khatme nabuwat - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Saturday, April 6, 2019

khatme nabuwat











 مقام نبوت اور اس کے آثار ومقاصد 



تمام انبیاء علیہم السلام کے علوم درحقیقت مستفاد ہیں ، خزانہ محمدی (ا) سے اصل نکتہ خیر حق تعالیٰ کی جانب سے جناب رسول اللہ ا ہیں اور آپ ا کے فیضان سے نبیاء علیہم السلام میں نبوتوں کے علوم آئے ۔ اسی لئے حدیث میں آپ ا فرماتے ہیں کہ ’’انا نبی الانبیاء ‘‘ اور انبیاء امتوں کے نبی ہیں اور میں نبیوں کا بھی نبی ہوں ، نبیوں کی طرف بھی معبوث کیا گیا ہوں ۔ 

از حضرت حکیم الاسلام حضرۃ مولاناقاری طیب قاسمی قدس اﷲسرہٗ


نحمدہ ونستعینہ ونتغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ الحمدﷲ باﷲ من شرور انفسنا ومن سیئات أعمالنا من یھدہ اﷲ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلاھادی لہ ونشھدان لاالہ الا اﷲ وحدہ لاشریک لہ ، ونشھدان سیدنا وسندنا ومولنا محمدًا عبدہ ورسولہ أرسلہ اﷲ الیٰ کافتہ للناس بشیراً ونذیراً وداعیاً الیہ باذنہ سراجاً منیراً 
امابعد :
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انما بعثت معلما وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعثت لاتمم مکارم الاخلاق اوکما قال علیہ الصلوۃ والسلام ۔
تمہید 
بزرگان محترم !
اس دنیا میں ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے جب اس کی ضد سامنے آتی ہے تو اصل چیز گویا واضح ہوجاتی ہے اس لئے حق تعالیٰ شافہ نے اس دنیا کو اضد اوپر قائم کیا ہے یہ عالم بھی عالم اضداد ہے جو بھی کمال اس دنیا میں لایا گیا اس ے مقابلے میں اس کمال کی ایک ضد ضرور رکھی گئی ہی تاکہ وہ کمال کھل جائے اور واضح ہوجائے ، خواہ وہ کمال ماوی ہو یا روحانہ ہو ضد سے خالی نہیں ہے اس دنیا میں اگر نور رکھا گیا ہے تو نور کے مقابلے میں ظلمت بھی رکھی گئی ہے تاکہ ظلمت کے تقابل سے نور کو لوگ اچھی طرح سمجھ سکیں۔ اگر دنیا میں چمکتا ہوا دن لایا گیا تو اس کے مقابلے میں ظلمانی رات بھی رکھی گئی ہے تاکہ دن کی خوبیاں رات کے تقابل سے واضح ہوجائیں ۔ اگر اسلام لایا گیا تو اس کے مقابلے میں کفر رکھا گیا تاکہ اس کی ٹکر سے اسلام کی خوبیاں اور قوتیں واضح ہوں ۔ اگر ایک طرف اخلاص لایا گیا تو اس کے مقابلے میں نفاق رکھا گیا تاکہ نفاق کے مقابلے سے اخلاص کے کمالات کھل جائیں ۔ اگر صدق رکھا گیا تو صدق کے مقابلے میں کذب اور جھوٹ بھی رکھا گیا تاکہ کذب کے مقابلے سے صدق کی خوبیاں واضح ہوتی رہیں۔ اسی طرح چلتے رہئے علم رکھا گیا تو اس کے مقابلے میں جہالت رکھی گئی ۔ اخلاق لائے گئے تو اس کے مقابلے میں بداخلاقی لائی ، تو ہر خوبی کے مقابلہ میں خرابی ضرور رکھی گئی ہے ۔ 

عالم اضداد میں اشیاء کے تقابل کی حکمت 

اور یہ اس لئے کہ جب خوبی اور خرابی کا مقابلہ ہو تو خوبی کی قوتیں کھل جائیں ۔ بغیر مقابلہ اور تقابل کے کسی کمال کی خوبی کھلتی نہیں ہے جب تک علم کو آپ جہالت سے ٹکرائیں گے نہیں اس وقت تک علم کے مخفی گوشے واضح نہیں ہوسکتے ۔ اگر علم کے مقابلے میں اعتراضات نہ کئے جائیں اور سوالات نہ کئے جائیں جو چہل پر مبنی ہوتے ہیں تو جواب سے جو علم کے کمالات کھلتے ہیں دو چُھپے کے چُھپے رہ جائیں گے ۔ اس لئے علم کو ٹکڑی جاتی ہے جہل سے کبھی اعتراضات کی صورت سے کبھی شبہات کی صورت سے ،کبھی الزامات کی صورت سے ، تاکہ جواب دینے والے جواب دیں ۔ تو اس کے مخفی گوشے کھل جائیں ۔ قرآن کریم میں بھی اسی لئے فرمایا گیا کہ ’’بل نقذف بالحق علی الباطل فید مغہ فاذا ھوذاھق ولکم الویل مماتصفون ‘‘ ہم حق کو باطل کے ساتھ کردیتے ہیں تاکہ باطل کے ٹکراؤ سے حق کی مخفی قوتیں نمایاں ہوں اور کھلتی رہیں تو اس دنیا میں اضداد بھی ہیں اور اضداد کا ٹکراؤ بھی ہے بغیر ٹکراؤ اور تصادم کے کمالات کی خوبیاں واضح نہیں ہوئیں ۔ 
مثلاً دو پہلوان ہیں اپنے اپنے فن کے ماہر ہیں لیکن ان میں کشتی اور ٹکرنہ ہو تو ٹکراؤ کے بعد جو مخفی قسم کے داؤپیچ کھلتے ہیں وہ چھپے کے چھپے رہ جائیں گے اس لئے پہلوان کو پہلوان سے ٹکرایا جاتا ہے تاکہ فن کی مخفی قوتیں واضح ہوں ۔ 
ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے اس واسطے اس عالم کو ظلمانی بنایا گیا نورانی بھی بنایا گیا تاکہ ظلمت اور نور کے تقابل سے نور کی اصلیت اور اس کی قوت کھلے ۔

اندھیروں میں آفتاب

سب سے زیادہ ظلمت اور اندھیری کا زمانہ اس دنیا میں وہ تھا کہ جس کے خاتمہ پر جناب رسول اللہ ا تشریف لائے ۔ آپ کی بعثت سے پہلے کا دور انتہائی ظلمت کا دور تھا ، انتہائی اندھیری کا دور تھا کوئی برائی ایسی نہیں تھی جو اس زمانہ جاہلیت میں موجود نہ ہو۔ جہالت کی برائیاں الگ ، بداخلاقی کی برئیاں الگ ، بدعملی کی برائیاں الگ ، بداعتقادی کی برائیاں الگ غرض جتنی برائیاں ہوسکتی ہیں وہ سب کی سب ایک زمانے میں جمع ہوگئی تھیں اور وہ زمانے ’’ظلمت بعضھا فوق بعض ‘‘ کا مصداق تھا ، کہ ظلمت درظلمت پے یہ پے اندھیریاں دنیا کے اندر چھائی ہوئی تھیں ۔ اسی لئے حدیث میں جناب رسول اللہ ا ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ان اﷲ نظر الی قلوب بنی آدم فمقت عربھم وجمھم ‘‘ اللہ نے انسانوں کے دلوں کی طرف نگاہ کی تو غضب آلود نگاہ سے دیکھا ۔ عرب کو بھی عجم کو بھی یعنی کہیں خیر باقی نہیں رہ گئی تھی ۔ ہر جگہ ظلمت ہی ظلمت تھی ۔ ہر جگہ برائی ہی برائی پھیلی ہوئی تھی ’’الاغیر اھل الکتب‘‘ سوائے چند اہل حق کے جو پہاڑوں میںاور گھاٹیوں میں پُرے ہوئے تھے بستیوں میں ان کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی ۔ تو کلیتہً دُنیا میں ایسا دور تو کبھی نہیں آیا کہ حق سرے سے باقی ہی نہ رہے ۔ یہ دنیا قائم ہی حق کے اوپر ہے .
باطل محض ہو تو دنیا اس دن تباہ کردی جائے گی تو ایسا کوئی دور نہیں آیا کہ حق سرے سے دنیا میں نہ رہے یہ ضرور ہوتا ہے کہ حق مخفی ہوگیا مغلوب ہوگیا کم ہوگیا ۔ لیکن رہا ۔ 
تو اس دور میں یہ کیفیت تھی فرمایا کہ الاغبر اھل الکتب چند اھل کتاب جو بیچارے گرد آلود اور بہت ہی پھٹے پرانے سال میں پہاڑوں اور گھاٹیوں میں چھپے ہوئے تھے اپنے دین کو بچائے ہوئے تھے جن کی وجہ سے دنیا قائم تھی اگر دنیا میں اتنا حق بھی نہ ہوتا تو یہ (دنیا کا ) خیمہ اُکھڑ جاتا حدیث شریف میں جناب نبی کریم ا نے فرمایا ۔
’’لا تقوم الساعتہ حتیٰ یقال فی الارفن اﷲاﷲ‘‘ قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا دنیا کے اندر موجود رہے گا جب ایک بھی نہ رہے گا اسی وقت قیامت قائم کردی جائیگی ۔ تو قیامت عالم کی موت کا نام ہے یعنی موت نہیں آئے گی جب تک حیات کی ذرا بھی رمق باقی رہے گی اور اس عالم کی حیات اللہ کا ذکر اور اس کا نام ہے ۔ تو ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود رہے گا قیامت نہیں آئیگی جب ایک بھی نہیں رہے گا وہی وقت عالم کی موت کا ہوگا ۔ اس لئے آدم علیہ السلام سے لیکر قیام قیامت تک کوئی دور ایسا نہیں آیا اور نہ آئے گا جس میں حق کا نام ونشان باقی نہ رہے بس جب دنیا کو ختم کرنا ہوگا تب حق کا نشان مٹ جائے گا باطل ہی باطل رہ جائے گا ۔
تو اس زمانہ جاہلیت میں جب باطل انتہا کو پہنچ گیا تھا ۔ جب ظلمتیں انتہا کو پہنچ گئی تھیں تب بھی گنے چنے اہل کتاب اہل حق موجود تھے جو پہاڑوں میں پڑے ہوئے تھے ۔بستیوں سے الگ چھپے ہوئے تھے وہ اللہ کا نام لیتے تھے جس کی وجہ سے یہ ( دنیا کا ) خیمہ کھڑا تھا عام حالت ظلمت کی تھی تو اللہ نے نبی آدم کے پر نگاہ کی ف،قت عربھم وعجمھم غضبآلود نگاہ سے دیکھا عرب کو بھی ، عجم کو بھی قلوب کے اندر خیر باقی نہیں تھی ظلمت ہی ظلمت تھی ۔ ’’ان ظلمت بعضھم افوق بعض ‘‘میں غیرت خداوندی جوش میں آئی کہ اس ظلمت میں چاندنا کیا جائے تو فاران کی چوٹیوں سے جناب رسول اللہ ا اس شان سے تشریف لائے کہ آپ ا کے ایک ہاتھ میں سورج تھا ایک ہاتھ میں چاند ۔ دور دشن چیزیں آپ ا کے ساتھ تھیں ۔ ایک چمکتا ہوا سورج ایک چمکتا ہوا چاند ، کیونکہ اس ظلمت کو دور کرنے کے لئے دو قسم کی روشنیوں کی ضرورت تھی ۔ ذبل روشنی کی ضرورت تھی۔ آپ ا اس شان سے تشریف لائے کہ دائیں ہاتھ میں سورج تھا ، بائیں ہاتھ میں چاند آپ سمجھے ہوں گے کہ وہ یہ سورج ہوگا جو آسمان پر چمکتا ہے یا یہ چاند ہوگا جو رات کو چمکتا ہے ۔
یہ چاند سورج ان کی کوئی حیثیت اور وقعت اللہ کے رسول ا کے سامنے نہ تھی حضور ا کی نور انیت کے سامنے ان انوار کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔

آپ کا اعلان تبلیغ اور عرب قوم کا طرزعمل 

انکی توکل حیثیت یہ تھی کہ نبی کریم ا نے جب راہ حق کی دعوت دی اور پورا عرب دشن ہوگیا تو قریش نے مل کر ابو طالب کو واسطہ بنایا اور کہا خدا کیلئے اپنے بھتیجے سے کہدو کہ وہ جو چاہے ہم سے لے مگر ہمارے بتوں کی برائی کا نام نہ لے ۔ ہمارے دین کی تضیحک نہ کرے ۔ وہ جو چاہے ہم سے قبول کرلے ، تم اپنے بھتیجے کو سمجھا دو ورنہ پھر اس کے بعد ہمارے اوپر ذمہ داری نہیں رہے گی ، تو ابو طالب نبی کریم ا کی خدمت میں آئے اور کہا کہ اے میرے بھتیجے !قوم نے مجھے وکیل بنا کے تیرے پاس بھیجا ہے کہ میں قوم کا پیغام تیرے پاس پہنچادوں اور وہ یہ کہ تونے جو دعویٰ کیا ہے اور دعوت دینا شروع کی ہے اگر تیرا مقصد یہ ہے کہ کچھ پیسے روپے جمع ہوں ، سونا چاندی جمع ہو تو تیری قمو اس کے لئے تیار ہے کہ پورے ٹک کا سونا جمع کر کے تیرے قدموں میں ڈالدیا جائے اگر حسن وجمال مقصود ہے تو قریش کی بیٹیاں حاضر ہیں جس کو تا چاہے قبول کرلے اگر سرداری مطلوب ہے تو آج سے ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ تجھے پورے عرب کا بادشاہ تسلیم کرلیں اور ہم تمہارے سامنے رعیت کی حیثیت سے آجائیں جو تمہارا مقصد ہو کرلو۔ مگر خدا کے لئے ہمارے معبودوں کو جو ہم نے بنا رکھے ہیں ۔ ان کو برا بھلامت کہو اور ہمارے باقی دین کے بارے میں کوئی کلمہ برا استعمال مت کرو ۔ 
آپ انے فرمایا، اے چچا! کہہ چُکے جو تم نے کہنا تھا ؟ قوم کا پیغام تم سنا چُکے ؟ ابو طالب نے کہا، ہاں سُنا چکا فرمایا کہ میری طرف سے تم کہدو کہ میری قوم ، تو اگر ایک ہاتھ میں سورج لاکر رکھدے اور ایک ہاتھ میں چاند لاکر رکھ دے تب بھی میں یہ ’’کلمہ کہنا‘‘ نہیں چھوڑوں گا جو میں زبان سے نکال چکا ہوں ۔ یا اپنی جان ختم کردوں گا یا دنیا میں اس کلمہ کو پھیلاکر رہوں گا ۔ تو اس چاند سورج کی تو آپ ا کے سامنے کل یہ حقیقت تھی ۔ آپ ا نے فرمایا کہ دونوں بھی آجائیں تو میں اپنا کلمہ چھوڑ نے والا نہیں ہوں ۔ یعنی اس کلمہ کے مقابلے میں جس کو میں لے کر کھڑا ہوا ہوں جو ’’توحیدورسالت کا بیان ہے ‘‘اس چاند سورج کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو حضور  ا دنیا میں جو تشریف لائے تو ہاتھ میں یہ چاند سورج نہیں تھا ، اس چاند سورج کی تو کوئی وقعت اور حقیقت ہی نہیں ہے میری مُراد سورج اور چاند سے کیا ہے آپ اس شان سے آئے کہ آپ ا کے دائیں ہاتھ میں اللہ کی چمکتی ہوئی کتاب موجود تھی جو سورج سے زیادہ روشن تھی اور بائیں جانب ’’قلب محمدی‘‘ تھا جس میں اخلاق کی نورانیت بھری ہوئی تھی تو ایک طرف چاند کہ جس کی روشنی علم خداوندی کی تھی قرآن کریم اس سے لبریز ہے ۔ اور ایک طرف اخلاق محمد کی روشنی تھی جو قلب نبوت میں بھرے ہوتے تھے ، تو دوچیزیں آپ لے کر آئے تھے ایک چمکتا ہوا علم اور ایک چمکتے ہوئے اخلاق ایک روشن کتاب اور ایک روشن دل ۔ 

بُنیاد نبوت 

اور یہ اس لئے کہ بہرحال حکماء وفلاسفہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ چاند میں خود اپنی روشنی نہیں ہوتی ۔ بلکہ سورج اس کے مقابلہ میں آتا ہے سورج ہی کی روشنی اس میں سے ہو کر گزرتی ہے تو وہ ٹھنڈی بن جاتی ہے وہی سورج کی تیز روشنی تھی ، جب چاند میں آتی ہے تو وطن کی اور موقع کی خصوصیات کی وجہ سے اسمیں ٹھنڈی پیدا ہوجاتی ہے آگ کو اگر کسی خاص وطن سے اور موقع سے گزار جائے تو وہ برودت کے آثار پیدا کرتی ہے یہی آپ کی بجلی جو پاور ہاؤس سے چلتی ہے اگر آپ اس کو کسی مشین کے اندر لگادیں تو وہ آگ ہے (ہیڑ وغیرہ) اس میں تیزری ہے گرمی اور حدت اسمیں ہے ہاتھ لگادیں تو آپ کے ہاتھ کو پکڑے گی ، جلادے گی لیکن یہی بجلی اگر اس کو ریفریجریڑ کے ذریعہ سے نمایاں کریں تو وہی بجلی ٹھنڈی ہوجاتی ہے پھل رکھدو تو ٹھنڈے ہو ں ے ، کھانا رکھدو تو ٹھنڈا ہوگا ۔ یہ وہی آگ ہے جو پادر ہاؤس سے چلتی ہے لیکن مقام اور موسم کی خصوصیت کی وجہ سے اسمیں ٹھنڈک کے آثار پیدا ہوگئے ، تو ایک چیز ایک جگہ آگ ہوتی ہے جو قابل تحمل نہیں ہوتی اور وہی چیز دوسرے مقام میں لاکے رکھی جائے تو قابل برداشت ہوجاتی ہے تو اللہ کی چمکتی ہوئی کتاب ،خداوندی علم اتنا بالا اور اُونچا تھا کہ مخلوق اس کا تحمل نہیں کرسکتی تھی جب اسی علم الٰہی کو قلب نبوت سے گزار ا گیا اسمیں اعتدال کی روشنی پیدا ہوگئی ۔ اس میں ٹھنڈک اور برودت آئی جو قابل قبول بن گئی کہ دنیا اس سے استفادہ کرسکے تو آپ ادنیا میں اس شان سے تشریف لائے کہ آپ کے ایک ہاتھ میں سورج تھا یعنی اللہ کی روشن کتاب اور ایک ہاتھ میں چاند تھا یعنی اخلاق نبوت اسمیں بھرے ہوئے تھے اور اسمیں روشنی تھی تو ایک علم اور ایک اخلاق ، یہ چیزیں آپ لے کر آئے آپ دیکھیں اور غور کریں کہ نبوت کی بنیادہ دو چیزوں کے اوپر ہے ایک علمی کمال ، ایک عملی کمال یہی دونوعین ہیں جو تمام کائنات کی سعادت ہیں ۔ 
علم کامل اور عمل کامل ، اگر علم نہ ہو ، روشنی نہیں ہوسکتی ، راستہ نظر نہیں آسکتا ،منزل مقصود سامنے نہیں آسکتی اور اگر اخلاق نہ ہوں تو راستہ کے اوپر چلنے کی قوت پیدا نہیں ہوسکتی ، اخلاق قوت مہیا کرتے ہیں ، علم راستہ نمایاں کرتا ہے تو عالم کا علم اس کو چلا نہیں سکتا ، صرف راستہ دکھلانا علم کا کام ہے چلتا آدمی قوت سے ہے دونوں چیزیں جمع ہوجاتی ہیں تب منزل مقصود پر آدمی پہنچتا ہے ۔ تو اس لئے علم کی بھی ضرورت پڑتی ہے عمل کی بھی تو نبوت کی بنیاد دو چیزیں ہیں ۔ ایک علمی کمال ، ایک اخلاقی کمال ۔ 

دنیوی سعادت کی بنیاد کمال علم وعمل ہے 

اسی واسطے قرآن کریم میں کمال علم اور کمال عمل کے لحاظ سے چار نوعین بیان کی گئی ہیں ۔ ایک آیت کریمہ میں فرمایا گیا ’’ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیھم من النبیین والصدیقین والشھدآء والصالحین وحسن اولئک رفیقاً ‘‘ جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ کن لوگوں کے ساتھ ہوگا ؟ وہ نبیوں کے ، صدیقوں کے ، شہداء کے اور صاکین کیساتھ ہوگا ۔ تو چار قسمیں بیان کی گئی ہیں ایک بنی ، ایک صدیق، ایک شہید ، ایک صالح غور کیا جائے تو یہ چاروں قسمیں علم اور عمل کے لحاظ سے دو قسمیں ہیں ۔ دوقسمیں یعنی بنی اور صدیق ۔ یہ علم کی بارگاہ کی دو قسمیں ہیں ۔ اور شہید اور صالح یہ عمل کی باردگاہ کی دو قسمیں ہیں یعنی علم اولا نبی کے قلب پر آتا ہے کہ نبی علم کے لحاظ سے اصل ہوتا ہے ۔ 
اس کی تصدیق کرنیوالے کو صدیق کہتے ہیں تو صدیق اور تصدیق یہ بھی علم کی ایک قسم ہے نبی گویا بناؤ سے ہے جس کء معنی خبر دینے کے ہیں اور صدیق کے معنی تصدیق کنندہ کے ہیں اور تصدیق خود علم کی قسم ہے تو حاصل یہ نکلا کہ نبی اور صدیق یہ علم کے دو افراد ہیں فرق اتنا ہے کہ نبی علم میں اصل ہے ۔ اور صدیق تابع ہے مابا لذات اور اصل علم کے لحاظ سے نبی اور تابع ہونے کی حیثیت دیکھی جائے تو وہ صدیق کی ہے تو صدیق نبی کے تابع ہوتا ہے اس لئے علم کے دو افراد ہوگئے ، ایک نبی اور ایک صدیق ۔
عمل کے بھی دو ہی افراد ہیں ایک شہید اور ایک صالح شہید اصل ہوتا ہے عمل میں اور صالح اس کے تابع ہوتا ہے شہید اسے کہتے ہیں جو اللہ کے راستے میں فقط خواہشات ہی نہیں اپنے نفس کو بھی ختم کردے ۔ جو جان تک اللہ کے راستے میں لگادے وہ شہید ہے اور صالح اس کو کہتے ہیں جونیکی کا راستہ اختیار کرے یعنی نفس کی خواہشات کو پامال کرتا رہے جو اللہ کی مرضی کو آگے رکھے اسے صالح کہتے ہیں ۔ تو شہید اگر جان دے کر فضا ہموار نہ کرے صالحین کی صلاح چل نہیں سکتی صالحین اپنی صلاح پر جھی قائم رہیں گے جب فضا پُر امن ہو فتنے نہ ہو ۔ امن قائم ہو ۔ اگر دنیا میں فتنہ پھیلا ہوا ہے تو نمازی کو نماز کی ہوش رہے گی ۔ نہ تلاوت کرنیوالے کو تلاوت کا ہوش رہے گا ۔نہ درود پڑھنے والے کو درود کا ہوش رہے گا ۔ تو شہیداء اپنی جان دے کر فضا صاف کرتے ہیں تاکہ صالحین اپنی صالح کو برت سکیں ۔ اس لئے اعلیٰ ترین عمل شہید کا ہوتا ہے صالح اس کے تابع ہوتا ہے تو عمل میں شہید اصل ہے اور صالح اس کے تابع علم میں نبی اصل ہے صدیق اس کے تابع ہے تو ایک علم کمال ہے اور ایک عمل کا کمال ہے تو دوفرد علم کے ہیں اور دو فرد عمل کے ہیں بنی اور صدیق علم کے فرد ہیں ایک اصل اور ایک تابع ، اور شہید اور صالح عمل کے افراد ہیں ۔ ایک اصل اور ایک تابع ، یہ دو چیزیں ہیں تو معلوم ہوا کہ دنیا کے اندر سعادت کی بنیاد دوہی چیزیں ہیں ایک علم اور ایک عمل تو نبوت کی بنیاد درحقیقت یہی وہ چیزیں ہیں انبیاء علیہم السلام ایک علمی کمال لے کر آتے ہیں اور ایک علمی کمال جن کو اخلاق کہا جاتا ہے اخلا ق عمل کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ 

عمل کی بنیاد اخلاق 

اخلاق عمل کی بنیاد ہوتے ہیں اگر اندر اخلاق نہ ہوں عمل سرزد نہیں ہوسکتا ۔ اگر آپ کے اندر شجاعت کے اخلاق موجود ہیں تو حملہ آوری ، ہجوم اور اقدام کے افعال آپ سے سرزد ہوں گے ، اگر آپ کے اندر سخاوت کا مادہ اور خلق موجود ہے تو دادودہش اور دینا ، غریبوں کے ہاتھ پہ رکھنے کے افعال آپ کے ہاتھ سے نمایاں ہوں گے ، اگر بخل کا مادہ موجود ہے تو آپ عطاء نہیں کریں گے ۔ اگر بزدلیٰ کا مادہ موجود ہے تو آپ پیچھے کوہٹیں گے ۔ تو اندر کا مادہ فعل کو حرکت دیتا ہے اسی اندر روحانی مادء کو جو فعل کو حرکت میں لایا اخلاق کہتے ہیں تو جیسے اخلاق ہوں گے ویسے اعمال سرزد ہوں گے ، تو عمل کی قوتیں درحقیقت اخلاق ہیں لیکن اخلاق اپنا کام کر نہیں سکتے جب تک راستہ نظر نہ آئے ، راستہ علم دکھاتا ہے جو دو ہی چیزیں کمالات کی بنیاد ہوگئیں ایک علم اور ایک اخلاق علم راہ دکھلائے گا اور اخلاق اس پر چلائیں گے اخلاقی قوت آدمی کو اس پر دوڑائے گی ۔ 
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسی ریل گاڑی آپ نے دیکھا ہوگا کہ انجن دوڑتا ہے ، ہزاروں لاکھوں من بوجھ کے لوہے کی گاڑی کو اپنے ساتھ باندھ کر لے جاتا ہے مگر انجن کے چلنے اور منزل تک پہنچنے کی شرط کیا ہے ؟ ایک تو یہ کہ اس کے سامنے لائن بنی ہوئی ہو لوہے کی لائن اس کے سامنے بچھی ہوئی ہو ۔ جس پر انجن کو اتارا جاسکے اور دوسری شرطہ یہ ہے کہ اس کے اندر اسٹیم کی طاقت بھری ہوئی ہو ۔ آگ اور پانی کو جمع کر کے بھاپ کی طاقت اس کے اندر بھردی جائے تو اگر لائن بھچی ہوئی نہ ہو تب بھی انجن نہیں چل سکتا ۔ اور لائن بچھی ہوئی ہو ، مگر اس کے اندر اسٹیم کی طاقت نہیں ہے تب بھی نہیں چل سکتا ۔ لائن پر انجن پر انجن کھڑا ہوا ہے اور اندر نہ آگ ہے نہ پانی اور بھاپ کی طاقت پیدا نہیں ہوتی تو دھکیل دھکیل کے آپ اسے کہاں تک چلائیں گے ؟ 
ہزاروں آدمی مل کر لگیں گے یہ بالشت بھر چلے گا ۔ پھر کھڑا ہوجائے گا تو جب تک انجن کے اندر چلنے کی طاقت نہ ہو تو نہیں چل سکتا ۔ اور اگر اندر طاقت بھری ہوئی ہے ۔ مگر لاین بچھی ہوئی نہیں ہے تو جتنا زور سے چلے گا زمین میں دھنستا چلا جائے گا ، منزل مقصود پر کبھی نہیں پہنچے گا ، تو منزل مقصود تک پہنچنے کی دوہی شرطیں ہیں کہ لائن بھی بچھی ہوئی ہو اور اس لائن پر چلنے کی قوت بھی موجود ہو اسٹیم کی طاقت بھی ہوتب چلے گا ۔ اور چلے گا تو پھر ایسا چلے گا کہ ہزار ہامن لوہا ہزار من بوجھ ۔ 
اس کے ساتھ آپ جوڑدیں سب کو گھسیٹ کرمنزل مقصود تک پہنچادے گا ہزاروں ڈبے ، ہزاروں انسان ، ہزاروں اشیاء سامان سب کو گھسیٹ گھساٹ کے منزل مقصود تک پہنچادے گا ۔ اس لئے دونوں چیزیں ضروری ہیں ۔

شریعت اور طریقت کا حسین امتزاج 

تو ٹھیک اسی طرح سمجھ لیجئے کہ ہر انسان مثل انجن کے ہے ، اس میں بھی دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک تو یہ کہ اس کے سامنے کھُلا ہوا چلنے کا سیدھا راستہ ، اسے منزل سامنے نظر آئے اور ایک اس کے اندر چلنے کی طاقت موجود ہو، تو وہ سیدھا راستہ جس پر چل کر یہ منزل تک پہنچ سکتا ہے ۔ اسی کا نام صراط مستقیم ہے اور شریعت حصہّ ہے ’’وان ھذا اصراطی مستقیماً فاتبعوہ‘‘ یہ ہے میرا سیدھا راستہ ، اس کا اتباع کرو اس کی پیروی کرو۔ تو وہ راستہ جس پر آدمی چلے گا اس کا نام شریعت ہے لیکن راستہ سامنے ہو محض نظر آجائے ، مگر اندر چلنے کی طاقت نہ ہو ، آدمی چل نہیں سکے گا ، وہ اندر کی طاقت کیا ہے ؟ وہ اخلاق کی قوت ہے جس کو ظریقت پیدا کرتی ہے ریاضت اور مجاہدہ سے عشق نبوؐی کی وہ آگ پیدا ہوئی ہے جو ہر مسلمان کے اندر لگی ہوئی ہے تو آگ اور اسٹیم اسے اس راستے کے اُوپر دوڑاتی ہے ۔ اگر راستہ سرے سے نہیں ہے چلنے کی کوئی شکل نہیں ہے نہ اندر عشق محمدؐی موجود ہے نہ عشق خداوندی موجود ہے تو اس میں چلنے کی ریاضت چلنے کی طاقت پیدا کرتی ہے جب دونوں چیزیں جمع ہوتی ہیں تو پھر ایسے آدمی خودہی نہیں چلتے بلکہ ان کے پیچھے ہزاروں انسانوں کو جوڑدو، سب کو گھسیٹ کر منزل مقصود تک پہنچادیتے ہیں ۔ انمیں طاقت ہوتی ہی تو دو طاقتوں کی ضرورت ہے ایک شریعت کی طاقت اور ایک طریقت کی طاقت طریقت اخلاق بنائے گی ، شریعت راستہ دکھلائے گی ’’وان ھذا صراطی مستقیماً ناتبعوہ !‘‘ 
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ انسان کے لئے مدرسہ کی بھی ضرورت ہے خانقاہ کی بھی ضرورت ہے ۔ اگر مدرسہ نہ ہو، تعلیم نہ ہو ، علم سامنے نہیں آسکتا اور اگر خانقاہ نہ ہو اور اخلاق درست نہ ہوں تو چلنے کی طاقت پیدا نہیں ہوسکتی ۔ تو مدرسہ اور خانقاہ دونوں کو جمع کیا جائے جب جاکے آدمی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے ۔ 

مولویت اور صوفیت میں جنگ کیوں ؟

میں تو کہا کرتا ہوں کہ یہ جو آجکل مولویوں اور صوفیوں کی جنگ چھڑی ہوئی ہے پچھلوں کی جنگ تو ایسی نہ تھی ۔ اگر حقیقی معنوں میں ایک سچا عالم ہو ۔ اس سے زیادہ قدردان صوفی کا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ۔ اور اگر سچا درویش اور صوفی ہو، اس سے زیادہ قدردان عالم کا کوئی نہیں ہوسکتا لیکن اگر علم بھی ناتمام ہو اور عشق بھی نا تمام ہو تو یہ اس کا مدمقابل ہوگا وہ اس کا مدمقابل ہوگا۔ یہ لڑائی اب بعد کے لوگوں میں چلی ہے کاملین میں کبھی لڑائی پیدا نہیں ہوئی ۔ 
حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین سلطان الاولیائؒ دھلوی ۔ آپ جانتے ہیں کہ کتنے بڑے پائے کے عالم ہیں درویش ہیں ، صوفیاء چشتیہ میں اُن کا آفتاب کا سا مقام ہے ایک روشن دل اللہ نے ان کو عطاء فرمایا بہت بڑی ذات ہے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی ۔ 
اس زمانے میں جبکہ حضرت خواجہ کے فیوض وبرکات سے دنیامالا مال ہورہی ہے اخلاقی دولتیں کماکما کے لے جارہی ہے اسی زمانے میں حکومت کی طرف سے حکیم ضیاء الدین سنامی رحمۃ اللہ علیہ یہ کو توال اور محتسب تھے ، کہ کوئی بداخلاقی یا خلاف شرع حرکت نہ کرنے پائے اس کی نگرانی کرتے تھے ، کسی کو بھی دیکھا کہ بدعات میں مبتلا ہے یا خلاف شرع امور میں مبتلا ہے فوراً گرفتار کرتے تھے ، حکومت کی جانب سے احتساب ہوتا تھا ، سزائیں دی جاتی تھیں ۔ 
حضرت خواجہ نظام الدین ؒ کی محفل سماع اور حکیم ضیاء الدین ؒ کا احتساب 
پھلے تو یہ واقعہ سُناؤں کہ دونوں کا مقام کیا ہے ؟ حضرت سلطان المشائخ دھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں یا ران طریقت بیٹھے ہوئے تھے اور سماع ہورہا تھا ، مگر سماع کی صورت باجے گاجے کی نہیں تھی جو محقق مشائخ ہیں ان کے ہاں مزامیر اور باجے گاجے نہیں ہوتے سماع کے معنی یہ تھے کہ خوش آوازی سے پڑھنے والا کوئی نعت پڑھ رہا تھا، کوئی غزل پڑھ رہا تھا جس میں ارباب احوال کے قلوب کی گرھیں کھُل جاتیں ، گھتیاں کھل جاتیں ، تو خوش آوازی سے کوئی پڑھنے والا مغنی پڑھ رہا تھا اور سب پر حالات طاری ہورہے تھے کیفیاًت طاری ہورہی تھیں ، اس لئے کہ سماع حضرات صوفیاء نے حظ نفس کے لئے نہیں سُنا ۔ جب قبض طاری ہو تو قبض کو دفع کرنے کا ایک علاج ہے ، ایک معالجہ ہے ، کوئی غذا نہیں ہے کہ رات دن کھائی جائے ۔ 
محض ایک علاج ہے معالجہ کے طور پر اسے استعمال کرتے تھے تو انقباض رفع کرنے کے لئے یا ران طریقت جمع تھے اور جائز خدتک کا سماع ہو رہا تھا اسمیں ’’مزامیر‘‘ نہیں تھے ،باجے گاجے نہیں تھے مگر ظاہری طورپر بظاہر ایک ایسی چیز تھی کہ خلاف شرع مجمع نظر آتا تھا ، یا اس درجہ کی چیز تھی کہ یہ خواص ہیں ان کے اس فعل کو دیکھ کر عوام کہیں باجے گاجے بھی استعمال نہ کریں ، اس کے معنی باجے گاجے کانہ لیں تو حکیم ضیاء الدین سنامیؒ نے آکر اس کو روکنا چاہا اور ڈانٹ کر کہا کہ خلاف شرع امر بند کرو ، مگر وہاں ہوش کے تھا جو سُنتا وہاں تو سب ارباب احوال تھے اپنے اپنے حال میں غرق کسی نے نہ سُنا ،حکیم ضیاء الدین نے دیکھا کہ کوئی سُنتا نہیں ، سمجھ گئے کہ صاحب حال لوگ ہیں ، یہ نہیں کہ کوئی بغاوت یا تمرد کرہے ہیں حال میں غرق ہیں تو اول تو اتمام حجت کے لئے زور سے کہا کہ بند کرو اس سماع کو ، لوگوں میں اس سے فتنہ پھیلے گا ، وہاں کون سُنتا تھا ۔ سارے صاحب حال تھے تو حکیم ضیاء الدین ؒ نے حکم دیا کہ خیمے کی طنابیں کاٹ دو ، جب خیمہ ان کے سر پر گرے گا جب یہ سماع کو بند کریں گے ۔ سپاہیوں نے آگے بڑھ کر طنابیں کاٹ دیں ۔ مگر وہ خیمہ ہوا کے اوپر قائم رہا ۔ ساری رسیاں کٹ گئیں خیمہ نہیں گرا، اب بے چارے حکیم ضیاء الدین ؒ صاحب کیا کریں ؟ امر بالمعروف بھی کردیا اور تغییر بالئید بھی کردی کہ ہاتھ سے اس چیز کو مٹانا بھی چاہا مگر نہیں مٹی ۔ اس واسطے کہ وہ تو سچے لوگ سن رہے تھے سب کے سب ارباب حال تھے ۔ اب یہ دیکھا کہ کسی طرح نہیں بن پڑی تو یہ خیال ہوا ، کہ کہیں سپاہیوں میں یہ خیال نہ ہو کہ یہی امر حق تھا ، یہ خواہ مخواہ ہم سے امرحق کا مقابلہ کرارہے ہیں ۔ تو کہا دیکھو کہ یہ ہیں سارے بدعتی اور بدعت میں مبتلا ہیں مگر اسوقت یہاں سے چلو اسوقت یہ غرق ہیں کسی دوسرے وقت میں امربالمعروف کریں گے اپنے سپاہیوں کو اپنے ساتھ لے گئے خیمہ اسی طرح کھڑا رہا ۔ تو سماع کی یہ کیفیت تھی تو حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ان کے مُریدین اور جو بیٹھنے والے تھے ، چونکہ سارے سچے تھے ارباب حال تھے ، اور سماع کسی حظ نفس کے لئے نہیں تھا ، بلکہ ترقی مدارج کے لئے یارفع قبض کے لئے تھا ۔ اس سچائی کی وجہ سے خیمہ اپنی جگہ قائم رہا ۔ یہ اپنی جگہ درست تھے اور حکیم ضیاء الدین ؒ کی ڈانٹ ڈپٹ اپنی جگہ درست تھی ۔ اس واسطے کہ وہ نظام شریعت کے قائم کنندہ تھے ، انکی حیثیت پولیس اور فوج کی تھی ۔ تو پولیس کا کام یہی ہے کہ قانون کے خلاف کوئی چیز دیکھے تو فوراً ڈانٹ ڈپٹ کرے ۔ 

حکیم ضیاء الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مقام 

اس کے ساتھ ساتھ دوسری کیفیت یہ تھی کہ جب حکیم الدینؒ کی وفات کا وقت آیا تو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء حضرت کی عیادت اور مزاج پرسی کے لئے تشریف لے گئے اور اطلاع کرائی کہ جاکے حکیم ضیاء الدین سے عرض کیا جائے کہ نظام الدین مزاج پرسی کے لئے حاضر ہوا ہے تو حکیم صاحب نے اندر سے جواب بھیجوایا کہ روک دو میں بدعتی کی صورت دیکھنا نہیں چاہتا خواجہ نظام الدین نے جواب بھیجوایا کہ عرض کردو کہ بدعتی ، بدعت سے توبہ کرنے کے لئے حاضر ہو رہا ہے اسی وقت حکیم ضیاء الدین ؒ نے اپنی پگڑی بھیجی کہ اسے بچھا کے خواجہ صاحبؒ اس کے اوپر قدم رکھتے ہوئے آئیں اور جوتے سے قدم رکھیں ننگے پاؤں نہ آئیں ، خواجہ صاحبؒ نے پگڑی کو اُٹھا کے سر یہ رکھا کہ یہ میرے لئے دستار فضیلت ہے اور اس شان سے تشریف لے گئے ، آکر مصافحہ کیا اور بیٹھ گئے۔ اور حکیم ضیاء الدین ؒ کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ان کی موجودگی میں حکیم ضیاء الدین ؒ کی وفات کا وقت آگیا، اور خواجہ صاحبؒ نے فرمایا کہ الحمدللہ حکیم ضیاء الدین ؒ کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا ہے کہ ترقی مدارج کے ساتھ ان کا انتقال ہوا۔ 
اپنے اپنے فرائض پہ دونوں قائم ہیں ، ایک دوسرے کی عظمت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پگڑی بھیجتے ہیں کہ جوتیوں سے قدم رکھ کے آئیں، ان کا یہ حال ہے کہ اسے سر کے اوپر رکھا کر یہ میرے لئے دستار فضیلت ہے میرے لئے سعادت ہے تو ادھرولی کامل ہیں جو طریقت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور ادھر عالم ربانی ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کی قدر کو پہچانتے ہیں اگر معاذ اللہ دونوں ناقص ہوتے وہ ان کے مقابل آتے، وہ ان کے مقابل آتے دنیا میں جھگڑا فتنہ پھیلنا شروع ہوجاتا ، تو کاملین کا فرق یہی ہے کہ وہ ایک دووسرے کی عظمت کو پہچانتے ہیں ایک دوسرے کی برائی اور بزرگی کو مانتے ہیں ۔ 

خواجہ نظام الدین اولیاؒ کا مقام 

انہیں حکیم ضیاء الدین ؒ کا واقعہ ہے کہ حضرت خواجہ صاحبؒ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی نے ایک شعر پڑھا ، خواجہ صاحبؒ پروجد طاری ہوا، اور کھڑے ہوکر رقص کرنے لگے حکیم ضیاء الدینؒ نے دامن جھٹک کرکہا، بیٹھ جاؤ، خبردار شریعت کی عظمت کو سامنے رکھو، خواجہ صاحبؒ بیٹھ گئے اس کے بعد پھر کسی نے شعر پڑھا ، پھروجدطاری ہوا ، پھر کھڑے ہوگئے خواجہ نظام الدینؒ تو حکیم ضیاء الدین ؒ نے پھر دامن تھاما کہ بیٹھ جاؤ آداب شریعہ کو سامنے رکھو پھر بیٹھ گئے ۔تیسری دفعہ پھر کسی نے شعر پڑھا، اور پورے وجد کے ساتھ خواجہ نظام الدین کھڑے ہوئے اور رقص کرنے لگے تو حکیم ضیاء الدینؒ بھی کھڑے ہوگئے اور ہاتھ باندھ کے گردن جھکا کے کھڑے ہوئے ہیں جب مجلس برخاست ہوتی تو حکیم ضیاء الدین سے پوچھا گیا کہ پہلے دو دفعہ میں تو تم نے دامن جھٹک کر خواجہ صاحبؒ کو بٹھالیا اور تیسری دفعہ جب وہ کھڑے ہوئے تو تم بھی ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے ۔ اگر بھلائی تھی تو پہلے کیوں روکا تھا ؟ اور بُرائی تھی تو ہاتھ باندھ کے کیوں ساتھ ہوئے ؟ تو حکیم ضیاء الدینؒ نے جواب دیا کہ پہلی وفعہ جب خواجہ صاحبؒ کھڑے ہوئے انکی روج کو عروج ہوا ۔ آسمان دنیا تک روح پہنچی ، یہاں تک میری رسائی تھی میں پکڑلایا اور کہا کہ تم فرشی ہو ۔ بندگی کی صورت اختیار کرو، ایسا عروج مت اختیار کرو جو بندگی کی شان کے خلاف ہے ، وہاں سے پکڑلایا دوبارہ عروج ہوا، تو پھر حضرت خواجہ صاحبؒ کی روج ساتویں آسمان تک پہنچی ، میری بھی وہاں تک رسائی تھی تو پھر پکڑکے لایا کہ اپنی حد پر قائم رہو زیادہ عروج میں مت آؤ تیسری دفعہ عروج ہوا تو تجلیات الہٰیہ سامنے تھیں ، میں بھی ہاتھ باندھ کے کھڑا ہوگیا میں بدعتی کی تعظیم کے لئے کھڑا نہیں ہوا تھا ، بلکہ تجلیات الہٰیہ کے سامنے کھڑا ہوا تھا ۔ 

علماء اور صوفیاء کی ذمہ داری 

اس سے اندازہ ہوا کہ حکیم ضیاء الدین خود بھی صاحب باطن تھے مگر ان کو شریعت کے نظام کو قائم رکھنے ، اس کی بقاء اور اس کے استحکام کا کام سپردتھا تو علماء کی مثال پولیس جیسی ہے اور صوفیاء کی مثال ہے جیسے مقربان بادشاہی ہوتے ہیں جو بادشاہ کے دربار میں ہر وقت حاضر ہیں ، تو بادشاہ کے دربار میں لوگ بعض اوقات ایسی بے تکلفی کی باتیں کرتے ہیں کہ باہر آکے وہ باتیں نہیں کرسکتے ، بادشاہ کی موجودگی میں بے تکلفانہ کر گزرتے ہیں لیکن وہی باتیں اگر سٹرک پر آکر کریں گے تو پولیس کے آگے جوابدہ ہیں ۔ وہ چلاتے رہیں کہ ہم تو مقربان بادشاہی ہیں پولیس کہے گی کہ بادشاہ کی مجلس میں جاکے جوچاہے کرو ، منظر عام پر جب آؤ گے تو قانون کی پابندی کرنے پڑی گی ۔ ہمارا فرض کہ ہم قانون کی حفاظت کریں ۔ جب تم مقام قرب میں پہنچو اور بادشاہی دربار میں موجود ہو ، جو تمہارا جی چاہے کرو وہ قانون سے بالاتر چیز ہے لیکن جب آؤگے سٹرک پر، جب آؤگے میدان میں ، جب آؤگے لوگوں میں تو یہاں قانون کی پابندی کرنی پڑیگی ، ہم نے جانتے کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ کچھ بھی ہو مگر ہم قانون کے سپایء ہیں تو علماء کی مثال پولیس جیسی ہے اور صوفیاء مقربان شاہی ہیں تو وہ اپنی بے تکلفی میں کچھ بھی کریں لیکن باہر آکر کریں گے تو شریعت کے نظام کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ 

سماع کے بارے میں حضرت نانوتویؒ  کا واقعہ 


میں نے اپنے بزرگوں سے سُنا کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بانی دارالعلوم دیوبند، یہ صرف عالم ہی نہیں تھے ، عارف کامل بھی تھے ، ربانی بھی تھے درویش بھی تھے ، صاحب کشف وکرامت اولیاء اللہ میں ہوئے ہیں ۔وہ ایک دفعہ خلجے میں تشریف لے گئے ، خلجے میں حضرت کے بہت سے مریدین اور متوسلین تھے ، تو مولینا عبدالرحمن صاحب جو حضرت کے شاگردوں کے شاگردتھے ، ان کے دیوان خانے میں عصر کے بعد حضرت کی مجلس ہوئی ، چار پانچ سو آدمی حضرت کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے مجھے یہ واقعہ سُنایا ان کا نام حاجی امیر شاہ صاحب مرحومؒ ہے یہ حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے مخصوص خدام میں سے تھے ، مخصوص متوسلین میں سے تھے ، انہوں نے واقعہ بیان کیا کہ حضرت کی مجلس تھی ، تو اس مجلس میں اچانک ان کا بھتیجا آگیا ۔ رنگ مست خاں اس کا نام تھا گلا نہایت بہتر پایا تھا ، موسیقی کا بڑا بھاری استاذ تھا ، اور فرماتے تھے امیر شاہ صاحب کہ اس کی حالت یہ تھی کہ ایک دفعہ ہم دوست احباب جمع تھے ، کچھ کھانے پکانے کا سامان ہو رہا تھا ، تو کچھ دوست گوشت دھورہے تھے ، بعض پیازکاٹ رہے تھے بعض لوگ پانی وانی کے گھڑے بھررہے تھے ، اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے تو رنگ مست خاں آگیا ، اور اس نے آکر مکان کے دروازے میں داخل ہوتے ہی حافظ شیرازیؒ کی یہ غزل شروع کی کہ 
غلام نرگسے مستے کہ تاج دارانند خرابے بادئہ لعلے کہ ہوشیار انند 
کہتے تھے کہ اس شان ہے پڑھی ہے کہ ایسا سماں بندھا کہ جس کا چاقوپیاز میں تھا وہ پیاز ہی میں رہ گیا ، جس کا ہاتھ گھڑ پر تھا تو گھڑے پر رہ گیا ، جو سل بٹے پر مصالحہ پیٹھ رہا تھا اس کا ہاتھ بٹے پر رہ گیا ، جیسے معلوم ہو کہ سب پرسکتے کی کیفیت طاری ہوگئی ، لوگوں نے اپنے ہوش گم کردیئے اس کی آواز اس غضب کی تھی ۔ 
امیر شا ہ صاحب مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کہتے تھے کہ حضرترحمۃ اللہ علیہ السلام کی مجلس میں یہ رنگ مست خان آگیا اور حضرت کی چار چائی پر پائنیتوں آکے بیٹھ گیا ، حضرت سرہانے بیٹھے تھے ، شاہ صاحب کہتے تھے کہ میرے پھوپھانے حضرت کی پشت سے رنگ مست خاں کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ شروع کردے ، اس نے یہ غزل شروع کی کہ :
غلام نرگسے مستے کہ تاج دارانند 
لیکن غلام نرگسے مستے مست تک آیا اور آگے چپکا ہوگیا اس کے بعد میرے پھوپھانے حضرت ؒ کی پشت سے پھر اشارہ کیا کہ بھئی پڑھتا کیوں نہیں ؟ اس نے پھر غزل شروع کی اب کے غلام نرگس تک آیا پھر چپ ہوگیا ، پھر میرے پھوپھانے گھورا کہ پڑھتا کیوں نہیں ؟ تو پھر اس نے لے باندھ کر یہ شروع کی اب کے غلام کہہ کر رک گیا اور چپ پوگیا ، یہاں تک کہ مجلس برخاست ہوگئی ، تو کہتے تھے امیر شاہ صاحب کہ میرے پھوپھانے کہ اکہ کم بخت ! اس دن تو تو نے اس طرح پڑھا کہ سماں باندھ دیا اور معلوم ہوا کہ سب پر سکتہ طاری ہوگیا ، آج تجھ پر کیا مصیبت آئی تھی ؟ 
اس نے کہا جو مجھ پر مصیبت آئی وہ تم نے نہیں دیکھی کہا کیا مصیبت آئی ؟ کہا کہ پہلی دفعہ جب میں غلام نرگسے مستے مست تک پہنچا ہوں تو حضرت نانوتویؒ کا ہاتھ بڑھا اور میری زبان پکڑلی اب میں کیا کرتا چُپ ہوگیا ، پھر تم نے گھُورا ، پھر میں نے شروع کیا ، اب کے ’’غلام نرگس‘‘ تک آیا تو حضرت کا ہاتھ پھر بڑھا اور میری زبان پکڑلی ، میں مجبور ہو کر چپکا ہوگیا تیسری دفعہ تم نے گھُورا ، پھر شروع کیا اب کے ’’غلام‘‘ کہنے پایا تھا پھر زبان پکڑلی انہوں نے کہا کہ ہم نے تو نہیں دیکھا ، کہا خدا کی قسم تینوں دفعہ ہاتھ بڑھا اور میری زبان کھینچ لی یہ تو اس نے کہا اور حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے خانصاحب کو (یعنی شاہصاحب ) کو خطاب کر کے یہ جملہ فرمایا اس سے ان لوگوں کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے ۔
فرمایا کہ خانصاحب جس طرح سے کہ میں ’’صوفیوں‘‘ میں بدنام ہوں ، اسی طرح سے مجھ پر مولویت کا دھبہ بھی لگا ہوا ہے اس کی رعایت کرنا بھی آپ لوگوں کا فرض ہے اب اگر یہ غزل اس طرح سے ہوجاتی تو کہنے والے یوں کہتے کہ مولوی بھی گانے بجانے کے اندر مشغول ہوگئے یہ کوئی نہ دیکھتا کہ کونسی جائز حد تھی اور کونسی ناجائز حد تھی ؟ 

خواص کی ذمہ داری 

تو خواص کو بہت سی جائز چیزیں بھی ترک کرنی پڑتی ہیں اس بناء پر کہ عوام اس سے آگے کہیں نہ مبتلا ہوجائیں عوام کی خاطر بعضی جائز چیزیں ترک کردینا پڑتی ہیں احتیاط سمجھ لیں ، تقویٰ سمجھ لیں ، بہرحال چھوڑ دینی پڑتی ہیں جیسے کہ حدیث میں نبی کریم ا نے فرمایا کہ الحلال بین والحرام بین وبینھم مشتبھات چیزیں بھی کھلی ہوئی ہیں حلال وحرام کے بیچ میں کچھ چیزیں مشتبہ ہیں ، ان میں حلال ہونے کا شائبہ بھی موجود ہے حرام ہونے کاشائبہ بھی موجود ہے متقی وہ ہے جو ان مشتبہاتسے بچ جائے جو بچ کر جائیگا وہ اپنے دے کو ہر بُرائی سے بری کرلے جائیگا ۔ تو مشتبہات سے بچنا یہ تقوی کا ایک شعبہ ہے اور کاملین مشتبہات سے توبجائے خود بعض جائز چیزوں سے بچ جاتے ہیں کہ لوگ حرام میں نہ مُبتلا ہوجائیں ۔ 
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اثر نقل کیا ہے اور اس کو حدیث مرفوع کہا ہے سند جس درجے کی بھی اور ہو مگر بہرحال ایک چیز ہے جو قواعد شریعہ کے بالکل مطابق ہے اور وہ اثر امام غزلی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ جب علماء جائزات کے حصول کی فکر میں پڑجائیں گے تو عوام مکروہات کا ارتکاب کریں گے ۔ اور جب علماء مکروہات کا ارتکاب کریں گے تو عوام حرام میں مبتلا ہوں گے ۔ اور جب علماء حرام چیزوں میں مبتلا ہوں گے تو عوام کفر میں مبتلا ہوں گے اس واسطے سب سے زیادہ احتیاط خواص کے لئے ضروری ہوتی ہے ، کہ وہ عوام کی خاطر ، ان کو بچانے کی خاطر مکروہات تو بجائے خود ہیں بعض جائز چیزوں کا بھی ترک کردیں ۔ کہ ان کے جائزات کے گرنے سے عوام مکروہات کا ارتکاب نہ کرنے لگیں ۔ 
تو حضرات اھل اللہ کی شان یہ تھی کہ حضرت نانوتویؒ نے فرمایا کہ جس طرح میں صوفیوں میں بدنام ہوں اسی طرح مجھ مولویت کا دھبہ بھی لگا ہوا ہے اس کی رعایت رکھنا بھی آپ لوگوں کا فرض ہے اگر یہ غزل آج ہوجاتی تو اس کے جائز ہونے میں کلام نہیں تھا یہاں کوئی باجے گاجے نہیں تھے ، کوئی ہارمونیم نہیں تھا ، کوئی سٹار نہیں تھا ۔ 
خوش آوازی سے ایک بات ہوتی ۔ مگر بہرحال مجلس مولوی کی تھی ، عوام یہ کہتے کہ گانا بجانا ہورہا ہے وہ پھر اپنے لئے سٹار بھی جائز کرلیتے اس واسطے یہ اھل اللہ اتنی احتیاط برتتے ہیں ۔ 
تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ مقام دوہی ہیں ۔ ایک علم کا مقام ہے ایک اخلاق کا مقام ہے علم راستہ دکھلاتا ہے اخلاق چلنے کی قوت پیدا کرتے ہیں دونوں چیزیں جب جمع ہوجاتی ہیں جب آدمی کامیاب ہوتا ہے۔ 
تو نبوت بھی درحقیقت دو ہی بنیادوں پر قائم ہے ایک کمال علمی ایک کمال اخلاقی ، یہی دوچیزیں انبیاء علیہم السلام لے کر آتے ہیں اور یہی بنیاد نبوت ہیں جب یہ بنیاد نبوت کا معیار ہوئی تو اسی سے خود سمجھ لیجئے کہ جو ذات اقدس کمال علم میں اس رتبہ پر پہنچ جائے کی اس رتبہ پر کوئی نہ پہنچا ہوا ہو اور اخلاقی کمال میں اس مقام پر پہنچ جائے کہ کوئی اس مقام پر آیا ہوا ، نہ ہو تو وہی نبی سب سے بڑا نبی ہوگا ۔ اس لئے کہ معیار نبوت جو کچھ تھا وہ اسمیں حد کمال پر آیا ہوا ہے ۔ 
ذات نبوی میں شان علم 
جناب رسول اللہ ا کی ذات اقدس کو دیکھا جائے تو علم کے بارے میں آپ افرماتے ہیں کہ ’’اوتیت علم الاولین والاحزین ‘‘ مجھے اگلوں کے اور پچھلوں کے تمام علوم عطاء کردیئے گئے ہیں جتنے پچھلوں کو علوم دیئے گئے۔ تمام انبیاء جو جو علوم لے کر آئے ہیں وہ سارے علوم میری ذات میں جمع کردیئے گئے ہیں ، تو اگلوں کے علوم یعنی انبیاء سابقین کے سارے علوم آپ ا میں موجود ہیں اور پچھلوں کے علوم بھی یعنی قیامت تک جو آنے والے ہیں ، علماء فضلاء حکماء ان سب کے علوم ظاہربات ہے کہ وہ آپ ا ہی کے پرور دہ ہیں وہ تو آپ ا کے علم سے مستفیض ہیں ۔ وہ تو ہیں ہی آپ کے علوم آپ ہی کی جوتیوں کے صدقے سے عالم عالم بنے ، آپ ا ہی کی جوتیوں کے صدقہ سے صدیق صدیق بنے تو وہ تو ہیں ہی آپ کے علوم لیکن بتلایا گیا کہ پچھلے انبیاء کے جو علوم ہیں وہ بھی آپ ا کے سینے میں جمع کردیئے گئے ہیں کہ جتنے اگلوں کے علوم تھے ، آپ ا کی ذات میں جمع ہیں جتنے پچھلوں کے علوم تھے وہ بھی ایک ذات میں جمع، تو ایک عظیم نکتہ خیر اللہ نے پیدا کیا کہ اگلے اور پچھلے سارے علوم اس میں جمع کردیئے گئے ۔ 

ذات نبوی میں اجتماع علوم کی محسوس مثال 

تو حضور ا کی محسوس مثال علم کے لحاظ سے ایسی ہوگی کہ جیسے آپ اپنے اندر دیکھتے ہیں کہ چہرے آنکھ ہے تو آنکھ بھی عالم ہے مگر صورۃً رنگ کو دیکھے گی ، صورۃ کو پہچان لے گی ، آوازوں کا پہچاننا یہ آنکھ کا کام نہیں کان ہیں وہ آوازوں کا علم حاصؒ کرتے ہیں کہ آواز اچھی ہے یا بُری ، بلند ہے یا پست ، کان آوازوں کے عالم ہیں وہ صورتیں نہیں دیکھتے ناک خوشبو اور بدبو کی عالم ہے وہ سونگھ کر بتلادے گی کہ گلاب کا پھول ہے چنبلی کا پھول ہے لیکن ناک یہ چاہے کہ گلاب کی شکل دیکھ لے یہ ناک کا کام نہیں ہے زبان کا کام یہ ہے کہ وہ ذائقہ کو بتلائے کھٹا ہے یا میٹھا ہے ؟ نمکین ہے ؟ زبان کو اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ تو آوازیں سُن لے تو زبان کا یہ کام نہیں ہے تو اس چہرے میں آنکھ بھی موجود ، کان بھی موجود، زبان بھی موجود ، ناک بھی موجود، دوسرے لفظوں میں گویا یوں کہاجائے کہ یہ علماء کی ایک بستی ہے اور ہر فن کا عالم الگ الگ ہے ۔ 
آوازوں کا عالم کان ہے ، صورتوں کی عالم آنکھ ہے ، ذائقوں کی عالم زبا ن ہے خوشبو اور بدبو کی عالم ناک ہے یہ سارے علماء ہیں اپنے اپنے موضوع کا علم رکھتے ہیں اور یہ آگے اللہ کی صناعی اور حکمت ہے اسی دو انگشت کے چہرے میں ساری چیزیں ایک جگہ جمع ہوگئیں ،کان میں اور آنکھ میں زیادہ فرق ہے دو تین انچ کا فرق ہوگا، ناک اور آنکھ میں کوئی زیادہ فاصلہ میل دومیل کا نہیں ہے کہ کان کے کاموں میں دخل دے سکے ، کان کو یہ موقع نہیں ہے کہ وہ آنکھ کا کام سرانجام دے بلے ہوئے ہیں مگر اپنی حدود سے باہر قدم نہیں لے جاسکتے ، تو ہر ایک اپنے اپنے کام میں مشغول اپنے علم میں لگا ہوا ہے ۔ لیکن یہ سارے علوم کان ، ناک ، آنکھ، زبان کے یہ خداتعالیٰ نے جس مشترک میں جمع کردیئے ہیں جس کو ’’اُمُّ الّد ماغ‘‘ کہتے ہیں ، دماغ کا یہ جو ابتدائی حصہ ہے اسمیں سارے علوم جمع ہیں یہی وجہ ہے کہ جب آپ آنکھ سے دیکھتے ہیں تو آنکھ تو دیکھ کر کے اپنا فارغ ہوگئی لیکن جو صورت تھی وہ دماغ میں ابھی تک موجود ہے اگر آںکھ میں صورۃ رہی تو آنکھ نے اپنا کام جو ختم کیا تھا آنکھ پر پدہ آگیا تھا ، صورت ماند ہوجانی چاہیے ، لیکن جس چیز کو آپنے دیکھ لیا ہے دیکھنے کے بعد آپ آنکھ بند کریں تب بھی صورت آپ کے سامنے موجود ہے یہ تو کوئی خزانہ ہوگا جس میں جمع ہے وہی دماغ کا خزانہ ہے ۔
آپ نے روٹی چکھ لی اور ذائقہ معلوم کرلیا ، لیکن جب کھانے پینے کا کام ختم ہوگیا تب بھی ذائقہ کا ایک اندازہ آپ کے قلب میں موجود ہے کہا کرتے ہیں لوگ کہ فلاں دستر خوان پر اتنے برس ہوئے ، میں نے کھانا کھایا تھا گویا اب تک وہی ذائقہ زبان میں موجود ہے تو یا کیسے ہے اب تک ؟ اگر یہ ذائقہ ابھی تک موجود نہیں ہے ؟ کسی ذائقہ کا یادرہنا یہ اس کی علامت ہے کہ ذائقہ موجود ہے کہ زبان نے ذائقہ چکھ لیا اور چکھ کر خزانے میں پہنچادیا، وہاں موجود ہے آنکھ نے صورۃ کو دیکھ لیا اور صورۃ کو لے جاکے خزانے کے اندر جمع کردیا ، وہاں ساری صورتیں جمع ہیں اب جب آپ کا جی چاہے آپ انہیں دیکھ لیں ۔ 
آپ نے اگر دلی کی سیر کی ہوگی ، جامع مسجد دیکھی ہوگی ، لال قلعہ دیکھا ہوگا ، تو دیکھا تو ایک دفعہ تھا ، لیکن اگر دن میں دس بار اپنے ملتان میں بیٹھ کر دیکھنا چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں ۔ 
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار اک ذرا گردن جھکائی دیکھ لی 
بس جہاں گردن جھکائی پوری جامع مسجد سامنے موجود پورا لال قلعہ سامنے موجود تو کہیں جمع ہے بھی تو دو سامنے ہوجاتا ہے یقینا اندر موجود ہے تو یہ سارے حالات اندر کی کار گزاریاں ہیں اور جو کچھ انکی معلومات ہیں وہ آپ کے ذہن یاد ماغ میں جمع ہیں تو یہ الدماغ ہے یہ ان سارے حالات کا مجموعہ ہے کہ اسمیں دیکھنے کی طاقت بھی ہے سُننے کی طاقت بھی ہے چکھنے کی طاقت بھی ہے خوشبوبدبو کے اور اک کی طاقت بھی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ یہ سارے جب اپنا کام کر گذرتے ہیں تو ان کے محسوسات ماغ کے اندر جمع رہتے ہیں تو خزانہ اصل ہوا بلکہ غور کیا جائے تو آنکھ اصل نہیں ہے دیکھنے میں دماغ ہی دیکھنے میں اصل ہے دماغ متوجہ ہوتا ہے تب آنکھ دیکھتی ہے اگر دماغ متوجہ ہی نہ ہو آنکھ دیکھ ہی نہیں سکتی کھلے بندوں آپ بازار چلے جائیں تماشے ہو رہے ہوں، جب آپ واپس آئیں تو دوسرا بھائی کہے کہ بھائی ! آج تو بڑے تماشے ہو رہے تھے آپ کہیں گے کیسا تماشہ ؟ وہ کہے گا یہ سب جلوس تھے رنگ زلیاں منائی جاری تھیں آپ کہتے ہیں میں نے کسی کو نہیں دیکھا ، وہ کہے گا ، بندئہ خدا ، آپکی آنکھ کھُلی ہوئی تھی کہ نہیں ، تو آپ یہی کہا کرتے ہیں کہ اوہو! میں اپنے دھیان میں غرق رہا مجھے پتہ ہی نہیں چلا کیسا جلوس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معلوم ہوا کہ دیکھنے والی آنکھ نہیں ہے آپ کا دل دیکھنے والا ہے دل متوجہ نہیں تھا آنکھوں سے آپ کو کچھ نظر نہیں آیا تواصل میں دیکھنے کا خزانہ اندر موجود ہے چکھنے کا خزانہ اندر موجود ہے سُننے کا خزانہ اندر موجود ہے یہ کان اور ناک محض آلات ہیں ۔ 
یہی وجہ سے کہ اگر کسی کی خدا نخواسۃ آنکھ پھوڑ دی جائے، دماغ میں اس سے خلل نہیں آتا، کان نہ رہیں دماغ میں نقصان نہیں ، لیکن دماغ پر لاٹھی ماردی جائے تو آنکھ بے کار، پاؤں بھی بیکار ، ناک بھی بے کار، پھر کوئی حواس اس کے اندر باقی نہیں رہیگا اس لئے کہ جب خزانہ ٹوٹ گیا جہاں سے فیض پہنچ رہا تھا ، کان ،ناک ،آنکھ تو سب بے کار ہوگئے ، لیکن اگر آنکھ ،کان، ناک باقی نہ رہے دماغ کا کوئی نقصان نہیں اس واسطے کہ وہ اصل خزانہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب یہ مثال سمجھ میں آگئی تو غور کیجئے کہ اس عالم میں ہزار ہا انبیاء علیہم السلام بھیجے گئے ہر بنی کا ایک مخصوص علم ہے ہر بنی کو کچھ خصوصی علوم عطاء کئے گئے ہیں دین ایک دیا گیا ، لیکن دین کے بتلانے سمجھانے کے لئے ،پروگرام کے لئے انبیاء علیہم السلام کو مختلف علوم دیئے گئے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کو اسماء وصفاف کا علم دیا گیا ’’رب قد اتیتنی من الملک وعلمتنی من تاویل الاحادیث‘‘ حضرت خضر علیہ السلام کو علم لدُنی دیا گیا (فراست کا علم ) داؤد علیہ السلام کو زرہ سازی کا علم دیا گیا ۔
سلیمان علیہ السلام کو منطق الطیر کا علم دیا گیا کہ پرندوں کی بولیاں جانتے تھے ،ہر نبی کا ایک مخصوص علم ہے تو سارے انبیاء (ا) ایسے ہیں کہ کوئی آنکھ ہے ، کوئی ناک ہے ، کوئی کان ہے ، مختلف علوم کے حامل ، لیکن جناب رسول اللہ ا کی مثال اُمّ الدماغ کی ہے کہ سارے حواس کا علم لاکر اس دماغ میں جمع کردیا گیا ۔
دماغ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے ، یا اگر دماغ نہ رہے ، تو آنکھ ،ناک،کان کچھ نہیں رہتا لیکن اگر آنکھ، کان، ناک، باقی نہ رہیں تو دماغ کا کوئی نقصان نہیں ہوتا، تو سارے انبیاء گذرچکے ہیں ، مگر دماغ اسی طرح قائم ہے ، لیکن خدا نخواسۃ دماغ نہ ہوتا تو نہ آنکھ رہتی نہ کان رہتے ، نہ ناک رہتی، کوئی چیز نہ رہتی تو تمام انبیاء علیہم السلام کے علوم درحقیقت مستقاد ہیں نکلے ہوئے ہیں خزانہ محمدی (ا) اصل نکتہ خیر حق تعالیٰ کی جانب سے جناب رسول اللہ ا ہیں اور آپ کے فیضان سے انبیاء میں بنوتوں کے علوم آئے یعنی سبب آپ بنائے گئے ہیں ۔آپ کے ذریعہ سے ، آپ کے سبب سے انبیاء علیہم السلام کو علوم عطاء فرمائے گئے ہیں ۔ 

نبی الانبیاء پر ایمان لانے کیلئے انبیاء کو پابند کیا گیا 

یہی وجہ ہے کہ آپ ا حدیث میں فرماتے ہیں حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’خصائص کبری‘‘ میں یہ حدیث نقل کی ہے کہ ’’انا نبی الانبیائ‘‘ اور انبیاء امتوں کے نبی ہیں میں نبیوں کا نبی ہوں ، میں نبیوں کی طرف معبوث کیا گیا ہوں یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے تمام انبیاء علیہم السلام سے عہد لیا ہے اور کہا ہے کہ تم اس ایمان لاؤ، فرمایا کہ :’’واذ اخذ اﷲ میثاق النبین لمأ اٰتیننکم من کتب رحکمۃ ثم جآء کم رسول مصدق لما معکم لتؤ مئن بہ والتنصر نہ‘‘ اللہ نے نبیوں سے عہد لیا ، کہا عہد لیا ؟
کہ جب میں تمہیں کتاب بھی دوں ، حکمت بھی ، دوں ، نبوت بھی عطا کروں اور پھر وہ رسول عظیم الشان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کونسا۔۔۔۔۔۔۔۔؟جو تم سب کی تصدیق کرے ، جو کچھ میں نے تمہیں علوم دیئے ہیں ان سب کی تصدیق کرے ، تو تمہارا کام کیا ہوگا ؟ لتئومنن بہٖ  کہ تم اس کے اوپر ایمان لاؤ اگر زمانہ پاؤ تو ایمان لے آو، اور نہ پاؤ تو اپنی توموں کو ہدایت کرو کہ ایمان لائیں یہ بھی تمہارا ایمان لانا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ آپ پر ایمان لانے کا نبیوں کو پابند کیا گیا ہے ۔ 
اور حقیقت یہ ہے کہ اصل میں ایمان نبی کا ہوتا ہے مومن جو ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں ہمارا ایمان نبی کے ایمان کا عکس ہوتا ہے ہم تم جو مومن ہیں اصلی مومن نہیں ہیں اصلی مومن نبی کریم ا ہیں آپ ا کے فیض کے طفیل سے ساروں پر ایمان کا عکس پڑگیا تو ہم تم بھی مومن نظر آنے لگے بالا ستقلال ہمارا ایمان نہیں حضور ا کے ایمان کے تابع محض ہے کہ اصل حقیقی آپ مومن ہیں اور آپ کے ایمان کی چمک اور روشنی جس پڑگئی وہ مومن کہلانے لگا، تو اصل میں ایمان کا وجود حضور اکا ہے ہمارے ایمان کا وجود تابع ہے حضور ا کے ایمان کے وجود کے ۔ 
بالکل اسی طرح جیسا کہ آفتاب نکلے اور مختلف دھولوں کے ٹکڑے آپ دنیا میں پھیلے ہوئے دیکھتے ہیں کوئی گول ہے ،کوئی چوکور ہے کوئی مثلث ہے ، کوئی مربع ہے تو اگر دھوپ سے پوچھا جائے کہ تو کون ہے ؟ تویوں کہے گی کہ آفتاب کا جز ، آفتاب کا ایک حصہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا خود اصلی وجود کچھ نہیں وجود تو آفتاب کا ہے اس کی وجہ سے میرا وجود بھی نظر آتا ہے میں خود آفتاب سے کٹ کر کوئی مستقل وجود نہیں رکھتی بلکہ میرا وجود اس وقت تک ہی قائم ہے کہ میں آفتاب کی کرنوں سے وابستہ رہوں ، اگر میں کٹ جاؤں تو میرا وجود ختم ہوجائے ۔
تو مومن کے ایمان کا وجود اصل میں نبی کے ایمانی وجود کے تابع ہے تو جب انبیاء علیہم السلام مومن بنائے گئے اور ہدایت کی گئی کہ نبی کریم ا پر ایمان لاؤ تو ایسی صورت بن گئی کہ حقیقی ایمان صڑف حضور ا کا ہے اور آپ کے فیضان سے پھر انبیاء علیہم السلام کو بھی ایمان عطاء کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم وایمان کا ’’نکتہ خیر‘‘ جناب رسول اللہ ا کی ذات بابر کات ہیں ۔ 
تو اس طرح حضور ا فرماتے ہیں کہ اوتیت علم الاولین والاخرین اگلوں کے یعنی سارے انبیاء علیہم السلام کو جو علوم دیئے گئے ہیں وہ میرے سینے میں جمع ہیں حقیقت یہ ہے کہ اصل میں آپ ا کے سینے میں ہیں ۔ آپ ا کے فیضان سے دوسروں کو پہنچائے گئے ہیں ۔ آپ حس مشترک اورام الدماغ ہیں اور انبیاء مثل آنکھ ناک، کان کے ہیں علم کا فیض یہاں سے پہنچ رہا ہے کسی کو کوئی علم بلا یہی وجہ سے کہ آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ علم ادم الاسماء کلھا کما علمت الاسماء کلھا آدم علیہ السلام کو اسماء وصفات کا علم دیا گیا جیسا کہ سارے اسماء وصفات کا مجھے علم عطا کیا گیا ہے ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان علمی 

حضرت یوسف علیہ السلام کو تعبیر خواب کا علم دیا گیا اور قرآن کریم میں متعدد واقعات خواب کی تعبیر میں آتے ہیں ، جو یوسف علیہ السلام سے وابستہ ہیں یہ بڑا عجیب علم ہے لیکن جناب رسول اللہ ا کی ذات اقدس کو دیکھا جائے تو آپ نے فقط خوابوں کی تعبیر ہی نہیں دی بلکہ فن تعبیر کے اصول بتلادیئے اس سے بڑے بڑے معبر آپ ا کی اُمّت کے اندر بن گئے تعبیر خواب کے امام پیدا ہوئے ، بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں تو یوسف علیہ السلام نے تعبیریں بتلائیں اور جناب نبی کریم ا نے خواب کی تعبیر کے اصول کلی بتلائے ، اس سے تعبیر دینے والے تیار ہوگئے جو کہ لاکھوں کی تعداد میں گذرے ہیں یہ ایک مستقل علم اور فن بن گیا ۔ 

تعبیر خواب کے عجائبات 

واقفہ نمبر ۱

جیسے کہ امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ حضرت ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میری چار پائی کے نیچے انگارے دھک رہے ہیں فرمایا کہ ، جلدی جا، اور اپنے گھر میں بال بچوں اور سامان کو نکال تیرا گھر گر پڑے گا یہ گیا جلد ی جلدی کر کے سامان نکالا، بیوی بچوں کو نکالا ، ساری چیزیں باہر نکالیں چند گھنٹے کے بعد سارا مکان اوپر سے آن پڑا تعبیر ہاتھ کے ہاتھ نمایاں ہوگئی ۔
کوئی پانچ چھ ماہ کے بعد پھر ایک شخص آیا ، اور اس نے کہا کہ حضرت ! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری چارپائی کے نیچے انگار دھک رہے ہیں فرمایا چارپائی کے نیچے کھدائی کر ، کھود کر دیکھ تجھے سونا ملے گا کھدائی کی تو دیکھا کہ لاکھوں روپے سونا خالص ، زر سُرخ ملا اور وہ شخص مالدار ہوگیا ۔ 
لوگوں نے امام ابن سیرین ؒ سے عرض کہ ایک شخص نے یہی خواب دیکھا ،آپ نے اس کا تو گھر گروادیا اور دوسرے نے وہی خواب دیکھا تو اُسے خزانہ دلادیا ۔ ایک نے کیا قصور کیا تھا اور دوسرے نے کونسا انعام کاکام کیا تھا خواب تو ایک ہے ؟ 
فرمایا کہ پہلے نے گرمی کے موسم میں خواب دیکھا تھا، اور گرمی میں چارپائی کے نیچے آگ دیکھنا یہ انہدام بنیاد کی دلیل ہوتی ہے تو میں نے تعبیر دی کہ تیرا گھر گر جائے ا دوسرے نے جو یہ خواب دیکھا سردی کے موسم میں اور سردی میں چارپائی کے نیچے آگ انتہائی نعمت اور خوشگوار چیز ہوتی ہے اور اس کی آگ کی صورت سونے کی سورت کے مشابہہ ہوتی ہے تو میں نے تعبیر دے دی کہ سونا ملے گا تو گویا فن تعبیر خواب کے اصول ہیں انہیں اصولوں کی رو سے تعبیر یں منقیٰ ہوجاتی ہیں واضح ہوجاتی ہیں ۔ 

واقعہ نمبر ۲

یہی ابن سیرینؒ اور امام مالک ؒ کا زمانہ ہے امام مالکؒ جلیل القدر امام ہیں تابعی بھی ہیں صاحب مذہب ہیں ۔ 
امام مالکؒ کی حالت یہ تھی کہ مدینہ منورہ سے انتہائی محبت تھی اور مدینہ کی محبت میں غرق تھے درحقیقت محبت نبوی ا تھی اس کی وجہ سے امام مالکؒ کو ایک ایک چیز مدینہ کی عزیز تھی ، مدینہ کی زمین کا ایک ایک ذرّہ عزیز تھا اور چاہتے یہ تھے کہ کسی طرح سے میں مدینہ کی زمین میں دفن ہوجاؤں اس ڈر کی وجہ سے حج نفلی نہیں ادا کرتے تھے کہ کہیں مدینہ سے باہر نہ میرا انتقال ہوجائے ۔ 
یہ چاہتے تھے کہ یہیں انتقال ہو یہیں دفن ہوجاؤں اور جی چاہتا ہے حج نفل ادا کرنے کو ، مگرڈر کی وجہ سے نہیں جاتے تھے 
ایک دن خواب میں دیکھا کہ جناب رسول اللہ ا کا درہا ہے اور امام مالک دربار میں حاضر ہیں تو بڑے درودالتجاء سے عرض کیا اور بڑی لجاجت سے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرا جی چاہتا ہے کہ مدینہ کی زمین مجھے قبول کرلے اور اسی لئے میں ڈر کے مارے حج نفلی نہیں ادا کرتا کہ مدینہ سے باہر جا کے کہیں میرا انتقال نہ ہوجائے ، اور کہیں باہر دفن نہ کردیا جاؤں تو مجھے یہ بتلادیا جائے کہ میری عمر کتنی باقی ہے ؟ اگر مجھے یہ علم ہوجائے کہ ابھی عمر کے کئی برس باقی ہیں تو ہر سال نفلی حج ادا کرلیا کروں گا ۔ 
اس لئے یہ بتلا دیا جائے کہ میری عمر کتنی باقی ہے ؟ تو حضور ا نے ہاتھ اُٹھا کر اس طرح پانچ انگلیاں سامنے کردیں ۔۔۔۔۔۔۔اور انکی آنکھ کھُل گئی ۔
امام مالکؒ حیران کہ پانچ انگلیوں سے مراد آیا یہ ہے کہ پانچ ماہ تمہاری عمر کے رہ گئے ہیں ؟ یا پانچ برس مراد ہیں یا پانچ دن مراد ہیں ؟ یا پانچ ہفتے مراد ہیں ؟ 
میں نے عمر کی مدت پوچھی تھی آپ نے پانچ انگلیاں سامنے کردیں اب سمجھ میں نہیں آتا کہ پانچ ہفتے مراد ہیں پانچ ماہ مراد ہیں یا پانچ برس ۔
اس لئے ایک آدمی کو ابن سیرین ؒ کے پاس بھیجا جا کے اس خواب کی تعبیر پوچھ کے آئے مگر نام نہ لینا کہ مالک ؒ نے یہ خواب دیکھا ہے یوں کہنا کہ ایک مسلمان نے یہ خواب دیکھا ہے میرا نام نہ لیا جائے ذکر نہ کیا جائے یہ خادم ابن سیرینؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ ایک نیک مسلمان نے یہ خواب دیکھا ہے کہ حضور ا سے اس نے پوچھا کہ میری عمر کتنی باقی رہ گئی ہے ؟ آپ نے پانچ انگلیاں سامنے کردیں تو اس خواب دیکھنے والے نے تعبیر پوچھی ہے ۔ 
امام ابن سیرینؒ نے فرمایا کہ یہ خواب کس نے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا اس شخص نے نام بتلانے کی ممانعت کردی ہے فرمایا کہ یہ خواب بہت بڑا عالم ہی دیکھ سکتا ہے جاہل تو جاہل ،معمولی علم کا آدمی بھی یہ خواب نہیں دیکھ سکتا یہ خواب کسی بڑے عالم کا خواب ہے اور مدینہ میں امام مالک ؒ سے بڑا کوئی عالم نہیں ۔ 
تو مالک ؒ نے تو یہ خواب نہیں دیکھا ؟ اب یہ چپ ہوگیا فرمایا کہ جاؤا س سے اجازت لے کر آؤ، بتاؤ تب میں تعبیر بتلاؤں گا وہ شخص واپس آگیا اس نے جاکے امام مالکؒ سے عرض کیا کہ حضرت ! وہ تو پہچان گئے کہ خواب دیکھنے والے آپ ہیں اس واسطے (نام ظاہر کرنے کی ) اجازت دے دیجئے فرمایا اچھا میرا نام لے دو اس نے آکے نام لے دیا کہ امام مالکؒ نے یہ خواب دیکھا ہے فرمایا کہ امام مالکؒ ہی یہ خواب دیکھ سکتے تھے یہ چھوٹے موٹے عالم کا کام نہیں تھا کہ یہ خواب دیکھتا ۔ 
فرمایا جاکے امام مالکؒ کو تعبیر بتلادو کہ تم نے اپنی عمر پوچھی تھی حضور ا نے پانچ انگلیاں دکھلائیں تو نہ پانچ برس مراد ہیں نہ پانچ مہینے مراد ہیں نہ پانچ ہفتے مراد بلکہ اشارہ ہے حدیث کی اس روایت اور قرآن کی اس آیت کی طرف ھی من خمس لا یعلمھن الا اللہ کہ کسی کی موت کا وقت ان پانچ چیزوں میں سے ہے کہ جن کا علم اللہ کے سواکسی دوسرے کو نہیں ہے ۔ 
ان اﷲ عندہ علم الساعۃ،ونزل الغیث، ویعلم ما فی الارحام وما (۴) تدری نفس ماذا تکسب غداً، وما تدری نفس بای ارضٍ تموت اللہ ہی کے پاس ہے قیات کا علم کہ کب آئے گی کسی کو پتہ نہیں دیا گیا کہ کب آنے والی ہے اور بارش کی اصلیت وحقیقت کہاں سے ہے اس کا بتدائی شرچشمہ کون ہے ، کہاں سے چلتا ہے ؟ اللہ کے سو دوسروں کو پتہ نہیں ہے اسباب کے درجے میں ہم کچھ پتہ چلالیں کہ مان سون آئے گا ، وہ بر سے گا بادل بنیں گے لیکن خودمان سون کیسے بنا ، اس کے اوپر کا سر چشمہ کیا ہے اور اصل کی اصل کیا ہے کس طرح پانی کی تکوین ہوئی اللہ ہی جانتا ہے ۔ 
یعلم مافی الارحام اور ان اصولوں سے اللہ تعالیٰ ہی واقف ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہّ بنے گا یا لڑکی بنے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لڑکا ہوگا یا لڑکی ۔۔۔۔۔۔؟کسی جدید خبر کش سے کسی کو معلوم ہوجائے ، یہ ممکن ہے لیکن ان اصولوں کی اطلاع کہ لڑکا اور لڑکی رحم ماور میں کس طرح بنتے ہیں یہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔وما تدری نفس بای ارض تموت ،کسی شخص کو پتہ نہیں ہے کہ کل کس زمین میں وہ دفن کیا جائیگا ، تو امام مالکؒ کو کہدینا جاکے کہ پانچ انگلیوں سے پانچ دن ، پانچ سال یا پانچ مہینے مراد نہیں بلکہ پانچ اصول مراد ہیں کہ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ خدا ہی جانتا ہے کہ کس زمین کون دفن ہوگا کس زمین میں کس کا انتقال ہوگا ۔ یہ تعبیر دی تو فرمایا کہ امام مالک ہی یہ خواب دیکھ سکتے ہیں ۔ اس واسطے کہ حضور ا نے وہ علمی جواب دیا ہے کہ ہر عالم اس خواب کی تعبیر کو نہیں سمجھ سکتا ۔
تو میرے عرض کرنے کا مطلب یہ تھا کہ یوسف علیہ السلام نے خواب کی تعبیریں دی ہیں اور حضور ا نے قرآن وحدیث میں تعبیر کے اصول قائم کردیئے کہ جس سے تعبیر خواب ایک عظیم فن بن گیا اس سے بڑے بڑے امام بن گئے ۔ بڑی بڑی کتابیں اس فن کے اندر لکھی گئیں ۔ 
امام ابن سیرینؒ کی خواب کی تعبیریں اور اصولوں کو ایک کتاب کے اندر جمع کیا گیا ہے بڑی ضخیم دو جلدیں ہیں تاثیر المنام فی تعبیر المنام اس میں ہزاروں خوابوں کی تعبیریں ذکر کی گئی ہیں اور وہ اصول ذکر کئے گئے ہیں جن کے ذریعے خواب کی تعبیریں نکالی جاتی ہیں تو ابن سیرینؒ بڑے امام ہیں ان کے بعد بڑے بڑے علماء اور بھی گزرے جو بہترین تعبیریں دینے والے ہیں ۔ 

واقعہ نمبر ۳

قاضی محمد ایّوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو بھوپال میں قاضٰ القضاۃ تھے مشہور تھے ادہر تعبیردی ۔ اور ہاتھ کے ہاتھ تعبیر کے مطابق واقعہ پیش آتا ۔ 
ان کے زمانے میں ایک شخص نے خواب دیکھا جو ایک نوجوان اھل حدیث تھا اس نے خواب دیکھا نواب صڈیق حسن خاں مرحوم کا زمانہ ہے اس زمانے میں قاضی محمد ایوب صاحب بھوپال کے قاضی القضاۃ ہیں ۔ ان کے دفتر میں وہ نوجوان اھل حدیث ملازم تھا قاضی صاحب دورے پر گئے بھوپا ل سے کوئی چالیس میل کے فاصلہ پر پڑاؤ تھا ۔ اس نے خواب دیکھا اور قاضی صاحب کے پاس آکے ذکر کیا کہ حضرت میں نے یہ خواب دیکھا ہے کہ نماز کی ایک بہت بڑی جماعت کھڑی ہوئی ہے لاکھوں آدمی ہیں صفیں بندھیہ ہوئی ہیں اور صف اولیٰ میں جناب رسول اللہ ا ہیں اور نواب صدیق حسن خاں صاحب مرحوم ، امامت کرارہے ہیں یہ میں نے خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر کیا ہے ؟ 
تو وہ نوجوان یہ سمجھے ہوئے تھا کہ اسمیں اشارہ ہوگا نواب صاحب کی کسی فضیلت کی طرف ، کسی منقبت ، بڑائی اور بزرگی کی طرف جوامامت کرار ہے ہیں اور حضور ا ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں قاضٰ صاحب نے فرمایا کہ کیا واقعی تو نے یہ خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ حضرت واقعی فرمایا کہ اگر واقعی تو نے یہ خواب دیکھا ہے تو نواب صدیق حسن خاں کا انتقال ہوچکا ہے ۔ 
وہ بھی چپکا ہوگیا اس کے ذہن میں جوبات تھی تعبیر اس کے برعکس آئی کہ اگر واقعی دیکھا ہے تو نواب صدیق حسن خاں فوت ہوچکے ہیں ۔ 
کچھ دیر بعد اطلاع آئی کہ نواب صاحب کا انتقال ہوگیا ہے کچھ عرصہ سے بیماری چل رہی تھی سب لوگ دوڑ گئے اور ماتمی جنازہ بن گیا تین دن ریاست کی طرف سے ماتم رہا ۔۔۔۔۔۔۔
تین دن کے بعد یہی اھل حدیث نوجوان قاضی صاحب ک پہنچا کہ حضرت تعبیر بالکل ہاتھ کے ہاتھ نمایاں ہوئی جو تعبیر تھی وہ واقعہ ہوگیا لیکن آپ نے خواب کی یہ تعبیر کیسے کبھی ؟ ظاہر میں تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ نواب صاحب کی کوئی بڑائی کوئی عظمت ، کوئی فضیلت ظاہر ہوگی ۔ ان کو امام کے درجے پر دکھلایا گیا ۔آپنے بالکل برعکس تعبیردی یہ تعبیر آپ نے کیسے سمجھی ؟ 
سُبحان اللہ !عجیب اصول بیان کیا ہے فرمایا کہ میں نے اس سے یہ تعبیر سمجھی کہ نبی کی موجودگی میں کسی کو امامت کا حق نہیں ہے اگر نماز میں نبی کے آگے کوئی ہوگا تو جنازہ تو ہوسکتا ہے زندہ نہیں ہوسکتا کہاں پہنچا دماغ ؟ یہ تعبیر اصول کو سامنے رکھ کردی تو بڑے بڑے مُعّبر اس اُمّت کے اندر گذرے ہیں ۔ 

واقعہ نمبر ۴

اسی طرح حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بانی دارالعلوم دیوبند بھی مشہور تھے فن تعبیر خواب میں کہ ادھر تعبیر دی ادھر واقعہ ہاتھ کے ہاتھ نمایاں ہوجاتا اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ عقلی دلائل بھی ہوتے ۔ دلائل سے تعبیر کرتے کہ اس خواب کی تعبیر یہی ہونی چاہیے ۔
حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب ؒ جو دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے صدر مدرس ہیں اور فقط عالم ہی نہیں تھے عارف باللہ کامل اولیاء اللہ میں سے ہیں اور صاحب کشف وکرامت لوگوں میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا اور اپنے بھائی مولانا نانوتوی صاحب کیخدمت میں خوب پیش کیا ، نانوتہ میں ہی خواب دیکھا جامع مسجد میں نماز پڑھی اور حضرت نانوتوی سے عرض کیا کہ بھائی صاحب میں نے خواب دیکھا ہے تعبیر کچھ سمجھ نہیں آئی ۔ 
وہ یہ کہ میں اپنے گھر سے چلا تو میں نے اپنے ساتھ دبنے کی شکل کا بھینسا دیکھا جیسے بڑا بھینسا ہوتا ہے ایسا وہ ڈُنبہ ہے وہ میرے مدمقابل آیا اور میرا راستہ روکا ، میں نے آگے بڑھ کر اس کے سینگ پکڑلئے، میری اور اس کی کشاکشی ہورہی ہے کبھی وہ مجھے دوگز دھکیل کے پیچھے کردیتا ہے اور کبھی میں زور لگا کے اسے دھکیلتا ہوں ۔ وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے غرض اسی طرح کی کشاکشی ہوتی رہی اسی کشاکشی میں اس نے میری بائیں ران پر سینگ مارا تو دو تین قطرے خون کے نکل پڑے اور میری آنکھ کھل گئی عرض کیا اس کی کیا تعبیر ہوگی ؟ میری سمجھ میں نہیں آئی ۔۔۔۔۔۔۔
حضرتؒ نے فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کہ ’’بنی اعمام‘‘ میں کسی چھوٹی بچی انتقال ہوجائے گا یہ تعبیر دے ہی رہے تھے کہ ایک عورت روتی ہوئی آئی کہ پرسوں فلاں صاحب کے جو بچی پیدا ہوئی تھی اس کا انتقال ہوگیا ۔فرمانے لگے لیجئے بھائی صاحب ! تعبیر آگئی مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھی حیران عرض کیا کہ حضرت تعبیر تو واقعی ہوگئی ، مگر آپ اس سے کیسے سمجھے کہ ’’بنی اعمام‘‘ میں چچا تا یاؤں کی اولادمیں سے ایک بچی کا انتقال ہوجائے گا ۔ 
تب حضرت نے اس کے دلائل بیان کرنے شروع کئے یعنی خواب کا مسئلہ ہے اور اسے دلائل سے ثابت کر رہے ہیں ۔ 
فرمایا کہ : آپنے ایک دُنبے یا مینڈھے کو دیکھا جو بھینسے کی شکل میں ہے فرمایا حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ موت کو قیامت کے دن مینڈھے کی شکل میں متشکل کیا جائیگا اور جنت دوزخ کے درمیان میں لاکے اس کو کھڑا کیا جائیگا جنت والوں کو منادی کی جائیگی کہ سب جنت کی شہر پناہ پر آجاؤ تو جنت والے ڈریں گے کہہ کہیں جنت سے ہمیں نکالا تو نہیں جارہا ڈرتے ڈرتے شہر پناہ کے اوپر آجائیں گے پھر جہنم والوں کو منادی کی جائے گی کہ تم بھی شہر پناہ کے اوپر آجاؤ تو اس توقع میں خوش ہوکے آئیں گے کہ شاید ہمیں جہنم سے نکلنے کی اجازت ہوجائے ۔ تو دونوں آمنے سامنے کھڑے ہوجائیں گے بیچ میں ایک مینڈھے کھڑا کردیا  جائیگا ۔ 
پوچھا جائے گا کہ اے اھل جنت اور اھل نار! جانتے ہو یہ کیا چیز ہے ؟ کہیں گے کہ یہ موت ہے اس لئے کہ سب کو سابقہ پڑچکا ہوگا ، تو یہی مینڈھے کی شکل میں موت ہوگی جس سے سلب روح ہوتی ہے پھر اس مینڈھے کو ذبح کردیا جائے گا فرمایا جائے گا کہ اب موت کہ موت آچکی اے اھل جنت اب موت کا کوئی سوال نہیں جنت میں ابدالآباد کی زندگی بسر کرو ۔ اور اے اھل جہنم ! اب موت کو موت آگئی ابدالآباد تک تم اسی جہنم میں رہو، تو جنت والوں کو اتنی خوشی ہوگی کہ اگر موت کو موت نہ آگئی ہوتی تو شاید شادی مرگ سے وہ مرجاتے ، اور جہنم والے اتنے حسرت ردہ ہوں گے کہ اگر موت کو موت نہ آئی ہوتی تو شاید حسرت وغم میں مرجاتے ۔
بہرحال حضرتؒ نے فرمایا کہ موت کو مینڈھے کی شکل دی جائے گی ۔ آپ نے مینڈھے کو دیکھا اور سینگ پکڑ کر مقابلہ کیا تو آپ کا یہ مقابلہ موت سے ہوا فرمایا خواب کی تعبیر کا پہلا جز تو یہ ہے ۔ 
دوسری بات یہ فرمائی کہ عرب میں عربی زبان میں جب بھی قبیلوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو جدی رشتوں کو بطن کہتے ہیں یعنی پیٹ کا حصہّ دادا، پر دادا وغیرہ یہ بطون کہلاتے ہیں اور اپنی اعمام ، چچا، تائے کے لڑکے ان کو فخذ سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی ران کا حصہّ تو فرمایا کہ آپ کا موت سے مقابلہ ہوا اور مقابلہ میں موت کا سینگ آپ کی ران میں لگا اس سے میں سمجھا کہ بنی اعمام میں موت واقع ہوگی جدی رشتہ والوں سے کوئی نہیں مرے گا بلکہ چچا تائے کے رشتہ والوں سے کوئی مرے گا۔ اور فرمایا کہ بائیں ران سے خون نکلا تو اس سے میں سمجھا کہ مرنے والی لڑکی ہوگی کیونکہ لڑکی بائیں جانب کی پیدائش ہے اور فرمایا کہ خون کے دو تین قطرے نکلے اس سے میں سمجھا کہ کوئی چھوٹی عمر کی بچی ہوگی ان سارے مقدمات کو ملا کر میں نے تعبیردی اور وہ ہاتھ کے ہاتھ نمایاں ہوگئی ۔ 
تو نبی کریم ا نے نہ صرف کتنے خوابوں کی تعبیریں ہی ارشاد فرمائیں بلکہ قرآن وحدیث میں ایسے اصول ارشاد فرمائے جس سے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تعبیر دینے والے پیدا ہوگئے مستقل فن بن گیا ۔ 

واقعہ نمبر ۵

وہ بات یاد آگئی تو اسے بھی کہہ دوں ،پھر آگے چلوں حضرت نانوتویؒ کی ہی خواب کی تعبیر کا ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا مولانا محمد منیر صاحبؒ ، حضرتؒ کے بھائی تھے ۔ وہ ایک دن تشریف لائے کہ بھائی صاحب! میں نے ایک خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر چاہتا ہوں۔ خواب یہ ہے کہ بریلی کی جانب سے کچھ بطخیں اُڑتی ہوئی آئیں اور میرے مکان پر آکر اُتر گئیں اس کی کیا تعبیر ہوئی ؟        
حضرت نے فرمایا کہ بھائی جان اگر آپ مٹھائی کھلائیں تو ہم آپ کو بیس روپے مہینہ کی ملازمت دلادیں اور اگر مٹھائی نہیں کھلاتے تو پھر گیارہ روپے مہینہ کی ملازمت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے کہا کہ حضرت میں مٹھائی کھلاؤں گا تو فرمایا کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ بریلی میں بیس روپے ماہوار یہ تمہاری نوکری ہوجائے گی یہ تعبیر دی چار پانچ دن کے بعد مولانا محمد منیر صاحبؒ کے پاس ان کے کسی عزیز کا خط آیا کہ مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ آپ پر کچھ معاشی تنگی ہے خرچہ نہیں چل رہا تو میں نے فرضی طور پر آپ کے نام ایک درخواست دیدی وہ قبول ہوگئی بیس روپے مہینہ کی ملازمت آپ کی ہوگئی آپ چلے آئیں ۔ 
وہ حضرت نانوتویؒ کے پاس آئے کہ وہ جو تعبیر دی تھی ۔ وہ واقعی بیس روپے کی ملازمت ملی مگر انہوں نے اول تو یہ عرض کیا کہ آپ نے اس خواب سے یہ تعبیر کیسے سمجھی ؟ 
تو حضرتؒ نے واقعی عجیب دلیل بیان کی فرمایا کہ تم نے بریلی سے بطخیں آتی ہوئی دیکھیں اس سے تو میں یہ سمجھا کہ بریلی کی طرف سے رزق حلال آئے گا اور تمہارے گھر میں رزق آگیا اور بطخوں کو تم نہیں لائے ازخود آئیں اس سے میں یہ سمجھا کہ بلا طلب کے تمہاری ملازمت ہوگی ۔ تو یہ بھی صحیح کلا کہ تم نے درخواست بھی نہیں دی تھی ۔ 
اب یہ کہ ملازمت بیس روپے مہینہ کی یا گیارہ روہے کی ہوگی ؟
تو فرمایا اس میں صورت حال یہ ہے کہ لط کا لفظ عربی میں تو مشدہ ہے بط تو ایک ب اور دو ط اور فارسی میں یہ محفف ہے ایک ب اور ایک ط تو فارسی میں بط کہتے ہیں اور عربی میں بط کہتے ہیں ۔ 
تعبیر دینے والے کو یہ اختیار ہے کہ فارسی کا لفظ لے لے یا عربی کا تو اگر میں فارسی کا بط لے لیتا تو آئیں ب اور ایک ط ہے تو ب کے عدد دو اور ط کے عد نو تو ۹ اور ۲ملکر گیارہ اور عربی کا بط لیتا تو ایک ب اور دو ط ہوئیں تو ب کے دو اور ایک ط کے نو تو نو اور نو ملکر اٹھارہ ،اٹھارہ اور دو بیس ہوگئے معبر کو اختیار ہے کہ وہ فارسی کا بط لے یا عربی کا بط لے لے اس واسطے میں نے یہ تعبیر دی تھی یہ باریک ینیاں اسوقت تک نہیں ہوسکتیں جنک تعبیر خواب کے اصول ذہن کے اندر نہ ہوں تو تعبیر خواب میں علم کی بھی ضرورت ہی موسم کی بھی ضرورت ہو اعداد شمار کے جاننے کی بھی ضرورت ہے بہت سے اصول شریعت نے قائم کردیئے ہیں قران وحدیث میں یہ ایک مستقل فن بن گیا ۔ 

آپ ا کی ذات بابرکات میں علوم کا جمگھٹ 

تو انبیاء علیہم السلام کو جو علوم دیئے گئے وہ حدکمال کیساتھ جمع ہوکر جناب رسول اللہ ا کی ذات کے اندر جمع کردیئے گئے ہیں خواہ تعبیر خواب کا علم ہو خواہ منطق الطیر اور پرندوں کی بولیونکا علم ہو ، خواہ سماء وصفات کا علم ہو یہ سب علوم اسی ذات بابرکات میں جمع کردیئے گئے ہیں اور آپکے بعد جو علماء آنیوالے ہیں وہ آپ ہی کے درکے فیض یافتہ ہونگے وہ تو عالم ہی اسلئے ہونگے کہ آپکا فیض پہنچ رہا ہے تو ایک ذات بابرکات میں علوم کا ایک جمگھٹ ہے ۔ جس خصوصیت سے آپکو علم دیا گیا وہ اوروں کو نہیں ملا تو اور انبیاء کی حقیقت فقط انبیاء کی ہی وہ صرف نبی ہیں اور نبی کریم ا فقط نبی نہیں بلکہ خاتم الانبیاء ہیں اور ختم نبوت کے معنی امنہیٰ نبوت کے ہیں کہ نبوت کی انتہا ہوگئی یعنی سارے درجات نبوت اس ذات اقدس کے اُوپر پوُرے ہوگئے ظاہر بات ہے کہ جو خاتم النبیین ہوگا ، وہ تمام انصاف وکمالات میں بھی خاتم ہوگا تو خاتم العلوم بھی آپ کو کہا جائے گا کہ تمام علوم کے درجات آپکے سینے میں جمع کر دیئے گئے آپ کو خاتم الاخلاق بھی کہا جائے گا کہ اخلاق کے سارے نمونے اور کمالات آپکی ذات بابرکات میں جمع کردیئے گئے اس لئے میں نے عرض کیا تھا کہ جب نبوت کا معیار اور مقا م نبوت کی کسوٹی کمال علم اور کمال اخلاق ہے تو جس کا علم سب سے بڑا ہوگا اس کی نبوت بھی سب سے بڑی ہوگی ۔ 
تو نبی کریم ا کا علم سب سے بڑھ کر بھی ہے اور سب پر حاوی بھی ہے تمام علوم کے آپ جامع ہیں اور پھر آپ کے جو مخصوص علوم ہیں وہ الگ ہیں : اس لئے علم میں آپ سبس ے بڑھے ہوئے ہیں اور اسی واسطے آپ کو انبیاء سابقین کے لئے مصدق کہا گیا کہ آپ ان کی نبوت اور ان کے علوم کی تصدیق کرنے والے ہیں اور تصدیق وہی کیا کرتا ہے جو پہلے سے علوم جانتا ہو ، جو کسی چیز سے واقف نہ ہو وہ تصدیق نہیں کیا کرتا وہ تو سلام کیا کرتا ہے تاکہ کسی کو علم نہ ہوجائے کہ یہ علم نہیں رکھتا لیکن یہ کہنا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ ٹھیک ہے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے اس چیز کو جانتا ہے تو آپ کو مصدق لما معکم کہا گیا ہے اسے پیغمبرو! جو تمہیں علوم دیئے جائیں گے ، ان کی تصدیق کرنیوالے نبی کریم ا ہوں گے تو تصدیق کرنا اس کی دلیل ہے کہ وہ سارے علوم آپ کے اندر جمع تھے اس کی شرح اوتیت علم الاولین والخرین کی حدیث نے کردی مجھے اگلوں اور پچھلوں کے سب کے علوم عطاء کردیئے گئے جب ذات بابرکات علوم میں سب سے اونچا مقام رکھتی ہے تو نبوت میں بھی سب سے بڑا مقام ہوگا تو آپ ا جیسا نبی دوسرا نبی نہیں ہوسکتا آپ ہی کو خاتم النبیین بننا چاہیے تھے آپ ہی نبیوں کے سردار بننے والے تھے آپ ہی کو نبی الانبیاء کہا گیا تو ایک رکن مقام نبوت کا کمال علم ہے اسمیں آپ ا سب سے اوُنچے تھے تو آپ کا مقام نبوت بھی سب سے اونچا ہوگا ۔ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اخلاق 
اخلاق کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اخلاق میں بھی سب سے اونچا مقام نبی کریم ا کو عطاء کیا گیا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو مقام سب سے آخری اور اونچا ہوتا ہے تو نیچے کے سارے مقامات اسمیں جمع ہوتے ہیں مثلاً آپ یوں کہیں کہ فلاں آدمی ’’بخاری‘‘ پڑھا ہوا ہے تو بخاری آدمی کب پڑھے گا ؟ پہلے میزان ومنشعب پڑھے پھر قدوری پڑھے پھر شرح وقایہ پڑھے پھر ہدایہ پڑھے ت جاکے بخاری پڑھے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جسے بخاری آگئی اسے میزان بھی آگئی اسے منشعب بھی آگئی اسے شرح وقایا بھی آگیا ہدایہ بھی آگیا ساری نچے کی کتابیں آگئیں لیکن جو میزان پڑھ چکا ہے ضروری نہیں کہ اسے بخاری بھی آجائے تو نیچے کی چیز جاننے سے اوپر کی چیز کا جاننا ضروری نہیں مگر جو اوپر والی چیز کو جان جائے تو نیچے کی ساری چیزیں جان جائے گا ۔ 
تو نبی کریم ا کو جب اخلاق کا اعلیٰ مقام دے دیا گیا تو اس کے نیچے جتنے مقامات تھے وہ خود بخود آگئے تو آپ ا جامع اخلاق بھی ہیں ۔ 
اور وہ کس طرح سے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
وہ یہ کہ ہم نے جہاں تک غور کیا تو قرآن واحادیث سے اخلاق کی تین قسمیں معلوم ہوتی ہیں ایک اخلاق حسنہ، ایک خلاق کریمانہ اور ایک اخلاق عظیم خلق حسن یہ اخلاق کا ابتدائی درجہ ہے حق تعالیٰ نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو خطاب فرمایا کہ یا خلیلی حسن خلقک اے میرے خلیل اپنے اخلاق کو حسن بناؤ اگرچہ کفار کے ساتھ معاملہ پڑے تب بھی اخؒاق حسنہ سے پیش آؤ اس سے معلوم ہوا کہ ایک خلق حسن ہے جس کی تعلیم حضرت ابراھیم علیہ السلام کو دی گئی ۔ 
ایک خلق کریم ہے جسے حدیث میں آپ ا فرماتے ہیں بعثت لاتمم مکارم الاخلاق میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ کریمانہ اخلاق کو مکمل کر کے تمہارے سامنے پیش کردوں ۔ 
اور ایک خلق عظیم ہے جو خود حضور ا کا ذاتی خلق ہے جس کو قرآن میں فرمایا گیا وانک لعلی خلق عظیم اے نبی آپ خلق عظیم کے اوپر ہیں تو تین قسمیں نکلیں ۔ 
ان تینوں میں فرق کیا ہے ؟ خلق حسن ابتدائی درجہ ہے خلق کریم درمیانہ درجہ ہے اور خلق عظیم انتہائی درجہ ہے ۔ 
خلق حسن کہتے کسے ہیں ؟ عدل کامل کو یعنی معاملہ کوشش کرو کہ اسمیں حد اعتدال سے نہ گزرو، اگر آپ کو خدا ا نخواستہ کوئی ایک تھپڑ ماردے تو آپ نے بھی اتنے ہی زور سے تھپڑمار دیا جتنی زور سے اس نے مارا تھا تو کہا جائے گا کہ آپ خلق حسن کے اوپر ہیں اگر آپ تھپڑ کے جواب میں مُکّہ مارتے تو کہا جاتا کہ بڑے بداخلاق آدمی ہیں اس نے تھپڑ مارا تھا ۔ انہوں نے مُکّہ مار دیا تعدی کی اور زیادتی کی تو تعدی اور ظلم سے بچ جانا یہ خلق حسن ہے یعنی عدل کے اوپر قائم رہنا بال برابر اس چیز کا پورا پورا بدلہ دے دینا یہ خلق حسن کا مفہوم ہے ۔۔۔۔۔۔
اسی طرح اگر آپنے کسی کو ایک روپیہ دیا ہے اور آپ خواہش مند ہیں کہ بدلے میں وہ بھی مجھے ایک دے تو یہ خلق حسن کی بات ہے اور اگر آپ یوں کہیں کہ میں تو دوں ایک اور اس سے وصول کروں پانچ تو کہا جائیگا کہ یہ بداخلاقی کی بات ہے یہ زیادتی کی بات ہے تو خلق حسن کا حاصل اعتدال اور معاملات کا عدل ہے ۔ 
علی ہذا لقیاس اگر کوئی شخص کسی کے اوپر حملہ کردے اسکی آنکھ پھوڑ دے تو اسے بھی حق حاصل ہے کہ حملہ کر کے آنکھ پھوڑدے مگر ایک ہی پھوڑے گا دو نہیں پھوڑے گا دو پھوڑے گا تو کہا جائے گا کہ ظالم ہے تو غرض خلق حسن کا حاصل یہ کہ ادل بدل ہو تو پورا پورا ہو عدل کے مطابق ہو انصاد کے مطابق ہو اس سے گزرنا بداخلاقی ہے ۔ 
دوسرا درجہ خلق کریم کا ہے اسمیں اول بدل تو نہیں ہوتا اسمیں ایثار ہوتا ہے کہ دوسرا زیادتی کرے آپ اسے معاف کردیں ایک نے تھپڑ مارا آپ نے کہا مجھے حق تو تھا بدلہ لینے کا مگر اس احمق اور بے وقوف سے کیا بدلہ لوں جائیں معاف کرتا ہوں یہ کریمانہ خلق ہے دوسرے نے گالی دی آپ کو بھی حق تھا کہ اتنی زیادتی آپ بھی کرتے لیکن آپ نے معاف کردیا تو یہ ایثار کا درجہ ہے اس کو خلق کریم کہیں گے ۔ 
اور تیسرا درجہ خلق عظیم ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی زیادتی کرے تو نہ صرف یہ کہ آپ معاف ہی کردیں بلکہ اُلٹا اس کے ساتھ احسان بھی کریں یہ خلق عظیم کہلاتا ہے جس کو حدیث میں فرمایا گیا کہ صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الی ن اسآئَ الیک جو تمہارے ساتھ قطع تعلق کرے تم جوڑنے کی کوشش کرو جو تمہارے ساتھ بُرائی کرے تم اس کے ساتھ بھلائی کرنے کی کوشش کرو یہ خلق عظیم کہلاتا ہے اور یہ خلق جناب نبی کریم ا کا ہے ۔ 

شرائع سابقہ اور شریعت محمدی کے درمیان اخلاق کا موازنہ

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خلق حسن کی تعلیم دی یعنی مکمل عدل واعتدال کی تو قرآن کریم میں فرمایا گیا وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص ۔
ہم نے توراۃ میں فرض کردیا تھا ۔ اور لاگو کردیا تھا کہ اول بدل ہوگا اگر کوئی تمہارا دانت توڑدے تمہارا فرض ہوگا کہ تم بھی دانت توڑو تمہاری کوئی آنکھ پھوڑدے تمہارا فرض ہوگا کہ تم بھی اس کی آنکھ پھوڑ دو انتقام لینا توراۃ میں واجب کیا تھا معاف کرنا جائز نہیں تھا سخت شریعت تھی تو ناک کا بدلہ ناک ، ہاتھ کا بدلہ ہاتھ ، کان کا بدلہ کان ، دانت کا بدلہ دانت ، اور کوئی زخم لگائے تو تم بھی زخم لگاؤ برابر سرابر تو یہ خلق حسن تھا جس کی تعلیم موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کودی ۔ 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دور ہے انہوں نے خلق کریم کی تعلیم دی ، وہاں تعلیم یہ دی ہے کہ اگر کوئی تمہارے دائیں گال پر تھپڑمارے، تونہ یہ کہ تم بدلہ نہ لو بلکہ بایاں گال بھی سامنے کردو کہ بھائی !ایک تھپڑ اور مارا تاچل یہ ایثار کی بات ہے کہ بدلہ نہیں لیا بلکہ معاف کردیا بلکہ اپنے کو پیش کردیا کہ لے اور مار اگر تیری خوشی اسی میں ہے اور تیراجی اسی میں ٹھنڈا ہوتا ہے تو مار تھپڑ میں مرنے کے لئے تیار ہوں تیر اول ٹھنڈا ہونا چاہیے یہ ایثار کی تعلیم ہے ۔
لیکن نبی کریم ا نے جامع تعلیم دی وہ یہ کہ نہ تو یہ فرمایا کہ تم پر بدلہ لینا واجب ہے اور نہ یہ فرمایا کہ تم پر معاف کرنا واجب ہے دونوں چیزیں جمع کیں اور ساتھ میں اعلیٰ مقام بھی پیش کردیا ، فرمایا کہ وجزآء سیتۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لا یحب الظلمین برائی کا بدلہ برائی ہے تمہیں حق ہے کہ جو تمہارے ساتھ برائی کرے تم بھی برائی کرو کوئی تمہیں تھپڑ مارے تم بھی تھپڑمارو جو مُکّہ مارے تم بھی مُکّہ ماردو برائی کا بدلہ برائی ہے بدلہ لینے کا حق تمہیں حاصل ہے لیکن آگے فرمایا فمن عفا واصلح فاجرہ علی اﷲ اور اگر تم معاف کردو تو اللہ کے ہاں بڑے ڑے درجے ملیں گے تو دونوں حق دیدیئے انتقام لینے کا حق بھی اور معاف کردینے کا حق بھی ۔ 
اس واسطے کہ اسلام دنیا کی ہر قوم کے لئے پیغام ہے اسمیں نرم مزاج قومیں بھی شامل ہیں سخت مزاج بھی اگر یہ تعلیم دی جاتی کہ انتقام لینا تمہارے اوپر واجب ہے تو بیچاری نرمی خوقو میں مشرقی بنگال کے رہنے والے ، ان میں سے کوئی بھی اسلام قبول نہ کرتا کہ اس خونخوار مذہب کو کون قبول کرے؟ کہ اگر کوئی تھپڑمارے تو تمہارے اوپر بھی فرض ہے کہ تم بھی تھپڑمارو، کوئی لاٹھی مارے تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی لاٹھی مارو، یہ تو بڑا سخت مذہب ہے ۔
اور اگر یہ تعلیم دی جاتی کہ معاف کرنا واجب ہے شاید جو پٹھان ہے وہ ایک اسلام قبول نہ کرتا کہ اس بزدلانہ مذہب کو کون قبول کرے کہ بھئی اگر کوئی مارے تو دوسرا گال بھی پیش کردے کیوں بھئی کس لئے ؟ ہم اسے برادشت نہیں کرسکتے تو دونوں قوموں کو جان کر اسلام نے دونوں قوموں کو یہ حق دیئے کہ برائی کا بدلہ برائی سے لے لینا یہ بھی حق اور اگر معاف کردے تو اجروعزیمت کی بات ہے ۔ 
اور اگر معاف کردینے کے بعد اس کے ساتھ خیر خواہی بھی کرے تو یہ خلق عظیم یہ نبی کریم ا کا خلق ہے جس کو ایک موقع پر قرآن کریم نے فرمایا کہ ’’فبمارحمۃ من اﷲ لنت لھم ولوکنت فظاًغلیظ القلب لانفضوامن حولک‘‘ اے پیغمبر یہ تو ہم نے کوٹ کوٹ کر رحمت تمہارے قلب کے اندر بھری ہے اس سے تمہارے قلب میں رمی اور لینت ہے رأفت اور ترس کھانا ہے اگر آپ سخت گیر ہوتے تو یہ جو پروانوں کی طرح جمع ہیں سب بھاگ جاتے ،کوئی پاس نہ پھٹکتا ہم نے آپ ا کے قلب میں نرمی اور رحمت ورأفت بھردی تو اس کا تقاضا کیا ہونا چاہیے فاعف عنھمپہلا مقام آپ کا یہ ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی برائی کرے تو آپ معاف کردیں بدلہ بالکل نہ لیں یہ ہے آپ کی شان ۔
آگے فرمایا کہ فقط یہی نہیں اس سے بڑھ کر آپ کا مقام ہے کہ کوئی برائی کرے تو نہ صرف معاف کردیں بلکہ واستغفرلھم ‘‘ اس کے لئے دعائے مغفرت بھی کریں وہ باغی ہوگیا آپ اس کے لئے دعا مانگیں یہ آپ ا کی وسعت ظرف ہے یہ آپ ا کا حوصلہ ہونا چاہیے تو پہلا درجہ یہ کہ معاف کردیں دوسرا درجہ یہ کہ آپ ا کو مغفرت کی دعا بھی کرنی چاہیے ۔
اور تیسرا درجہ ایک اور آگے بتلایا گیا کہ یہ بھی آپ کی شان سے نیچا ہے آپ کا مقام اس سے بھی زیادہ بلند ہے وہ کیا ۔۔۔۔؟وشاورھم فی الامرانہیں براکہنے والوں سے بُلا کر مشورہ بھی کرلیں تاکہ یہ سمجھیں کہ ہمیں اپنا بھی سمجھا تو وہ تو کررہے ہیں برائی ، آپ ا انہیں اپنا بنار ہے ہیں ۔ وہ تو دے رہے ہیں گالیاں آپ ان کو دعائیں دے رہے ہیں یہ خلق عظیم ہے ۔ 
تو جو خلق عظیم کا مالک ہوگا خلق حسن بھی اس کے نیچے آگیا خلق کریم بھی اس کے نیچے آگیا اس لئے کہ جب اعلیٰ مقام حاصل ہے تو درمیان کا اور ادنیٰ مقام بھی حاصل ہے تو معلوم ہوا کہ جناب نبی کریم ا کو اخلاق کا بھی وہ نمونہ دیا گیا ہے کہ سارے اخلاقی نمونے اس کے اندر جمع ہوجاتے ہیں ۔ 
تو علم کا تو وہ مقام کہ سارے علوم نبوت آپ ا میں جمع کردیئے گئے اخلاق کا وہ مقام کہ سارے پیغمبروں کے اعلیٰ اخلاق جمع کردیئے گئے اور یہی دوچیزیں بنیاد نبوت تھیں کمال علم اور کمال اخؒاق تو جب یہ دونوں چیزیں اعلیٰ طریق پر حضور ا میں موجود ہیں تو آپ کی نبوت سب سے زیادہ اونچی نبوت تھی تو آپ ا کا مقام نبوت اتنا بڑا اونچا مقام ہے کہ اور انبیاء علیہم السلام وہاں تک نہیں پہنچ سکتے اسی لئے آپ ا ارشاد فرماتے ہیں ’’لی مع اﷲ وقت لایسعیٰ ملک مقرب ولابنی مرسل‘‘مجھے وہ قرب ہونا ہے اللہ تعالیٰ سے وہ نزدیکی میسر آتی ہے کہ وہاں تک نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچا نہ کوئی بنی مرسل پہنچا جہاں تک اللہ کے ہاں میری رسائی ہے ۔ 
تو بہرحال اس سے جناب رسول اللہ ا کا مقام نبوت واضح ہوا ۔ 

مقام نبوت کے آثار 

اس مقام نبوت کے آثار کیا ہیں ؟ ان آثار کو ان دوحدثیوں میں بیان کیا گیا جو میں نے ملاومت کی تھیں دو غرضیں آپ نے اپنی بعثت کی بیان کیں ۔ دو مقصد بیان فرمائے وہ کیا ہیں ؟ ایک یہ کہ انما بعثت معلماً اور دوسرے بعثت لاتمم مکارم الاخلاق میں اس لئے بھیجا گیا ہوں دنیا میں کہ تعلیم دے کر دنیا میں علم پھیلاؤں اور اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تکریم کر کے سب کو بااخلاق بنادوں تو جو دورکن مقام نبوت کے ہیں علم اور اخلاق نہیں دو کے پھیلانے کے لئے آپ ا دنیا میں تشریف لائے یہی بعثت کی غرض وغایت ہے ۔
حدیث میں ہے کہ آپ ا ایک دن مسجد نبوی میں تشریف لائے تو صحابہث کے دو گروہ تھے ایک ایک طرف اور ایک ایک طرف ایک گروہ تو مسئلے بیان کرنے میں لگا ہوا تھا تعلیمی مسائل میں کہ یہ جائز ہے یہ ناجائز ہے مسئلہ یہ ہے کہ یہ حلال ہے باحرام علمی باتیں ہورہی تھیں اور ایک جماعت عبادت اور زہد وتقویٰ میں مشغول تھی کوئی تلاوت میں مشغول تھا ، کوئی درود پڑھنے میں مشغول تھا ، عبادت میں لگے ہوئے تھے ، دونوں کو دیکھ کر آپ ا نے فرمایا کلا کما علے الخیر دونوں جماعتیں خیر پر ہیں یہ عباد اور زہاد کی جماعت بھی خیر پر ہے اور یہ علماء وفضلاء کی جماعت بھی خیر پر ہے مگر فرمایا انما بعثت معلما بھائی میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ فرما کر اس جماعت میں بیٹھ گئے جو مسئلے مسائل کا تذکرہ رہی تھی تو نبوت کی سب سے بڑی غرض وغایت تعلیم ہے جس سے علم دینا کے اندر پھیلے تو آپ ا معلم بن کر آئے اور دنیا کے اندر آپ نے علم پھیلایا اور لوگوں کو عالم بنایا ۔

آپ ا کو معجزہ علمی دیا گیا 

ظاہر ہے کہ علم اللہ کی صفت ہے بندہ کی صفت نہیں اس علم کو پھیلانا گویا بندہ کو خدا سے وابستہ کرنا ہے چونکہ آپ تعلیم دینے کے لئے تشریف لائے تو سب سے بڑی نبوت آپکی تو سب سے بڑی تعلیم بھی آپکی اسی واسطے آپ کو معجزہ بھی ’’علمی‘‘ دیا گیا یعنی ہزاروں معجزے آپ ا کو علمی ملے لیکن سب سے بڑا معجزہ آپ ا کا قرآن کریم ہے جو علمی معجزہ سے علمی معجزہ نے سب کو تھکادیا عاجز کردیا کہ کوئی اس کی نظیر نہ لاسکے قرآن نے چلیج بھی کئے اور فرمایا:  ’’قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یانوابمثل ھذا القران لا یأتون بمثلہ ولوکان بعضھم لبعض ظھیراً ‘‘اگر سارے جن اورانسان مل جائیں اور ایک دورے کی مدد پر کھڑے ہوجائیں کہ اس قرآن کی نظیرلے آئیں تو وہ نہیں لاسکتے ناممکن ہے ۔ 
تنزل کر کے کہا کہ سارے قرآن کی نظیر نہیں تو کم سے کم دس سورتیں ہی بنا لائیں ’’فأتو ابعشر سور مثد مفتریت۔‘‘
کفار نے یہ الزام دیا تھا کہ یہ تو افتراء کردہ کلام ہے یہ تو تہمتیں باندھ رکھی ہیں ،فرمایا گیا کہ یہ تہمت ہے اسی قسم کی تہمتیں تم بھی لے آؤ دس ہی صورتیں بنالاؤ۔
پھر اور زیادہ تنزل کیا کہ فاتوابسورۃ مثلہ دس سورتیں تو تم نہ لاسکے ، ایک ہی سورت بنالاؤ جو قرآن جیسی ہو کہا س کا اسلوب بیان بھی وہی ہو فصاحت وبلاغت بھی اعجازمی ہو اسمیں علوم بھی اتنے ہی بھرے ہوئے ہوں اسمیں لطائف وحکم بھی بھرپور ہوں تو اس جیسی ایک ہی سورت بنالاؤ۔ 
اور اس سورت میں بھی یہ قید نہیں لگائی کہ سورئہ بقرہ جیسی ہو جو ایک ہی سورت اڑھائی پارے کی ہے انّا عطینک (سورۃ کوثر) جیسی سورۃ لے آؤ جو ایک سطر سے بھی کم میں آجاتی ہے ۔ 
اور پھر او تنزل کیا کہ فلیا توا بحدیث مثلہ ان کانواضدقین سورۃ تو بجائے خود ہے ایک آیت ایک بات ہی قرآن جیسی بنالاؤ، مگر نہیں لاسکے تولوگوں نے لڑائیاں لڑیں گالیاں دیں برا بھلا کہا لیکن یہ صاف صورت کیوں نہ اختیار کی کہ اس کی نظیر بناکے پیش کردیتے سارے جھگڑے ختم ہوجاتے آپ ا کا تو سب سے بڑا معجزہ علمی قرآن ہے اور معجزہ کے معنی یہ ہیں کہ دنیا تھک جائے مگر مثل نہ لاسکے اس کو معجزہ کہتے ہیں ۔ 

علمی معجزہ دیئے جانے کی حکمت 

تو آپ ا کا سب سے بڑا معجزہ علمی ہے عملی معجزے بھی ہزاروں دیئے گئے لیکن پچھلے انبیاء کو صرف عملی معجزے دیئے گئے عیسیٰ علیہ السلام کو اجائے موتی دیا گیا موسیٰ علیہ السلام کو عصاء موسیٰ اور بدبیضار دیا گیا ابراہیم علیہ السلام کو نارخلیل کا معجزہ دیا گیا یوسف علیہ السلام کو قمیص یوسف کا معجزہ دیا گیا کہ ان کا کُرتہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں پر ڈالدیا گیا تو بینائی لوٹ آئی آنکھیں واپس آگئیں، داؤدعلیہ السلام کو ’’الانتہ حدید‘‘ کا معجزہ دیا گیا کہ لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو موم کی طرح سے پگھل جاتا تھا مختلف انبیاء کو مختلف عملی معجزات دیئے گئے اور حضور ا کو ایسے عملی معجزات سینکڑوں دیئے گئے تھے مگر سب سے بڑا معجزہ عملی دیا گیا وہ قرآن کریم ہے اور اس کا اثر گیا ہے ؟ 
یہ قاعدہ کی بات ہے جب دنیا سے کوئی عامل رخصت ہوتا ہے اس کا عمل بھی ساتھ ہی رخصت ہوجاتا ہے عمل باقی نہیں رہتا جب عامل گیا تو عمل بھی گیا لیکن اگر عالم دنیا سے رخصت ہوجائے تو علم رخصت نہیں ہوتا وہ باقی رہتا ہے ابدتک باقی رہتا ہے تو معجزہ درحقیقت نبوت کی دلیل ہے تو انبیاء سابقین کے معجزات عملی تھے جب وہ دنیا سے تشریف لے گئے ان کے معجزات بھی گئے تو کسی نبوت کی دلیل آج دنیا میں موجود نہیں لیکن نبی کریم ا کو عملی معجزہ دیا گیا اور علم ، عالم کے جانے سے ختم نہیں ہوتا آپ ا  تشریف لے گئے مگر دلیل نبوت آج تک موجود ہے اس لئے نبوت بھی موجود ہے اس لئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے سحت آجاؤ اور عمل کرو اس لئے کہ جب وہ نبوت موجود نہیں اور یوں موجود نہیں کہ دلیل نبوت موجود نہیں اس لئے ہم چیلنج نہیں کرسکتے ، عمل کے لئے بھی نہیں کہہ سکتے لیکن نبوت محمدی کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ نبوت موجود ہے عمل کرو ، اس لئے کہ دلیل اس کی موجود ہے اور وہ قرآن ہے جو کہ علمی معجزہ ہے آج بھی اس کا چیلنج اسی طرح موجود ہے جیسے پہلے تھا ۔ 
حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی عجیب تعبیر 
تو سب سے بڑی چیز آپ کو علمی معجزہ دیا گیا آپ کی ذات بابرکات میں علم رچایا گیا ،حدیث میں ہے کہ اول ماخلق اللہ نوري سب سے پہلے اللہ نے میرا نور پیدا کیا تو یہاں یہ نور مراد نہیں جو چاند سورج کا حِسّی نور ہوتا ہے یہ تو بہت کم درجے کی چیز ہے اس نور کے مقابلے میں جو آپ اکا نور ہے وہ حقیقت محمدی ہے جو علم سے گوند کر بنائی گئی ہے اس کے اندر اصل علم ہے گویا علم روپے میں رچایا گیا استعدادعلمی رچائی گئی تو حقیقت محمد یہ درحقیقت علم ہے تو آپ ا کی ذات میں بھی علم بھراگیا معجزہ بھی آپ کو علمی دیا گیا ، امت بھی آپکی علمی امت بنائی گئی یہی وجہ سے کہ قرآن کی برکت ہے کہ امام اوزاعیؒ نے لکھا ہے کہ کثرت تصنیف اس امت کی خصوصیت ہے دنیا کی کسی امت میں وہ تصانیف نہیں ملیں گی ، جو اس امت میں ملیں گی کتب خانے بھر دیئے ہزار دوہزار لاکھ دولاکھ نہیں کروڑوں کتابیں آج تک موجود ہیں اور مدت سے چلی آرہی ہیں مصر کے کتب خانے ، اندیش کے کتب خانے جب وہاں انقلاب ہوا، اور مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی ، اور عیسایتوں نے غلبہ پالیا ، تو تعصب میں آکر یہ چاہا کہ ان کا لٹریچر ، ان کا ادب، ان کا سب علمی ذخیرہ فنا کردیا جائے تاکہ ان کا وجود باقی نہ رہے تو ایک مستقل عملہ اندلس حکومت نے مقرر کیا تاکہ مسلمانوں کا لٹریچر ضائع کردیا جائے ۔ 
ایک عورت نے اندلس کی تاریخ لکھی ہے اس میں وہ لکھتی ہے کہ اندلس کے کتب خانوں کو ضائع کرنے کے لئے ایک مستقل عملہ اندلس حکومت نے مقرر کیا تاکہ مسلمانوں کا ادب اور علم باقی نہ رہے اور اس پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے مستقل انچارج آفیسر رکھا تو پچاس برس میں جاکر سب کتب خانے ضائع ہوسکے ہیں تو ایک ایک ملک کے اتنے کتب خانے تھے یہ مسلمانوں کی تصنیف وتالیف نہیں تھی تو اور کیا تھا ؟
بغداد کے اوپر تاتاریوں کا جب سیلاب آیا ہے اور خلافت تباہ ہوگئی اور پارہ پارہ ہوگئی تو بغداد دجلہ کے کنارے پر ہے جو بہت بڑ ادریا ہے پل مسلمانوں نے توڑدیا تھا تاتاریوں نے جب بغداد فتح کرلیا تو صرف ایک کتب خانہ مسلمانوں کا ٹوٹ کر اس کی کتابیں بھر کر دجلے میں سڑک بنائی گئی وہ بہت چوڑی سٹرک بنائی گئی وہ اتنی چوڑی سٹرک تھی کہ چار پانچ گاڑیاں برابر گذرسکتی تھیں یہ صرف ایک کتب خانے کی کتابیں تھیں جس سے دجلہ کا پک بنایا گیا مورخین لکھتے ہیں کہ ان کی سیاہی بہہ کر جو پانی میں گھلی ہے تو ایک مہینے تک علماء کو لکھنے کے لئے روشنائی کی ضرورت نہیں تھی دجلہ کا پانی روشنائی کا کام دیتا تھا تو جس قوم کے ایک ملک کے ایک شہر کے صڑف ایک کتب خانے کا یہ حال ہوا اندازہ کیا جائے کہ بغداد میں کتنے کتب خانے ہوں گے ؟ اندلس میں کتنے ہوں گے ؟ حجاز میں کتنے ہوں گے مصر میں کتنے ہوں گے ؟ خود آپ کے پاکستان میں کتنے کتب خانے میں بہت سے کتب خانے وہ ہیں سندھ وغیرہ میں کہ آج تک ان کو کیڑا چاٹ رہا ہے کوئی پڑھنے والا لکھنے والا ان کتابوں کو نہیں ہے ہزاروں کی ہزاروں کتابیں موجود ہیں ذکیرے ہیں یہ سب علماء السلام کے لکھے ہوئے ہیں اور یہ سب کی سب کتابیں قرآن حکیم کی شرح ہیں ہر کتاب کے شروع میں کوئی نہ کوئی آیت ہے جس سے مضمون کو شروع کیا گیا ہے ۔ 
تو قرآن کریم اتنا عظیم علمی معجزہ ہے کہ لاکھوں کتب خانے بن گئے لاکھوں افراد عالم بن گئے کوئی حدکتابوں اور کتب خانوں کی باقی نہ رہی ۔ 
آپ ا کو معجزہ علمی دیا گیا تو جس ذات اقدس کا علم اتنا بڑا اس کی نبوت کتنی بڑی ہوگی ؟ تو پھر اس کی تعلیم کتنی بڑی ہوگی ؟ تو فرمایا کہ اما بعثت معلما میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں تو تعلیم آپ ا نے قرآن کے ذریعے دی ، اس قرآن نے دنیا بھر کے اندر علم پھیلایا جس سے بڑے بڑے علماء تیار ہوگئے ۔ 
قرآن معجزہ نمابھی ہے 
اور میں تو کہتا ہوں کہ قرآن خودہی معجزہ نہیں بلکہ معجزہ نما بھی ہے معجزے بناتا بھی ہے اس لئے کہ قرآن پر چل کر ہی تو خواجہ معین الدین اجمیری ؒ خواجہ اجمیری بنے اور اکابراولیاء اللہ اسی پر چل کر اولیاء اللہ بنے تو قرآن درحقیقت نہ صڑف خود معجزہ ہے بلکہ معجزہ نما بھی ہے اور پھر سلسلہ تاقیامت چلتا ہی رہے گا تو اتنے علوم آپ کی ذات بابرکات میں رکھ دیئے گئے جو تاقیامت ختم ہونے کو نہیں آئیں گے یہ آپ ا ہی کے علوم ہیں جو علماء صوفیاء محدثین اور فقہا کے ذریعے ظاہر ہورہے ہیں علم کا تو یہ عالم تھا اور تربیت آپ ا کی یہ تھی کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار بعض روایات میں جیسے کہ اس سے زیادہ ایک لاکھ ۴۴ہزار کا عدد آیا ہے تو ایک لاکھ چوالیس ہزار نمونے بناکے رکھدیئے کسی مرتی اور معلم کی یہی خوبی سمجھی گئی ہے کہ اپنے شاگرد کو اپنے جیسا بناوے تو ایک ایک کو ایسا بنایا کہ ایک ایک امتہ اور جہان کے برابر بن گیا ایک ایک صحابیؒ پوری امت بن گیا صدیق اکبرص کو دیکھو تو پوری اُمت عمر فاروق ص کو دیکھا جائے تو پورا جہان ، عثمان غنی ص کو دیکھا جائے تو اکیلے ہی پورا عالم ، علی مرتضیٰ ص کو دیکھا جائے تو ایک فرد پورا جہاں ۔ 
حدیث میں جوکہ آپ نے بیان فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ نے پوری اُمّت ایک پلڑے میں رکھی اور مجھے ایک پلڑے میں میرا پلڑا جھک گیا ساری اُمّت سے وزن دار امیر ایمان اور علم وعمل ثابت ہوا، پھر فرماتے ہیں کہ ایک پلڑے میں صدیق اکبر ص  کو بٹھایا گیا اور دوسرے پلڑے میں ساری اُمّت کو تو صدیق اکبر ص کا پلڑا جھک گیا علم وعمل اور اخلاق کے لحاظ سے پوری اُمّت سے وزن دار ثابت ہوا پھر اس پلڑے میں فاروق اعظم صکو بٹھایا گیا اور ساری اُمّت دوسرے پلڑے میں تو فاروق اعظم ص کا پلڑا جھک گیا ۔ 
تو صدیق ص وفاروق ص اور ایسے نمونے بنائے کہ ایک فرد جہانوں کے برابر ثابت ہوا یہ آپ ا کا فیض تعلیم اور فیض تربیت تھا تو صدیق اکبر وفاروق اعظم وعثمان غنی ، علی مرتضیٰ، خالد سیف اللہ ، عبداللہ ابن عباس ،عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہم) یہ تو وہ ہیں جو نمایاں نام ہیں ورنہ ایک ایک صحابی کو دیکھا جائے تو اُمّت کے سارے اقطاب بڑے بڑے غوث جمع ہوجائیں لیکن صحابیت کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے تو جو اخلاص ، معرفت اور للھیت ایک صحابی کے قلب میں جمع تھی اس کا نمونہ غیر صحابی کے قلب میں موجود نہیں ہوسکتا ۔ 
صحابہ ص نے نہ صرف اپنی زندگی کو تج دیا تھا بلکہ زندگی کی غرض وغایت ہی دین بن گیا تھا ۔ 
مقام صحابہ  اور انکی فدائیت 
حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے ایک صحابی ہیں جو عوام صحابہ ث میں ہیں کوئی علماء اور فقہاہیں ان کا شمار نہیں ہے کھیتی باڑی کرتے تھے ھل چلارہے تھے کہ کسی شخص نے جاکر خبر دی کہ نبی کریم ا کی وفات ہوگئی بس ، ہل چھوڑ کے دعاء کے لئے ہاتھ اُٹھائے کہا کہ اے اللہ ! یہ میری آنکھیں اس لئے تھیں کہ تیرے نبی کا دیدار کریں ، یہ میرے کان اس لئے تھے کہ تیرے نبی کا کلام سنیں جب آپ کے نبی (ا) دنیا میں نہیں تو میری آنکھیں ختم کردے۔ میرے کان بھی ختم کردے ، اَب نہ بِینا رہنا چاہتا ہوں نہ شنوا تھے مسبتحاب الدعوات اسی وقت نابینا ہوگئے ، اسی وقت بہرے ہوگئے پھر مرتے دم تک نہ کسی کی صورت دیکھی نہ کسی آواز سنی تو گویا انہوں نے اپنی بینائی اور شنوائی آنکھ اور کان کا مقصد اللہ کے رسول کا کلام سُننا اور جمال مبارک کا دیکھنا بنالیا تھا اور یہی غرض وغایت تھی ۔ 
تو جس قوم کا یہ حال ہو کہ ادنیٰ ادنیٰ فروجس کا علماء میں بھی شمار نہ ہو ، وہ اس درجہ معرفت للھیت اور اخلاص کا مل پر ہو کہ سارے بدن کی قوتوں کی انتہائی غرض نبی ہو تو اس سے بڑھ کر اور کون نمونے تیار کرسکتا ہے ؟ تو ایک لاکھ چوبیس ہزار نمونے اپنے جیسے بنادیئے ، یہ تعلیم اور تکمیل اخلاق کا اثر تھا جس صحابی کو دیکھو علم وعمل کا ایک مجسہ معلوم ہوتا ہے ایثار اور زید وقناعت کا ایک مسجمہ نظر آتا ہے قلوب کی یہ فتار اُمّت کے کسی طبقے میں نہیں جو صحابہ ث میں تھی ۔ 
اسی لئے قرآن کریم نے من حیث الطبقہ اگر کسی طبقے کی تقدیس کی ہے تو وہ صحابہ ث ہیں کہ پورے طبقے کے طبقے کو مقدس قرار دیا ہے ۔ 
’’والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اﷲ عنھم ورضواعنھہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر خلدین فیھا ابداً‘‘ یہ تو سابقین اولین اور مہاجرین وانصار تھے جو بعد میں ملتے گئے مہاجرین وانصار جتنے ہیں وہ وہ ہیں کہ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی طبقے کے طبقے کے ساتھ اللہ تعالیٰ رضامندی کا اعلان کرارہے ہیں اس طبقے کے ساتھ کبھی رضامندی ظاہر نہیں فرماسکتے جس طبقے کے اندر کھوٹ موجود ہو یا ان میں کوئی خرابی موجود ہو اور اعلان کررہے ہیں قرآن کے اندر اور قرآن قیامت تک رہنے والی چیز تو رضی اللہ عنہم کا وعدہ بھی قیامت تک رہے گا ۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کے اُتر نے کے بعد کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں آسکتا کہ صحابہ ث میں کوئی فرق پڑسکے وہ برگزیدہ ہی رہیں گے تاقیامت وہ پسندیدہ ہی رہیں گے ورنہ قرآن کی آیت غلط ثابت ہوگی تو من حیث الطبقہ جس طبقہ کی تقدیس کی ہے اور بزرگی بیان کی ہے وہ صرف صحابہ ث ہیں کہیں فرمایا ’’اولنک ھم الراشدون فضلا من اﷲ ونعمۃ ‘‘ یہ بزرگ لوگ ہیں تو اللہ تعالیٰ جن کو بزرگ کہے انکی بزرگی میں کیا کلام ہوسکتا ہے ؟ 
کوئی یوں کہ صاحب ! پہلے تو ایسے ہی تھے مگر بعد میں معاذ اللہ انمیں کچھ نفاق پیدا ہوگیا تھا تو قرآن کرین نے اس کی تکذیب وتردید کردی فرمایا اولئک الذین امحن اﷲ قلوبھم للتقویٰ لھم مغفرۃ واجر عظیم یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو پہلے ہی جانچ لیا تھا امتحان لے لیا تھا یہ پرکھے پرکھائے لوگ ہیں تو جن کو خدا پرکھ لے ان میں کھوٹ نہیں آسکتا ورنہ پرکھ غلط ثابت ہوگی ، تو بہرحال طبقے کے طبقے کو مقدس کہنا یہ صرف حضرات صحابہ ث کی شان ہے اور صحابہ ث نبی کریم ا کے علم وعمل کا نمونہ ہیں ۔ اسی لئے فرماتے ہیں کہ اصحابی کا لنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم کہیں فرمایا اﷲ اﷲ اصحابی لا تتخذوھم من بعدی عرضاً ،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، ان کو ہدف نہ بناؤ ان پر ملامت نہ کرو ان پر اپنی جانب سے تنقیدمت کرو ان کے بارے میں خدا سے ڈرو تقویٰ اختیار کرو، تو بہرحال نبی کریم ا کے علم وعمل کا نمونہ حضرات صحابہ ث تھے اتباع سُنّت کے اندر غرق تھے کہ ان کے عمل کو دیکھ کر نبی کی سنتوں کا اور نبی ا کی معاشرت کا پتہ چل جاتا تھا ۔ 
تو دوغرضیں بیان فرمائی گئیں تو میری تقریر کا حاصل نکلا ایک تو مقام نبوت کہ نبی کریم ا کی نبوت کس مقام کی تھی اور آپ کا مقام کیا تھا علم وعمل کے اعتبار سے ، علم واخلاق کے عتبار سے اور ایک یہ کہ نبوت کے مقاصد اور غرض وغایت کیا تھی ؟ تو ان دوحدیثوں سے وہ غرض وغایت ظاہر ہوئی کہ وہ تعلیم علم اور تربیت اخلاق تھی ۔ 

مقامِ اُمّتِ مُحمّدیہ 

اور پھر تیسری چیز یہ کہ اس تعلیم وتربیت کے آثار کیا تھے ؟ وہ نمایاں ہوئے وہ اس طرح کہ علم وعمل کے لاکھوں نمونے پیدا ہوگئے اور صرف صحابہ ث ہی تک محدود نہیں رہے بلکہ آپ ا  فرماتے ہیں کہ مثل امتی کمثل المطرلا یدریٰ اولہ خیرام الخرہ میری اُمت کی مثال اس بارش جیسی ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بارش کا پہلا قطرہ زمین کے لئے فائدہ مند ہوگا یا بیچ کایا اخیر کا مطلب یہ کہ خیرت اول سے لے کر اخیر تک امنہ میں گھومتی ہوئی موجود ہے اول بھی بیچ بھی خیر ، خیر بھی خیر مراتب کافرق رہے گا فرق مراتب الگ چیز ہے مگر نفس خیریت نفس ہدایت وہ پوری اُمت ،میں مشترک ہے اخیر میں بھی اعلیٰ نمونہ ملیں گے وسط میں بھی اعلیٰ نمونے ملیں گے ابتداء میں بھی ملیں گے ۔ 
حدیث میں آپ ا فرماتے ہیں کہ کیف تھلک امتہ انا أولھا والمھدي وسلھا والمسیح اخرھا ،وہ اُمت کیسے ضائع ہوسکتی ہے جس کی ابتداء میں میں ہوں اور انتہاء میں مسیح علیہ السلام اور بیچ میں حضرت مہدی علیہ السلام ہوں یہ اُمت ضائع ہونیوالی نہیں ہے ۔ 
کبھی فرمایا :’’لاتزال طائفہ من امتی منصورین علی الحق لا یضرھم من خاولھم ولامن خالفھم وحتی یأتی امر اﷲ‘‘میری اُمت میں ایک جماعت ہمیشہ باقی رہے گی چاہے چھوٹی ہو جو منصور من اللہ ہوگی حق پر قائم رہے گی وہی کچھ کرتی رہے گی جو کچھ میں نے کیا وہی کچھ کہتی رہے گی جو کچھ میں نے کہا ہے وہی اس کا نعرہ ہوگا ، جو میرا نعرہ ہے انہیں کوئی زسوا کرنیوالا رسوا نہیں کرسکے گا ذلیل کرنیوالا ذلیل نہیں کرسکے گا ۔
کبھی فرمایا (ترجمہ) اس اُمت میں خلف رشید سے خلف رشید پیدا ہوتے رہیں گے اخلاف پیدا ہوتے رہیں گے وہ کیا کریں گے ؟ تحریف کرنے والوں کی تحریفات کو مٹادیں گے مبطل اور باطل پسندوں کی دروغ باطنیوں کا پردہ چاک کرتے رہیں گے اور جاہلوں کی جاہلانہ تاویلات کے پردے چاک کرتے رہیں گے اور حق کو حق اور باطل کو باطل نمایاں کریں گے تو آپ ا نے حدیث میں اطلاع دی کہ خیریت منحصر نہیں ہے کہ صحابہث کے دور میں ختم ہوگئی ہمیشہ اھل خیر آتے رہیں گے ہمیشہ اخلاف رشید پیدا ہوتے رہیں گے یہ اُمت آفتابوں ماہتابوں سے بھری ہوئی ہے تو آثار نبوت اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتے ہیں کہ نبی کے زمانے میں بھی نمونے پیدا ہوئے ، ابدالآباد اور قیامت تک کی اطلاع دیدی کہ پیدا ہوتے رہیں گے ،ان اﷲ یبعث لھذہ الامۃ علیٰ رأس کل مأتہ سنۃ من یجددلھا دینھا فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ ہرصدی کے سرے پر مجدد بھیجتا رہے گا جو دین کو نکھارتے رہیں گے جو لوگوں نے اسمیں غلط ملط کرداے ہوگا اس کو نکھار کر دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی الگ کردیں گے تو صدی کے سرے پر الگ وعدے کئے صدی کے اندر رہ کر اخلاف رشید پیدا ہونے کے الگ وعدے کئے گئے پوری اُمت کے اندر عالم وقت کے الگ وعدے کئے گئے تو یہ امت مجموعی حیثیت سے ، طبقاتی حیثیت سے زمانے کی حیثیت سے خیر سے بھری ہوئی ہے تو یہ آثار نبوت ہیں کہ ہر دور کو خیر سے لبریز کردیا ہر زمانے کو خیر سے بھردیا تو یہ وہی کرسکتا ہے جس کا مقام نبوت سب سے زیادہ بلند ہو جس کا علم اور اخلاق سب سے زیادہ اونچے اور بڑھ کر ہوں اور جس کے پیدا کردہ نمونے ایسے ہوں کہ کسی پیغمبر کو وہ صحابہ نہ ملے ہوں جو آپ ا کو ملے ہوں کسی پیغمبر کو وہ جان نثار نہ ملے ہوں جو آپ کو عطا کئے گئے ہوں ۔ 
تو بہرحال مجھ سے میرے بعض بزرگوں نے فرمایا تھا کہ دراصل میرے ذہن میں تو دوسرا مضمون تھا جو عرض کرتا میرا ذہن میں یہ تھا کہ میں زیادہ ترطلباء کو خطاب کروں گا طلبار کے فرائض اس کے ذیل میں دوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھائیں اس واسطے کہ ساری اُمت تو طلباء نہیں ہیں سارے طالبان علم نہیں ہیں ایک خاص طبقہ طلباء کا ہے توارادہ تو میرا یہ تھا کہ طلباء کے فرائض اور طلباء کی خصوصیات اور ان کے اخلاق ذکر کئے جائیں لیکن جلسہ میں آتے وقت بعض عزیزوں نے فرمایا کہ اگر ’’مقام نبوت‘‘ کے بارے میں کچھ بیان کیا جائے اور مقاصد نبوت کے بارے میں تو شاید زیادہ بہتر ہوگا اس واسطے میں نے یہ چند جملے عرض کئے ۔ 

حاصل تقریر 

تو میں نے دوحدیثیں تلاوت کیں ان دوحدیثوں میں مقاصد نبوت اور بعثت کی غرض وغایت بھی واضح ہوگئی اور چونکہ یہ غرض وغایت انتہائی اونچی تھی اس لئے مقام نبوت پر بھی روشنی پڑگئی، اور پھر جب آثار نبوت سامنے آئے تو اس سے نبوت کی عظمت اور بڑائی اور واضح ہوئی اس لئے میں نے تین باتیں عرض کیں ۔ 
مقام نبوت ، مقاصد نبوت اور آثار نبوت اور اس کے بارے میں یہ چند جملے عرض کے جو اس وقت ذہن میں تھے اللہ تعالیٰ اس امت کو اپنے پیغمبر کا مبتع بنائے اس لئے کہ اتباع ہی میں علم اور اخلاق نصیب ہوسکتے ہیں ۔ 
اگر یہ امت اپنے پیغمبر سے کٹ جائے اگر اس سلسلہ سے جو علم واخلاق کا چلا آرہا ہے یہ اُلٹ کرکٹ جائے تو یہ اُمت علم سے بھی محروم ہوجائے گی اور اخلاق سے بھی علم نبی کے دامن کے سواکہیں نہیں ملے گا اخلاق فاضلہ نبی کریم ا کے دامن کے سوا کہیں نہیں ملیں گے ۔ 
توہمارا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ ہم حضور ا کے دامن کو سنبھال لیں دامن پکڑلیں وہ کہیں ہو آپ گرد وغبار سمجھ کر اس کو جھٹکیں نہیں دامن کو اگر گرد لگ جائے تو لگی رہنی چاہیے کہ یہ میرے ہی مقام اور مکان کی گرد ہے میرے ساتھ وابستہ رہے گی تو جہاں حضور ا جائیں گے دامن جائے گا یہ گردوغبار بھی وہیں جائیگا تو دامن سے وابستہ ہوجائے یہی سب سے بڑی بات ہے اصل بنیادی چیز وابستگی ہے ۔ 
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ریل گاڑی میں سب سے اونچا فرسٹ کلاس کا ڈبہ سمجھا گیا ہے جس میں بڑے بڑے لوگ تموّل کے اعتبار سے یا اپنے کمال کے اعتبار سے سفر کرتے ہیں ۔ 
اسی فرسٹ کلاس میں ایک چھوٹا کمپارٹمنٹ ہوتا ہے جسے سرونٹ کلاس کہتے ہیں سرونٹ کلاس میں نہ ڈبے ہوتے ہیں نہ برقی پنکھے ہوتے ہیں نہ کوئی سامان راحت ہوتا ہے وہ تھرڈ کلاس ہے مگر لگا ہوا اور جڑا ہوا فرسٹ کلاس سے ہے اسمیں ملازمین بیٹھتے ہیں اس کی وابستگی کا اثر یہی ہے کہ جہاں جاکے فرسٹ کلاس رکے گا وہیں جاکے ملازمین کا سرونٹ کلاس رُکے گا یہ نہیں ہوسکتا کہ آقا کے ملازم کے ڈبے کو روک دو سرونٹ کلاس روک دو جہاں آقااُتریں گے ملازم بھی وہیں اُترے گا اور جس کو ٹھی میں آقا کا قیام ہوگا اسمیں ملازمین بھی حسہ لیں گے یہ الگ بات ہے کہ جگہ جوتیوں میں مل جائے مگر ملے گی اسی کو ٹھی کے اندر ملازمین باہر نہیں نکالے جائیں گے ۔ 
تو جناب رسول اللہ ا اس عالم کے فرسٹ کلاس میں سوار ہیں اور ہم سارے سرونٹ ہیں تو جہاں آقا کی سواری جنت کے مقام میں جائے گی وہیں یہ بندے اور غلام بھی ساتھ جائیں گے بشرطیکہ وابستگی رہے تو وابستگی قائم رکھنا یہی سب سے بڑی نعمت ہے ، علم بھی آقا وابستگی سے آئے گا اور اخلاق بھی اسی سے کٹ گئے تو نہ علم باقی رہے گا نہ اخلاق تو اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم تعلیم نبوت سے مستفیض ہوں اخلاق نبوت سے مستفید ہوں اور حق تعالیٰ شانہ دنیا وآخرت میں ہماری اس خصوصیت کو قائم رکھے اور دنیا کو ہمارے سے استفادہ کا موقع دے اور ہمیں کتاب وسنت اور علماء ربانی سے استفادہ کا موقع عطاء فرمائے ۔ 

عنوانات

عالم اصنداد میں اشیاء کے تقابل کی حکمت 
اندھیروں میں آفتاب 
آپﷺ کا اعلان تبلیغ اور عرب قوم کا طرز عمل 
بنیاد نبوت 
دنیوی سعادت کی بنیاد کمال علم وعمل ہے 
عمل کی بنیاد اخلاق 
شریعت اور طریقت کا حسین امتزاج 
مولویت اور صوفیت میں جنگ کیوں ؟
خواجہ نظام الدین ؒکی محفل سماع اور حکیم ضیاء الدین کا احتساب 
حکیم ضیاء الدین ؒ کا مقام 
خواجہ نظام الدین اولیائؒ کا مقام 
علماء اور صوفیا کی ذمہ داری 
سماع کے بارے میں حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ 
خواص کی ذمہ داری  
ذات نبوی میں شان علم 
ذات نبوی میں اجتماع علوم کی محسوس مثال 
بنی الانبیاء پر ایمان لانے کے لئے انبیاء کو پابند کیا گیا 
آپ ا کی شان علمی 
تعبیر خواب کے عجائبات واقعہ نمبر (۱) سے (۵) تک 
آپ ا کی ذات بابر کات میں علوم کا جمگھٹ 
آپ ا کی شان اخلاق 
شرائع سابق اور شریعت محمدؐی کے درمیان اخلاق کا موازنہ 
مقام نبوت کے آثار 
آپ ا کو معجزہ علمی دیا گیا 
علمی معجزہ دیتے جانے کی حکمت 
حقیقت محمدؐی کی عجیب تعبیر 
قرآن معجزہ نما بھی ہے 
مقام صحابہ اور ان کی خدائیت 
مقام امت محمدایہ 
حاصل تقریر 

No comments:

close