allama-iqbal - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Wednesday, November 9, 2022

allama-iqbal


سیالکوٹ کے مایہ ناز سپوت

سیالکوٹ، پنجاب کی سرزمین، ہمیشہ سے مردم خیزخطہ رہا ہے۔ ماضی قدیم میں علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی، مولانا عبداللہ لبیب، مولانا ابوالحسن اورمولانا قل احمد جیسی افاضل روزگار ہستیاں سیالکوٹ ہی سے تعلق رکھتی ہیں۔ علمی دنیا کو معلوم ہے کہ برصغیر کے علما کی کتابیں مصر اور استنبول میں سب سے پہلے علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی کی چھپی تھیں، جن پر ان ملکوں کے فضلا نے حواشی بھی چڑھائے اور ان کتابوں کی ممالکِ اسلامیہ میں بڑی قدر ہوئی۔

علمائے سیالکوٹ میں مولانا قل احمد جوکہ علامہ عبدالحکیم کے پڑپوتے لگتے ہیں، انہیں وادی سندھ سے بڑا علمی تعلق رہا ہے۔ لاڑکانہ سندھ کے قریب ایک گاؤں ‘‘آریجا’’ کے نام سے اب بھی موجود ہے، اس گاؤں کے مخدوم محمد آریجا سندھی نے براہ راست مولانا قل احمد سیالکوٹی سے فیض حاصل کیا اور ان سے سید عاقل شاہ ہالائی نے اور عاقل شاہ سے مولانا عبدالحلیم کنڈوی نے فیض حاصل کیا۔ جس سے شمالی سندھ کی دو بڑی درس گاہیں ہمایوں سندھ اور شہدادکوٹ سندھ پیدا ہوئیں۔ پہلی درس گاہ کے مؤسس خلیفہ محمد یعقوب صاحب اور دوسری درس گاہ کے مؤسس مولانا نورمحمد تھے، پھر پورے سندھ میں ان کا علمی فیضان عام ہوگیا۔ ‘‘تلویح’’اور‘‘خیالی’’ پڑھانے کے لیے اس حلقے کے علما اپنے دروازوں پرجھنڈا گاڑتے تھے اور یہ ان کتابوں میں ان کے تبحر کی علامت تھی۔ معقول اور فلسفے میں میری سند صرف دو واسطوں سے مولانا فضل حق خیرآبادی سے ملتی ہے، باقی تحصیل سیالکوٹی میں میرے اساتذہ بھی اوپر کے سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ علامہ عبدالحکیم کے علم حدیث کا سلسلہ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کی وساطت سے سندھ کے محدثین سے جاملتا ہے، اس طرح یہ علمی تعلق بہت پہلے کا معلوم ہوتا ہے۔

یہ تو تھیں پرانے دور کی باتیں، ہمارے دور میں بھی اسی سیالکوٹ سے دو نابغہ روزگار ہستیاں، استاذ محترم مولانا عبیداللہؒ اور ڈاکٹر محمد اقبال مرحوم پیدا ہوئے جن کی شہرت بھی اکناف عالم میں پہنچ گئی۔ مولانا عبیداللہ صاحب نے اپنے اسلام کا اعلان سندھ میں کیا تھا اور سندھ ہی میں سکونت اختیار کی، اس وجہ سے سندھی کہلانے لگے، ورنہ اصل میں ان کا منشا اور مولد بھی ضلع سیالکوٹ تھا۔ مولانا مرحوم کی ساری زندگی سراپا انقلاب تھی، اس لیے آپ نے امام انقلاب کے لقب سے شہرت پائی۔

ڈاکٹر اقبال مرحوم کا صد سالہ جشن منایا جارہا ہے۔ بے شک وہ اس لائق ہیں کہ ان کی یاد تازہ رکھی جائے، کیوں کہ انہوں نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کو غلامی کے خلاف اپنے اشعار سے جگانے کی کوشش کی بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا چاہا اور فرمانے لگے:

شرق و غرب آزاد مانخچیر غیر

زندگانی بر مراد دیگر اں جادواں خشت ما سرمایہ تعمیر غیر

مرگ است نے خوابِ گراں

ان کے اشعار کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں نے اپنی خودی اور استقلال کو محسوس کیا اور ہر جگہ آزادی کی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ برصغیر میں مسلمان انتشار کاشکار تھے، ان کے سامنے کوئی واضح راستہ متعین نہ تھا، اقبال نے ان کو واضح راہ بتلائی، جس پر وہ چل پڑے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے آزادی حاصل کی۔ ایک مفکر شاعر کا اتناہی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی جادو بیانی سے قوم کو صحیح راہ کی نشان دہی کرے، آگے اس کے لیے قربانیاں اور قید و بند، دار و رسن کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنا، یہ دوسرے لوگوں کا کام ہوتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی شاعری کو گل و بلبل کی داستانوں سے ہٹا کر انسانیت کی فلاح اور مسلمانوں کو سائنسی دور کی برکات سے استفادہ کرنے پرابھارنے پر موڑ دیا۔ یہ ان کا بہت بڑا کمال اور کارنامہ ہے۔ آپ کا سرمایہ داری اور عیش پرستی کے خلاف نعرہ مستانہ بھی بالکل وقت کی پکار تھی، اس نے عوام کو شعور اور خودی کو جلابخشی۔

کئی سال ہوئے ایک مرتبہ ہم نے سندھ مسلم کالج کراچی میں استاذ محترم مولانا عبیداللہ سندھی کی یاد میں ایک برسی منائی جس کی صدارت تو سندھ کے مشہور صحافی اور دانشور علی محمد شاہ نے کی اور مہمان خصوصی مولانا عبدالمجید سالک نے تقریر فرمائی۔ لکھے پڑھے اور دانشور لوگوں کا بڑا اجتماع تھا۔ سالک مرحوم نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مولانا غلام رسول مہر ماضی قدیم میں فریضہ حج ادا کرنے گئے تھے، مکہ مکرمہ میں ان کی ملاقات علامہ عبیداللہ صاحب سندھی سے ہوئی، علامہ سندھی مرحوم نے اپنے پروگرام کی ایک کاپی مہر صاحب کو دی۔ مولانا نے یہ پروگرام استنبول میں بنایا تھا اور استنبول میں ہی انگریزی اور اردو ٹائپ میں چھپا تھا، جس کی خاصی بات یہ تھی کہ ہندوستان کو مختلف اقوام کا ملک بتایا گیا تھا اور جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ان کے خصوصی حقوق اور اگر چاہیں تو الگ ہوجانے کے حق کا ذکر تھا۔ مولانا غلام رسول مہر صاحب جب واپس ہوئے تو ڈاکٹر صاحب سےاس کا ذکر کیا اور وہ کاپی ان کو دے دی، ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اس پروگرام کو سراہا۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب کو الہ آباد میں یونیٹی کانفرنس کی صدارت کے لیے جانا تھا اور ڈاکٹر صاحب نے وہاں جو خطبہ دیا اس میں سیالکوٹ کے دوسرے عظیم انقلابی اور مفکر علامہ عبیداللہ سندھی کے پروگرام کی بعض اہم باتوں کا بھی ذکر کیا، مولانا اس وقت چوں کہ حکومت کے باغی تصور کیے جاتے تھے، اس لیے ان کا نام نہ لیا۔ اس تقریر کو مبارک ساغر کے اخبار سوشلسٹ کے سوا کسی دوسرے جریدے نے نہیں چھاپا۔ سوشلسٹ اخبار کی پرانا فائل آج بھی اس کے لیے شاہد ہے۔

بہرحال سیالکوٹ کے یہ دونوں اکابر بر صغیر کے بڑے زعما میں تھے، جن کی بدولت وطن آزاد ہوا اور مسلمانوں کی بہت بڑی حکومت وجود میں آگئی۔ "

مولانا ٖغلام مصطفیٰ قاسمی الولی۔ اکتوبر 1977ء
 

No comments:

close