bismillah+ki+fazilat - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Monday, June 10, 2019

bismillah+ki+fazilat



Related image
Image result for bismillah ki fazilat


Image result for bismillah ki fazilat

Image result for bismillah ki fazilat

Related image

ہرکام کی ابتدا’’بسم ﷲ‘‘ سے کرنا

قال النبی اکل أمر ذی بال لایبدء ببسم اﷲفھوأبتر وفی روایۃلایبدأبحمداﷲ… حضور اکرم ا نے فرمایا کہ جس کام کی ابتداء ’’بسم اﷲ‘‘ سے نہ ہو(دوسری روایت میں ہے کہ’’ الحمدﷲ‘‘ سے)تووہ کام بے برکت ہوتاہے ۔
اسلام نے ہر کام کی ابتداء اﷲ تعالیٰ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت دے کر انسان کی پوری زندگی کا رخ اﷲ جل شانہ کی طرف اس طرح پھیر دیاہے کہ وہ قدم قدم پر اس حلف ِ وفاداری کی تجدید کرتارہے کہ میرا وجود اورمیرا کوئی بھی کام بغیر ا ﷲ تعالیٰ کی مشیت وارادے اور اس کی مد د کے نہیں ہوسکتا۔اسلام نے انسان کی ہر نقل وحرکت اور تمام معاشی اور دنیوی کاموں کو بھی ایک عبادت بنادیاہے ۔ عمل کتنا مختصر ہے کہ اس میں کوئی وقت خرچ ہو تاہے نہ محنت جبکہ فائدہ کتنا کیمیاوی اور بڑا ہے کہ دنیا بھی دین بن جائے ۔ ایک کافر بھی کھاتاہے اور ایک مسلمان بھی ، مگر مسلمان اپنے لقمے سے پہلے’’ بسم اﷲ‘‘ کہہ کر یہ اقرار کرتاہے کہ یہ لقمہ زمین سے پیداہونے سے لیکر تیار ہونے تک آسمان ،زمین ، ہوا اور ان گنت مخلوقات کی طاقتیںاور پھر لاکھوں انسانوں کی محنتیں صرف ہو کر تیار ہواہے ۔ اس کا حاصل کرنا میرے بس میں نہ تھا۔یہ محض اﷲ کی ذات کاکرشمہ ہے ۔جس نے ان تمام مراحل سے گزار کر یہ لقمہ یا گھونٹ مجھے عطا فرمایا۔مسلمان اور کافر دونوں سوتے اور جاگتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں ۔ہر مومن مسلمان سونے سے پہلے اور بیدار ہونے کے وقت اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر اﷲ کے ساتھ اپنے رابطے کی تجدید کرتاہے ۔ جس سے یہ تمام دنیاوی اور معاشی ضرورتیں ذکر اﷲ بن کر عبادت میں لکھی جاتی ہیں ۔ مسلمان کسی بھی سواری پر سوار ہوتے ہوئے ’’بسم اﷲ‘‘ کہہ کر گویا یہ شہادت دیتاہے کہ اس سواری کا پیداکرنا مہیا کرنا پھر اس کو میرے قبضہ میں دے دینا انسان کی قدرت سے باہر ہے ۔الغرض رب العزت کے بنائے ہوئے نظام ِمحکم ہی کاکام ہے کہ کہیں کی لکڑی ، کہیں کا لوہا، کہیں کی مختلف دھاتیں ، کہیں کے کاریگر، کہیں کے چلانے والے سب کے سب انسان کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔غور کیجئے کہ خداکی ان تمام پیداکردہ چیزوں کواستعمال میں لاکر بھی اللہ کانام نہ لیناکس قدر کم ظرفی اورناشکری کی بات ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہر کام کی ابتداء خدائے وحدہ لاشریک کے نام سے کی جائے ۔

بسم اﷲ ایک نسخہ ٔ  اکسیر 

یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ بسم اﷲ ایک نسخۂ اکسیر ہے، جس سے تانبے کا نہیں خاک کابھی سونا بن جاتاہے ۔’’ فللّٰہ الحمد علی دین الإسلام وتعلیماتہ‘‘لفظ ’’اﷲ‘‘اﷲ تعالیٰ کے ناموں میں سے سب سے بڑا اور سب سے جامع نام ہے اور بعض علماء نے اس کو اسم ِاعظم کہاہے اوریہ نام اﷲ کے سواکسی کا نہیں ہوسکتا۔ اس لئے اس لفظ کی تثنیہ اور جمع نہیں ۔ کیونکہ اﷲ واحدہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ نام ہے اس موجوداور حق ذات کا جو تمام صفات ِکمال کی جامع اور صفاتِ ربوبیت کے ساتھ متصف، یکتا اور بے مثال ہے ۔اس لئے بسم اﷲ کے معنی مذکورہ ترتیب سے یہ ہوئے کہ اﷲ کے نام کے ساتھ، اﷲ کے نام کی مدد سے اور اﷲ کے نام کی برکت سے شروع کرتاہوں (اب آپ کسی بھی کام کو بسم اﷲ سے شروع کریں تو ان تینوں معنوں میں سے کوئی ایک ازخود وہاں متعین ہوجائے گا ۔  

الرحمن الرحیم

یہ دونوں اﷲ تعالیٰ کی صفات ہیں۔رحمن کے معنی ہیں عام الرحمۃ یعنی جس کی رحمت عام ہو اور رحیم کے معنی ہیںتام الرحمۃیعنی جس کی رحمت کامل ہو ۔ لفظ رحمن اﷲ جل شانہ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے کہ کسی مخلوق کو رحمن کہنا جائز نہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے یہ صرف اﷲ کی صفت ہے تو جس طرح لفظ ’’اﷲ‘‘کا جمع یا تثنیہ نہیں آتا اسی طرح رحمن کا بھی تثنیہ یا جمع نہیں آتا۔ وہ ایک ہی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال ہی نہیں بخلاف لفظ رحیم کے کہ اس کے معنی میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا پایا جانا مخلوق میں ناممکن ہو ۔ کیونکہ یہ ہوسکتاہے کہ کوئی شخص کسی شخص سے پوری پوری طرح رحم کا معاملہ کرے ۔ اس لئے لفظ رحیم انسان کے لئے بھی بولاجاتاہے ۔قرآن مجید میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیاگیاہے{ بالمؤمنین رء وف الرحیم}آپ مؤمنین کیلئے مہربان اوررحیم ہیں ۔
فائدہ!اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آ ج کل ( عبدالرحمن ،سیف الرحمن ،انیس الرحمن ، حفیظ الرحمن وغیرہ) ناموں میں تخفیف کرکے رحمن کہتے ہیں اور اس شخص کو محض رحمن کے نام سے خطاب کرتے ہیں ۔ یہ ناجائز اور گناہ ہے ۔
اس تفصیل کے بعد اب حدیث بالا میں غور کیجئے آپ ا نے فرمایا کہ ہر وہ کام کہ جس کی ابتدا ء بسم اﷲ سے نہ ہو وہ بے برکت ہوتاہے اور جس کام کی ابتداء بسم اﷲ سے ہوتو اس میں برکت اور اﷲ کی طرف سے مدد ورحمت ہوتی ہے ۔

بسم اللہ سے متعلق ہدایات اورسنتیں

حضرت حسن ؓ سے کسی نے بسم اﷲ کے متعلق پوچھا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ یہ تو ہر تحریر کا سر نامہ ہے ۔)
خط نویسی کی اصل سنت تو یہی ہے کہ ہر خط کے شروع میں بسم اﷲ لکھی جائے۔ لیکن قرآن وسنت کے نصوص واشارات سے حضرات فقہاء نے یہ قاعدہ کلیہ لکھاہے کہ جس جگہ بسم اﷲ یا اﷲتعالیٰ کاکوئی نام لکھاجائے اگر اس کاغذ کے بے ادبی سے محفوظ رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں بلکہ وہ پڑھ کر یونہی ڈالدیاجاتاہے تو ایسے خطوط وغیرہ پربسم اﷲ یا اﷲتعالیٰ کا کوئی نام لکھنا جائز نہیں ۔ بلکہ ایسی صورت میں مناسب یہ ہے کہ ادائے سنت کے لئے فقط زبان سے بسم اﷲ پڑھ لے تحریر نہ کرے ۔
بعض لوگوں نے بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھنے کے بجائے ’’786‘‘کا ہندسہ اختیار کرلیاہے حالانکہ شریعت اسلامیہ میں اعداد کو کبھی الفاظ کا بدل تسلیم نہیں کیاگیا۔ اگر الفاظ اعدا د کا بدل ہیں تو کیا ہم اپنے معاملات میں ان اعدا د کو اس لحاظ سے استعمال کرسکتے ہیں ؟ مثلاً کوئی شخص کھانا کھانے سے پہلے بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے بجائے ’’786‘‘کہہ کر کھانا کھانا شروع کردے تو کیا یہ تسلیم کیاجائے گا کہ اس شخص نے سنت اداکرلی ہے ؟یا کوئی شخص اذان کے کلمات کے اعدا د نکال کر لاؤڈ اسپیکر پر زور زور سے وہ اعداد کہے تو کیا اسے اذان سمجھا جائے گا ؟ یقیناکوئی بھی ذی علم اور عقل مند آدمی اس منطق کو قبول نہیں کرسکتا تو ’’۷۸۶‘‘بھی بسم اﷲ کا بدل قابل قبول نہیں ہے ۔ سنت رسول ا اور صحابۂ کرام ؓ کے عمل سے اس کا کہیں بھی ثبوت نہیں ہے ۔ آپ ا نے مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو جو مکتوب مبارک تحریر فرمائے ان سب میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم ہی تحریر فرمائی ہے ۔
  یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک عدد ضروری نہیں کہ ایک ہی عبارت کو ظاہر کرے بلکہ ایک سے زائد عبارتوں کو مجموعی عدد کے بھی مساوی ہوسکتاہے ۔ مثلاً یہی عدد ’’786‘‘جسے بسم اﷲ الرحمن الرحیم کا بدل قرار دیاجاتاہے ۔ ہندؤں کے باطل معبود کرشن کے نام کا نعرہ ( ہرے کرشنا) کے عدد کا مجموعہ بھی ہے ۔عام طورپر کہاجاتاہے کہ ہم               بسم اﷲالرحمن الرحیم کی جگہ ’’ 786‘‘اس لئے لکھتے ہیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے پاک نام کی بے حرمتی نہ ہو۔ اگر کاغذ پر اﷲتعالیٰ کا نام لکھا ہواہوتو اسے ادب سے رکھنا چاہیے لیکن ’’ 786‘‘لکھاہوا ہو تو اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان حضرات کے خیال میں بھی ’’ 786‘‘بسم اﷲ الرحمن الرحیم کا بدل نہیں ہے ورنہ اگر عدد بھی بسم اﷲ ہی ہے تو اس کا احترام بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح بسم اﷲ کا اور یہ عجیب منطق ہے ’’۷۸۶‘‘کا عدد بسم اﷲ کا بدل صرف تحریر ہی میں سمجھا جاتاہے اور وہ بھی بلاادب واحترام ، لیکن زبان سے بولنے میں نہیں سمجھا جاتا ورنہ ہر نیک کام کرنے سے پہلے بسم اﷲکے بجائے ’’۷۸۶‘‘کیوں نہیں کہہ دیا جاتا ۔ لہٰذا مسلمانوں سے گذارش ہے کہ ’’ 786‘‘کا عدد استعمال کرنے کے بجائے بسم اﷲالرحمن الرحیم لکھاکریں اور اگر مختلف لکھنا ہوتو ( باسمہ تعالیٰ) لکھنا بھی جائز ہے ۔ تاکہ اﷲ تعالیٰ کے نام کی برکتوں اور رحمتوں سے فیض یاب ہوسکیں۔البتہ اگر بے ادبی کا احتمال ہوتو ادائے سنت کے لئے زبان سے بسم اﷲ پڑھ لیں تحریر میں نہ لائیں۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایاکہ گھر کا دروازہ بند کرو تو بسم اﷲ کہو ’’ چراغ گل کرو (بلب وغیرہ بند کرو) تو بسم اﷲ کہو ،برتن ڈھکو تو بسم اﷲکہو، کھانا کھانے ، پانی پینے ، وضو کرنے، سواری پر سوار ہونے اور اترنے کے وقت بسم اﷲ پڑھو۔
ا ﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان ہدایات وسنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

No comments:

close