diyanat+dari - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Monday, June 10, 2019

diyanat+dari


Image result for diyanat dari

Image result for diyanat dari

دیانت داری

مسجد الحرام سے اذان کی آواز بلند ہوئی تو بوڑھے ابو غیاث نے مسجد کا رخ کیا … یہ رمضان المبارک کی پہلی صبح تھی… خانہ کعبہ کے ارد گر د نمازیوں کی صفیں بنتی چلی جارہی تھی… کچھ نمازی سحری سے فارغ ہوکر آرہے تھے…
بوڑھا ابو غیاث بھی مسجد کی طرف جارہا تھا… لیکن بھوک کی وجہ سے اس سے چلنا دشوار تھا… یہی حال اس کا نماز میں تھا… بھوک کی شدت کی وجہ سے اس کے پیٹ میں درد تھا… اور درد کی وجہ سے ابوغیاث سے کھڑ اہونا مشکل ہوگیا تھا… جیسے تیسے اس نے نماز پڑھی اور ذکر واذ کار سے فارغ ہو کر ایک جگہ کونے میں بیٹھ گیا… غم کی پر چھائیاں اس کے چہرے پر صاف واضح تھیں … وہ سو چنے لگا کہ آخر اس کی تنگی کے دن کب ختم ہوں گے…
پہلے تو تنگ دستی کی وجہ سے جیسے تیسے گزارا ہورہا تھا… لیکن اب حالت یہ ہو گئی تھی… کہ پچھلے دو دن سے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا… آج پہلا روز ہے… تو سحری کے لئے بھی کچھ دستیاب نہیں… وہ کتنی دیر تک سو چتا رہا …
پھر اٹھ کر اسی حالت میں گھر آیا… ابو غیاث کی بیوی لبابہ نے اپنے شو ہر کو یوں پریشان دیکھا تو وہ بولی… ابو غیاث !… آج تیسر ادن ہے… کہ ہم نے کھانا نہیں کھا یا … یہ گرمی کے دن ہیں… اور ویسے بھی آج روزہ ہے… ہم تو جیسے تیسے صبر کر کے دن گزارہی لیں گے…لیکن ان بچیوں کا کیابنے گا… بھوک نے ان کا برا حال کررکھا ہے…
آپ ہمت سے کام لیں اور روزی کی تلاش میں جائیں ہوسکتا ہے… کہیں کام مل جائے اور اس سے ہم کھانے پینے کی اشیاء خرید سکیں …تاکہ روزہ بھی افطار کیا جاسکے…
ابو غیاث بیوی کی بات سن کر چپ رہا … اس کی بیوی نے پیو ند لگی ہوئی میلی کچیلی قمیص اس کی طرف بڑھائی اورکہا جائیے اللہ بہتر کرے گا…
ابو غیاث اٹھا اور گھر سے کام کی تلاش میں نکل گیاسورج طلوع ہو چکا تھا… کہ کے بازاروں میں لوگوں کی آمد شروع ہو گئی تھی… ابو غیاث کا م کی تلاش میں مار امار پھر تارہا… مگر کہیں کام نہ مل سکا … آسمان پر سورج بلند ہو چکا تھا… تو اس کی دھوپ میں شدت آگئی تھی…ا بو غیاث کئی دن کا بھوکا تھا… وہ بھوک اور گرمی سے نڈھال ہو کر ایک دیوار کے سائے میں بیٹھ گیا…
بوڑھے ابو غیاث کو اداسی نے آگھیرا… وہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر سو چنے لگا کہ اگر آج بھی اسے کام نہ ملا تو پھر کیا بنے گا…
گھر میں بچیاں بھوکی ہیں… اس کی بیوی کی بوڑھی ماں بھی گھر پر ہے… اور اس نے بھی تین روز سے کچھ نہیں کھایا …
خود ابو غیاث کی یہ حالت تھی… کہ کمزوری کی وجہ سے اس کے جسم میں اتنی سکت بھی نہ تھی… کہ وہ اٹھ سکے …اسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے پیٹ میں آگ لگی ہوئی ہے…
اس کی بڑی تمنا یہ تھی… کہ اسے ایمان کی حالت میں موت آجائے کہ وہ اس قید حیات سے رہا ئی پا جائے …اور ہمیشہ کی زند گا نی سے فائدہ اٹھا ئے… وہ انہی سو چوں میں گم بیٹھے بیٹھے مٹی کر ید نے لگا کہ …اچانک اس کا ہاتھ ایک نرم وملائم چیز سے چھو گیا … اسے کچھ یوں محسوس ہو ا کہ جیسے سانپ کی دم ہے… اس نے اعوذ باللہ پڑھی اور ہاتھ کھینچ لیا پھر دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش!… یہ سانپ ڈس لے اور میں مصائب سے آزاد ہوجائوں… لیکن معاً خیال آیا کہ مومن کو ایسی بات نہیں سو چنی چاہے …
چنانچہ اس نے اللہ سے معافی مانگی …اور دوبارہ اس چیز کو غور سے دیکھنے لگا … اسے بڑاتعجب ہوا کہ یہ بے حس و حرکت پڑی ہے…ا سے پاؤں سے ٹھوکر بھی لگائی لیکن وہ چیز بے جس پڑی رہی … اس نے ہاتھ سے مٹی ہٹا کر اسے پکڑا تو وہ دیناروں سے بھری ہوئی تھیلی نکلی …جو سونے سے بھری ہوئی تھی… اسے دیکھ کر بھوک اور پیاس ختم ہوگئی اور اعصاب میں نئی قوت پیدا ہو گئی… ابو غیاث سو چنے لگا کہ …میں کتنا خوش نصیب ہوں یہ مال اپنے گھروالوں کے ہاتھوں میں تھماؤں …گاتو وہ کس قدر خوش ہوں گے؟… حسین اور روشن مستقبل کی امید میں وہ خوشی سے دیوانہ ہورہاتھا …
اچا نک ایمانی حس بیدار ہوئی دل میں القاء ہوا کہ یہ مال تیرا نہیں بلکہ گمشدہ ہے… سال بھر اعلان کر نے کے بعد اس صورت میں حلال ہوگا جب اصل مالک نہ ملے… جب سال کی مدت اور اپنے رات کے کھانے کا تصور کیا… تو ذہن نے جواب دیا کہ …سال بھر زندہ بھی رہوں گا… یا نہیں؟… اور یہ بھوکی بیٹیاں کیا کھائیں گی…اور کیا پہنیں گی…خواہش پیدا ہوئی کہ تھیلی کو واپس اسی جگہ رکھ آئے اور آزمائش میں نہ پڑے…
لیکن دانا عالم مومن تھا… جانتا تھا… کہ اگر گمشدہ مال کو دیکھ کر ہاتھ نہ لگا یا جائے تو کوئی ذمہ داری نہیں… اگر اسے پکڑ کر دوبارہ رکھ دیا جائے تو ذمہ داری رکھنے والے پر ہوگی… اس قسم کے تفکر ات دماغ میں ٹکرانے لگے… اسے محسوس ہوا کہ کنپٹی کی ہڈیاں چورہورہی ہیں… ایک طرف سے یہ خیال اٹھتا کہ دبار کھو …اللہ کا دیا ہو ارزق ہے… اس کے ذریعے بھو کی بیوی …اور بیٹیوں کا پیٹ بھر و…اور ان کا تن ڈھا نکو… اگر طاقت ہوئی تو پھر دے دینا …ورنہ چند دینار کم بھی واپس کئے تو کیا فرق پڑے گا…
دوسری طرف یہ خیال پیدا ہوتا کہ صبر کراے بھلے آدمی!… امانت میں خیانت کا ارتکاب نہ کر قبر کے کنارے بیٹھ کر مالک کی نافرمانی کا سوچتا ہے… چنانچہ پھر وہ اصل مالک کے ملنے تک تھیلی گھر رکھنے چلا گیا … چوروں کی طرح گھر میں داخل ہو اتو اس کی بیوی نے دیکھ لیا اور پو چھا… ابوغیاث کیسے آئے اور کیا لائے ہو؟…
جواب دیا …کچھ نہیں!…
ابو غیاث تھیلی کی خبر چھپا نا چاہتا تھا… جبکہ اس نے آج تک بیوی سے کوئی خبر چھپائی نہ تھی…
بیوی نے کہا… واللہ !… آپ کے پاس کچھ ضرور ہے… لیکن یہ ہے… کہا؟… بتائونا؟…
ابوغیاث ڈرا کہ اس کی بیوی لبابہ کہیں کسی وہم میں مبتلا نہ ہوجائے …ا سے سارا قصہ سنادیا … وہ عورت دین دار ضرور تھی… لیکن ابوغیاث کی طرح صبر اور حوصلے والی نہ تھی…
کہنے لگی…جاؤ اور کچھ خرید لاؤ …کیونکہ ہم لا چار ہیں… اور لاچارپر مردار بھی حلال ہے…
ابوغیاث نے کہا …نہیں ہر گز نہیں… اگر تو نے اسے ہاتھ لگایایا کسی کو خبردی تو تجھے طلاق ہے…
لبا بہ خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہوگئی …اور ایہ اصل مالک کی تلاش میں گھر سے نکل پڑا…تا کہ اصل مالک سے مل کر حلال طریقے سے کوئی درہم حاصل کر سکے …وہ حرم کی طرف چل دیا…
ابوغیاث حرم میں پہنچا ہی تھا… کہ ایک خراسانی نوجوان کو یہ اعلان کرتے ہوئے سنا…
اے حاجیوں کی جماعت میری ہزار دینار سے بھری ہو ئی تھیلی کہیں گم ہوگئی ہے… جو کوئی اسے واپس کرے اللہ اسے ثواب دے گا…
ایک بوڑھا بزرگ اٹھا کہنے لگا…
اے خراسان کے رہنے والے نوجوان !… ہمارا ملک پسماندہ ہے…حالات ابتر ہیں… شاید آپ کی تھیلی کسی اللہ کا خوف رکھنے والے انسان کو مل گئی ہو ؟… آپ اس کے لئے انعام کا اعلان کردیں … جسے لے کر وہ باقی واپس کردے …
نوجوان خراسانی نے پوچھا…ہاں بھئی کتنا انعام؟…
ابوغیاث نے کہا …سو دینار یعنی دسوواں حصہ …
نہ بھئی نہ ایسا نہیں ہوسکتا … میں یہ معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں … خراسانی نے جواب دیا …
جب کچھ بات نہ بنی …تو ابو غیاث خستہ حال اپنے مکان میں واپس آیا اور بولا… لبابہ کہاں ہے؟…
لبابہ بولی حاضر ہوں… حاضر ہوں ابو غیاث!… میں نے ایک شخص کو اس تھیلی کی تلاش میں پھرتے ہوئے دیکھا ہے… میں نے اسے یہ بھی کہا کہ تو اس کے واپس کر نے والے کے لئے سو (۱۰۰) دینار انعام کا اعلان کر دے لیکن وہ نہیں مانتا… اب ہمیں کیا کر نا چاہیے؟… میرااردہ تو تھیلی واپس کر نے کا ہے…
لبابہ نے کہا…ابو غیاث ہمیں تیرے ساتھ پچاس سال فقر وفاقہ میں گزارنے پڑے ہیں… تیری چار بیٹیاں …دو بہنیں… ایک ساس اور آٹھویں میں ہوں… ابوغیاث اللہ بڑا مہربان ہے…اس کی شان اس امر سے بلند ہے… کہ ایسے آدمی کو عذاب کرے…تو ان کا واحد کفیل ہو … تو نے نہ تو چوری کی ہے… اور نہ ڈاکہ ڈالا ہے… یہ مال تو اللہ نے تیرے سامنے رکھا ہے… تو اسے کیوں ٹھکراتا ہے… کیا اللہ تجھ سے ان عورتوں کے متعلق سوال نہ کرے گا؟…
بوڑھے ابوغیاث کے چہرے سے معلوم ہوا کہ اس کا دل ان بھوکی بیٹیوں اور مسکین ام لبابہ پر آنسو بہارہا ہے… کیونکہ فاقوں کی بدولت ان کا چمڑاہڈیوں پر خشک ہورہا تھا… اور وہ دیمک خور دہ لکڑی کی طر ح کھوکھلے بدن میں سانس لے رہی تھیں…
اس کے دل میں آیا کہ کچھ دینار خرچ کر لوں …لیکن فو راًیاد آیا کہ پچاس سال صبر سے گزاردیئے اور آج جبکہ قبر میں ٹانگیں لٹکی ہوئیں ہیں… تو پچاس سال کے صبر کو ایک دن کی لذت پر کیوں قربان کروں …اور پھر اللہ تعالیٰ میرے اہل وعیال پر ارحم الراحمین ہے… دل کو حوصلہ دے کر بولا…
میں ایسا نہیں کروں گا…پچاس سال بعد اپنی لاش کو قبر میں نہیں جلاؤں گا…
اگلے دن خراسانی نوجوان حرم میں پھروہی صدا لگار ہاتھا کہ جو کوئی میری ہزار دیناروالی تھیلی واپس کردے …اللہ تعالیٰ اسے اجر دے گا…
وہی بوڑھا بزرگ اس کی خدمت میں عرض کرنے لگا کہ… اے نوجوان میں نے تجھے کہا تھا… کہ ہمارا ملک بے آب وگیاہ ہے… وسائل زندگی کم ہیں… شاید وہ تھیلی کسی خوف الٰہی رکھنے والے کو مل جائے …تو انعام کے لالچ میں واپس کردے … چلو سودینار نہ سہی تو دس دینار کا ہی اعلان کردے …
اس نے کہا…ہر گز نہیں …بلکہ میرااور تھیلی اٹھا نے والے کا فیصلہ قیامت کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوگا…
تیسرادن ہو ا…تو خراسانی نوجوان پھر حرم میں وہی صدا لگارہا تھا… اور وہی ابوغیاث کھڑا اور کہنے لگا… اے نوجوان!… تو نے سو دینار کا اعلان کرنے سے انکارکردیا پھر دس دینار کا انعام سے بھی انکار کر دیا …تو آج ایک دینار کا ہی اعلان کردے… شاید کہ تھیلی اٹھا نے والا اس حلال دینار کے لالچ میں واپس کر دے …اور نصف دینار سے کھانا خر ید لے… اور نصف سے مشک خرید کر اس سے حاجیوں کو اجرت پر پانی پلایا کرے…‘‘
خر اسانی نے کہا… نہیں !… بلکہ میں اس کام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں…
ابو غیاث کی امید کا آخری سہارا بھی ختم ہوگیا …اور سو چنے لگا کہ …ابھی تو ہزار دینار ہاتھ میں ہیں… سارا نہ سہی تو ایک دینار ہی رکھ لوں …تاکہ بھوکے بیٹیوں کا سامان کر لوں …لیکن دینی جذبہ موجزن ہو اور یوم الحساب کے خیال سے ڈر گیا اور سو چا کہ پچاس سال کے صبر کو ایک دن کی لذت پر قر بان کر دینا …سراسر گھاٹا نہیں تو اور کیا ہے؟… کیونکہ تمام عمر کی لذتیں آخر کار جہنم کے ایک جھونکے سے بھول جائیں گی…اور ساری عمر کی محرومیاں جنت کی ایک دیدار سے کا فورہوجائیں گی…
ابوغیاث نے خراسانی نوجوان سے کہا…آؤ اور اپنی تھیلی لے جاؤ… جب دونوں گھر کے دروازے پر پہنچے …تو ابوغیاث اندر داخل ہوگیا … تھوڑی دیر بعد باہرآیا اور خراسانی نوجوان کو اندر لے گیا…
ابوغیاث نے اندر جا کر محفوظ جگہ سے تھیلی نکالی …اور نوجوان سے کہا… کیا تیری تھیلی یہی ہے…
نوجوان نے کہا… ہاں…
پھر اس کا سرا کھول کر دینار دامن میں پلٹے اور گنے تو پورے ہزار نکلے …پھر کہا… یہ تیرے ہیں…
لبابہ اور اس کی بیٹیاں یہ منظر دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھیں… جیسے بھو کا دیگ کی طرف دیکھتا ہے… اور صرف چند لقموں کی تمنا کرتا ہے…
خراسانی نے وہ دینار کندھے پر رکھ کر اوپر چادرڈال لی اور چل دیا …
لبابہ نے یہ منظر دیکھا …تو یوں چکرائی جیسے کسی عورت کا اکلو تا بیٹا گم ہوگیا ہو … اس کی بیٹیوں کی باچھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں…
چند لمحوں بعد ابوغیاث نے آہٹ سنی تو نظر اٹھا کر دیکھا کہ نوجوان واپس لوٹ آیا …اگر یہ ابوغیاث اس سے رو گردانی کر لیتا تویہ بڑی بات نہ تھی… کیونکہ اس نے ان بھوکے مسکینوں کو دیکھ کر بھی ایک دینارنہ دیا تا کہ وہ اپنی بھوک دور کر سکیں… لیکن یہ ابوغیاث بڑا بر دبار اور حوصلے والا شخص تھا…فوراً بولا…بتاؤ بیٹے!… کیسے آنا ہوا؟…
خراسانی نوجوان نے جواب دیا…اے بزرگ !… میرا باپ فوت ہوا تو اس کے پاس تین ہزار دینارتھے … اس نے مجھے وصیت کی تھی… کہ میری سواری بیچ کر حج کا خرچ بنالینا اور ہزار دینار اس شخص کو دینا جو بہت زیادہ غریب ہو … چنانچہ میں نے اپنے وطن خراسان سے لے کر مکہ تک کسی کو تجھ سے زیادہ غریب نہ پایا… یہ لو یہ دینار اللہ ان میں تمہارے لئے برکت کرے…
جب گھر پہنچے تو ابو غیاث نے بلند آواز سے پکارا …لبابہ!…
ابوغیاث کی آواز سن کر سب بیٹیاں اکٹھی ہوگئیں ابوغیاث نے سب کو خوش خبری سنائی کہ اللہ نے ہمیں دیانت داری کا صلہ یہ دیا ہے… کہ ہم ہزاردینار کے مالک ہوگئے ہیں…
مغرب کی اذان ہوئی …تو اس ابوغیاث کے اہل خانہ بھی عمدہ عمدہ کھانوں کے ارد گر بیٹھ گئے … ابو غیاث بزرگ نے اپنی بیوی لبابہ سے کہا…
لبابہ دیکھ لیا تو نے… اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا… ہم نے اپنے آپ کو حرام کے ایک دینار سے بچایا …تو اللہ تعالیٰ نے ہم کو حلال کے ذریعے سے ہزا دینار عطا کئے…
یہ ابو غیاث چند لقمے کھا کر اٹھ کھڑا ہوا… اورباہر جانے لگا… تو لبابہ نے کہا… کہاںجارہے ہو ابوغیاث؟…
میں کسی فقیر روزے دار کو تلاش کرنے جارہا ہوں …تاکہ اسے اپنے کھانے میں شریک کروں…
(ماخوذازنیکیوں کے پہاڑبتغیریسیر)

No comments:

close