namaz+ki+ahmiyat+aur+fazilat - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Monday, June 10, 2019

namaz+ki+ahmiyat+aur+fazilat



Image result for namaz ki ahmiyat aur fazilat in urdu pdf
Image result for namaz ki ahmiyat aur fazilat in urdu pdf
Related image
Image result for namaz ki ahmiyat aur fazilat in urdu pdf

نما ز کی اھمیت

ارشاد نبوی انّ الدّنیا خُلقت لکم۔ ساری دنیا تمہارے لئے بنائی گئی ہے‘‘۔ارشاد ربانی ہے:﴿خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَ رْضِ جَمِیَعاً ۔’’ اور جوکچھ زمین میں ہے تمہارے ہی نفع کے لئے ہیں‘‘۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:﴿اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالاَْرْضِ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَائِ مَائً فَاَ خْرَجْ بِہٰ مِنَ الثَّمَرَاتِ رزِقًالّکَُمُ وَ سَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الَْبحْرِ بِاَمْرِہٰ وَسَخّرَلَکُمُ الَْاَنْھَارَ وَسَخَّرَلَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائبِیْنِ وَسَخّرَلَکَمُُ الَّلیْلُ وَالنَّھَارَ وَاٰتَا کُمْ مِنْ کُلِّ مَاسَئا لتُمُوْہُ﴾ â۳ á’’ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی کواتارا اور اس سے پھل اگائے تمہارے رزق کے لئے اورجہازوں کو تمہارے کامیں لگایا تاکہ اس کے حکم سے وہ دریا میںچلیں اوردریا تمہارے کام میں لگائے اور آفتاب ماہتاب تمہارے کام میں جو چل رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے کام میں لگا دیا اور وہ سب کچھ تمہیں دیاجو تم نے اس سے مانگا âخواہ دعا قولی سے یاد عا عملی یعنی اختیار و اسباب سے á‘‘۔
پس زمین و آسمان ¾ رات دن کا لوٹ پھیر ¾ شجر و حجر اور بحروبر کا کارخانہ سب کچھ انسان ہی کے لئے تیارکیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ تخلیق کائنات کا انتہائی مقصد انسان ہے۔پھر یہ انسان کس لئے ہے؟ ظاہر ہے کہ کائنات کے لئے نہیں۔ ورنہ وسیلہ ہونے کی بجائے مقصد ہو جائے گا اور یہ خلاف نقل و عقل اور خلاف مشاہدہ ہے جیسا کہ واضح ہوا۔ اس لئے ایک ہی نتیجہ ہے کہ انسان کائنات کے لئے نہیں بلکہ خالق کائنات کے لئے ہے یعنی اس کی عبادت کے لئے ۔ اس کے سامنے جھکنے اورگڑ گڑانے اور اس کے آگے سرعبودیت خم کرنے کے لئے پس انسان کا مقصد تخلیق عبادت نکلا اور اب منطقی اصول پر نتیجہ یہ نکلا کہ کائنات انسان کے لئے اور انسان عبادت کے لئے تو ساری کائنات کی یہ تنظیم و تخلیق صرف عبادت کے لئے عمل میں آئی ہے۔

عبادت کا فرد کامل

عبادت پراگر آپ غورکریں گے تو اس کا فرد کامل نماز ہے۔ گویا ساری دنیا نماز کے لئے بنائی گئی ہے کہ یہی عبادت کا فرد کامل اور مظہراتم ہے بلکہ میں ترقی کرکے یہ عرض کروں گا کہ سلسلہ عبادت میں عبادت صرف نماز ہی ہے اور کوئی چیز بذاتہ عبادت نہیں۔ کیونکہ عبادت کے معنی غایت تذلل اور انتہائی ذلت اختیار کرنے کے ہیں جو انتہائی عزت والے کے سامنے اختیار کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس معنی کے لحاظ سے نماز کے سوا کوئی چیز بذاتہ عبادت نہیںنکلتی ۔ مثلاً روزہ اپنی ذات سے عبادت نہیں کیونکہ روزہ کے معنی کھانے پینے اور تمام لذات نفسانیہ سے مستغنی ہو جانے کے ہیں اور ظاہر ہے کہ غنا اور عدم احتیاج ذلت نہیں۔ کیونکہ غنا تو خود خالق کی شان ہے تو خالق کی
شان اختیار کرنا عیاذا باللہ ذلّت تھوڑا ہی ہے۔ یا صدقہ و زکوٰۃ دینا عطا ہے اور عطا توخود اللہ کی صفت ہے اورمعاذ اللہ
ذلت کیسے ہوسکتی ہے؟ یا سچ بولنا خدا کی شان ہے تو اسے عبادت اور غایت تذلل کیسے کہ دیں گے۔ اسی طرح اور تمام اخلاق حسنہ اور اعمال فاضلہ بذاتہ ذلت نہیں کہ انہیں عبادت کہا جائے پھر بھی جو انہیں عبادت کہا جاتا ہے محض امتثال امر خداوندی کی وجہ سے نہ کہ بالذّات۔ ہاں نماز بالذّات عبادت ہے ¾ کیونکہ اس کی ہیئت کذائی قیام ¾ قعود ¾ رکوع اور آخر کار سجدہ میں ناک اور پیشانی زمین پر ٹیکنا انتہائی ذلت اور عبودیت کا اظہار ہے ¾ اس کے اذکار مشتمل ہیں یا اظہار فدویت نفس پر یا اعلا ن عزت رب پر ۔ اور یہ خود شان تذلل ہے۔ غرض نماز کی ہیئت اور حقیقت سب مظہر ہے شئون تذلل اور احوال عبودیت پر۔
حاصل یہ ہوا کہ کائنات کی تخلیق عبودیت یعنی نماز کے واسطے ہوئی ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم نے نماز ہی کا ساری کائنات کو پابند ظاہر فرمایا ہے نہ کہ زکوٰۃ و حج اور صوم و صدقہ کا۔ فرمایا:﴿کُلُ ¾ قَدْ عَلِمْ صَلٰوتَہ ¾ وَتَسْبِیْحَہْ﴾ â۱ á......’’ ہر چیز نے âخلقۃً اور تکوینی ہدایت سے á اپنی نماز اور تسبیح âیعنی ہیئتِ نماز اور اذکارِ نماز á کوجان لیا ہے‘‘۔جس سے واضح ہے کہ ساری کائنات نمازی ہے ¾ بھلا پھر انسان کو توکیوں نہ نمازی بنایا جاتا۔ فرق اتنا ہے کہ اور مخلوق غیر عاقل ہے تو اس میں نماز کا داعیہ جبلی اور تکوینی طور پر رکھ دیا گیا ہے اور انسان ذی عقل و ہوش ہے۔ تو اس کی نماز اختیاری ہے ¾ جس کے لئے ہدایت و رہنمائی اور وعظ و پند کی ضرورت پڑتی ہے۔ پس اگر انسان نمازی نہ ہو تو گویا اس نے اپنے مقصد تخلیق کو فوت اور ضائع کردیا۔ اس لئے فاروق اعظمؓ نے اپنے دورِ خلافت میں تمام رعایائے اسلام کے نام فرمان جاری فرمایا تھا کہ:

نماز ہے تو کل دین ہے

Êن أھم أمورکم دینکم عندی الصلوۃ فمن حفظھا و حافظ علیھاحفظ دینہ ومن ضیعھا فھولما سواھا أضیع â۲ á......ترجمہ: میرے نزیک تمہارے دین میں سب سے زیادہ اہم چیز نماز ہے ،جس نے اسے ضائع کردیا وہ دوسرے دینے کاموں کو اس سے بھی زیادہ ضائع کرے گا۔............اس سے واضح ہے کہ دین کے دوسرے کاموں کی بقائ بھی درحقیقت نماز ہی ہے ۔اسی سے اوقات کی پابندی ہوتی ہے ،اسی سے عظمت حق دل میں جاگزیں ہوتی ہے ۔اسی سے دین کے اوامر کی عظمت ہوتی ہے اور پھر ان کی تعمیل پر دل مجبور کرتا ہے ۔غرض نماز ہے تو کل دین ہے ۔اور وہ نہیں تو دین بھی نہیں ،اور مسلمان کا دین ہے تو دنیا بھی ہے ورنہ دنیا بھی نہیں ۔پس نماز ہے تو جہان ہے ورنہ حرمان وخسران ہے ۔بس اسی مقصد ِ نماز کی تکمیل کے لئے یہ سنگِ بنیاد رکھا جارہا ہے ۔تاکہ نماز اپنے مشروع طریق سے اسی مقدس جگہ میں ادا کی جائے۔

نماز تعلق مع اﷲ کی مظہر اتم ہے

اس لئے میں کہہ سکتا ہوںکہ اب تک تو جامعہ نے اپنے پروگراموںمیں رسوم ادا کی ہیں اور اب حقیقت ادا کی ہے وہ سب چیزیں نمائشی تھیں۔ حقیقت اگر ہے تو صرف یہ‘ جیسے اس وقت انجام دے رہے ہیں کہ اس سے مقصد زندگی تکمیل پا رہا ہے۔ نماز مظہرا تم ہے تعلق مع اللہ کی۔ اگر نماز اور تعلق مع اللہ قائم ہے تب تو یہ ساری رسمیںجوہم نے ادا کی ہیں باروح اور زندہ کہی جائیں گی‘ ورنہ یہ سب چیزیں جو رسم کی شکل سے ادا کی گئی ہیں ایک بے جان لاش ثابت ہوں گی۔ اور لاش کا انجام یہ ہے کہ وہ چند ہی دن بعد گلے‘ سڑے‘ پھولے اور پھٹے اور اس کی بدبو سے دماغ متعفن ہوں اور احساسات گندے ہوجائیں۔
نیز یہ تعلق مع اللہ ہے جو ان رسموں کی شکلوں کی بھی اصلاح کر سکتا ہے ورنہ بلا تعلق مع اللہ اور بلاواسطہ اوامرالٰہیہ کے یہ ر سمیں بھونڈی اور بدشکل متصور ہوںگی پس اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھ کر اور نمازی بن کر در حقیقت ہم اس کا تہیہ کر رہے ہیں کہ اپنی رسوم کی صورتوں کی بھی اصلاح کریں اور اس میں حقیقت و روح بھی پیدا کریں۔ تاکہ ہمارا ہر عمل پائیدار اور عواقب کے لحاظ سے نتیجہ خیز ہو۔ اور بے جان لاش کی طرح ضائع اور بے جڑ درخت کی طرح بے ثمر نہ رہے۔

قیام نماز سے ایک خاص فضا پیدا کرنا مقصود ہے

اس لئے ہمیں دعا اس کی کرنی ہے کہ اے اللہ ہمیں نماز کی توفیق دے اور نماز کے لئے ہمارے اس مکان مقدس یعنی مسجد کی تکمیل کر ادے اور اس مسجد کو بنانے والوں‘ اس کی تعمیر کرنے والوں‘ اس میںامداد دینے والوں‘ اور اس کے منتظموں کا یہ عمل قبول فرما۔ ہمیں اللہ سے یہ مانگنا ہے کہ وہ اس نماز کے ذریعے ہمارے ہاتھوں جامعہ میںایسی فضا پیدا کر دے کہ جس میں نیکیاں پھلیں پھولیں اور بدیاں اپنی موت مرجائیں۔ آج کا دور وہ ہے کہ نیک نیکی کرکے شرماتا اور منہ چھپاتا پھرتا ہے کہ جیسے گویا اس نے کوئی بڑا بھاری جرم کیا ہے اور مجرم بدکاریاں کرکے فخر سے سر اونچا کرتا ہے کہ گویا اس نے دنیا کا کوئی محترم کام انجام دیا ہے۔ ہمیں اللہ سے واسطہ پیدا کرکے اور نماز کو قائم کرکے ایسی فضا پیدا کرنی ہے کہ نیکی کرکے نیک سر ابھارے اور مجرم اور بدکار خلاف شریعت امور کر کے منہ چھپاتا رہے اور اپنی برائی کو محسوس کرے۔
آج کے دور میں ایمان سے کور ے آدمی کا لقب ہے دانا‘ عالی ظرف اور بہادر‘ اور ایماندار کا لقب ہے احمق بے وقوف مجنون اور دیوانہ۔ حدیث میں ارشاد فرمایا ہے۔یقال للّرجل مااعقلئہ و ما اظرفہ‘ و ما اجلدہ‘ ولیس فی قلبہٰ مثقال ذرۃ من الایمان â۱ á۔......’’آدمی کے لئے کہا جائے گا کہ کس قدر دانا ہے کس قدر عالی ظرف ہے اور کیسا بہادر ہے۔ درانحالیکہ اس کے دل میں ذرہ برابر ایمان کا نشان نہ ہوگا‘‘۔اور دوسری روایات میں فرمایا گیا ہے کہ امین کو خائن کہا جائے گا اور خائن کو امین علم والے کی اتنی بھی عزت نہ رہے گی جتنی کہ ایک مردار گدھے کی لاش کی ہوتی ہے۔ یہ چیزیں آج مشاہدہ میں آرہی ہیں۔ اہل تقویٰ کا نام مذہبی دیوانے‘ احمق ملانے وغیرہ ہیں اور اہل فجور کے القاب اعقل‘ اظراف اور اجلا ہیں تو ہمیں تعلق مع اللہ والوں کی کثرت کرکے ایسی فضا پیدا کرنی ہے کہ ہر ایک کواسی کے صحیح لقب سے یاد کیا جائے اور اسی کے مرتبہ کے مطابق اس سے معاملہ کیا جائے۔ پس دعا میں ایک نقطہ یہ بھی ہمیں لانا ہے کہ اے اللہ ہمیں اہل تقویٰ میں سے اور نمازی کرکے ہمیںاہل سعادت کر اور اہل سعادت کی عزت و توقیر اور شوکت دنیا میں قائم فرما۔ ہماری مادی شوکت اگر ہمیں حاصل ہو اور جس کا ہم فوجی انداز میں مظاہرہ کرکے گویا اس کی تحصیل کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں اس کا ثمرہ اور آخری غایت بھی نماز ہی ہے یعنی خدا سے تعلق۔

سلطنت اسلامی کا مقصود

حق تعالیٰ نے ارشادفرمایا﴿اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَنّٰھُّمْ فِی اْلاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرَوْفِ وَنَھَوْاعَِن الْمُنْکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ اْلاُمُوْرِ﴾ â۱ á۔......پس ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ مسلمانوں کا دنیوی عروج اور تمکین فی الارض یعنی سلطنت و امارت اس لئے نہیں کہ کیک‘ پیسٹری کی فکر میں مستغرق ہوں۔ کوٹھی بنگلوں کی تعمیران کا منتہائے نظر ہو اور انڈا مکھن ان کا آخری مطلب ہو۔ بلکہ ان کا عروج اس لئے ہوگا کہ وہ خدا کی چوکھٹ پر جھکیں اور اس کی مخلوق کو جھکادیں۔ دنیا میں معروف اور اچھی باتیں پھیلائیں اور برائی سے دنیا کوپاک کریں صدقہ و خیرات سے غریبوں کی غربت مٹا دیں سائلوں اور محتاجوں کے دلوں کو تھامیں۔ اخوۃ ہمدردی سے عالم کو بھر دیں۔ تفوق اور علووفساد کا قلع قمع کریں۔
نمازی یا نماز کے ثمرات
پس محض اس کی دعا کرنی ہے کہ خداوندا ہمیں عروج دے تاکہ ہم تیرے اس مقدس مکان میں جمع ہو کر تیری یاد کریں اور اس بھولی ہوئی اور غافل دنیا کو تیر ے بارے میں ہوشیار بنا دیں۔ پس یہ کام ہم اس مسجد مقدس میں جماعتی حیثیت سے انجام دینے کی توفیق اللہ سے مانگنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ حاصل یہ ہے کہ ہمیں اپنی دعا میں نماز کی‘ مکان نماز کی تکمیل کی توفیق‘ نماز کے شوکت کے وسائل قائم کرنےکی توفیق‘ نماز کے لئے مادی شوکت فراہم کرنیکی تو فیق اور نماز کے ذریعے اپنی صورت و سیرت اور ہیئت و حقیقت کے پاکیزہ اور مطلوب انداز پر لانے کی توفیق مانگنا ہے ۔ یعنی جو کچھ بھی مانگنا ہے وہ نمازی یا نماز کے ثمرات ہیں یا نماز کے مبادی اور وسائل ہیں۔ہم صرف نماز ہی دنیا میں چاہتے ہیں اور نماز ہی کے لئے ہر کام بھی چاہتے ہیں۔
اگر حقیقتاً ہمیں یہ زندگی میسر ہوجائے تو اسی زندگی کا نام قرآن کی زبان میں حیات طیبہ ہے۔ اسی کا نام اسوہ حسنہ اور پاک سیرت ہے جس کے لئے اسلام آیا اور پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا گیا ۔
پس دعا کے یہی چند نقاط تھے جن پر توجہ دلانے کے لئے میں کھڑا ہوا تھا‘ مجھے کوئی تقریر یا نماز کے موضوع پر کوئی سیر حاصل بحث کرنا منظور نہیں تھا۔ نہ اس کا وقت ہے
اور نہ کوئی پروگرام اس لئے اب آپ سب حضرات ہاتھ اٹھائیں اور اپنے رب کریم کی بارگاہ میں ان مطلوبہ نقاط پر مخلصانہ دعا فرمائیں۔
                     از حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قدس اللہ سرہ ۔

No comments:

close