bayan+molana+tariq+jameel+sahib - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Tuesday, June 11, 2019

bayan+molana+tariq+jameel+sahib


Image result for bayan molana tariq jameel

دعوت الی اللہ


اَلْحَمْدُلِلّٰہِ نَحْمَدُہ وَنَسْتَعِیْنُہ وَنَسْتَغْفِرُہ وَنُوْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہ ۔۔ وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّاٰتِ اَعْمَالِنَا ۔۔ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلاَ مُضِلَّ لَہ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلاَ ھَادِیَ لَہ ۔۔ وَنَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہ لاَ شَرِیْکَ لَہ وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہ وَرَسُوْلُہ ۔۔
اَمَّا بَعْد۔۔۔۔ُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔۔۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔۔۔ قُلْ ھٰذِہ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہ ۔۔۔ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ۔۔۔ وَسُبْحَنَ اللّٰہ وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن۔۔۔وَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔ یَا اَبَا سُفْیَان جِئتُکُمْ بِکَرَامَۃِ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ

دنیا کا مالدار بھی سب سے بڑا فقیر! کیوں؟

میرے محترم بھائیو اور دوستو!دنیا میں سب سے زیادہ محتاج انسان ہے… اس سے زیادہ محتاج کوئی مخلوق نہیں اور جو جتنا زیادہ امیر ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ محتاج ہوجاتا ہے… غریب آدمی تو شیشم کے تلے بھی سوجاتا ہے… کیکر کے تلے بھی سوجاتا ہے … مالدار ہو تو کولر کے بغیر نیند نہیں آئے گی… ایئرکنڈیشن کے بغیر نیند نہیں آئے گی…غریب آدمی روکھی روٹی بھی کھالے گا… مالدار کو تو آئس کریم بھی نہ ملے تو پریشان بیٹھا ہوتا ہے… کوئی آدمی دنیامیں ایسانہیں جو خودکفیل ہوسکتاہو… پیسہ کمانے والے کو لوگ کہتے ہیں کہ خودکفیل ہوگیا…
حالانکہ جب وہ بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو خودکفیل تو نہیں ہے… گھر بنانا ہو تو مزدور مستری بلاتا ہے… خودکفیل نہیں ہے… خودکفیل اسے کہتے ہیں جس کو اپنی ضرورتوں میں کسی کی ضرورت نہ پڑے… باقی ساری مخلوق خودکفیل ہے…
پرندے اڑنا خود سیکھ لیتے ہیں… گھونسلہ بنانا خود سیکھ لیتے ہیں… چڑیا بچے پالنا خود سیکھ لیتی ہے… سانپ رینگنا… بل بنانا … پھنکارنا خود سیکھ لیتا ہے… عقاب بلندیوں پہ اڑنا… جھپٹنا خود سیکھ لیتا ہے… انسان کبھی خودکفیل نہیں بن سکتا… جتنا دنیا میں کوئی زیاہ ترقی کرتا ہے اتنا اس کی محتاجی بڑھ جاتی ہے …
اور اللہ اس کائنات میں… اس جہاں میں… بحر و بر میں… زمین اور آسمان میں … شرق و غرب میں… شمال و جنوب میں …بے مثل غنی… غیر محتاج ذات ہے… جو ایک لمحے کے لئے بھی کسی کا محتاج نہیں اور انسان ہر لمحے اس کا محتاج ہے… جس سے ضرورتیں پڑتی ہیں اس کے آگے وہ جھک کر چلتے ہیں… جس سے واسطہ نہ پڑتا ہو اس کی پرواہ نہیں کرتے… اس جہاں میں سب سے زیادہ میں اور آپ محتاج ہیں اور اس جہاں میں اللہ سب سے زیادہ غنی ہے…
پھر میں نے جیسے کہا کہ جو جتنا مالدار ہوگا… وہ اتنا زیادہ محتاج ہے … جانوروں کو کپڑوں کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی… ہم کپڑوں کے بغیر رہ نہیں سکتے… جانوروں کو چھت نہیں چاہئے… ہم چھت کے بغیر نہیں رہ سکتے… پرند چرند کو کھانے کو باسی… کچا پکا سب ہضم… ہم پکائے بغیر کھا نہیں سکتے…
تمہارا مالک تمہیں بلاتا ہے اور تم بیٹھے رہتے ہو
تو ہماری ضرورتیں سب سے زیادہ ہیں … اللہ سب سے زیادہ غنی ذات ہے … تو ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ ہم اس سے دوستی لگاکے رکھتے… لیکن اسی سے دشمنی لئے ہوئے ہیں اسی کو للکارا ہوا ہے… نافرمانی کے ساتھ…
تو اللہ کہتا ہے:
میرا بندہ بڑے بڑے گناہ کرکے مجھ کو للکارنے لگتا ہے…
مؤذن کہتا ہے:
آئواللہ پکار رہا ہے ’’حی علی الصلوٰۃ‘‘
100 میں سے 5 بھی اٹھ کے نہیں جاتے…
آپ کا نوکر کتنی تنخواہ لیتا ہے1000 روپے… 2000 روپے… 3000 روپے… اس سے زیادہ کوئی بڑی ملوں والے 4000 روپے دیتے ہیں … اس سے زیادہ کوئی کیا تنخواہ دے گا
اگر آپ کا ملازم سامنے بیٹھا ہے… آپ کہتے ہیں ذرا بات سننا… وہ آپ کو سامنے بیٹھا ایسے دیکھتا رہتاہے… نہ ہاں نہ نا… پھر آپ نے کہا بات سننا… وہ بیٹھا دیکھتا رہتاہے… پھر آپ تیسری دفعہ بلاتے ہیں کہ بھئی تمہیں بلارہا ہوں… سنتے کیوںنہیں؟ پھر وہ یوںایسے بیٹھے سن رہا ہے… پھر چوتھی مرتبہ …پھر پانچویں دفعہ آپ اس کو بلاتے ہیں… تب بھی نہیں سنتا… پھر دوسرے دن آپ نے بلایا… وہ ایسے ہی بیٹھا رہا… پھر دوسری دفعہ بلایا ایسے ہی بیٹھا رہا… پھر سنا نہیں…
اگلے دن پھر ایسا ہوا… پھر ایساہوا… کوئی ایسا ظرف والا آپ کو نہیں ملے گا جو ایسے نوکر کوبحال رکھے… دو دن بعد کہے گا کہ جائو بھئی اپنا راستہ لو… تیرے جیسا متکبر اور گستاخ مجھے نہیں چاہئے… کتنے برس گزر گئے… 50 گزر گئے… 60 گزر گئے… 80 گزر گئے… 40 گزر گئے… 35 گزر گئے… اللہ دن میں 5 دفعہ کہتا ہے… آجائو آجائو… پھر کہتا ہے… حی علی الصلوٰۃ… آجائو نماز کی طرف…
دن میں 5 دفعہ میں 10 دفعہ بلاتاہے… ہر اذان میں 2 مرتبہ کہتا ہے حی علی الصلوٰۃ… آئونماز کے لئے… پھر کہتا ہے… آئونماز کے لئے… پھر ظہر …عصر… مغرب… عشائ… بندہ پچھلے30 برس سے اٹھ کر نہیں گیا نماز پڑھنے کو تو کبھی:
اللہ نے اس کو برخاست کیا اور کیااس کی آنکھیں لے لیں…
اس کی ٹانگوں سے جان نکال لی…
اس کے ہاتھوں کو مروڑ دیا…
اس کی زبان پہ تالا لگادیا…
اسکے کانوں میں سیسہ ڈال دیا…
آنکھوں سے اندھا کردیا یا پائوں سے معذور کردیا کہ میں تجھے بلاتا ہوں تو آتا نہیں… میں تجھے پکارتا ہوں تو سنتا نہیں… تو میرا کیا نافرمان نوکر ہے جو میری پکارپہ تو اٹھتا نہیں… لہٰذا اسے نکال دیا جائے… اسے مردود کردیا جائے۔
کتنا بڑا ظرف ہے میرے اللہ کا کہ مسلسل ہمارا انکار دیکھ کر بھی ہمیں روٹی بھی کھلاتا ہے… پانی بھی پلاتا ہے… نیند بھی دیتا ہے… کپڑے بھی دیتا ہے…
محبت کرنے والے بھی دیتا ہے… چھت بھی دیتا ہے… سایہ بھی دیتا ہے…
پھل بھی دیتا ہے… ………پھول بھی دیتا ہے… صبا بھی دیتا ہے…
باد نسیم بھی دیتا ہے……… گرمی کو بھی لاتاہے… سردی کو بھی لاتا ہے…
ہوائوں کو بھی چلاتا ہے… ساری نافرمانیاں دیکھ کر بھی کتنے بڑے ظرف کا مالک ہے… دنیا میں ماں او رباپ جیسا رشتہ کوئی نہیں ہوتا… ماں بھی دن میں پانچ دفعہ بلائے اور تو انکار کرے … اگلے دن بلائے… پھر انکارکرے … اگلے دن بلائے پھر انکار… پھر بلائے پھر انکار… ہفتے کے بعد اخبار میں آجائے گا کہ ہم نے اپنی جائیداد سے عاق کیا… ماں باپ سے کوئی لین دین نہیں… آئے دن اخبار میں پڑھتے نہیں ہو عاق نامہ۔
40 سال میں ایک نماز بھی نہیں پڑھی
مجھے ایک آدمی ملا … وہ مجھ سے کہنے لگا… میں سال میں دو نمازیں پڑھتا ہوں… ایک عیدالفطر اور ایک عیدالاضحی کی… میں یہ دو نمازیں پڑھتا ہوں…
مجھے دو آدمی ملے… عمر ۳۰ یا ۴۰ سال ہوگی… مجھ سے کہنے لگے… ہم نے اپنی زندگی میں ایک بھی نماز نہیں پڑھی… نہ جمعہ… نہ عید… نہ بقر عید… نہ فرض نماز …زندگی بھر ایسے ہی رہے … وہ تو ہم گشت کررہے تھے تو مسجد میں لے آئے… تو میں نے بات شروع کی… وہ تو ایک دم پتہ نہیں کیا اثر ہوا… ایک دم کھڑے ہوئے… کہنے لگے… مولوی صاحب آج ہم پہلی دفعہ مسجد میں آئے ہیں… تو میں سمجھا کہ یہ مسجد جس میں ہماری جماعت ٹھہری ہے… میں نے کہا کہ آپ اس مسجد میں پہلی دفعہ آئے ہو؟
تو کہا نہیں… نہیں… ویسے ہی مسجد میں پہلی دفعہ آئے ہیں…
میں نے کہا… آپ نے کبھی نماز نہیں پڑھی؟
تو کہنے لگے… آج تک نہیں پڑھی…
کوئی جمعہ ؟کہا آج تک نہیں پڑھا…
کوئی عید کی نماز؟ کہا آج تک نہیں پڑھی…

اللہ کی کرم نوازی تو دیکھو

اللہ ان پر بھی سورج چمکاتا ہے… اسے بھی سلاتا ہے… نیند سے اٹھاتا ہے…
دھرتی کو ان کے لئے مسخر کرتا ہے اور رزق کو باند ھ کر ان کے گھر تک لاتا ہے…
کیسا کریم اللہ… کیسا مہربان اللہ… جو اتنی نافرمانی دیکھ کربھی صبر کرے …
حالانکہ اس سے زیادہ متکبر کون ہے…دو ٹکے کا آدمی اور وہ اللہ کو کہے ’’نماز نہیں پڑھنی‘‘
تو جو نماز نہ پڑھے اس سے زیادہ متکبر کون ہوگا؟
تو صرف گردن اکڑا کے چلنے والا متکبر نہیں ہوتا…
تڑی مار کے چلنے والا نہیں متکبرہوتا… بازو لہرا کے چلنے والا متکبر نہیں ہوتا…
اذان سن کر اس طرف نہ جانے والا اس سے بڑا متکبر کوئی ہے نہیں اور جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبرہوگا وہ جنت کی ہوا بھی نہ پاسکے گا…
تو میرے بھائیو!ہم تو سوفیصد اللہ کے محتاج ہیں… اور ہر وقت محتاج ہیں اور بے شمار لامحدود ہماری ضرورتیں ہیں… ہمارا جسم کھڑا ہوا ہے اور اللہ ہمارا تھوڑا سا نظام اوپر نیچے کردے تو ہم کیا کرسکتے ہیں اس مالک کے سامنے ہم بالکل اس کے رحم کرم پرہیں۔

اللہ کو راضی کرنے کا غم

یہ فکر دل میں پیدا ہوجائے کہ مجھے اللہ کو راضی کرنا ہے… ہر حال میں راضی کرنا ہے… چاہے تن من دھن میرا لٹ جائے… تو صرف پیسے ہی سے تو کام نہیں بنتے… ساری کائنات جو اللہ کی گرفت میں ہے… او راللہ کی طاقت اور قبضے میں ہے… ہمارے اوپر ہوا کا پانچ سو میل لمبا غلاف ہے… اللہ تعالیٰ اس ہوا کو واپس لے لے… ایک سیکنڈ میں ہم مرجائیں… اگر اللہ ہم سے زمین کی کشش نکال لے…
آئن اسٹائن ایک سائنسدان گزرا ہے… اس نے زندگی کے آخری دس سال زور لگایا اس بات کی تحقیق میں کہ زمین میں کشش کیوں ہے… کوئی تو جواب ہونا چاہئے کہ کیوں ہے ؟
زمین اپنی طرف کیوں کھینچتی ہے…؟
چیز اوپر پھینکتے ہیں واپس آجاتی ہے…؟
ہم زمین پہ بیٹھے ہیں… زمین پہ اچھل نہیں رہے تو زمین اپنی طرف کیوں کھینچ رہی ہے… دس برس وہ محنت کرتا رہا اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش میں کہ کیوں ہے؟ وہ معلوم نہ کرسکا… فزکس … کیمسٹری… بائیولوجی… کسی بھی قانون سے وہ ثابت نہ کرسکا کہ اس وجہ سے اس میں کشش ہے… اس نے کہا اس پر مزید تحقیق نہ کرو… اس کا کوئی جواب نہیں ہے… لیکن ہمارے پاس ایک جواب موجود ہے۔اللہ فرماتا ہے
…امن جعل الارض قرارا …میں ہوں جس نے زمین کو قرار کی جگہ بنادی۔

زمین اللہ کی نشانی

اللہ نے ہی کشش رکھی ہے … اللہ کے حکم سے زمین اپنی طرف کھینچتی ہے اور متواتر طریقے سے کھینچتی ہے … یوں نہیں کہ …کہیں پکڑا ہے… مگر اتنا پکڑا ہے کہ جم جائیں اور نہ اتنا چھوڑا ہوا ہے کہ پائوں اٹھے تو اٹھا رہ جائے… توازن کے ساتھ …اگر اس زمین کو اللہ دگنا کردیتا تو پھر ہم کو زمین پر چلتے ہوئے یوں لگتا جیسے ہمارا پائوں کیچڑ میں پھنسا ہے… ایسے نکالتے… پھر پھنستے… پھر یوں نکالتے تو اگر زمین دگنی ہوجاتی 24 کے بجائے اڑتالیس ہزار میل ہوتی تو زمین کی کشش بھی دگنی ہوجاتی تو ہمارے لئے چلنا مشکل ہوجاتا… اگر یہ زمین چار گنا ہوجاتی تو پھر کیا ہوتا؟
درخت! اللہ کا عجوبہ
درختوں کی نشوونما ختم ہوجاتی… یہ اوپر اٹھ نہ سکتے تھے اور ہم چل نہ سکتے تھے… چلتے تو زمین ہمیں ایسے جکڑ لیتی کہ چلتے تو اگلا قدم چلنا محال ہوتا… اگر چھ گنا ہوجاتی تو پھر کیا ہوتا… یہ جو آج کل کا چھ فٹ کا انسان ہے… اس کا قد صرف ایک چوہے کے برابر ہوجاتا تو پھر 4 فٹ والا تو پھر چیونٹی بن جاتا … کیسا اللہ نے اندازے کے ساتھ … یہ سسٹم بنایا ہے کہ کوئی سائنس دان… پھر اللہ کہتا ہے کہ اے زمین… میری کشش واپس کردے… تو اب کیا ہوگا کہ یہ زمین فوراً ایکسیلیٹر پر پائوں رکھے گی کہ اللہ نے کشش کو نکالنے کا حکم دے دیا ہے… اور چھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف مڑنا شروع ہوجائے گی…

سورج اللہ کی قدرت کا شاہکار

سورج ہم سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل کے فاصلے پر ہے… ہماری زمین ابھی تو سورج کے گرد گھومتی ہے تو یہ جو 365 دن میں جو چکرلگاتی ہے… جو یہ ساڑھے19کروڑ میل کے دائرے میں گھوم رہی ہے اور اس کی رفتار ہے 66 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ اور اس کی گھومنے کی رفتار ہے 1000 کلومیٹر فی گھنٹہ… اس دوڑنے میں اور یوں گھومنے میں یہ یوں تھرتھراتی ہے… کبھی یوں جاتی ہے… کبھی یوں جاتی ہے… کبھی دائیں… کبھی بائیں… جب سیدھے ہاتھ کی طرف مڑتی ہے تو پونے 23 ڈگری کا دائرہ بناتی ہے… پھر جیسے جیسے واپس آتی ہے الٹے ہاتھ پر تو 23 ڈگری کا زاویہ بناتی ہے… اگر اللہ اس کی یہ حرکت ختم کردے تو فوراً ہوا چلنا بند ہوجائے گی۔

ہوا  اللہ کی خالقیت کا نمونہ

ہوا ہر روز چلتی رہتی ہے… ہوا ہر روز حرکت میں ہے… وہ زیادہ ہوتی ہے تو ہمیں محسوس ہوتی ہے… اگر وہ یوں گھومنا… یوں کپکپانا… رقص کرنا چھوڑدے تو کیا ہوگا؟
ہوا تھم جائے گی… پھر کیا ہوگا … یہاں دس ہزار لائوڈ اسپیکر بھی ہوں تو بھی آپ میری آواز نہیں سن سکیں گے…
دوسرا کیا ہوگا کہ میرے منہ سے جو کاربن ڈآئی آکسائیڈ نکل رہی ہے… یہ میری گرد ہالہ بنانا شروع کردے گی اور مجھے ہلاک کردے گی ۔
جیسے ریشم کے کیڑے کو ریشم ہلاک کردیتا ہے… وہ اپنے گرد گھومتا جاتا ہے… گھومتا جاتا ہے… گھومتا جاتا ہے… جب اندر دم گھٹتا ہے تو اندر مرجاتا ہے۔
ہر انسان ڈاکٹر صاحب… انجینئر صاحب… سردار صاحب… نواب صاحب… جرنیل صاحب… ایٹمی طاقتیں راکٹ کی طاقتیں… انسانی طاقتیں… ساری طاقتوں کے نمونے… اپنی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں دم گھٹ کے راکھ ہوجائیں گے… دوسری طرف کیا ہوگا… یہ جو آکسیجن نکل رہی ہے… ان سبز پتوں سے یہ درختوں کے گرد ہالہ بناتی جائے گی… بناتی جائے گی… بناتی جائے گی اور ذرا سی دیا سلائی دکھانے کی ضرورت ہے… ساری کائنات پھٹ سے اڑ جائے گی… اللہ تعالیٰ نے آکسیجن ہوا میں 21 فیصد رکھی ہوئی ہے… اور نائٹروجن کو 71فیصد رکھا ہواہے… کیا آپ نے ہوا میں کوئی گیس یا سلنڈر فٹ دیکھا ہے کہ اس پر کوئی فرشتہ بیٹھا ہوا ہو اور وہ گیس کو ہوا میں چھوڑ رہا ہو اور آکسیجن21 فیصد پر پہنچ جائے تو روک لیتا ہے اور نائٹروجن کو 71فیصد پہ رکھ کے وہ روکتا ہو… کہیں تو کوئی نظر آتا …
ہوا تو زمین پہ بھاگ رہی ہے… اس کے اوپر ہوا کا غلاف ہے… چھیاسٹھ ہزار پانچ سو میل… اس کے ساتھ ساتھ بھاگ رہا ہے… اس پر آکسیجن کو 21 فیصد پر فکس کردینا… نائٹروجن کو 71 فیصد پر باندھ دینا… یہ صرف وحدہ لاشریک اللہ کا کام ہے…
اگر یہ21سے42 ہوجائے تو ہمارے پاس ہے کوئی اختیار کہ اسے روک دیں…
یہ سارا نظام اس چیز کو بتارہاہے کہ ہم اللہ کے کتنے محتاج ہیں…
ہمارے ماں باپ نے ہمارا کتنا غلط ذہن بنایا ہے…
خود نہیں کمائے گا تو بھوکا مرجائے گا… کوئی تو کہتا کہ بیٹا اللہ کو راضی کرلو…
تیری دنیا بھی بن جائے گی… آخرت بھی بن جائے گی…
اپنے اللہ کو منالے… تیرا یہ جہاں بھی بن گیا… تیرا وہ جہاں بھی بن گیا…
یہ ذہن بنانا ختم کردیا ہے ماں باپ نے… کالج نے… یونیورسٹی نے… جدھر دیکھو عزت… دولت… شہرت… اس کے گرد زمین کی گردش کی طرح ہم بھی چکی کی طرح بھاگ رہے ہیں…
کل خوبصورتی کا نمونہ تھے آج بدصورتی کا !!!
ارے بھائیو!مٹ جانے والی کی عزت …دولت … شہرت کیا… مٹ جانے والی کی شہرت اور گمنامی کیا… مٹ جانے والے کا عناد اور فخر کیا…
چند دن کے بعد تو وجود ہی مٹ جائیں گے… قبروں کے نشان مٹ جائیں گے…
یہ حسین چمکتے چہرے ان کو کیڑے کھالیں گے تو نیچے خوفناک کھوپڑیاں نکل آئیں گی…
چمکتی آنکھوں کی جگہ بدصو رت سوراخ …
اور بولتی بلبل کی زبان کی جگہ خوفناک قسم کے جبڑے…
ویران قسم کے دانت اور یہ حسین سراپا جسم سوائے ڈھانچے کے کچھ نہ ہوگا
زمین کی تپش سے کیڑے بھی مرجائیں گے…
پھر زمین اور تپے گی تو ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی…
پھر و ہ اور تپے گی تو وہ چورا بن جائیں گی…
پھر زمین کو کروٹ لینے کا خیال آئے گا تو وہ کروٹ بدلے گی
تو وہ نیچے کا اوپر کردے گی اور اوپر کا نیچے کردے گی…
میری اور آپ کی ہڈیوں کا چورا زمین کی سطح پر آئے گا…
پھر ہوائیں چلیں گی… مست ہوائیں چلیں گی اور پھر کچھ حصہ یوں اڑا دیں گی ۔۔
کچھ حصہ یوں اڑا دیں گی… کچھ حصہ مشرق کو اڑے گا… کچھ مغرب کو…
کچھ حصہ شمال میں اڑے گا، کچھ جنوب کو… کچھ اوپر کو… کچھ دائیں کو… کچھ بائیں کو
پھر وہ چورا چورا ہوائوں میں بکھر کر یوں بے نشان ہوجائیں گے جیسے کبھی بے نشان تھے… یوں مٹ جائیں گے جیسے کبھی آئے نہ تھے…
ایسا ہوجائے گا کہ… جن مائوں نے جنا …………و ہ مائیں بھول جائیں گی۔
جس باپ نے گود میں لے کر کھلایا… سارا سارا دن…… ساری ساری رات۔
وہ پھرا اپنے بچوں کو رزق دینے کے لئے… کھلانے کے لئے… پلانے کے لئے۔
وہ بچے بھول جائیں گے ………
ہمارا کوئی باپ تھا جو رات کو دن کو تھکتا تھا… روٹی کھلانے کو…
کوئی ماں تھی جو ہمارے پوتھڑے دھوتی تھی… ہمارا پیشاب دھوتی تھی۔
ہمارے لئے راتوں کو جاگتی تھی…
سگی اولادیں ہی سب بھول جائیں گی تو پرائے کیا یاد رکھیں گے…
جس اللہ کو زوال نہیں اس سے دل لگائو
یہ مٹ جانے والا فانی… ٹوٹ جانے والا …
فنا ہوجانے والا جہاں ہے… جہاں ہر دم تغیر ہے…
ایک اللہ ہے جس کو باقی رہنا ہے …… باقی سب فنا کی زد میں ہے…
ایک اللہ ہے جو موت سے پاک ہے… باقی سب کو اس وادی میں گرنا ہے…
اس گھاٹ میں اترنا ہے…
ایک اللہ ہے جو ہر زور سے پاک ہے…باقی ہر طاقت زور سے بدل جاتی ہے…
ایک اللہ ہے جو ہر حال سے پاک ہے… باقی ہر انسان کو مختلف حالات سے گزرنا پڑتا ہے
ایک اللہ ہے جو لازوال ہے… ہر ابتداء اور انتہاء سے پاک ہے…
باقی ہر انسان کہیں سے شروع ہوتا ہے… کہیں پر مٹ جاتا ہے…
کبھی عروج ہے… کبھی زوال ہے…
کبھی جوانی ہے… کبھی بڑھاپا ہے…
کبھی صحت ہے… کبھی مرض ہے…
کبھی موت ہے… کبھی موت کے بعد اٹھنا ہے…کبھی قبر کا کیڑا ہے…
اللہ سے بغاوت کرتے ہوئے شرم نہیں آتی!
میرے بھائیو! ہم سو فیصد اللہ کے محتاج ہیں… پھر اللہ سے بغاوت کوئی اچھی بات تو نہیں… اللہ ہی سے باغی ہوگئے…
جھوٹ نہ بولیں تو کہتے ہیں… تجارت نہیں چلتی…
ناپ تول میں کمی نہ کریں تو … … نفع نہیں ہوتا…
سود پہ کام نہ کریں تو……… گزارا نہیں ہوتا…
گانا نہ سنیں تو ………… … گزارا نہیں ہوتا…
گالی نہ دیں تو کوئی نوکر ہماری بات… نہیں مانتا…
کتنے عذر ہم نے گھڑے ہوئے ہیں… یہ صرف گالیوں سے سیدھے ہوتے ہیں۔
میں کہتا ہوں سات زمین و آسمان کو آگ لگا دو… یہ تھوڑا نقصان ہے…
کسی مسلمان کو ماں بہن کی گالی دینا اس سے بڑا نقصان ہے…
زمین و آسمان تو چلو چھوٹی چیزیں ہیں… بیت اللہ کو توڑ دو…
بیت اللہ کا چورا چور ابنادو… اس کے پتھروں کو کوٹ کوٹ کے بجری بنادو…
یہ چھوٹا گناہ ہے… مگر کسی مسلمان کو ماں بہن کی گالی دینا اس سے بڑا گناہ ہے۔
سوچو تو سہی ! کس کو ناراض کر رہے ہو؟
کتنی آسانی سے اللہ کا حکم توڑ دیتے ہیں… کوئی کتنا ہی بڑا نقصان کردے… تو نقصان کی تلافی کاکوئی اور سبب تلاش کرو… اس کو ماں بہن کی گالی نہ دو… ہاں گالی دینے کی اجازت ہے جب اگلا گالی دے تو! کوئی مجھے ماں کی گالی دے تو مجھے اجازت ہے کہ میں اسے ایک دفعہ ماں کی گالی دوں… اگر میں نے دو دفعہ دے دی تو میں خود ظالم ہوجائوں گا… بدلہ لینے کی اجازت ہے … مگر معاف کرنے کی فضیلت ہے … معاف کرنے کی فضیلت ہے … معاف کردو… بدلہ نہ لو… کیونکہ بدلہ لیتے ہوئے آدمی ہمیشہ ظالم ہوجاتا ہے… وہ حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔
زمین! اللہ کی نشانی
اب اگر زمین کی کشش کو اللہ واپس لے لے تو کیا ہوگا… تو کیاہوگا؟
یہ زمین 6 ہزار کلومیٹر کی رفتار سے سے بھاگنا شروع کرے گی… سورج کی طرف چلنا شروع کرے گی… تو 9 کروڑ 30 لاکھ میل کا فاصلہ ہے اور چھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار ہے… تو ہفتوں میں زمین سورج کی آگ میں جاگرے گی اور سورج کے گرد جو شعلے ہیں تو وہ ایک لاکھ کلومیٹر کے تو شعلے ہیں۔
1944ء میں سورج سے ایک شعلہ نکلا… اور اس نے کمان کی شکل بنائی اور وہ سورج کی دوسری طرف پر اتر گیا تو اس کو نیچے زمین میں بیٹھنے والوں نے ناپا… ناپنے والوں نے کہا کہ اس آگ کے شعلے میں کتنی طاقت ہے ؟ تو نیچے بیٹھ کر مشینوں سے دیکھا کہ اگر اس شعلے کی طاقت کو دنیا والے قابو کرلیں تو ۶ براعظم کے لوگوں کو ۱۰ کروڑ سال کے لئے بجلی کافی ہوجائے… کوئی پاور پلانٹ نہیں لگانا پڑے گا… یہ ایسی آگ ہے… تو پھر کیا ہوگا… یہ زمین تنکے کی طرح جل کر راکھ ہوجائے گی تو میں تو صرف زمین کا بتارہا ہوں…یہ زمین کتنا بڑا تحفہ ہے ہمارے لئے…

سمندراللہ کی نشانی

اللہ کہتا ہے کہ کبھی زمین پہ چل کے تو دیکھو… میں نظر آئوں گا… اس کے ذرے ذرے میں تمہارا رب نظر آئے گا… یہ اللہ نے کیا شاہکار بنایا ہے… جس کے اوپر زندگی گزارنا تمہارے لئے آسان کردیا ہے… دن رات کا اس میں نظام چلایا… ہوائوں کا نظام چلایا… اوپر ہوا کا غلاف ٹھہرایا اور اوپر سورج کو ہم سے مناسب فاصلے پر رکھا تاکہ ہماری فصلیں پکیں… چاند کو ایک مناسب فاصلہ دیا تاکہ ہمارے پھل میٹھے ہوجائیں… اس کی کرنوں سے اس کی چاندنی سے پھل میٹھے ہوتے ہیں… اس کی چاندی سے سمندر میں لہریں اٹھتی ہیں… وہ لہریں اس میں اٹھنے والی کسی بھی گندگی کو ختم کردیتی ہیں… سمندر کا پانی ایک سیکنڈمیں بخارات بن کر ہوا میں اڑتا ہے… اوپر جاکر چھتری بناتا ہے… پھر رات کی ٹھنڈک آئے تو یہ گرمائش کا کام دیتا ہے… دن کی دھوپ آئے تویہ ٹھنڈک کا کام دیتا ہے…

کیا کائنات خود بخود بن گئی؟

یہ پوری زمین کو اللہ نے بخارات کے ذریعے ڈھانپا ہوا ہے… پھر اس پانی کے ذریعے وہ بارش برساتا ہے:
… أنا صببنا الماء صبا …پھراس نے بارش برسائی …
… ثم شققنا الارض شقا …آگے وہ اس میں سے غلے نکالتا ہے…
{وانبتنا فیھا حبا وعنبا وقضبا وزیتوناً ونخلا وحدائق غلبا وفاکھۃ وابا متاع لکم ولانعامکم}
اوپر جاکر اسے ٹھنڈک دیتا ہے… اسے بادل کی شکل دیتا ہے… ایک کالا بادل ۳ ٹن پانی لے کر چل رہا ہوتا ہے… یونان کے فلاسفروں نے نظریہ پیش کیا کہ یہ کائنات ابدی ہے… ہمیشہ سے ہے ہمیشہ سے چلی آرہی ہے… یہاں سے مادہ پرستی کا آغاز ہوا… تو مادہ پرستی کا مطلب کیا ہے کہ انسان صرف پیسے کا پجاری نہیں ہے بلکہ مادہ پرستی کے پیچھے یہ نظریہ ہے کہ یہ کائنات ایک مادہ ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے اور ہمیشہ رہے گا اور یہ اتفاقاً وجود میں آگیا… یہ آپ ہی آپ وجود میں آگیا …اس کا خالق کوئی نہیں تو انیسویں صدی میں اس نظریے کو بڑا زور ملا …بڑا عروج ملا کہ کائنات خود بخود ہی وجود میں آگئی۔

انگریز اپنے آپ کو بندر کی اولاد سمجھتے ہیں شائد

لندن میں ہماری جماعت گئی… جماعت واپس آگئی… میں بیمار ہوگیا… مجھے وہاں رہنا پڑا تو انہوں نے مجھے وہاں کی بہت سی چیزیں دکھائیں وہاں ڈارون کی تھیوری پر ایک بہت بڑا میوزیم ہے… مجھے اس میں لے گئے تو وہاں ایک لمبی دیوار ہے
اسے تصویروں سے بنایا تھا کہ انسان کہاں سے شروع ہواتھا… پھر وہ چلتے چلتے بن مانس بنا… پھر بندر بنا… پھر دم مختصر ہوئی… پھر اور چھوٹی ہوئی… پھر دم غائب ہوگئی…
پھر بال غائب ہوئے… پھر وہاں یہ جاکر انسان بن گیا… لہٰذا اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے…

کائنات کا وجود سائنسدانوں کی نظر میں

اس جہاں کا کوئی خالق نہیں ہے… یہ اتفاقاً وجود میں آگیا…
لیکن جب آج کی سائنس نے ترقی کی تو خود سائنس پکار اٹھی کہ اتنا خوبصورت نظام اتفاقاً وجود میں نہیں آسکتا…کتنے فیصد امکان ہے کہ یہ اتفاقاً وجود میں آجائے… امکان کی حد تک جب اعشاریہ کے بعد صفر لگائو … صفر… اعشاریہ صفر ایک تو یہ امکانی چیز ہے… جب یہ صفر 5 تک پہنچ جائے تواس کا مطلب ہے کہ یہ ناممکن ہے… اشاریہ کے بعد اگر ایک سو23 صفر لگائے جائیں اور اس کے بعد ایک لگایا جائے تو تب یہ امکانات کے حساب میں آتا ہے کہ ایک اعشاریہ 123 صفر کے بعد تو یہ ممکن ہے کہ کائنات اس نسبت کے ساتھ وجود میں آئی ہو… تو سائنس کہتی ہے کہ ناممکن ہے کہ اتنا بڑا نظام اتفاقاً وجود میں آگیا ہو… کوئی نہ کوئی اس کا خالق ضرور ہے…اور 1926ء میں امریکہ میں ایک سائنس دان نے دیکھا کہ یہ کائنات پھیل رہی ہے… اپنے مرکز سے دور ہورہی ہے اور آپس میں بھی دور ہورہی ہے… بڑی تیز رفتار جارہی ہے… جب اس نظریئے پر غور کیا گیا تو یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ چل رہی ہے… ایک زمانہ تھا تو یہ اکٹھی تھی… آپس میں ملی ہوئی تھی… آپس میں مجتمع تھی اور پھر آپس میں کوئی دھماکا ہوا اور پھر یہ پھیلنا شروع ہوگئی اور اس پر سو فیصد اتفاق ہوگیا…دھماکہ کوئی کرسکتا ہے… خودبخود نہیں ہوسکتا… لہٰذا دھریہ بھی ماننے پر مجبور ہوگیا… کوئی خالق ضرور ہے…
طارق جمیل صاحب سے یہودی کا بلواسطہ سوال
ہم ساہیوال میں تھے کہ ایک بچہ آگیا… سر پر ہیڈ فون لگا ہوا تھا… کہا جی یہ میرے کمپیوٹر سے جڑا ہوا ہے … اس وقت سات سو لڑکے میری بات سنیں گے جو میں آپ سے کروں گا اور آپ مجھے جواب دیں گے… اس وقت ایک یہودی ہے جو ہم سے یہ سوال کررہا ہے کہ یہ جو آج سائنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا ایک دھماکے سے بنی اور وجود میں آئی اس کی تمہارے مذہب میں کوئی دلیل ہے… اگر تم مجھے دلیل دے دو تو میں مسلمان ہوجائوں… ہم مسجد میں بیٹھے تھے ۔میں نے کہا دیکھو قرآن سائنس کی تائید کے لئے نہیں آیا… ہدایت کے لئے آیا ہے… کل کو سائنس کا نظریہ غلط ہوجائے تو کیا ہمارا قرآن غلط ہوجائے گا ؟ سائنس کے نظریئے تو بدلتے رہتے ہیں…
{و لیطمئن قلبی}
یہ ابراہیم علیہ السلام نے کہا… مجھے پتہ تو ہے کہ تو مردوں کو زندہ کرے گا مگر ایسے ہی ذرا دیکھنا چاہتا ہوں، تو یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ کوئی اس کو دلیل سمجھے… میں یہ کوئی دلیل نہیں دے رہا ہوں۔
تو اس نے کہا کہ کوئی ایسی آیت ہے کہ جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ دھماکے سے کائنات بنی ہو۔تو ایک دم میری زبان پر یہ آیت آگئی:
{اولم یرالذین کفروا أن السموات والارض کانتا… رتقاففتقنا ھما وجعلنا من الماء کل شیئٍ حی افلا یومنون}
کہ یہ منکرین اور نہ ماننے والے دیکھتے نہیں کہ زمین وآسمان ایک مادہ تھا… ملا ہوا… پھر ہم نے اسے پھاڑ دیا…
تو میں نے کہا کہ اس آیت سے اشارہ ہوتا ہے… یہ آیت تفصیل نہیں ہے…یہ اس کا ترجمہ نہیں… اس کی تعبیرنہیں… پر یہ آیت اس کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ تو شام کووہ بچہ میرے پاس آیا کہ جی وہ یہودی مسلمان ہوگیا…

خالق کائنات کون؟

تو میرے بھائیو! اس کائنات کا ایک خالق ہے… مالک ہے… بڑا زبردست خالق ہے:
{والارض فرشناھا فنعمل الماھدون قررنا فنعمل القادرون}
ایسے دعوے اللہ ہی کرسکتا ہے… کوئی میرے جیسا بچانے والا فرش کو ہے… کوئی میرے جیسا نظام بنانے والاہے کوئی تمہارے رب کے علاوہ …جو یہ سب کرکے تمہیں دکھا دے…تو میرے بھائیو! اللہ ہمارا خالق… ہمارا مالک… ہمارا رازق… ہمارا کفیل… ہمارا وکیل… ہمارا رقیب… ہماراسب کچھ ہے… تو لہٰذا بھائیوں… اللہ سے جوڑ بٹھائو… اللہ کو ساتھی بنائو… اس کائنات کے فیصلے اللہ کرتا ہے… اس کائنات میں عزت اور ذلت کے نظام آسمان سے اترتے ہیں…
{وتعز من تشاء وتزل من تشائ}
تختوں پہ بٹھانا اور تختوں سے اتارنا یہ فیصلہ آسمانوں پہ ہوتا ہے
{تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشآئ}
اس لئے میں کہتا ہوں کہ حکومت کو گالیاں نہ دو… الٹا اپنا جرم ہے… اور گالی دینا تو ویسے ہی ناجائز ہے… چاہے کوئی کتنا ہی نافرمان ہو…
کسی کو سمجھائے بغیر … بتائے بغیر اس کے لئے بددعائیں کرنا اور اس کو گالیاں دینا اور اس کی برائی کرنا… یہ اپنی آخرت کو خراب کرنا ہے… فیصلے آسمان سے آتے ہیں…
جب اللہ کسی کو تخت پہ بٹھاتا ہے تو زمین پر اس کے حکم کے مطابق وہ نظام چلاتا ہے…
جب کسی کو اتارتا ہے تو نیچے اسکے حکم کے مطابق نظام چلاتا ہے…
وہ جب راضی ہوتا ہے تو…… اس کا اور نظام ہوتا ہے…
ناراض ہوتا ہے تو ……… اس کا اور نظام ہوتا ہے…
ہم اللہ کو راضی کرلیں تو ان حالات کے بننے بگڑنے میں نہ کسی ایٹمی طاقت کا زور ہے… نہ کسی مادی طاقت کا زور ہے… فیصلہ تو آسمان سے آتا ہے اور کیا کائنات اس کو روک لے گی؟ فیصلے تو آسمان والا کرتا ہے…
اللہ نے فیصلہ کیا کہ مجھے فرعون کی چھری سے موسیٰ کو بچانا ہے…
اللہ نے فیصلہ کیا کہ مجھے خلیل کی چھری سے اسماعیل کو بچانا ہے…
ایک چھری دشمن کے ہاتھ میں ہے… ایک چھری دوست کے ہاتھ میں ہے…
ایک چھری فرعون کے پاس … ایک ابراہیم کے پاس ہے…
ہر مصیبت اس کے حکم سے ہٹتی ہے! مثالیں
وہ محبوب ترین ہے… وہ مردود ترین ہے… لیکن اوپر سے فیصلہ آیا…
مجھے موسیٰ کو کٹنے سے بچانا ہے… مجھے ابراہیم کو جلنے سے بچانا ہے…
اللہ نے دونوں کو بچا کے دکھایا…
نہ خلیل کی چھری ذبیح پر چل سکی… نہ موسیٰ پر فرعون کی چھری چل سکی…
موسیٰ تو گود میں ہی نہ آئے… بلکہ اللہ نے تو اٹھاکے گود میں بٹھادیا…
ایسا پردہ ڈال دیا اور اسماعیل پر سیدھی چھری چل رہی ہے… اور یہاں کوئی لوہے کا ٹکڑا نہیں آیا اور چھری کوئی نرم نہ ہوئی… چھری لوہا گردن نرم لیکن اللہ نے چھری سے کاٹنے کی طاقت کو واپس لے کے ساری دنیا کو بتایا …کہ جو اللہ چاہتا ہے وہ کردیتا ہے… جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا… ساری طاقتوں کا مالک… ساری کائنات کا مالک تو وہ ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے یااللہ تو مردے کو کیسے زندہ کرے گا؟
تو کہا کہ تجھے یقین ہے…
کہا… یقین تو ہے… مگر ویسے ہی دیکھنا چاہتا ہوں…
تو کہا:…فخد اربعۃ من الطیر …… ۴ پرندے لو…
فسرھن الیہ …انہیں مانوس کرو…پھر انہیں ذبح کرو… پھر انہیں قیمہ قیمہ کرو۔
ثم الجعل علی کل جبل منھم جزء ……پھر ۴ پہاڑوں پر ان کی قیمہ قیمہ کی ہوئی بوٹیاں رکھ دو… ثم ادعوھن ……پھر انہیں بلائو…
یاتینک سعیا …پھر دیکھنا وہ تیرے پاس کیسے آئیں گے… چل کے آئیں گے۔
اڑ کے نہیں آئیں گے کہ کہیں تجھے دیکھنے میں دھوکہ نہ ہوجائے اور تو کہے یااللہ مجھے توپتہ ہی نہ لگا کہ کیسے زندہ ہوگئے… تو دیکھے گا کہ وہ تیری طرف چل کے آئیں گے …اپنے رب کی قدرت کوتو دیکھے گا… کہ وہ تیری طرف آئیں گے چلتے ہوئے ۔
یہ ایک قول ہے… کوئی پکی بات نہیں ہے… 4 پرندے تھے …
کہتے ہیں وہ مور تھا… عقاب تھا… کوا اور مرغ تھا …کوئی بھی تھے…
مگر چار عدد لکھا ہے… پھر وہ پرندے لئے اور پھر انہیں مانوس کیا… پھر ان کو ذبح کیا…ان کی سریاں اپنے پاس رکھ لیں اور ان کو قیمہ قیمہ کرکے چار پہاڑوں پر رکھا…
پھر یوں مور کی سری کو اٹھایا… پھر کہا کہ مور آجائے… پھر ایک پہاڑ سے اس کا قیمہ نکلا… دوسرے سے… تیسرے سے… چوتھے سے… چاروں جگہوں سے اس کی بوٹیاں نکل کے باہر آئیں اور پھر یوں اڑتی ہوئی آکر آپس میں ملیں…
وہ جو پر انہوں نے پھاڑ کے الگ کئے تھے وہ اڑ کر آئے اور آپس میں آکر یوں ملنا شروع ہوئے… پر بنے اور مور سارا وجود بن گیا… اب مور اڑ کے آنے کے بجائے پہاڑ سے اتر کر یوں آرہا ہے… یوں آرہا ہے… ابراہیم مجھے اچھی طرح دیکھ لو… میں اڑ کے نہیں آرہا… چل کے آرہا ہوں… {یأتینک سعیا واعلم أن اللہ عزیزہ حکیم}
جان لو کہ تیرے رب جیسا نہ کوئی عزت والا ہے اور نہ کوئی حکمت والا ہے…جب وہ قریب آیا تو ابراہیم علیہ السلام نے کوے کی سری آگے کردی… تو مور بغیر سری کے کھڑا تھا تو بجائے مور کے کوے کی سری دی تو مور نے وہ سری دور کردی اور کبوتر کی دی تو دور کردی… عقاب کی دی تو دور کردی… مور کی دی تو ٹھک کرکے لگالی اور ٹھک کرکے یوں لگایا اور زندہ ہوگیا پورا…آواز آئی …ابراہیم پتہ چل گیا…ہماری قدرت کا …
تو بھائیو! ہمارا رب بڑی قدرتوں والا ہے۔اس ایک کو راضی کر لو وہ آپ کے سارے کام بنا دے گا۔اور اس کو راضی کرنے کا راستہ حضرت محمد ﷺ کی مبارک زندگی میں ہے۔
…{واخر الدعوٰنا ان الحمد اللہ رب العالمین}…

No comments:

close