تعالیٰ سات قسمیں کھائیں پھر گواہ دیے کہ اگر تمہیں میری قسموں پر اعتبار نہیں تو میں گواہ دیتا ہوں میری قسموں کا اعتبار نہیں تو گواہ تو دیکھ لو۔
ایک قوم آئی تھی… ثمود ان کو میں نے یہی بات سمجھائی تھی دیکھو اپنے آپ کو پاک کرلو… تو قوم ثمود نے صالح سے کہا:
کذبت ثمود بطغواھا۔ قوم ثمود نے سرکشی کی… اذنبعث اشقاھا ان کا بدبخت کھڑا ہوا… اس بدبخت کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیاجن کی کہانی یہ ہے۔ قوم ثمود نے کہا اے صالح تم اس پہاڑ سے اونٹنی نکال دو اور وہ ہمارے سامنے بچہ جنے… کثرت سے دودھ بھی دے… تو صالح نے دعا کی ۔
تو اونٹی نے بچہ جنا… صالح نے کہا اس اونٹی کو اگر تم نے کچھ نقصان پہنچایا تو تم سب برباد ہوجائوگے ایک آدمی نے جس کا نام کیدار تھا اس نے عورت کے لالچ میں اسے قتل کردیا۔
عورت ایسی چیز ہے کہ بڑوں کی آنکھوں میں پٹی پڑجاتی ہے۔ ایک عورت نے کہا جو اس اونٹنی کو قتل کرے گا اپنی بیٹی کا نکاح میں دوں گی اور بکریاں بھی دوں گی۔ اس قاتل کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے کہا:
اذنبعث اشقاھا… فقال لھم رسول اللّٰہ ناقت اللّٰہ و سقیاھا
انہوں نے صالح کی بات کو جھٹلایا۔فکذبوہ فعقروھا۔ انہوں نے اونٹی کو کاٹ کر رکھ دیا۔
فدمدم علیہم الخ ۔ یہ دم دم کا لفظ اتنا طاقت ورلفظ ہے کہ یہ پورے قرآن میں صرف ایک جگہ آیا ہے۔ ہم نے ان کو پٹخ کر دے مارا اور شدید عذاب میں ان کو مبتلا کیا اور تیرے رب کو کسی کی پرواہ نہیں ہے۔یہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے۔ یہ چند آیات کہ یہ دنیا امتحان ہے ہم امانت کو اٹھاچکے ہیں۔ اب یہ بوجھ موت تک اٹھانا پڑے گا اگر ہم نے اٹھالیا تو وہ کچھ ملنے والا ہے۔ جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔

اللہ والوں کی صفت

اللہ والوں کی ایک صفت یہ ہے کہ یہ اللہ کے نام پر لٹاتے ہیں چاہے تنگی ہو یا خوشحالی ہو۔ ایک صحابی آئے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس تو کچھ نہیں پھر فرمایا اچھا! تو ایسا کر کہ فلاں دکاندار سے میرے نام پر کچھ لے لو۔ جب میرے پاس آئے گا تو میں دے دوں گا حضرت عمرؓ کہنے لگے اگر اللہ نے آپ کو دیا ہے تو ضرور دیں اگر نہیں دیا تو اوروں کے لئے قرضہ اٹھانا اتنا ٹھیک نہیں۔ پیچھے سے انصاری کہنے لگے عمر کی نہ سننا آپ خرچ کرتے رہیں اور عرش والے سے تنگی کا ڈر نہ کریں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے اور وبذالک امرت فرمایا کہ مجھے بھی اسی کا حکم دیا گیا ہے۔
ایک مرتبہ لگائو توسہی اللہ کے نام پر پھر دیکھو اللہ کیسے دیتا ہے۔

آج اللہ ناراض ہے

میرے محترم بھائیو… بزرگو… دوستو!
اللہ تعالیٰ ہم سے ایک سوال کرتا ہے ۔ ’’ام خلقوا من غیر شیئٍ‘‘ میرے بندو! بتائو تو سہی؟ تم خودبخود اتفاقاً پیدا ہوگئے ہو یا ’’ام اھم الخالقون‘‘ دوسرا سوال: یا تم خود ہی پیدا ہوگئے؟ تیسرا سوال ’’ام خلق السموات والاض‘‘ کیا یہ زمین یہ آسمان تم نے بنایا ہے۔ یہ فرش تم نے بچھایا ہے… ہوائوں کو تم نے چلایا۔
چاند تاروں کو گردش تم نے دی۔ یہ سوال کیا کئے ہیں؟ اس سوال کا مقصدیہ تھا کہ اگر تم خود ہی پیدا ہوگئے۔ یہ زمین کا نظام خود ہی چل گیا تو جائو تمہارے خالق کی طرف سے تمہاری چھٹی ہے۔ اب جیسے مرضی زندگی گزادو جو چاہو کرو… پھر بے شرم بے حیا برابر پھر عابد اور فاسق برابر… جائو مزے کرو۔
لیکن ان مزوں سے پہلے تمہیں ثابت کرنا پڑے گا کہ تم خود بخود پیدا ہوگئے۔
آنکھ اور کان کے گناہ
میرے بھائیو!٭ زمین آسمان کی لگام ایک طاقت کے ہاتھ میں ہے دو میں نہیں… اسکا ملک اس کی طاقت اس کی بادشاہت لامحدود ہے… وہ زمین آسمان تن تنہا مالک ہے۔
٭ ایک خاں صاحب کو ڈاکٹر نے کہا آپ صبح صبح ہوا خوری کیا کرو (پٹھان اردو تھوڑی سمجھتا ہے وہ ایک دن صبح پارک میں گیا اور منہ کھول کھول کر ہوا کھانے لگا کبھی ادھر منہ مارے کبھی ادھرمنہ مارے کسی نے دیکھا تو کہنے لگا خان صاحب کیا ہوا … کہا ڈاکٹر بولا تھا : صبح صبح ہوا کھائو… ہم ہوا کھاتا ہے۔
٭ میرے بھائیو! اللہ کو منالو اللہ سے چمٹ جائو جیسے روٹھا ہوا بچہ ماںسے لپٹتا ہے تو اسے سکون ملتا ہے وہ اپنے آپ کو حفاظت میں محسوس کرتا ہے۔ اپنے آپ کو سائے تلے محفوظ کرتا ہے جب سے ہم نے اللہ کو چھوڑا ہم سے حفاظت کا سایہ رحمت کا سایہ ا ٹھ گیا۔۔۔۔
عزتیں روٹھ گئیں۔ بلندیاں الوواع کہہ گئیں۔ ذلتیں لباس بن گئیں… مسکنت ہمارا اوڑھنا بچھونا بن گیا ہم در در کی ٹھوکریں کھانے والے بن گئے ۔
اللہ کو چھوڑ کر ہم بھٹکے ہوئے راہی بن گئے… جیسے کٹی پتنگ کی کوئی منزل نہیں آج اس امت کی کوئی منزل نہیں ہے کیونکہ اللہ کو چھوڑدیا۔
میرے بھائیو! کسی زمیندار کی فصل اجڑ جائے تو وہ ہائے ہائے کرتا ہے… کوئی ڈاکٹربے روزگار ہوجائے تو خون کے آنسو روتا ہے … کسی تاجر کا سرمایہ لٹ جائے تو وہ سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے… ہمیں تو خون کے آنسو رونا چاہئے … ہمارا کتنا بڑا سرمایہ ڈوب گیا۔ ۴۰… ۴۵ سال ہوگے ایک سجدہ بھی اللہ کی محبت کا نہ کرسکے کتنے سانس غفلت میں ڈوب گئے۔ کتنا نقصان ہوگیا کہ اللہ کو اپنا نہ بنایا… اللہ سے دوستی نہ کی۔ ماں سے پہلے اسکا حق تھا باپ سے پہلے اس کا حق تھا۔ دنیا کے ایک ایک محسن سے پہلے اس کا حق تھا۔زمین کا بادشاہ ہم سے کہہ رہا ہے۔
’’ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیئًا مذکوراً‘‘ 
میرے بندے کچھ یاد بھی ہے کہ تم کچھ تھے۔ (نہیں یا اللہ ہم کچھ نہ تھے) کبھی تنہائیوں میں سوچتے تو سہی… تیری آنکھوں کو دیکھنا کس نے دیا… تیری زبان کو بولنا کس نے دیا… دیکھو تو سہی یہ چھوٹی سی آنکھ ہے۔اس میں تیرہ کروڑ بلب لگے ہوئے ہیں… کہاں سے خرید کر لائے؟ کتنے کروڑ میں خریدے؟
کس نے دیئے؟ بل کا کیا مانگا۔ اس مسجد کا بھی بل آپ ادا نہ کرو تو واپڈا آکر بجلی کاٹ دے گی۔ ۲۶ کروڑ بلب کابل کیا منگائے؟
یابن آدم جعلت لکم عینین… جعلت لکم غطا فنظر بعینین ما احللتہ لک فان عضلک ما حدمتہ علیک الخ‘‘
 اے میرے بندے تجھے دو آنکھیں دی ان پر دو پردہ لگائے جب تیری نظر اٹھنے لگے کسی کی بہن بیٹی کی طرف تو اس پردہ کو نیچے جھکالینا (یہ ۲۶ کروڑ بلب کا بل ہے) کراچی شہر میں کتنے ہیں جو یہ بل دے رہے ہیں اور اللہ نے کتنوں کی بجلی کاٹی۔صبح سے شام تک ہم ان آنکھوں سے حرام دیکھتے ہیں… مگر اللہ آنکھوں کی بجلی بند نہیں کرتا بلکہ توبہ کا انتظار کرتا ہے کبھی میرابندہ میرا بنے گا۔
ان کانوں میں دو لاکھ ٹیلیفون لگائے… ایک لاکھ پردہ اس کان میں ایک لاکھ اس کان میں دو لاکھ ٹیلیفون کی تاریں لگائیں اس کا بل کیا مانگا کہ میرا بندہ اس سے گانا نہ سننا… موسیقی نہ سننا اس سے کسی کی غیبت نہ سننا کسی برائی نہ سننا اس سے گندہ بول نہ سننا جب تیرے سامنے ایسا کوئی بول آئے تو اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر بند کرلینا… کتنے انسان کراچی میں ان کانوں کا بل دینے والے ہیں۔
پھر اللہ نے کہا میں نے تجھے زبان دی… زبان پر دو تالے لگائے… ایک دانتوں کا تالا ایک ہونٹوں کا تالا۔ ان دو تالوں کا مقصد کیا ہے کہ سوچ سمجھ کر بولنا تو بولنے میں آزاد نہیںہے۔ اگر تیری زبان پرجھوٹ یا گالی آنے لگے … تکبر کا بول آنے لگے تو اپنا دروازہ بند کرلے… یہ زبان اس لئے نہیں ہے کہ تو اوروں کو دکھ دیتا رہے۔
میرے بھائیو! محسن کے آگے تو کتا بھی سر جھکادیتا ہے ہمارا سب سے بڑا محسن اللہ ہم اس کے احسانات کے سایہ میں ہیں… ہمارا ایک لمحہ اس کریم آقا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے پھر بھی ہم اس کی نافرمانی کریں۔

اللہ کی قدرت

اللہ تعالیٰ کروڑ مائوں کے پیٹوں میں چند قطروں سے ایک گوشت کے انسان کو وجود دیتا ہے۔ ان کے پورے الگ انگلیوں کے نشانات الگ الگ کردیے… بچوں کے چہرہ کی بناوٹ اور طرح کی ہو ناخن اور طرح کے… انگلیاں اور طرح کی… پائوں کی ساخت اور طرح کی… جسم کی بناوٹ اور طرح کی…پھر یہ تو باہر کی بناوٹ ہے…
 اندر دیکھیں ہر آدمی کے جسم کی ساخت بناوٹ اور طرح کی ہے۔
 ہر آدمی کا اندر کا نظام دوسرے سے جدا ہے۔ ایک دوسرے سے نہیں ملتا۔

ماں باپ کی عظمت

میرے بھائیو! اللہ کے بعد بندے پر سب سے زیادہ حق ماں باپ کا رکھا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی اولاد کے لئے اپنا پیٹ کاٹتے ہے ان کی پرورش اور تعلیم میں اپنا سرمایہ لٹادیتے ہیں۔ اپنے دن کو دن نہیں دیکھتے اپنی رات کو رات نہیں دیکھتے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:واخفض لھماجناح الظل‘‘
اپنے ماں باپ کے سامنے ایسے ہوجائو جیسے پرندہ اپنے پر پھیلا کر بے بسی کا اظہار کرتا ہے جسے پرندہ کو چھرا لگ جائے تو وہ گرتا ہے اور گردن ٹیڑھی کرکے بے بسی کی حالت میں پڑا ہوتا ہے۔
اسی طرح اللہ یہ تشبیہ ماں باپ کے لئے پیش کرکے کہہ رہا ہے کہ ماں باپ کے سامنے ایسے گرجائو اور ان کے سامنے ایسے بے جان ہوجائو جیسے کہ پرندہ شکاری کے سامنے بے جان ہوجاتا ہے کہ چھری چلالے تیرے ہی ہاتھ میں ہوں اب تو جو مرضی چاہے کر۔
میرے بھائیو! بادل! اللہ کی نشانی
اللہ نے ہمیں پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑا ہمارے لئے زمین کو فرش بنایا۔ 
آسمان کو چھت بنایا۔ پھر تیرے لئے پانی نکالا۔ ’’اخرج منھا ماء ھاومرعاھا والجبال ارساھا‘‘
پھر زمین کو ڈولنے سے بچانے کے لئے پہاڑوں کو کیلوں کے طرز پر گاڑھ دیا… 
پھر اس زمین کو سرسبز کرنے کے لئے بادلوں کا نظام چلایا۔
ایک سیکنڈ میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن پانی بخارات بن کر ہوا میں اڑجاتا ہے پھر اللہ ان کو بادل بناتا ہے۔
’’الم تر ان اللّٰہ یزجی سحابا‘‘…’’پھر میں ان کو ہانکتا ہوں انہیں چلاتا ہوں‘‘۔
’’انا صببنا الماء صبا‘‘…’’میں پانی کو انوکھے انداز سے اتارتا ہوں‘‘۔
1200 میٹر کی بلندی سے بارش ہوتی ہے۔1200 میٹر کی بلندی سے کسی چیز کو گرایا جائے تو بادل کے قطرے کے برابر ہو تو اس کے زمین پر آنے کی رفتار ہونی چاہئے598 کلومیٹر فی گھنٹہ… گولی کی رفتار ہے 1700 کلومیٹر فی گھنٹہ۔
میرا اللہ اس پانی کے قطرہ کے نیچے آنے سے پہلے اتنی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے کہ پانی ان سے ٹکراتے ٹکراتے جب آپ کے سر پر یا زمین پر گرتا ہے تو اس کی رفتار ٹوٹل8 کلومیٹر فی گھنٹہ رہ جاتی ہے۔
550 کلومیٹر کو اللہ بیچ میں ہی ختم کردیتا ہے اگر اسی رفتار سے پانی آتا تو گنجے تو گنجے بال والوں کی بھی خیر نہ ہوتی پھرہر وقت سڑکیں بناتے رہتے۔ جب بارش آتی سب گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے۔ قربان جائوںا س رب پر جس نے یہ کائنات ایک منظم نظام کے تحت بنائی جس میں خاص طور پر بنی آدم کا قدم قدم پر خیال رکھا گیا۔ثم شققنا الارض شقا
’’پھر میں نے زمین کو پھاڑا تیرے لئے۔ ضروت کا پانی اس میںرکھا بقیہ دریائوں میں ڈال دیا‘‘
زمین کا نظام بھی ایک عجیب انداز سے اللہ نے بنایا۔
اوپر کی زمین کو نرم پانی تاکہ پانی کنویں کی شکل میں جمع ہوسکے اور نیچے کی زمین کو سخت بنادیا تا کہ یہ پانی مزید نیچے نہ جاسکے۔پھر پانی میں بھی ایک نظام بنایا یہ میٹھے پانی کی رگ جاری ہے یہ کڑوے پانی کی رگ جاری ہے ان دونوں کے درمیان پردہ ڈال دیا کہ کہیں یہ دونوں مکس نہ ہوجائیں۔اگر اللہ اپنی قدرت اور نظام کو ختم کردے اس پر دے کر ختم کردے تو ساری زمین میں ایک قطرہ بھی میٹھے پانی کا نہ ملتا۔

پانی اللہ کی نشانی

جب انسان کو پانی کی ضرورت پڑتی ہے تو اللہ بادلوں کو بارش برسانے کے حکم دیتے ہیں پھر یہی پانی پہاڑوں میں بڑے بڑے کلیشئر کی صورت میں اسٹاک ہوجاتا ہے پھر جب اللہ کا امر ہوتا ہے تو یہی برف پگھل کر جھیلوں میں اور دریائوں کی طرف بہہ جاتی ہے۔
پھر دریا بھی اللہ کی عجیب قدرت ہیں اگر زمین کا جھکائو جنوب کی طرف نہ ہوتا تو ایک دریا بھی نہ چل سکتا۔ اللہ نے کلام میں اپنی نعمتوں کو پے درپے بتلایا میں نے تجھ پر یہ یہ نعمتیں برسائیں مگر تونے میرے ساتھ کیا کیا؟
’’قتل الانسان ما اکفرہ‘‘ اے میرے بندے میں تجھے کیا کہوں (جب آدمی کسی سے تنگ آجاتا ہے… سمجھا سمجھا کر تو اس سے کہتا ہے کہ میں تجھے کیا کہوں) ما اکفرہ۔تو تو بڑا ہی ناشکرا نکلا۔’’من ای شیئٍ خلقہ‘‘ تجھے یاد نہیں میں نے تجھے کہاں سے بنایا تھا۔
نہیں یاد۔اچھا! میں تمہیں بتاتا ہوں۔
’’من نطفۃ‘‘! میں نے تجھے نطفہ سے بنایا تھا۔ میں نے تمہیں گندے پانی سے پیدا کیا۔ یہ بادشاہ کہاں سے بنا من نطفہ… پھر بھی تو زمین پر اکڑ کر چلتا ہے۔

سکون کی تلاش

اللہ کی قسم جو گناہ کرتا ہے اس کی دل کے دنیا اجڑ گئی۔
جنید جمشید نے 1996ء میں کہا ایک پاکستانی نوجوان جن لڑکوں کا جن خوبصورتیوں کا خواب دیکھتا ہے وہ مجھے حقیقت میں اس دنیا میں حاصل ہے لیکن اس کے باوجود میرے سینے میں اندھیرا ہے … میرے اندر خلاء ہے … بے چینی ہے۔ مجھے لگتا ہے… میں وہ کشتی ہوں جس کا کوئی ساحل نہیں اس کی کیا وجہ ہے؟یہی بات مجھ سے سعید انور نے کہی مجھ سے کہنے لگا۔
میں یہ سمجھتا تھا کہ عزت اور دولت میری زندگی کا مقصد … مجھے صرف 22 سال کی عمر میں سب کچھ مل گیا مگر اندر کی خوشی نہ ملی اندر کی ویرانی اور اداسی باقی رہی… دنیا کی رونق… مگر دل کی تنہائی…ان سب کے باوجود بے قراری کیوں ہے بہار کیوں نہیں؟
پھر اس نیک صحبت کی برکت سے میرے دل میں بات اتر گئی کہ میری زندگی کا مقصد کوئی اور ہے … یہ نہیں جس کو میں سامنے رکھ کر چلا رہاتھا۔
میرے بھائیو! اللہ اعلان کرتا ہے ساری دنیا کی محفلوں میں جائو ہر گھاٹ کا پانی پیو … ہر دھن …… ہر ساز… ہر آواز سے دل کو بہلانے کی کوشش کرو … حسین سے حسین پری چہرے سے دوستی کرلو…… سونے چاندی کا ڈھیر لگادے…
دنیا بھر میں اپنا نام چمکالو…اگر ان چیزوں میں تمہیں چین مل جائے تو مجھے اپنا رب ہی نہ سمجھنا۔
الا: سنو … الا : سنو!’’الا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب‘‘
جب تک مجھے یاد نہیں کرو گے اس وقت تک چین کبھی نہ پائو گے۔
ایک بات سنو بہت سے لوگ کہتے ہیں ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں مگر ہمیں سکون نہیں تو بذکراللہ کا مطلب سمجھو۔ذکر عربی زبان میں یاد کو کہتے ہیں … یاد آرہی ہے یاد آرہا ہے۔ یاد زبان کا لفظ نہیں ہے یاد دل کا فعل ہے۔سکون کا وعدہ کس کے لئے ہے بذکراللہ۔

عشق الہٰی کی آگ

جب دل میں اللہ کی یاد و محبت سما جائے جب یہ دل اللہ کا عرش بنتا ہے تو اللہ کی محبت آتی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے پوچھا تیرے رب کا کوئی گھر ہے… تو اللہ نے فرمایا… تیرا رب کسی مکان میں نہیں اترتا۔ ’’لا یشتمل و علی الا زمان‘‘نہ تیرا رب کسی زمانے میں اترتا ہے۔ ایک جگہ ہے جہاں تیرا رب آجاتا ہے اور وہ میرے بندے کا پاک دل ہے پھر میں اس میں آجاتا ہوں۔اللہ کی قسم جس دل میں اللہ آجاتا ہے اس سے بڑا بادشاہ کوئی نہیں ہے۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
ایک تجھ سے کیا محبت ہوگئی ساری دنیا ہی سے نفرت ہوگئی
شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو ملک سنجر نے کہا تھا…نیلم دوز (افغانستان کا صوبہ) کا سارا صوبہ آپ کی خدمت میں ہدیہ اس کی ساری آمدنی آپ اٹھائیں اور اپنے مریدوں پر خرچ کریں تو انہوں نے ارشاد فرمایا:
جس دن سے میرے اللہ نے مجھے راتوں کو اٹھنے کی بادشاہی عطا کی ہے میں تیری ساری سلطنت کو ایک جوکے بدلے میںبھی لینے کوتیار نہیں ہوں۔
اس دل کو اللہ کا عرش بنائو پھر اس دل کی کیفیت دیکھنا پھر تمہیں صدارت والوں پرا فسوس ہوگا یہ کیسے بدنصیب لوگ ہیں… جنہیں اللہ کی یاد کی لذت ہی نصیب نہیں ۔ اس دل میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو مت آنے دو اگر یہاں کوئی اور آگیا تو یہ سب سے بڑا ظلم ہے۔۔۔
ہمارے ایک جاننے والے کہنے لگے کہ میں ہر سال گاڑی بدلتا ہوں اور سیر تفریح کے لئے بھی خوب جاتا ہوں مگر دل کی بے چینی دور نہیں ہوتی میں نے کہا یہ بے سکونی صرف اللہ کی یاد سے دور ہوگی اس سے دل لگانے سے دور ہوگی… اس کو دل میں اتارنے سے دور ہوگی۔

ساری رات روتے روتے گزرگئی

امام زین العابدین ساری رات روتے تھے زندگی اس میں گزاردی ان کے خادم نے کہا آپ ساری رات روتے کیوں ہیں۔ انہوں نے فرمایا یعقوب کا یوسف جدا ہوا تھا وہ بھی اللہ نے ملادیا تھا توانکو روتے روتے چالیس سال گزرگئے۔ارے میاں میں نے تو اپنے سارے گھر کو اپنی آنکھوں کے سامنے کٹتے دیکھا مجھے نیند کہاں سے آئے گی۔
ابن زیاد کے سامنے امام حسین کا کٹا ہوا سر لایا گیا تو وہ کہنے لگا میں نے اس سے حسین چہرہ آج تک نہیں دیکھا۔ پھر وہ حسد کے مارے اپنی چھڑی کو آپ کے منہ پر لگارہا تھااور اس چہرہ کو ہلارہا تھا تو ایک صحابی کھڑے ہوئے کہنے لگے بدبخت یہ تو کیا کررہا ہے میں نے ان ہونٹوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔
ایس پی کی غربت کا حال
میرے بھائیو! اللہ غفوررحیم ہے مگر ایسا تو وہ نہیں کہ وہ رات کے رونے والے اور رات کو ناچنے والے کو برابر کردے رات کے تہجد پڑھنے والے اور رات کو زنا کرنے والے کو وہ برابر کردے۔
اللہ غفور الرحیم ہے پھر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے ایک اپنے قلم کو بیچ کر فیصلہ لکھ رہا ہے ایک اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر فیصلہ لکھ رہا ہے۔اور اللہ ان دونوں کو ایک ترازو میں تول دے
میرا ایک ایس پی دوست کہنے لگا… 15 دن بعد مجھ پر زکوٰۃ لگتی ہے … 15 دن بعد میرے گھر میں ایک پیسہ نہیں ہوتا کہ میں بچوں کو روٹی کھلا سکوں تو سپاہی کیا کرے؟
ایک آدمی کی ساری زندگی اللہ کی نافرمانی میں گزرگئی وہ جب اللہ کو پکارتا ہے…… اللہ کہتا ہے لبیک لبیک لبیک…اے میرے بندے میں تو تیرے ہی انتظار میں تھا تو کبھی تو مجھے یاد کرے گا… 70 سال کا بوڑھا نافرمان گناہوں کا ڈھیر لے کر اٹھتا ہے کوئی پوچھنے والا پوچھتا ہے بابا کہاں جارہے ہو…؟… کہاکہ اللہ کو منانے جارہا ہوں۔ ایسے بوڑھے کے بارے میں جو گناہوں سے لدا ہوا ہو میرا اللہ کیا کہتا ہے… وہ کہتا ہے:من تقرب الی تلقیتہ من بعید۔۔۔
جو میری طرف توبہ کرکے آتا تو میں آگے بڑھ کر اسکا استقبال کرتا ہوں۔ زمین و آسمان کا بادشاہ کہہ رہا ہے۔’’یا ایتھا النفس المطمئنہ‘‘ میرے بندے آجا! آجا یہ آیت یہ تصویر پیش کرتی ہے کہ اللہ محبت کی بانہیں پھیلا کر کہتا ہے میرے نافرمان بندے تو مجھ سے ڈر نہیں تو آجا تو آتو سہی۔
میرے بھائیو! اللہ سے صلح کرو… اللہ کو اپنا بنائو… اللہ ہمارا مقصد زندگی ہے… آج تک جو دامن آلودہ کیا ہے…آج توبہ کرو…… کتے بھی اپنے مالک سے بے وفائی نہیں کرتے… کتے سے نیچے نہ کرو…
پروفیسر کے کتے کی کہانی
ایک پروفیسر اپنے کتے کے ساتھ یونیورسٹی جاتا … اس کا کتا اس کو چھوڑنے جاتا جب آنے کا وقت ہوتا تو کتا اس کو اسٹیشن لینے جاتا… دونوں ساتھ واپس آتے۔ ایک دن مالک کو یونیورسٹی میں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ مرگیا۔ کتے کو تو پتہ نہیں ہے کہ میرا مالک مرگیا وہ اپنے وقت پر آیا اور اپنی بانہیں پھیلا کر بیٹھا رہا شام تک مالک کا انتظار کرتا رہا… پھر بڑے اداس بوجھل قدموں سے واپس چل دیا…… اگلے دن وہ پھر آیا…… اگلے دن وہ پھر آیا نو برس وہ کتا روزانہ آتا رہا اور ہمیں چڑا کر اس دنیا سے چلا گیا…… وہیں اپنی قبر بنالی… اور ہمیں سمجھا گیاکہ:
’’تم تو مجھ کتے سے بھی گئے گزرے ہو۔‘‘نو برس صرف روٹی کھلانے والے مالک سے وفا نبھا گیا ۔ میں تو نطفہ تھا میرے رب نے انسان بنایا۔ہم جاہل تھے … ہندو تھے ہمیں اللہ نے مسلمان بنایا۔ 
آپ ا اور فکر امت
عبداللہ بن ابی کھلا منافق تھا وہ مرگیا اسکا کے بیٹا جوکہ پکا مسلمان تھے وہ کہنے لگا اے اللہ کے نبی مجھے معلوم ہے کہ میرے باپ نے آپ کو بڑی تکلیفیں دی ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے حکم دیں تو میں اس کی گردن اڑادوں۔ آپ کسی اور کو نہ کہیں آپ نے منع فرمادیا۔ جب مرگیا تو بیٹاکہنے لگا آپ میرے باپ کا جنازہ پڑھادیں فرمایا… جنازہ تو کیا کفن بھی دوں گا تو آپ نے اپنا کرتہ اتار کر دیدیا کہ اس کو کفن پہنادو کہ شاید بخشا جائے! جب جنازہ پڑھنے لگے تو عمرؓ سامنے آگئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کس کا جنازہ پڑھا رہے ہیں آپ کو پتہ نہیں کہ یہ پکا منافق ہے آپ نے فرمایا کہ پیچھے ہٹ جائو ابھی میرے اللہ نے مجھے روکا نہیں اگر روکے گا تو پھر نہیں پڑھائوں گا کہ شاید بخشا جائے جب قبر میں رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نکلوایا اور کہا کہ اسے باہر نکالو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا کہ شاید بخشا جائے پھر اللہ نے کہا… نہیں میرے محبوب آج کے بعد آپ نہیں پڑھ سکتے… ۷۰ مرتبہ بھی جنازہ پڑھیں تو معاف نہیں کروں گا… تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اے اللہ اگر آپ ۷۰ مرتبہ جنازہ پڑھنے پر معاف کردیں گے تومیں ۷۰مرتبہ بھی اسکا جنازہ پڑھوں گا۔۔۔۔
ایسا نبی جو امت سے اتنی محبت کرتا ہو آج ہم اسی کی سنتوں کے جنازہ نکالتے ہیں۔
ہم اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی بات کرتے ہیں ایک آدمی اپنے گھر بار بیوی بچوں کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی بات کو گھر گھر پہنچانے کے لئے نکلتا ہے۔ آپ اسے مسجد سے دھکے دے کر نکالتے ہو…… ان کے بستر اٹھا کر پھینکتے ہو…… ڈنڈے اور کلہاڑوں سے انہیں دہتکارتے ہو… …مارو یہ وہابی ہے کافر ہے…
کیا عاشق رسول ایسے ہوتے ہیں…؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ابوجہل جیسے کافر کو اپنے گھر بلاکر روٹی کھلاتے تھے۔ جس نبی کے ہم امتی ہیں اس نے ابولہب کی بھی منتیں کیں جس کے کفر اورخباثت کو اللہ بیان کررہا ہو قرآن میں میرے نبی نے تو اس کی بھی منتیں کیں… ہم تو مسلمان ہیں ہمیں کافر سے بھی گیا نہ سمجھو۔
نہ کالی کو دیکھیں نہ گوری کو دیکھیں پیا جس کو چاہے سھاگن وہی ہے
کربلا کا قصہ گاگا کر مت سنائو
کربلا ایک قصہ نہیں پیغام ہے۔ اللہ ہمارے خطیبوں اور ذاکروں کو ہدایت دے وہ کربلا کا قصہ گا گا کر سناتے ہیں ارے کوئی غم بھی گاگا کر سناتا ہے۔
میرا باپ مرا تھا تو مجھے ہنسنے والا بھی برا لگتا تھا چہ جائے کہ کوئی گانے والا آل رسول پر قیامت ٹوٹی اور ہم اس قیامت کو مزے لے لے کر شہرت اور پیسے کیلئے گاگا کر سنائیں… درد سے ہائے نکلتی ہے کہ راگ نکلتا ہے۔
مغربی تہذیب
میرے محترم بھائیو … دوستو! اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرلیتا ہے وہ کیسے انسانی تدبیروں کو توڑدیتا ہے… ہم جو چاہتے ہیں… اللہ کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی ؓ نے ارشاد فرمایا:
’’عرفت ربی لفصل عزائم‘‘ ارادوں کے ٹوٹ جانے سے میں نے اللہ کو پہچانا۔
اللہ جو فیصلہ جس کے لئے کردیتا ہے دنیا کی کوئی بھی طاقت اس فیصلے کو روک نہیں سکتی۔
وما یمسک اگر بند کردے۔
فلا مرسل لہ من بعدی … کوئی اس سے وہ در کھلوا نہیں سکتا۔
’’ان یمسسک اللّٰہ بضر فلا کاشف لہ الا ہو‘‘
تمہیں مصیبت میں پکڑلوں… تو کوئی ہے جو اللہ کے سوا اسے دور کرکے دکھادے۔
وان یردک بخیر اور اگر میں بھلائی کا ارادہ کرلوں فلا راد لفضلہ…توکوئی نہیں میرے فضل کو روکنے والا۔ زمین سے لے کر آسمان تک چاہت اللہ کی پوری ہوتی ہے۔۔۔۔
٭ وہ محبتیں تقسیم کرنے آئے تو بھیڑ اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پینے لگتے ہیں… وہ نفرتیں تقسیم کرنے آئے تو سگے بھائی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں… وہ حفاظت کرنے پر آئے تو مکڑی کے جالے سے حفاظت کرکے دکھائی…
یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال کر…… بچا کے دکھایا…
ابراہیم کو آگ کے ڈھیر میں……………  بچا کر دکھایا…
اسماعیل کو چھری کی تیز دھار کے نیچے ………   بچا کر دکھایا…
وہ دینے پر آتا ہے تو صحراء میں بھی کھانے کے…… ڈھیر لگا سکتا ہے۔
بنی اسرائیل کو 40 سال صحراء کی جگہ میں میٹھا اور نمگین کھلایا۔ کالے پہاڑ میں معصوم اسماعیل رو رہے ہیں ان کے لئے چشمہ کا ایسا پانی جاری کیا جو آج تک رواں دواں ہے۔ یہ پانی کہاں سے آتا ہے… یہ آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔
قوم عاد اور اللہ کا عذاب
قوم عاد نے اللہ کی نافرمانی کی اور نعرہ لگایا’’ من اشدمناقوۃ‘‘ ہم سے بھی کوئی طاقتور ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے قوم عاد کے ڈھانچہ عرب کے صحراء میں دریافت ہوئے ہیں۔۔۔۔۔
ایک دوست نے قوم عاد کے ڈھانچوں کی تصویر بھیجی۔
جن کے بارے میں اللہ کہتا ہے ’’التی لم یخلق مثلھا فی البلاد‘‘ ہم نے کوئی ان جیسا بنایا ہی نہیں۔40 ہاتھ لمبا ان کا قد تھا… بڑے بڑے سر ہوتے تھے نہ بیماری نہ ضعف ایک نوجوان درخت کو دو انگلیوں میںاکھاڑ کر پھینک دیتا تھا ایسی طاقتور قوم تھی 300 سال کی عمر تک ان کی جوانی چلتی رہتی تھی۔ اور جب اللہ کی نافرمانی کی تو اللہ نے ان کو پٹخ پٹخ کر ماردیا۔ پچھلے چند ہفتوں پہلے کھدائی میں ان کے ڈھانچے ملے میرے دوست نے ان کی تصویر بھیجی وہ ڈھانچہ پڑا ہوا ہے ایک آدمی اس کے سر کے قریب کھدائی کررہا ہے تو اس کا سر اس کے کان تک پہنچا ہوا ہے۔ ایک آدمی کے قد جتنا لمبا صرف سر ہے۔
میرے بھائیو! مغرب میں سورج غروب ہوتا ہے… مغربی تہذیب کے پیچھے چلنا اندھیروں میں گم ہوجانا ہے۔ یہ لوگ تو ہلاکت میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اگر اس حالت میں مرگئے تو کبھی جہنم سے نہیں نکل سکیں گے۔
میرے بھائیو! گالی گلوچ سے بچو… آج چارپیسے کسی کے پاس آتے ہیں تو وہ ملازموں کے لئے ایسی گالیاں نکالتا ہے کہ زمین آسمان تھر تھرا جاتے ہیں… کپکپا جاتے ہیں سن لو میری بات … بیت اللہ کو توڑ دینا چھوٹا گناہ اور کسی مسلمان کو ماں بہن کی گالی دینا بڑا گناہ ہے… بیت اللہ کو آگ لگادینا… چھوٹا گناہ… کسی مسلمان کو ذلیل کرنا بڑا گناہ ہے… یاد رکھو زبان کی کمائی ایک دن ضرور بھگتو گے۔اگر کسی کی اچھائی نہیں بیان کرسکتے تھے اس کے عیب بھی نہ اچھالو۔
عبداللہ بن ابی جیسا منافق ظالم …فاسق… جس نے عائشہ پر گندی تہمت لگائی ایک مہینہ تک دن رات ایسی مصیبت رہی کہ ہر آنکھ اشکبار تھی…… اور اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پریشان…… آخر اتنا دکھ اٹھا کر بھی آپ نے کہا اے لوگوں کیا ہوا کچھ لوگ مجھے … میرے گھر والوں کے بارے میں تنگ کررہے ہیں۔ یہاں پر بھی آپ نے عبداللہ بن ابی جیسے منافق کا نام نہ لیا۔
وہ نبی جو عبداللہ بن ابی پر بھی پردہ ڈالنا چاہتا ہو اس کی امت بھائی کو گالی دے۔ سر بازار رسوا کردیں اخباروں میں نام دیدیں۔جن کے بارے میں اللہ حکم دے رہا ہے ان کو کوڑے لگائو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قلف المومن یحمل عمل ماۃ سنۃ‘‘
کسی نیک مسلمان عورت پر تہمت لگانا ۱۰۰ سال کے نیک اعمال کو برباد کردیتا ہے۔۔۔
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی پی رہے تھے عبداللہ بن ابی کا بیٹا عبداللہ جوکہ مسلمان تھا آپ کے پاس آیا کہنے لگا یا رسول تھوڑا پانی بچادیں!… کیا کروگے…؟ باپ کو پلادوں گا شاید ایمان لے آئے۔ آپ نے پانی بچا کر دے دیا وہ جاکر کہنے لگا ابا! یہ پیو وہ کہنے لگا کیا ہے؟ تو عبداللہ نے کہا اللہ کے نبی کا جھوٹا ہے باپ کہنے گا کہ اس سے اچھا تو یہ تھا کہ تو اپنی ماں کا پیشاب لے آتا۔(استغفراللّٰہ) بیٹا ہوکر اسے اتنا غصہ آیا کہ واپس جاکر کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت ہے میں اس منافق کی گردن اڑادوںاسے قتل کردوں۔ آپ نے کہا ’’انہ اباک احسن الیک‘‘ وہ تیرا باپ ہے اس کی خدمت کر اس کے ساتھ حسن سلوک کر۔
اگر اس امت پر اللہ کے نبی کی دعا کی وجہ سے عذاب سے حفاظت نہ ہوتی تو یہ جو ناچنے والی کی جھنکار ہے اس کی نحوست اگر یہ دنیاجزا و سزا کا جہان ہوتا تو ایک عورت کے ناچنے پر اس کے گھنگرو کی جو جھنکار ہے وہ ہمالیہ پہاڑ میں بھی سوراخ کردیتی۔
میرے بھائیو! جس کو دیکھو حکومت کو گالیاں دیتا ہے۔
ارے کبھی اپنے آپ کو بھی تو دیکھو ان آنکھوں نے کتنا حرام دیکھا۔
 ان کانوں نے کتنا حرام سنا… اس ہاتھ نے کتنا غلط تولا…
 اس زبان نے کتنی گالیاں دیں… یہ قدم کتنی غلط محفلوں کو اٹھے۔
سود کون لے رہا ہے… بے پردہ کس کی بیٹی ہے … انشورنس کون کروارہا ہے۔ رشوت کون دے رہا ہے … یہ بازار میں ناپ تول کی کمی کرنے والے کون ہیں … اذان کی آواز سن کر نہ اٹھنے والے کون ہیں۔ دکان دار گاہک کو دھوکہ دے رہا ہے…

امام حسن و حسین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے امام حسین کو مسجد کے دروازہ پر دیکھا تو خطبہ کو چھوڑ کر منبر سے اٹھے اور مجمع کو چیر کر امام حسین تک پہنچے ان کو اٹھایا پھر ان کو اپنے ساتھ لے کر خطبہ دیا۔
ایک مرتبہ امام حسین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی گلیوں میں دیکھا تو کہنے لگے… پکڑو… اس کو پکڑو… اس کو پھر امام حسین کو پکڑ کر ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر فرمایا اے اللہ میں اس سے پیار کرتا ہوں تو بھی اس سے پیار کر۔
ایک مرتبہ امام حسن اور حسین بچپن میں کھیلتے کھیلتے پہاڑوں میں گم ہوگئے… پہاڑوں میں حضرت فاطمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیغام بھجوایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں سے بڑی محبت تھی… فرمایا کہ حسن اور حسین میری ٹہنیاں ہیں۔
حسن حسین کے گم ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ادھر ادھر بھگایا کہ ان کو تلاش کرو خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تلاش میں نکلے اور بیچ پہاڑ پر پہنچے تو دیکھا کہ دونوں بھائی ایک پہاڑ کے درمیان چمٹ کر بیٹھے ہوئے تھے۔اوپر ایک اژدھے نے سایہ کیا ہوا ہے جونہی اس اژدھے نے اللہ کے نبی کو دیکھا تو سرجھکا کر (سلام کرکے) چپکے سے واپس چلا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے پوچھا اللہ نے میرے بارے میں کہا کہ میں  رحمۃ للعالمین ہوں تو عالم میں تو آسمان بھی آگیا۔ تجھے میری رحمت میں سے کیا ملا…تو کہنے لگے مجھے ڈر لگارہتا تھا کہ کہیں اللہ مجھے دوزخ میں نہ ڈالدے لیکن آپ کے طفیل اللہ نے میری تعریف آپ کے قرآن میں کی اب مجھے بھی تسلی ہوگئی کہ اللہ مجھے پکڑ سے بچالے گا۔ جس کی رحمت جبرائیل تک پہنچ جائے جو سدرۃ المنتہیٰ پر ہیں پھر ہم کیوں محروم رہیں۔۔۔۔۔

منبر نبوی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں رونا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے ایک درخت کے تنے پر ٹیک لگایا کرتے تھے…… پھر مجمع کی زیادتی کی وجہ سے لوگوں نے کہا اس تنے کی وجہ سے آپ ہمیں نظر نہیں آتے لہٰذا آپ منبر بنائیں تاکہ آپ بلندی سے نظر آسکیں… آپ جمعہ کا خطبہ دینے کے لئے   کھجور کے تنے کے آگے سے گزرے… اور پھر منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو کھجور کے بے جان تنے نے چیخ ماری کہ ساری مسجد گونج اٹھی…
حنا حنین الاعشار۔ وہ ایسا چیخا جیسے حاملہ اونٹنی چیختی ہے تو آپ نے اس کو پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ہچکیاں لے رہا تھا آپ نیچے اترے اور اسکو سیدھے ہاتھ سے سینے سے لگایا اور کہا کہ تو میرے ساتھ ایک سودا کر میں تجھ سے جدا ہوجاتا ہوں اور اس کے بدلے میں جنت میں تجھے اللہ سے کہہ کر درخت بنواتا ہوں کیا تو اس پر راضی ہے؟ پھر وہ کھجور کا تنا چپ ہوا پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر میں اسے سینے سے نہ لگاتا تو قیامت تک میری جدائی پر یہ روتا رہتا۔ جس کی جدائی پر بے جان درخت روئے ہم نے خود اس کے طریقوں کو جدا کردیا۔ میرے بھائیو! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو اپنائو اگر یہ نہیں کرسکتے تو اتنا تو کرو کہ حرام سے بچو۔

بہنوں کو وراثت ضرور ادا کرو

 میرے بھائیو! آج ہماری قوم ایک بہت بڑے گناہ میں ملوث ہوچکی ہے۔ وہ بہنوں کا حصہ ادا کرنا ہے اور افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس گناہ کو گناہ نہیں سمجھتی اللہ نے یہ بہت بڑا حصہ رکھا ہے اوراس حصہ کو خاص طور پر قرآن میں بیان کیا ہے۔ اگر ہم نے اپنی بہنوں کا حق نہیں دیا تو ساری زندگی حرام ہمارے پیٹ میںپڑا رہے گا جس کی وجہ سے ساری عبادات منہ پر ماردی جائیں گی اور ہم کبھی جنت کی ہوا بھی نہ پاسکیں گے۔ اس بات کو رواج دو باپ مرگیا تو ماں کو بہن کو اس کا حصہ ادا کرو چاہے چار آنے ہیں یا ۴ لاکھ… ان کا حق ادا کرو یہ مت کہو کہ انہوں نے ہمیں معاف کردیا ہے… حلال کا لقمہ ہمیشہ بہار لاتا ہے۔حرام کا لقمہ ہمیشہ مصیبتیں اور بے سکونی لاتا ہے۔
باہر بڑے نیک نمازی اندر سے بدتمیز
میرے بھائیو! اپنے اخلاق اچھے کرو۔ آپ کا فرمان ’’خیرکم خیرکم لاھلہ‘‘ تم میں سے سب سے بہترین مسلمان وہ ہے جو بیوی سے اچھا سلوک کرے۔
اور یہاں سب سے زیادہ بدتمیزی بیوی کے ساتھ کی جاتی ہے۔ باہر بڑے خوش ہوکر ملیں گے بڑے اخلاق دکھائیں گے…… چائے کا بھی پوچھیں گے … پانی کا بھی پوچھیں گے … گھر میں جاکر بیوی کو کبھی گالی دیں گے… کبھی تھپڑ ماریں گے… کبھی دوستی کریں گے…… کبھی ذلیل کریں گے… کتنے لوگ ہیں جو ماں باپ سے بیویوں کو ملنے نہیں دیتے… کیا ظلم و ستم کی حد ہے۔ جن مائوں نے جنا ان سے ملنے نہیں دینا یہ کیسے اللہ کے نبی کو منہ دکھائیں گے۔؟

خاتم الانبیاء اوردوڑ کا مقابلہ

آپ نے فرمایا ’’واناخیرلاھلی‘‘ میں اپنی بیوی سے تم میں سے سب سے اچھا سلوک کرتا ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں ایک مرتبہ آپ سفر سے واپس آرہے تھے… آپ نے صحابہ سے کہا تم آگے چلے جائو جب وہ دور چلے گئے تو آپ نے عائشہ سے کہا مجھ سے دوڑ لگائو گی؟ کہا لگائوں گی… کائنات کا سردار دوڑ لگارہا ہے… کائنات جس کو جھک جھک کر سلام کرے… آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پتھر سے گزرتے وہ کہتا السلام علیکم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم…… ایسی بلند شان والا اپنی بیوی کے ساتھ دوڑ لگارہا ہے… حضرت عائشہ کہنے لگیں میں آگے نکل گئی…… آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے…… میں اس دوڑ میں جیت گئی۔
پھر کچھ عرصہ کے بعد ایک سفر سے آپ واپس آرہے تھے آپ نے پھر کہا لوگوں تم آگے چلے جائو۔ پھر آپ نے کہا عائشہ دوڑ لگائوگی… کہا لگائوں گی… اس دوسری دوڑ میں آپ آگے نکل گئے میں پیچھے رہ گئی۔ پھر آپ نے کہا یہ پچھلی دوڑ کا بدلہ ہوگا۔ یہ تھے اللہ کے نبی کے اخلاق… ہمارا کیا حال ہے۔ہمارا نبی تو خود لقمہ بناکر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہیں اور ارشاد فرمایا بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا صدقہ کا ثواب ہے۔
حضرت عائشہ جہاں سے پانی پیتی اور جہاں ان کے ہونٹ گلاس کو لگتے تھے ہمارے نبی خود پوچھتے عائشہ تم نے کہاں سے پیا تھا پھر اس نشان زدہ جگہ پر ہونٹ رکھ کر پانی پیتے تھے یہ تھے ہمارے نبی کے اخلاق۔
 حضرت میمونہ کے گھر میں آپ سوئے ہوئے تھے آپ حاجت سے فراغت کے لئے گھر سے نکلے… میمونہ کی آنکھ کھلی تو ان کے نفس نے ان کو دھوکہ دیا وہ دل میں کہنے لگیں مجھے چھوڑکر کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے۔ ان کوآیا غصہ انہوں نے اندر سے کنڈی لگادی اتنے میں آپ واپس تشریف لے آئے کہا دروازہ کھولو… میمونہ کائنات کے سردار سے کہنے لگیں نہیں کھولتی آپ کیوںمجھے چھوڑ کر دوسری بیوی کے پاس جاتے ہیں…؟ کہنے لگے اللہ کی بندی ’’اننی حاقن‘‘ مجھے پیشاب آیا ہوا تھا میں اس لئے باہر نکلا…کہنے لگیں نہیں نہیں مجھے پتہ ہے آپ مجھے چھوڑ کر دوسری بیوی کے پاس گئے تھے…؟ آپ نے فرمایا اللہ کی بندی کبھی نبی بھی خیانت کرسکتا ہے۔ میمونہ کو احساس ندامت ہوا تو انہوں نے دروازہ کھول دیا آپ مسکراتے ہوئے واپس آئے اور چوں چراں بھی نہیں کی اف بھی نہیں کیا اتنا تو کہہ دیتے یہ تو نے کیا بدتمیزی کی۔ ہمارے جیسا کوئی ہوتا تو ڈنڈا اٹھا کر اس کے سر میں دے مارتا۔ میرے بھائیو آج ہمارے گھروں میں زندگی کیوں برباد ہے۔کیوں ہم اخلاق کو دین کا حصہ نہیں سمجھتے۔

محبوب کی انوکھی سنت

ایک مرتبہ آپ نے حسن کو کمر پر بٹھایا آپ کے دونوں ہاتھ اور گھنٹے زمین سے لگے ہوئے ہیں سواری بن گئے… پورے کمرے کا چکر لگایا… حسن حسین کو اوپر بٹھاکر۔ ایک مرتبہ میں نے بھی اپنے چھوٹے بچے کو اسی طرح کمر پر بٹھا کر چکر لگایا کہ چلو بچہ بھی خوش محبوب کی سنت بھی زندہ ہوجاتی۔
حضرت زینب کی بیٹی تھی امامہ ان کو آپ نے اٹھایا ہوا ہے اور نفلی نماز بھی پڑھی جارہی ہے۔ جب آپ رکوع میں جاتے تو ان کو اتار دیتے سجدہ سے اٹھتے تو پھر امامہ کو اٹھاکر پھر نماز شروع کردیتے۔ ایسا بچوں سے پیار کرکے دکھایا۔
آپ مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے حسن حسین آئے ایک اوپر چڑھ گیا اور ایک سینے کے نیچے چلا گیا تو آپ نے اپنا سینہ اوپر کرکے ہاتھ کھول دیئے… تاکہ وہ اندر آرام سے بیٹھ سکیں… صحابہ دوڑے اتارنے کے لئے آپ نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا کہ مت کچھ کرو… آپ لوگ ساری دنیا سے ہنس کر ملتے ہو… بیوی کو دبا کر رکھتے ہو کہ ہم مرد ہیں…ہم چھوٹے کیوں بنیں۔

محبت سے دل فتح کرو

آپ کے اخلاق اتنے اعلیٰ کہ گھر کا کام خود کرتے تاکہ بیوی خوش ہو… کبھی کبھی آٹا خود گوندتے تھے… کپڑے خود دھوتے تھے… جوتا ٹوٹ گیا خود گھاٹ رہے ہیں… گھر میں جھاڑو دے رہے ہیں… کبھی میرے بھائیو! آپ نے آٹا گوندا کبھی گھر میں جھاڑو دی (اس بات سے اندازہ لگائیں ہم کتنے متکبر ہیں۔)اپنے اونٹ کو خود پانی پلارہے ہیں اس کا چارہ خود سر پر لے کر جارہے ہیں۔

پتھر دل انسان

 میرے بھائیو! کافروں کی وردی اتارو جو نبی ہمارے لئے اتنا رویا اتنا تڑپا آج ہمیں اس کا لباس اچھا نہیں لگتا… اسکا چہرہ اچھا نہیں لگتا… میرے بھائیو! میں آپ کو اس کے رونے کا واسطہ دیتا ہوں اس کے تڑپنے کا واسطہ دیتا ہوں…کہیںایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اس کا سامنا کرتے ہوئے شرم آئے۔
میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں اللہ کے نبی کے طریقوں کو اپنالو اسی میں کامیابی ہے… اس کی وردی میں آجائو چھوڑدو اس کے دشمنوں کا لباس جو تمہاری جان کے دشمن ہیں تمہارے ایمان کے دشمن ہیں تم انہی ظالموں کو بڑا بناکر چلتے ہو… تلمبے جیسے چھوٹے سے قصبہ میں بھی چار سال کے بچے کو پتلون اور ٹائی پہنا کر اسکول بھیجتے ہو… تمہیںکیا ہوگیا… تم سوچتے کیوں نہیں… تم کس کے پیچھے جارہے ہو… جو تمہارے لئے لٹ گیا… تمہارے لئے پٹ گیا… تمہارے لئے روتا روتا بے جان ہوکر نڈھال ہوا… فرشتے روئے اس کو روتا دیکھ کر… پہاڑ روئے اس کے دکھوں کو دیکھ کر… پتھر روئے اس کے دکھوں کو دیکھ کر… چشم تصور میں غور کرو جب آپ خون میں نہا کر… پتھر کھا کر بے ہوش ہوئے… سوچو! سوچو! یہ کون … یہ وہ ہے جس کی انگلی کا اشارہ سارے طائف کو زمین میں دھنسا سکتا ہے۔(مگر وہ امت کو اللہ کے قریب کرنے کے لئے پتھر بھی کھارہا ہے) دعائیں بھی دے رہا۔

سنت کی اہمیت

ٹائر سے ہوا نکل جائے گاڑی کھڑی ہوجاتی ہے۔ نبی کی سنت کا جنازہ نکال دو تو کیا کچھ بھی نہیں ہوتا؟دوائی کی ایک گولی کم کردو دوائی کا اثر کم ہوجاتا ہے۔
اس محبوب کے طریقوں پر آئو جوآپ کے لئے زندگی فنا کرگیا۔
ہم اگر دو وقت کھانا نہ کھائیں بھوک سے برا حال ہوجاتا ہے نیند تک نہیں آئیگی… وہ اللہ کا نبی بھوک کی شدت سے چار پائی پر تڑپ رہا ہے ایک دن گزرا دو دن گزرے ۳ دن گزرگئے…ایک لقمہ بھی منہ میں نہیں گیا۔ (کیاآپ کما نہیں سکتے تھے وجہ کیا تھی؟ کمائی کا وقت بھی میں امت کی تربیت اور تعلق مع اللہ پر اور تبلیغ پرخرچ کروں)
عائشہ ؓ رونے لگیں۔ اللہ کے نبی کپڑے میں چمڑے کا پیوند بھی لگا ہوا ہے۔ سنت کی قدر کرو کبھی میرا نبی بازار میں ننگے سر نہیں گیا پھر تم ننگے سر عید پڑھنے آئے ہو۔
آپ نہیں سمجھ سکتے ایک سنت میں اللہ نے کیا کیا طاقت رکھی ہے۔
عید کا دن ایسی مبارک گھڑی ہے جس میں اللہ کی رحمت برستی ہے توبہ قبول ہوتی ہے۔۔۔۔
 مگر شراب پینے والے کی بخشش نہیں ہوتی… ماں باپ کے نافرمان کی بخشش نہیں ہوتی…
رشتہ داروں سے توڑ پیدا کرنے والے کی بخشش کوئی نہیں ہے…
 دل میں کینہ اور بغض رکھنے والے کی بخشش کوئی نہیں ہے…
 بخشش کوئی نہیں کا مطلب یہ ہے جب تک اس گناہ میں مبتلا ہے اللہ معاف نہیں کرے گا۔

اللہ کا سننا اور دیکھنا

میرے بھائیو!توبہ کرو…اللہ کا سننا کامل ہے… دیکھنا بھی کامل ہے… اللہ کی نظر ساری… کائنات کو دیکھ رہی ہے مثال پڑھیئے! ’’بری ربیبا نملۃ سوداء سخرۃ السماء فی اللیلہ الظلمات‘‘
ایک کالا پتھر ہے… پھر اوپر رات کالی ہے پھر اوپر جنگل چھاچکا ہے… نیچے ایک کالی چیونٹی جارہی ہے… اللہ عرش پر بیٹھا اس چیونٹی کے چلنے کی لکیر کو بھی دیکھتا ہے… اللہ یہ نہیں کہہ رہا کہ میں چیونٹی کو دیکھتا ہوں وہ تو عرش پر بیٹھا کہہ رہا ہے کہ میں اس کی لکیر کو بھی دیکھتا ہوں رات کا اندھیرا… پہاڑ کا اندھیرا… کالے پتھر کا اندھیرا… جنگل کا اندھیرا… کالی چیونٹی کا اپنا اندھیرا بھی مجھ سے یہ لکیر نہیں چھپا سکتا۔

دین میں پابندی ہے سختی نہیں

میرے بھائیو! اللہ کی مانو … اللہ کی چاہت پر زندگی گزارو… اللہ بڑا ہی مہربان ہے۔ دین میں پابندی ہے… سختی کوئی نہیں… کوئی کام پابندی کے بغیر ہوا ہے کوئی بچہ پابندی کے بغیر ڈاکٹر بنا… کسی نے عزت پائی ہو پابندی کے بغیر… کبھی پالنے والا بھی سختی کرتا ہے۔ تربیت کے لئے تو ماں بھی ڈنڈا اٹھالیتی ہے۔ بچے کو ماں اسکول بھیجتی ہے… بچہ کہہ رہا ہے سختی ہورہی ہے ماں کہہ رہی ہے پابندی ہورہی ہے۔

عزت حاصل کرنے کا راستہ

حضرت علی کا قول ہے ’’من اراد عزا بلا عیشرہ‘‘…جو عزت چاہتا ہو خاندانی بھی نہ ہو…’’عنی بلا  مال‘‘ بغیرمال کے دولت چاہتا ہے…’’ھیبۃً بلا سلطان‘‘ بادشاہ نہیں ہے مگر بادشاہوں جیسے شان چاہتا ہے…’’وجاھۃ بلا اخوان‘‘ قوت چاہتا ہے بغیر لوگوں کے…یہ سب کیسے حاصل ہے…فلیخرج من المعصیۃ
اللہ کی نافرمانی چھوڑدے اورفرمانبرداری اختیار کرے عزتیں اس کی غلام بن جائیں گی…ہیبت اور سرداری اس کی باندی ہوں گی… دنیا اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگی… ہم بھی آپ سے یہی کہہ رہے ہیں اللہ سے ملنے اورجڑنے کا راستہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں ہے۔

چیونٹی ! اللہ کی نشانی

چیونٹی انڈے سے نکلتے ہی اپنا کام جانتی ہے… نہ وہ سنتی ہے… نہ وہ بولتی ہے… نہ اسے کوئی پڑھاتا ہے… نہ اسے کوئی سکھاتا ہے… نہ وہ دیکھتی ہے… اندرگھپ اندھیرا ہے… اور ۳۰ ہزار انڈے ہیں… ان میں سے بچے نکلے ہیں… اس میں سے کچھ پہرے دار ہیں… کچھ غلہ لانے والے ہیں… کچھ غلہ کی حفاظت کرنے والے ہیں… کچھ دروازے کی حفاظت کرنے والے ہیں… کچھ انڈوں پر پہرہ دینے والے ہیں… کچھ ملکہ کے ساتھ رہنے والے ہیں… کچھ نئے گھروں کی تلاش اورتعمیر کے لئے ہیں۔
یہ اتنے مشکل مشکل کام ہیں اور چیونٹی کی اوقات کیا ہے۔
جو پہرے دار چیونٹیاں ہوتی ہیں ان کے سر قدرتی بڑے ہوتے ہیں ان کو نہ کسی نے بتایا کہ تمہارے ذمہ پہرہ ہے چونکہ تمہارے سر بڑے ہیں… وہ اللہ کی دی ہوئی تعلیمات جس نے انہیںباندھ دیا ہے وہ خود بخود ان کے اندرموجود ہے وہ اپنے آپ جب تھوڑی طاقت پکڑتے ہیں تو دروازے پر پہرہ دینے لگ جاتے ہیں۔ ان کا پہرہ کیا ہوتا ہے۔ سر سے سر جوڑ کرکھڑے ہوجاتے ہیں… اندر سے چیونٹی باہر جارہی ہو تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
چیونٹی کے ماتھے پر دو انٹینا ہوتے ہیں وہ آکر اپنے دونوں انٹینا کے ذریعے سر دروازے پر دستک دیتی ہے۔ کراچی میں اگر ایک ارب خاندان چیونٹیوں کے آباد ہیں تو ہر چیونٹی کے دستک دینے کی آواز دوسری سے مختلف ہے ایک جیسی نہیں یہ اللہ کا نظام ہے۔ پہرے دار دستک کا انداز سمجھتے ہیں کہ یہ گھر کی چیونٹی ہے۔
پھروہ اپنا سر پیچھے ہٹالیتے ہیں اگر کوئی غلطی سے آجائے تو انہیں فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ یہ میرے گھر کا فرد نہیں ایک دم پیچھے ہٹ جاتے ہیں… پھروہ پیچھے پیچھے سائرن بجاتے ہیں حملہ کرو… شکار ہاتھ میں آگیا… تو پیچھے سے پیادہ فوج آگے آتی ہے… اگر وہ تھوڑے ہوں تو ایسے ہی کام بن جاتا ہے… اگر زیادہ ہیں تو پیچھے سے توپ خانہ بلایا جاتا ہے توپ خانہ کیا کرتا ہے وہ الٹا لیٹ کر اپنی دم سے فائر کرتا ہے… بم برساتا ہے… زہر کااسپرے کرتا ہے… ایسے ہی اللہ نے قرآن میں (نمل) چیونٹی کا ذکر نہیں کیا۔ اگر ان پر قابو پالیا جاتا ہے تو وہ غذا بن جاتے ہیں۔
آج کل یہ نعرہ خوب لگ رہا ہے کہ عورتوں کوآزادی دی جائے ظاہری بات ہے کہ جب عورت آزاد ہوگی تو مردوں کی خوب نظر خراب ہوگی۔
ادھر1972ئ؁ میں ایک آدمی مررہا ہے… ایڈمس متھ اس نے معاشیات کی آزادی پر کتاب لکھی کہ انسان کمانے میں آزادہے…چاہے عورت نچا کر کمائے… شراب بیچ کرکمائے … جوا کھیل کر کمائے… جس طرح کمانا ہو کمائے…اب یہ دو آزادیاں بازار میں آگئیں عورت آزاد ہے… مال کے کمانے میں ہم آزاد ہیں۔ (یہ انگریزوں کا نعرہ ہے)
اس آزادی کا آخری روپ کیا بنا کہ جو عورت صرف چار بچوں کو سنبھالنے پر تیار نہیں تھی وہ 400آدمیوں کی غلامی کررہی ہے اور ہر ایک کو مسکرامسکرا کر کہہ رہی ہے Water(پانی) Tea(چائے) یہ آزادی ہے یا وہ آزادی۔
اب 400 انسانوں کی ہوسناک نظریں اس پر پڑرہی ہیں… اور وہ کبھی ادھر بھاگ رہی ہے … کبھی ادھر بھاگ رہی ہے… کبھی کھانا لارہی ہے …کبھی چائے لارہی ہے… دوسری ایئر لائنوں میں شراب بھی دیتے ہیں پھر جن کو چڑھ جاتی ہے وہ خوب غل غپاڑہ مچاتے ہیں۔
انگلستان میں یہ سروے کیا گیا 1792ئ؁کا نظریہ ان کے ہاتھوں دم توڑ گیا 2000ئ؁ میں انگلستان میں سروے ہوا کہ آپ گھرلوٹنا چاہتی ہیں یا آزادی چاہتی ہیں تو 98 فیصد عورتوں نے کہا کہ وہ گھرلوٹنا چاہتی ہیں لیکن ہم کیا کریں نہ ہمیں خاوند میسر ہیں… نہ ماں باپ میسر ہیں۔
ہالینڈ میں ایک لڑکی گھر کی سیڑھی پر بیٹھی رو رہی تھی کسی نے پوچھا تم کیوں رو رہی ہو کہنے لگی میرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے وہ کہتا ہے پہلے کرایہ جمع کرائو پھرگھرمیں رہنا تو وہاں اس آزادی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت کو خاوندنہیں ملتا اور خاوند کو بیوی نہیں ملتی… وہاں سارے روپ ختم ہیں۔ صرف ایک شکل باقی ہے محبوب اور محبوبہ۔
جب تک محبوب کا دل نہیں بھرا اس کا نافع باقی ہے اور جب دل بھرجاتا ہے تو اسے استعمال شدہ اوراق کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔

واقعہ

 ہماری ایک جماعت ایڈمرا گئی تو نماز پڑھانے والے نوجوان امام نے سلام پھیرا تو چند لڑکیاں قریب آگئیں لڑکی نے پوچھا تم انگریزی جانتے ہو … کہا جانتا ہوں… کہا یہ کیا کیا ہے… یہ واقعہ مجھے اشفاق احمد نے سنایا جوکہ ڈرامہ نویس ہیں۔ اس نے کہا میں اور میری بیوی بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے میں نے کہا آئو ہم دیکھتے ہیں یہ لڑکیاں اس سے کیا کہتی ہیں۔ وہ انگریزی امام سے کہنے لگیں یہ تم نے کیا کیا ہے… نوجوان کہنے لگا ہم نے عبادت کی ہے… وہ کہنے لگیں آج تو اتوار نہیں ہے لڑکے نے کہا یہ ہم دن میں پانچ مرتبہ کرتے ہیں… لڑکی کہنے لگی یہ تو بہت زیادہ ہے
لڑکے نے اس پر واضح کیا اللہ کے احسانات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بہت تھوڑا ہے… اور یہی وہ عمل ہے جوسکون کی بہار لاتا ہے… یہ تو مشقت نہیں یہ تو راحت ہے… پھر لڑکی نے ہاتھ بڑھایا جانے کے لئے تو اس نوجوان نے کہا میں معافی چاہتا ہوں کہ میں یہ ہاتھ آپ کو نہیں لگا سکتا … اس نے کہا کیوں؟ اس نے کہا یہ میری بیوی کی امانت ہے… تو وہ لڑکی کھڑی کھڑی زمین پر گرگئی۔
اس کی چیخ نکلی اور وہ رونے لگی اور کہنے لگی کہ کتنی خوش قسمت ہے وہ بیوی جس کو ایسا خاوند ملا ۔ کاش یورپ کے مرد بھی ایسے ہوتے اور وہ سسکیاں لیتی ہوئی وہاں سے چل دی۔۔۔
اشفاق احمد اپنی بیوی سے کہنے لگا بانوآج وہ تبلیغ ہوئی ہے جو لاکھوں کتابوں سے بھی نہیں ہوسکتی… آج اس نے ایک عمل سے کرکے دکھادی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کا منظر

 ایک مرتبہ اماں عائشہ چرخہ کات رہی تھیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے سی رہے تھے… پسینہ کے قطرے آپ کی پیشانی پر جمع ہوگئے اماں عائشہ نے جب آپ کے حسین چہرے کی طرف دیکھا تو بس دیکھتی ہی رہ گئیں جیسے مبہوت ہوگئیں ہوں ہاتھ جیسا تھا ویسا ہی رہ گیا۔ آپ نے کہا اے عائشہ کیا دیکھ رہی ہو… کہنے لگیں آپ کے ماتھے پر پسینہ کو چمکتا دیکھ کر ایک شاعر کا شعر یاد آگیا ہے۔…{و اذا نظرت الی اسرت وجھہ}…
جب میں اس کے ماتھے پر نظر ڈالتا ہوں تو یوں چمکتا نظرآتا ہے جیسے آسمان پربجلیاں نظر آتی ہیں۔
اخلاق کا جنازہ مت نکالو
 پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی خوشیاں منائی جاسکتی ہیں اگر اخلاق ہیں… سونے چاندی میں تول کر بھی آپ مسکرا ہٹیں نہیں دے سکتے… کسی کو بد اخلاقی کے ساتھ۔ زبان کا وار ایسا ہے کہ سارے گھر کو آگ لگادیتا ہے۔ اس لئے بھائیو! اخلاق سیکھو… اور میں اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ پورے دین میں سب سے مشکل سبق اخلاق ہے۔آپ کا فرمان ہے ترازو میں سب سے وزنی چیز اچھے اخلاق ہیں تو نفس پر بھی سب سے وزنی یہ ہوں گے۔۔۔۔۔
شکلوں سے گھر نہیں آباد ہوتے
عمران ابن خطان ایک خارجی گزرا ہے… ایسا خطیب تھا کہ سارے عرب پر چھاگیا … ۱۵ منٹ میں آگ لگادیتا تھا… مگر یہ بیچارہ بڑا ہی بدصورت تھا اس کی بیوی بڑی ہی خوبصورت۔ ایک دن اس کی بیوی نے کہا ان شاء اللہ ہم دونوں جنتی ہیں اس نے کہا وہ کیسے؟ بیوی کہنے لگی میں تمہیں دیکھ دیکھ کر صبر کرتی رہتی ہوں تو مجھے دیکھ دیکھ کر شکر کرتا رہتا ہے۔ صبر پر بھی جنت شکر پر بھی جنت۔شکلوں سے گھر آباد نہیں ہوتے اچھے اخلاق سے گھر آباد ہوتے ہیں۔
میرے بھائیو! اپنے گھروں میں راحت چین اور سکون لانا چاہتے ہو تو اس زبان کو میٹھا کرلو …میٹھے بول میں جادو ہے… یہ وہ جادو ہے جو سر چڑھکر بولتا ہے…

تین طرح کے ولیمے

 آپ نے ہر طرح کے ولیمے کئے غریبی والا ولیمہ بھی کیا مسافری والا ولیمہ بھی کیا ۔
عائشہ ث کے ولیمہ میں صرف دودھ پلادیا گیا تھا۔ 
حضرت صفیہ ث کا ولیمہ اس سے بھی آسان کیا گیا تھا کہ اپنی اپنی روٹی لے کر میرے پاس آجائو۔
ہر کوئی اپنی اپنی روٹی لے کر آگیا… ولیمہ حضور کا روٹی دوسرے لے کر آرہے ہیں۔۔۔
حضرت زینب کا ولیمہ وسعت والا ولیمہ تھا تاکہ مالداروں کے لئے اجازت نکل آئے۔۔۔۔
سارے مدینہ کو روٹیاں کھلائی گئیں… 
کیونکہ حضرت زینب کا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پڑھا نہ ایجاب نہ قبول…
واقعہ: میں ایک دفعہ مولانا جمشید صاحب کی خدمت میں شہد لے کر گیا۔ یہ میرے استاد ہیں میں ان کے پاس رائیونڈ میں پڑھتا تھا… مجھ سے کہنے لگے کہاں سے لائے ہو میں نے کہا میرے اپنے باغ کا ہے مجھ سے کہنے لگے تمہارے باپ نے زمین میں سے اپنی بہنوں کو حصہ دیا ہے بات شہد کی ہے اور مجھ سے باپ کی وراثت کا پوچھ رہے ہیں۔ میں نے کہا وہ صرف دو ہی بھائی تھے بہنیںہی کوئی نہ تھیں۔ پھر کہنے لگے تمہارے دادا نے اپنی بہنوں کو حصہ دیا تھا میں نے کہا جیسا کہ اللہ نے مجھے مکلف بنایا ہے آپ بھی مجھے اتنا ہی مکلف سمجھیں… کہنے لگے اچھا اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے پھر کہنے لگے یہ بوتل بھی ہدیہ ہے یا صرف شہد ہدیہ ہے… جن کو آخرت کا خوف ہوتا ہے وہ ایسے تحقیق کرتے ہیں۔
خشک وادیوں کی طرح ہوگئے ہمارے علمی حلقے
علامہ زدمیری ؒ نے کہا تھا کہ اپنے اخلاق ایسے بنائو کہ مشک کے ٹیلے کی طرح مہکنے لگ جائو… اگر تیرے اخلاق بن گئے تو تو ایسے مہکے گا جیسے مشک کا ڈھیر مہکتا ہے پھر کہا ’’وصدق صدیقۃ ان صدقت صداقۃ‘‘ دوستوں سے دوستی کا حق ادا کرو۔
’’ فدفع عدوک بلتی فاذالتی فاز الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم‘‘ جو تجھ سے برا سلوک کرے عداوت پرآجائے اس کے ساتھ بہترین سلوک کر… پھر وہ تیرا دوست بن جائے گا۔
اخلاق سیکھنے کا پڑھنے کا آج رواج ہی ختم ہوگیا… آج ہماری مجلسیں خشک وادیاں ہیں اس میں بہار کے جھونکے نہیں اس میں صبا اور نسیم کی مہک نہیں ہے۔

پھول برسائو پتھر نہ برسائو

 ایک مرتبہ حضرت عائشہ ؓ اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم میں جھگڑا ہوا حضرت عائشہ ؓ مان ہی نہیں رہی تھیں تو آپؐ نے حضرت ابوبکر کو بلایا کہ ہماری صلح کردو ابوبکر تشریف لائے… صلح کروانے… دونوں کی بات سنی حضرت عائشہ کی آواز بلند ہوگئی تو ابوبکر نے رکھ کر تھپڑ مارا عائشہ ؓ  تھیں تو ابوبکر کی بیٹی مگر بھاگ کر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پناہ لے لی تو آپؐ نے کہا اے ابوبکر میں نے تمہیں صلح کے لئے بلایا ہے یا لڑنے کے لئے۔تمہیں کس نے کہا تھا اس کو مارنے کا۔
گھر اخلاق سے آباد ہوتے ہیں… فتوئوں سے گھر نہیں آباد ہوتے… اللہ کا نبی گھر میں جھاڑو دے رہا اپنے کپڑے خود دھورہا ہے… آٹا خود گوند رہے ہیں۔

لطیفہ

 ہمارے علاقے کا ایک زمیندار کا نکاح ہوا سیدھا سادھا دیہاتی …مولوی صاحب نے کہا فلاں بنت فلاں کو تیرے نکاح میںدیا تجھے قبول ہے…اس نے کہا آوڈ دے (آنے دو) اس کے بھائی نے اس کو پیچھے سے کہنی ماری تو کہنے لگا (جاوڈدے جانے دو) پھر بھائی نے کہنی ماری کیا کہہ رہا ہے تو کہنے لگا …جیسے سب کی صلاح ہووے …مولوی صاحب نے کہا سب کی صلاح سے کام نہیں بننا تیری صلاح سے کام بنے گا۔۔۔۔۔
اچھے اخلاق سب سے بڑا سرمایہ ہے اچھے اخلاق سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہے۔ اخلاق ہی گھر بناتے … زبان کا ایک لفظ بعض اوقات گھر بگاڑ دیتا ہے… اخلاق کو اپنائو گے تو بیویاں فدا ہوجائیں گی قربان ہوجائیں گی اور اگر اپنا مولوی پنا دکھائوگے تو ساری زندگی سلگتی آگ میں سلگتے رہوگے یہ آگ تمہیں بھی سلگاتی رہے گی اور تمہارے در و دیوار میں بھی آگ لگادے گی۔ مولانا جمشید صاحب فرمایا کرتے ہیں ایک چپ سوگرہیں۔
جالینوس کی بیوی بڑی غصہ والی تھی وہ کپڑے دھورہی تھی اور یہ نواب صاحب کتابیں پڑھ رہے تھے بیوی کو یہی غصہ تھا کہ یہ کتابیں ہی پڑھتا رہتا ہے… (وہ کتابوں کو اپنی سوکن سمجھتی تھی کہ یہ مجھ سے زیادہ کتابوں کو وقت کیوں دیتا ہے) بیوی اس کو کوستی رہی کوستی رہی… اور یہ چپ کرکے سنتا رہا… بیوی نے دیکھا کہ اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہورہا تو وہ جس ٹپ میںکپڑے دھورہی تھی وہ سارا اٹھا کر اس کے اوپر پھینک دیا۔ جالینوس ہنس کر کہنے لگا آج تو بادل گرجنے کے بعد برس بھی گیا۔ اتنی بات میں بات ختم کردی۔آپ بھی اپنے اخلاق ایسے کرو دونوں جہاں میں نفع اٹھائوگے۔

خاندانی منصوبہ بندی حقیقت یا فسانہ

آج یہ نعرہ خوب لگتا ہے کہ آبادی بڑھ رہی ہے مت آبادی بڑھائو میں مدرسہ چلاتا ہوں … مجھے پتہ ہے کہ میرے مدرسہ میں 300 لڑکوں کی گنجائش ہے اس کے بعد ہم کہتے ہیں ہمارے یہاں داخلہ بند ہے ہم انسان ہوکر گنجائش کو بھی جانتے ہیں اور تنگی کو بھی جانتے ہیں۔ کیا اللہ رب ہوکر نہیں جانتا کہ مجھے پاکستان میں کتنے پیدا کرنے ہیں… اس کا علم اتنا گھٹ گیا؟ کیا اس کے خزانے کم ہوگئے اگر دو بچے ہیں اگر ایک مرگیا تو کیا کروگے۔
میرا ایک دوست میرے ساتھ گورنمنٹ کالج میں پڑھا کرتا تھا… گرنگو گرنگو ہم اس کو کہا کرتے ہیں۔ ایک زبردست آدمی تھا مری سے دوڑتا تھا تو اسلام آباد تک پیدل چلا آتا تھا۔ مری سے اسلام آباد 45کلومیٹر کا سفرہے برگیڈیئر کا بیٹا تھا اس کی ماں بھی بڑے اونچے خاندان کی تھی… وہ شراب میں آوارگی میں پڑگیا گوروں سے اس کی دوستیاں ہوگئیں۔ اسلام آباد میں رہتا تھا۔ بڑے برے عجیب کام شروع کردیئے۔
ہماری جماعت اسلام آباد گئی تو ایک آدمی مجھ سے کہنے لگا کہ آپ کا کوئی دوست ہے۔ اس نے یہاں بڑا گند پھیلایا ہوا ہے…آپ سے اس کو ملانا ہے… مجھے اس کا نام بھی بھول گیا تھا … ملاقات کا وقت طے ہوا… اللہ کے حکم سے اجتماع میں بارش ہوگئی… ملاقات نہ ہوسکی۔
اجتماع میں خشک جگہ تلاش کرتے کرتے میں ایک جگہ سنتیں پڑھنے لگ گیا جب میں نے سلام پھیرا تو اسے ایک جگہ بیٹھے دیکھا ایک دم مجھے خیال آیا کہ یہی مصطفی ہے… اس نے مجھے غور سے دیکھا میں نے اسے غور سے دیکھا۔ لیکن نہ اس نے پہچانا نہ میں نے پہچانا۔ میں شرم کے مارے اس سے پوچھ نہ سکا اس کا حلیہ بھی کافی حد تک بدلا ہوا تھا۔ سونے کے بندے اس نے کانوں میں پہنے ہوئے تھے۔ عجیب سا لباس پہنا ہوا تھا …جب نماز ختم ہوگئی تو میں نے ایک ساتھی سے کہا یہ جو نوجوان بیٹھا ہوا ہے اس سے پوچھو تمہارا نام مصطفی ہے؟ اگر یہ کہے کہ میرا نام مصطفی ہے! تو اس سے کہنا کہ تمہیں طارق جمیل بلارہا ہے۔ تو وہ اس کے پاس گیا پھر مصطفی بھاگ کر میرے پاس آیا پھر مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے سنا ہے کہ تو تبلیغ کا بڑا بگ شاٹ بن گیا ہے۔میں نے کہا میں تو کچھ نہیں ہوں تو کہنے لگا میں نے تو تیرے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی پھر ہم اس سے ملتے رہے ملتے رہے۔۔۔۔
آخر اس نے چلہ لگایا چلہ لگانے کے بعد سارے گناہ چھوڑ دیئے… آوارگی… بدکاری… شراب بھی چھوڑدی پھر دوبارہ گوروں سے دوستی ہوئی تو شراب شروع کردی مگر زنا کے قریب نہ گیا جوئے کے قریب نہ گیا۔
ایک دن میری اس سے ملاقات ہوئی میں نے کہا احمد مصطفی یہ بھی چھوڑدو کہنے لگا کہو2000ئ؁ میں 3چلہ لگائوں گا پھر پکی توبہ کرلوں گا… حج بھی کروں گا … اماں کو بھی کرائوں گا … یہ 96ء کی بات ہے۔ میں نے کہا تیرے پاس کیاگارنٹی ہے کہ تو 2000ئ؁ تک جئے گا ؟
کہنے لگا نہیں مرتا ہوں۔پھر ۹۶ء کے ستمبر میں اس سے بات ہوئی تھی اور اکتوبر ۹۶ء کو پتہ چلا کہ احمد کا انتقال ہوگیا… مگر ایک بات وہ پانچ وقت کا پکا نمازی تھا وہ اس حال میں بھی نماز نہیں چھوڑتا تھا۔
 میں اس کے جنازہ میں گیا پھر اس کے گھر گیا تعزیت کے لئے اس کی والدہ کو پتہ چلا کہ میں باہر بیٹھا ہوں انہوں نے مجھے اندر بلوایا میں اندر چلاگیا پھر اس کی ماں بچوں کی طرح رونے لگی اور کہنے لگی : احمد تجھے بڑا یادکرتا تھا اور کہتا تھا میرا ایک ہی دوست ہے جس نے مجھے سچا راستہ دکھلایا۔ پھر کہنے لگی میں نے اس بریگیڈیئر کو بہت سمجھایا دو بچے ٹھیک نہیں اولاد مانگنی چاہئے۔ مگر وہ یہی کہتا کہ بچے دو ہی اچھے۔
پھر دونوں میاں بیوی کو ایسا صدمہ ہوا دونوں میاں بیوی ایک ہی رات میں سوئے ہوئے سوگئے… آج ان کا چار کینال کا خوبصورت محل ویران پڑا ہے۔
میرے بھائیو! یہ بڑی گہری چالیں ہیں ہماری نسل کو برباد کرنے کے لئے۔ آج اگر کسی عورت کے بچے زیادہ ہوں تو اس کو طعنہ ملتے ہیں کیسی بے وقوف عورت ہے آج آپ یورپ جائیں ۱۰۰ گاڑیاں گزرتے دیکھیں مگر بچہ شاید ہی کسی گاڑی میں بیٹھا نظر آئے گا۔ اللہ کا شکر ہے ہماری تو ڈکیوں میں بھی بچے نظر آتے ہیں۔
سچی توبہ کرلو
آج سچی توبہ کرو! آج اللہ روٹھا ہوا ہے اسے منانے کا کوئی راستہ نہیں… سوائے توبہ کے اللہ سے دوستی کئے بغیر ہمارے لئے کوئی راستہ نہیں۔اللہ کو ہم سے بے انتہا پیار ہے۔۔۔
اللہ نے ہمیں بنایا ہے… بنانے والے بنائی ہوئی چیز سے پیار کرتا ہے… یونس مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے تو ایک کمہار گڑھے بنارہا تھا … اللہ تعالیٰ نے فرمایا کمہار سے کہو ایک گڑھا توڑ دے …تو یونس نے اس سے کہا ایک گڑھا توڑدے… وہ کہنے لگا کیوں میں کیا توڑنے کے لئے بنارہا ہوں اپنے ہاتھ سے بنائو اور پھر توڑ دو… تو یونس نے گڑھے بنائے!پھر اللہ نے کہا توڑدو بونس نے توڑ دیئے… تو اللہ تعالیٰ نے کہا اے یونس تجھے دکھ ہو رہا ہے اپنی محنت کے ضائع ہونے پر اس طرح مجھے بھی اپنے بندوں کی ہلاکت پر دکھ ہوتا ہے۔
اللہ کو تو اپنے بندے سے مائوں سے زیادہ پیار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 70 مائوں سے زیادہ کا لفظ استعمال کیا ہے کہ اللہ کو 70 مائوں سے زیادہ بندوں سے محبت ہے تو 70 سے مراد70 نہیں ہے 70 سے مراد لامحدود پر پیار ہے اپنے بندوں سے… ماں سے کہو اماں وہ کہے گی جی… پھر کہو اماں وہ کہے گی جی… پھر کہو اماں وہ کہے گی ہوں پھر کہو اماں وہ کہے گی بکواس نہ کرمیرا سر نہ کھا… 
اور اپنے اللہ کو کہو یا اللہ تو جواب میں 70 مرتبہ کہے گا …لبیک لبیک یا عبدی… پھر کہہ یا اللہ وہ کہے گا …لبیک لبیک یا عبدی… پھرکہو یا اللہ وہ کہے گا …لبیک لبیک یا عبدی… ساری رات یا اللہ کہتے رہو وہ جواب دیتے ہوئے نہیں تھکے گا ہم پکار پکار کر تھک جائیں گے۔
اللہ کو پتہ ہے کہ میرے سارے بندے تو نیک ہوں گے نہیں… اسے پتہ ہے’’وقلیل من عبادی الشکور‘‘میرے تھوڑے ہی بندے ہیں جو حیا کرکے چلیں گے۔۔۔۔
اپنے نفس کے غلام طبیعت کے غلام… خواہش کے غلام… نظروں کے غلام… کانوں کے غلام… شہوت کے غلام…
…{وآخر الدعوٰنا عن الحمداللہ رب العالمین}…

1 comment:

Unknown said...

hello bro
how r u
good job

close