thapar - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Tuesday, August 24, 2021

thapar

 

















طمانچہ برخسار

"میں حمدان احمد ہوں میرا تعلق پاکستان کے شہر جہلم سے ہے میں اس وقت انگلینڈ کے ایک فلاحی ادارے کے زیر نگیں ہوں میرے دونوں جبڑے ٹوٹ چکے ہیں میں کھانا چبا نہیں سکتا جب کچھ پسند کا کھانا کھانے کو منگواتا ہوں تو میرے وارڈ کی دیکھ بھال کرنے والا     غیر مسلم لڑکا وہ کھانا اپنے منہ سے چبا کر نکالنے کے بعد میرے منہ میں ڈالتا ہے تو میں اسے نگل لیتا ہوں "

میں بالکل صحت مند تھا مجھے میرے اعمال کی سزا ملی ہے ہوا کچھ یوں کی میرے گھر والوں نے میری شادی ایک ایسی لڑکی سے کروا دی جو چار بہنوں میں سب سے بڑی تھی اس کا نام صائمہ تھا صائمہ کا والد عمر کے پچھلے حصے میں تھا اکثر و بیشتر بیمار رہتا تھا صائمہ بلا شبہ میری اور میرے والدین کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہ کرتی مگر وہ ٹائم نکال کر اپنے والد کی خدمت سیوہ بھی کرنے چلی جاتی صائمہ کی یہ عادت میری بہنوں اور ماں کو بہت ناگوار گزرتی وہ اکثر مجھے اکسا کر صائمہ پر تشدد کرواتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔

مجھے اور میرے گھر والوں کو صائمہ کی مجبوریوں کا پتہ تھا ہم جانتے تھے صائمہ کبھی بھی سسرال کے روئیے کی میکے میں شکایت نہیں کرے گی اور یہ بھی یقین تھا کہ اگر بالفرض صائمہ شکایت کر بھی دے تو صائمہ کے میکے میں سے اس کی ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں سوائے بوڑھے والدین اور جوان بہنوں کے جو فقط بد دعائیں دینے کے علاؤہ کبھی کچھ نہیں کر سکتے صائمہ کی کمزوریاں ہمیں دلیر کرتی گئیں یہاں تک کہ میرے علاؤہ میری بہنو نے بھی صائمہ پر ہاتھ اٹھانا شروع کر دیا ۔۔۔۔

میری عادت تھی کہ جب بھی صائمہ کو مارتا تھا تو بالوں کی چٹیا سے پکڑ کر اس کا منہ اوپر اٹھا لیتا تھا اور منہ پر تھپڑ مارتا تھا صائمہ انتہائی گوری رنگت کی تھی میرے بھاری ہاتھ کا تھپڑ کھانے کی وجہ سے اس کے منہ پر نشان پڑ جاتے تو وہ دو تین دن باپ کے گھر نہ جاتی کہ کہیں والدین کو اس کے سسرال کے روئیے کی خبر نہ ہو جائے جو دو تین دن صائمہ والدین کے گھر جانے میں ناغہ کرتی وہ دن میں صائمہ پر ہاتھ نہ اٹھاتا مگر میری بہنیں چھوٹی موٹی بات بنا کر اس پر ہاتھ صاف کر لیتیں ۔۔۔۔

ایک بار صائمہ کو میں نے منہ پر کافی تھپڑ مارے ہوئے تھے وہ اپنے میکے جانے کے قابل نہیں تھی مگر اسے اچانک اطلاع ملی کہ اس کا والد زیادہ سیریس ہے اور صائمہ کو بلا رہا ہے لہذا صائمہ کو میکے جانا مجبوری بن گئی تو صائمہ میرے پاس اجازت مانگنے آئی میں نے صائمہ کو تنگ کرنے کی غرض سے دو سوٹ استری کروائے چائے بنوائی برتن دھلوائے کمرے کی صفائی کروائی اور پھر کہا میری ماں اور بہنوں سے اجازت مانگ کر چلی جاؤ میرے بعد صائمہ میری ماں اور بہنوں سے اجازت مانگنے گئی تو انہوں نے بھی اپنے ذاتی کاموں میں لگا لیا یہاں تک شام قریب ہو گئی تو صائمہ کو جانے کی اجازت مل گئی ۔۔۔۔

منہ پر بنے تشدد کے نشانات چھپانے کے لئیے صائمہ نے گھر میں بھی نقاب کئیے رکھا مگر نہ جانے کیسے صائمہ کی ماں کی نظر صائمہ کے منہ پر چھپے میرے تھپڑوں کے نشانات پر پڑ گئی تو انہوں نے صائمہ سے میرے متعلق پوچھا صائمہ نے خود کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ماں جی غلطی میری تھی میں نے ان کے بہت اہم پیپر گم کر دئیے تھے اس لئیے انہوں نے غصہ میں آ کر مجھے مارا صائمہ کی ماں نے صائمہ کو احتیاط سے اور سنبھال کر چیزیں رکھنے کی تاکید کی اور صائمہ کو دو دن خود چھوڑنے آئیں تو مجھ سے ملیں ۔۔۔۔

صائمہ کی ماں نے مجھے الگ لے جا کر اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے ایک حدیث شریف کا مفہوم بیان کیا جس میں بیوی کو منہ پر مارنے کی ممانعت آئی اور مجھ سے میرا حال احوال پوچھنے کے بعد صائمہ کی طرف سے معافی مانگنے کر واپس اپنے گھر کی طرف چل دیں گو کہ ان کے آنسو آنکھوں سے نہیں بہے تھے مگر ان کی مترنم آنکھیں ان کے دکھ اور تکلیف کو بیان کر رہی تھیں انہوں نے مجھے کوئی غلط بات نہیں کہی تھی کوئی جلی کٹی نہیں سنائی تھیں مگر پھر بھی مجھے ان کی باتیں بری لگیں تھیں مجھے صائمہ پر بے وجہ غصہ آ رہا تھا اور میں غصہ نکالنے کے لیے صائمہ سے غلطی ہونے کا انتظار کرنے لگا قدرت بھی صائمہ پر مہربان تھی صائمہ نے کوئی موقع نہ دیا تو ایک شام جب صائمہ کچن میں اکیلی چائے بنا رہی تھی تو میں نے زوردار آواز میں" ہووہاہ" کر کے صائمہ کو ڈرا دیا صائمہ کا دھیان میری طرف ہونے کی وجہ سے صائمہ کے ہاتھ میں موجود چینی کا ڈبہ زمین پر گر گیا گو کہ ڈبہ کا ڈھکن بند تھا چینی نیچے نہیں گری مگر مجھے بہانہ مل چکا تھا ۔۔۔۔

میں نے کچن میں ہی چائے بناتی صائمہ کو بالوں کی چٹیا سے پکڑ لیا اور منہ پر مارنا شروع کر دیا یہاں تک کہ جب آخری زوردار پنچ صائمہ کے منہ پر مارا تو صائمہ کا جبڑا ٹوٹ گیا صائمہ کچھ بھی کھانے پینے کے قابل نہ رہی صائمہ کی بگڑتی حالت دیکھ میری ماں صائمہ کو ڈاکٹر کے پاس لے گئی مگر واپسی پر صائمہ کی لاش واپس آئی اور پتا چلا روڈ کراس کرتے ہوئے صائمہ ایکسیڈنٹ میں مر گئی ہے مردہ حالت میں موجود صائمہ کے منہ کو لاکھ کوشش کے بعد بھی جبڑا ٹوٹا ہونے کی وجہ سے ہم سیدھا بند نہیں کر سکے تھے تو لوگوں کے سوال کرنے پر میری ماں نے بتایا کہ ایکسیڈنٹ میں پتہ نہیں کہاں کہاں چوٹ لگ گئی ہے بیچاری کی کتنی ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔

صائمہ کی ماں فقط پہلے دن صائمہ کے جنازے تک ہمارے گھر رکی جب صائمہ کا جنازہ قبرستان گیا تو صائمہ کے والدین اور تینوں بہنیں قبرستان گئیں اور اس کے بعد صائمہ کے والدین یا بہنیں کبھی ہمارے گھر نہیں آئیں ۔۔۔۔

صائمہ کی موت کے بعد میری ماں نے میری دوسری شادی ایک برٹش نیشنل لڑکی سے کر دی میں صائمہ پر کئیے گئے مظالم کو بھول کر انگلینڈ کی عیاشی کی زندگی میں کھو گیا مگر ایک دفعہ میں ایک کلب میں بیٹھا تھا کہ کسی بات پر ایک یہودی لڑکے سے میری تلخ کلامی ہو گئی بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی یہاں تک کہ یہودی لڑکے نے میرے منہ پر تھپڑوں اور مکوں کی بارش کر دی میں زمین پر گر گیا میرے دونوں جبڑے ٹوٹ گئیے مجھے ہسپتال پہنچایا گیا میرے جبڑوں کو پلیٹوں کی مدد سے جوڑا گیا مگر پھر بھی میں اس قابل نہ ہو سکا کہ اپنے منہ سے چبا کر کچھ کھا سکوں ۔۔۔

آج میرے جبڑوں کو ٹوٹے عرصہ گزر چکا ہے میری دوسری بیوی مجھ سے طلاق لے کر کہیں اور شادی کر چکی ہے میں آج بھی کسی کے منہ سے چبایا ہوا کھانا اپنے حلق میں اتارتا ہوں یا پھر ایسی خوراک کھاتا ہوں جس کو چبانا نہ پڑے میں چاہ کر بھی پاکستان نہیں جا سکتا مجھے یقین ہے میری شکل دیکھنے کے بعد میری ماں اور بہنوں سمیت ہر وہ انسان جو صائمہ پر ڈھائے گئے مظالم کو جانتا ہے وہ یہ ضرور کہے گا کہ مکافات عمل دنیا میں ہی ہو جاتا ہے آج اپنے دونوں جبڑوں سے ہاتھ دھونے کے بعد میں بھی لوگوں کو حدیث شریف کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بتاتا ہوں کہ

" منہ پر نہیں مارنا چاہئے "

مگر نہ جانے کیوں یہ حدیث سناتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے صائمہ کی مجبور ، لاچار بے بس ماں اپنی پرنم آنکھوں کے ساتھ آ جاتی ہے ۔۔۔



No comments:

close