Ramzan-ul-Mubarak Ahkam-o-Masail - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Friday, April 24, 2020

Ramzan-ul-Mubarak Ahkam-o-Masail





ماہ مقدس رمضان المبارک کی اہمیت اور فضیلت


﴿ شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ ﴾ (البقرة: ۲/۱۸۵)
 لَيْلَةُ الْقَدْرِ‌ خَيْرٌ‌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ‌ ﴾
(إذا دخل شهر رمضان فُتحت أبواب السماء وغُلِّقت أبواب جهنم وسُلسِلت الشياطين) (صحیح البخاری، الصوم، ح:۱۸۹۸)
(الصوم جنۃ یسجن بھا العبد من النار) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۷)
(الصوم جنة من عذاب الله ) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۶)
(من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا) (صحیح البخاری، الجھاد والسیر ، باب فضل الصوم فی سبیل اللہ، ح:۲۸۴۰ وصحیح مسلم، الصیام، فضل الصیام فی سبیل اللہ۔۔۔ح:۱۱۵۳)
(الصیام والقرآن یشفعان۔۔۔۔۔۔ فیشفعان) (صحیح الجامع، بحوالہ مسند احمد، طبرانی کبیر، مستدرک حاکم وشعب الایمان، ح:۳۸۸۲، ۷۲۰/۲)
(للصائم فرحتان یفرحہما۔۔۔۔۔فرح بصومہ) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ تعالیٰ:الصوم لی وانااجزی بہ۔
ماہ رمضان برکتوں والا مہینہ ہے ۔ اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوا، رمضان المبارک کی فضیلت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آمدسے قبل ہی بطوراستقبال کے اس ماہ کے لئے عبادات کی تیاری اورترغیب اورشوق وذوق کے ساتھ اس ماہ میں نیک اعمال کرنے کی تلقین حضرات صحابہ کرام کوفرمایاکرتے تھے۔جیساکہ مندرجہ ذیل روایت سے بخوبی واضح ہے:
عن سلمان الفارسی قال خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی آخر یومٍ من شعبان فقال یا ایھا الناس قد اظلّکم شھرٌ عظیمٌ شھر مبارک شھر فیہ لیلۃ خیر من الف شھر صیامہ فریضہ وقیام لیلۃ تطوعاً من تقرب فیہ بخصلۃمن الخیر کان کمن اذی فریضۃ فیما سواہ ومن ادّی فریضۃ فیہ کان کمن ادّی سبعین فریضۃ فیما سواء وھو شھر البصر ، والبصر ثوابہ الجنہ وشھر المواساۃ وشھر یزداد فیہ رزق المومن من فطرفیہ صائماً کان لہ مخضرۃً لذنوبہ وعتیق رقبتہ من النار وکان لہ مثل اجرہ من غیر ان ینتقص من اجرہ شئی قلنا یا رسول اللہ لیس کلنا نجد ما ننظِّرُ بہ الصائم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعطی اللہ ھذا الثواب من فطر صائماً علیٰ مذقۃ لبن ار ثمرۃ او شربۃ من مائٍ ومن اشبع صائماً سقاہ اللہ من حوضی شربۃ لا یظمأُ حتیٰ ید خل الجنۃ وھو عن مملوکہ فیہ غفر اللہ لہ واعتقہ من النار۔ 
ترجمہ:حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن ہمارے سامنے (جمہ کا یا بطور تذکیرو نصیحت ) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! یہ عظمت مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہو رہا ہے  ( یعنی ماہ رمضان آیا ہی چاہتا ہے یہ بڑا ہی با برکت اور مقدس مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں وہ رات ( لیلۃ القدر ) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میںقیام (عبادت خداوندی کے لئے جاگنا ) نفل قرار دیا ہے جو شخص اس ماہ مبارک میںنیکی یعنی نفل کے طریقے اور عمل کے ذریعے بارگاہ حق میں تقرب کا طلبگار ہوتا ہے تو وہ اس شخص کی مانند ہو تا ہے جس نے رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میںفرض ادا کیا ہو (یعنی رمضان میں نفل اعمال کا ثواب رمضان کے علاوہ دوسرے دنوں میں فرض اعمال کے ثواب کے برابر ہو تا ہے ) جس شخص نے ماہ رمنضان میں (مالی یا بدنی ) فرض ادا کیا تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جس رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں ستر فرض ادا کیے ہوں (یعنی رمضان میںکسی ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب دوسرے دنوں میںستر فرض کی ادائیگی کے ثواب کے برابر ہو تا ہے ) اور ماہ رمضان صبر کا مہینہ ہے ( کہ روزہ دار کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے رکا رہتا ہے ) وہ صبر جس کا ثواب جنت ہے ماہ رمضان غم و خواری کا مہینہ ہے (لہذا اس ماہ میںمحتاج و فقراد کی خیر گیری کرنی چاہیے ) اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں(دولت مند اور مفلس ہر طرح کے ) مومن کا (ظاہری اور معنوی ) رزق زیادہ کیا جاتا ہے ۔جو شخص رمضان میںکسی روزہ دار کو (اپنی حلال کمائی سے ) افطار کرائے گا تو اس کا یہ عمل اس کی گناہوں کی بخشش و مغفرت کا ذریعہ اور دوخ کی آگ سے اس کی حفاظت کا سبب ہو گا اور اس کو روزہ دار کے ثواب کی مانند کا ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو ۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میںسب تو ایسے نہیں ہیں جو روزہ دار کی افطاری کے بقدر انتظام کرنے کی قدر رکھتے ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی عنایت فرماتا ہے جو کسی روزہ دار کو ایک گھونٹ لسی یا کھجور اور گھونٹ پانی ہی کے ذریعے افطار کرادے اور جو شخص کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا تو اللہ تعالیٰ اسے میرے حوض کوثر سے اس طرح سیراب کرے گا کہ وہ (اس کے بعد پیاسا نہیںہو گا یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے اور ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے درمیانی حصہ میں بخشش ہے ( یعنی وہ مغفرت کا زمانہ ہے ) اور اس کے آخری حصہ میں دوزخ کی آگ سے نجات ہے ( مگر تینوں چیزیں مومنین کے لئے مخصوص ہیں کافروںکا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ) اور جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام لونڈی کا بوجھ ہلکا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بخشش دے گا اور اسے آگ سے نجات دے گا ۔

رحمت ،مغفرت اور جہنم سے خلاصی

رمضان المبارک کے تین حصے ہیں اول ( یعنی پہلا عشرہ ) رحمت ہے اور یہ رحمت عام سب مسلمانوں کے لئے ہے فکر والوں کے لئے مزید اضافہ ہو تا ہے دوسرا حصہ (یعنی دوسرہ عشرہ ۱۱ سے ۲۰ تک ) اس میں مغفرت شروع ہو جاتی ہے اس لئے روزوں کا کچھ حصہ گزر چکا ہے اس کا معاوضہ اکرام مغفرت کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے
 (آخری یعنی عشرہ ۲۰ سے ۳۰ تک ) آگ سے خلاصی ہے ۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا ؒ فرماتے ہیں بندہ نا چیز کے خیال میں تین حصے رحمت ، مغفرت ، جھنم سے خلاصی کے درمیان فرق یہ ہے کہ آدمی تین طرح کے ہیں ۔ 
(۱) ایک وہ لوگ جن پر گناہوں کا بوجھ نہیں ان پر شروع ہی سے انعام کی بارشیں شروع ہو جاتی ہیں (۲) دووسرے وہ لوگ جو معمولی گنہگار ہیں ان کے لئے کچھ حصہ روزہ رکھنے کے بعد ان روزوں کی برکت اور بدلہ میں مغفرت اور گناہوں سے معافی ہو تی ہے (۳) تیسرے وہ لوگ جو زیادہ گنہگار ہیں ان کے لئے زیادہ حصہ روزہ رکھنے کے بعد آگ سے خلاصی ہوتی ہے ۔(از فضائل اعمال ) ہر آدمی ایسا محاسبہ کر سکتا ہے کہ میں کئی لوگوں میںہوں یا یہ کہ اپنے گناہوں اور بد بختی کی وجہ سے ان میں میرا شمار ہے یا بنیں نہیں اگر نبی تو پھر رحمت ، مغفرت جھنم سے خلاصی کے اعلان کے بعد بھی اللہ کی رحمت سے دوری کیوں ؟ 

اِدھررمضان المبارک شروع اوراُدھر شیاطین قیدمیں

رمضان المبارک کی خصوصیت ہے کہ اس ماہ میں ہمیں مساجد میں کافی مقدارمیں لوگوں کاہجوم ملتاہے،تلاوت کلام پاک کی کثرت دیکھی جاتی ہے ،نیکی کی طرف رغبت بڑھتی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ رزق کی وسعت اپنی جگہ مشاہدہ میںآتی ہے ۔خیرسگالی کے جذبات اپنی جگہ موجزن ہوتے ہیں آخریہ ماجرا کیاہے کہ غیررمضان میں وہ سب نہیںدیکھاجاتاجورمضان المبارک کے مہینے میںدیکھاجاتاہے۔اس حقیقت کوواضح کرنے والی ایک حدیث مبارکہ ہے جس میںنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کان اوّل لیلۃ من شھر رمضان صُفِِدَتِ الشیاطین وَمرَرَہُ الجِنّ وغُلّقت ابوابُ النار فَلم یُفتَح مِنھا بابٌ وَفُتِحَت اَبوَابُ الجَنَّہ فَلم یُغلَق مِنھَا بَابٌ ویناوی مُنا دِیاً داغِیَ الخَیرَ اَقبَل  ویَا بَا غِیَ الشَرّ اَقصِر ء للہ عُنَقَاء مِن النار وَذٰلِک کل لَیلہ رواہ التر مذی وابن ماجہ ورواہ احمد ۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سر کش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جا تے ہیں پھر اس کا دروازہ کھلا نہیںرہتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر اس کاکوئی دروازہ بند نہیں ہوتا اور اعلان کرنے والا (رشتہ ) یہ اعلان کرتا ہے اے بھلائی (یعنی نیکی و ثواب ) کے طلبگار ( اللہ کی طرف ) متوجہ ہو جا اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے برائی سے باز آجا کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوںکو آگ سے آزاد کر تا ہے( یعنی اللہ رب العزت اس ماہ مبارک کے وسیلے میں بہت سے لوگوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کر تا ہے اس لئے ہو سکتا ہے آپ بھی ان لوگوںمیں شامل ہو جائے ) اور یہ اعلان ( رمضان کی ) ہر رات میںہو تا ہے ۔ (ترمذی، ابن ماجہ ،احمد ) 
رمضان المبارک میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ روزہ داروں کو نہ بہکائیں نہ ان کے دلوں میں وسوسے ڈالے اور نہ گندے خیالات کا بیج بوئیں چنانچہ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے اکثر سر کشی میںفرق رہنے والے گناہوں اور برائیوں کے مریض اس میں بچنے لگتے ہیں اللہ کی طرف متوجہ اور نماز شروع کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان پربرستی ہے ۔  
ا  ،  اور بعض جو فاسقوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنے فسق اور گناہوں کے دلدل سے باہر نہیں آتے بلکہ ایک گناہ چھوڑتے ہیں تو دوسرے گناہ میں گرتے ہیں یہ وہ خبیث اثرات ان گناہوں کے ہوتے ہیں جو رمضان سے ہے ان شیطانی فسقوں میںراسخ ہو چکے ہو تے ہیں ان کا نفس ان گناہوں کے عادی ہو تا شیاطین کے جکڑے ہونے کے باوجود گناہوں میںڈوبے رہتے ہیں رمضان المبارک کے رحمتوں ،مغفرتوں والے مہینے میںبھی گناہ سے نہیں بچتے مغفرت والے مہینے میں بخشش نہ کر وا سکے تو پھر اور گونسی گھڑی آئیگی اے خیر کے طالب آگے بڑھ اے خیر کے طلبگار ۔ اے بھلائی چاہنے والے خدا کی بندگی اس کی رضا ، وخوشنودی کے کاموں میں اور زیادہ مشغول ہو گا کیونکہ یہ مہینہ ایسا ہے کہ اگر تھوڑا بھی نیک عمل کیا جائے تو اس کا ثواب بہت زیادہ ہے معمولی درجہ کی نیکی بھی سعادت و نیک بختی کے اونچے درجے پرپہنچادے گی اس لئے آگے بڑھ ۔ 
اے برائی کے طالب رک جا اے برائی کے طالب گناہ و معصیت میںسکون و لذت محسوس کرنے والے یاد رکھ رمضان میں گناہ کا عذاب بھی دوگناہ ہے رب کی پکڑ بھی سخت ہے اس لئے بس کر ۔۔ بس کر ۔ شیطانی راہ چھوڑ کر رحمانی راہ پر آجا آج اپنے گناہوں پر توبہ کے دوبول کہہ کر سچی توبہ کر لے کہی ایسا نہ ہو توبہ سے پہلے دھڑکتا دل ۔۔۔۔دیکھتی آنکھیں ۔۔۔۔بولنے والی زبان ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے اور قیامت کے دن سب اعضاء بول پڑے جب آپ تو خاموش ہو ۔ 

روزہ دارکے لئے خصوصی انعامات

وروی عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أعطیت أمتیٰ خمس ذمال فی رمضان لم تعطھن امۃ قبلھم خلوف قم ارصائم المیب عنداللہ من رئج المسک ،وتستغفر لھم الحیتان حی یفطرو ۔ ویزین اللہ عزوجل کل یوم جنۃ ثم یقول یو شک عبادی الصالحون ان یلقو عنھم المئونہ ویصیرو ا الیک   ونصفد فیہ مردۃ الشیاطین فلا یخلصو فیہ الیٰ ماکا نو یخلصون الیہ فی غیرہ ویغفرلھم فی آخر لیلۃ قبل یا رسول اللہ! اھی لیلۃ القدر ؟ قال : لا و لکن العامل انما یو فی اجرہ اذا قضی عملہ رواہ احمد ۔ 
ترجمہ: حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے کہ میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں (۱)  ان کے منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیاہ پسنددیدہ ہے ۔(۲)  ان کے لئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں ۔  (۳)  جنت پر روز ان (روزہ داروں) کے لئے آ راستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے بندے (دنیا کی) مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر تیری طرف آئیں ۔  (۴)  اس میںسر کش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں کہ وہ رمضان ا؛مبارک میںان برائیوں کی طرف نہیںپہنچ سکتے جن کی طرف نمبر رمضان میںپہنچ سکتے ہیں ۔ (۵)  رمضان کی آخری رات میںروزہ داروں کے لئے مغفرت کی جا تی ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا ہے یا رسو ل اللہ ! یہ شب قدر شب مغفرت ہے ؟ فرمایا نہیں ،بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دی جاتی ہے ۔ 

روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عزوجل کے نزدیک مشک سے زیادہ پسنددیدہ

روزہ دار کی منہ کی بو جو بھوک کی حالت میں ہو تی ہے حق تعالیٰ مشانہ کو مشک سے زیادہ پسنددیدہ ہے آخرت میں اس بو کا بدلہ عمدہ خوشبو سے عطا کرینگے ۔ یا جب قبروں سے اٹھے گے تو ان روزہ داروں کے منہ سے مشک سے زیادہ خوشبو آتی ہو گی ۔ جس کو کسی سے محبت تعلق ہو تا ہے اس کی بو پر بھی فریفتہ کے لئے ہزار خوشبوں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے روزہ حق تعالیٰ شانہ کی محبوب ترین عبادت ہے پھر کیوں پسندیدہ نہ ہو ۔ 
حدیث  (۴)عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام ، فانہ لیی و اذا أجزی بہ رواہ البخاری   ترجمہ : حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ آدمی کا ہر عمل اسی کا ہے سوائے روزے کے وہ میرے لئے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا ،(بخاری) 

روزہ کا بدلہ میں خود دوں گا    

روزہ کا ثواب بے انتہا ء اور لا محدود ہے جس کی مقدار اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی نہیں جا نتا رب کریم فرماتے ہیں اتنا دوں گا کہ مخلوق اندازہ نہیں کر سکتی ایک حدیث میںبھی صراحت ہے فرمایا الصیام للہ عزوجل لا یعلم ’ ثواب عاملہ الا للہ عزوجل ۔ الترغیب والترھیب روزہ دوسرے لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا بخلاف دوسری عبادت جیسے نماز،حج، زکوۃ ،صدقہ وغیرہ لوگوںکی نگاہوں کے سامنے ہوتی ہے جب کہ روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس میں ریا ، نمائش ، دکھلاوے کا کوئی دفل نہیں اس لئے رب تعالیٰ نے فرمایا فانہ لی وانا اجزی بہ جب اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا تو اپنی شان کے مطابق دے گا 

روزہ داروں کا فرشتوں کی مجلس میں ذکر

حدیث (۵) عن عبادۃ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یوماً وحضر رمضان ۔ اتاکم رمضان شھرٌ برکۃ یغشاکم اللہ فیہ فینزل الرحمہ ، ورحط الخطایا ،  ویستجیب فیہ فأرو اللہ من انفسکم خیراً فّان الشقی من حرم فیہ رحمہ اللہ عزوجل ۔ رواہ الطبرانی
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ قریب آچکا تھا ،اس وقت ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، رمضان المبارک آگیا ہے جو برکت کا مہینہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسا دامن شفقت پھیلا دیتا ہے چنانچہ وہ اس میں وہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور گناہوں کو ختم فرما دیتا ہے اور دعائیں قبول فرماتا ہے اس میںاللہ تعالیٰ تمہارے تنافس و مکابلہ (اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے جذبے) کو دیکھنا چاہتا ہے اور فرشتوں کے سامنے تمہارا ذکر کر کے فخر کر تا ہے اس لئے تم اللہ تعالیٰ کو اپنی طرف سے زیادہ نیکیاں کر کے دکھاؤ ء اس لئے سب سے بڑا بد نصیب وہی ہے جو اس مہینے میں بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے ۔ طبرانی 
حدیث (۶) عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کان اوّل لیلۃ من رمضان فتحت ابواب السماء فلا یغلق منھا باب حت یکون آخر لیلۃ من رمضان ولیس عبدٌ مومن یصلی فی لیلۃ فیھا اذا کتب اللہ لہ ألفاً و خمسمائہ حسنہ بکل مجدۃ وبنی لہ بیتا فی الجنہ من یا قوتہ حمراء لھا یستون ألف باب بکل باب منھا قصر من ذھب مو شح بیا قوتہ حمرا ء فاذا صام اوّل یوم من رمضان غفولہ ما تقدم من ذنبہ الیٰ شل ذلک الیوم من شھر رمضان ۔ واستغفرلہ کل یوم سبعون الف ملک من صلاۃ  الغداۃ الیٰ ان تواری با لحجاب ، وکان لہ بکل سجدۃ یسجد ھا فی شھر رمضان بلیل او نھار شجرۃ یسیر الہرا کب فی ظلّھا خمسما ئہ عام  :  رواہ البیقھی 
ترجمہ: 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب رمضان کی پہلی رات ہو گئی ہے کہ آسمان کے سارے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ایک بھی بند نہیں رکھا جاتا اور آسمان کے سارے دروازوں کا کھلا رہنا رمضان کی اخیر رات تک ہوتا ہے اور کوئی مسلمان بندہ رمضان کی کسی رات میںنماز نہیں پڑھتا مگر اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر سجدہ کے بدلے میں پندرہ سو نیکیاںلکھتے ہیں اور ایک سرخ یا قوت کا جنت میں محل بناتے ہیں جس محل کے ساتھ ہزار (۶۰۰۰۰) دروازے ہوتے ہیں ان میں سے ہر دروازہ پر سونے کا ایک محل ہو تا ہے جو سرخ یا قوت سے جڑا ہو تا ہے جب مسلمان بندہ رمضان کے پہلے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں اگلے رمضان کے اس دن تک اور ہر دروازہ اس کے لئے فجر کی نماز سے لیکر دن چھپنے تک ستر ہزار فرشتے مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور اس کے لئے رمضان کے مہینے میں ہر سجدہ جو وہ کرتا ہے ، رات میں یا دن میں ، ایک درخت الگ ہو جاتا ہے جس کے سائے میں پانچ سو سال تک سوار چلے (بسیقی)
حدیث(۷)عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من صام لیلۃ القدر ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ومن صام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (رواہ البخاری وسلم وابوداؤد والسانی ،ابن ماجہ )  
ترجمہ : حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لئے ) کھڑا ہو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں اور جو شخص رمضان المبارک کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں  ۔ (بخاری مسلم ، ابوداؤد، نسائی ،ابن ماجہ )۔ 

روزہ چھوڑنے پر وعیدیں 

شرعی احکامات عمومی طور پر ایسے ہیں کہ انھیں ترک کردینا،ان پرعمل پیرا نہ ہونایہ سب حدوداللہ سے تجاوزکے زمرے میںآتاہے ۔اوراللہ کی حدبندی کوپارکرنے کی صورت میںانسان اللہ کامجرم بنتاہے اورپھرمجرمین کے ساتھ جو معاملہ اس کائنات میںدنیاوالے کرتے ہیںوہ توکسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ہرملک ہرقوم میںطرح طرح کی پابندیاںہوتی ہیں،طرح طرح قاعدے ضابطے ہوتے ہیں،جسے رول اینڈریگولیشن کے نام سے جاناجاتاہے اورجوکوئی بھی ان قواعدوضوابط کی خلاف ورزی کرتاہے تووہ تادیب وسرزنش کامستحق ٹھہرتاہے کسی کوکوئی استثنانہیںملتابلکہ جرم کی پاداش میںسزابھگتنی پڑتی ہے اورلوگ بھگتے ہیںیہ کوئی نئی بات نہیں،یہ سب برسہابرس سے ہوتاچلاآرہاہے۔اب آجائیے اللہ تعالیٰ کی حدوداورپابندیوںکی طرف ،یہ اس ذات کی رول اینڈریگولیشن پالیسی ہے،جوخالق کائنات ہے،بادشاہوںکابادشاہ ہے،جس حکم کے بغیرایک پتہ بھی زمین پرنہیںگرسکتا۔جس کے حکم کے بغیردنیاکی کوئی چیزبھی نفع نقصان نہیںدے سکتی اورپھرسب سے بڑھ کریہ کہ اللہ ہی نے حضرت انسان کو وجودہی اس خاطربخشاکہ یہ میری ذات کی پہچان حاصل کرکے میری اطاعت و فرمانبرداری کرتے میرے احکامات کی بجاآوری کرے گااورمیری منہیات(ممنوع کردہ)چیزوںسے دور رہے گااورمیری بندگی بجالائے گاجس سے اس کے مرتبے اورمقام میںبھی اضافہ ہوگااورحضرت انسان کوپیداکرنے کامقصدبھی حاصل ہوگاوماخلقت الجن والانس الا لیعبدون۔
لیکن اس عالم رنگ وبومیںیکسرالٹی گنگابہہ رہی ہے ہونایہ چاہیے تھاکہ خدا کی معرفت رکھنے والےخوش نصیب بکثرت پائے جاتے اوربدقسمت کے منکرونافرمان کم پائے جاتے لیکن خداکی معرفت کی روشنی حاصل کرنے والے کم ہیںاورنافرمانی کرنے والے بکثرت پائے جاتے ہیں۔
خیرہم رمضان المبارک کے حوالے سے تذکرہ کررہے تھے کہ جہاںاس ماہ میںنیکی اوررحمت کی بہارہوتی ہے ۔اسی طرح اس ماہ مبارک میںنافرمانی اورناسپاسی کاجرم بھی معمولی درجہ میںنہیںرکھاگیااس گراف بھی ایساہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میںتویہاںتک واردہے کہّّ جس نے رمضان المبارک کاایک روزہ چھوڑاساری عمرکے روزے اس کی تلافی نہیںکرسکتےٗٗیہ توصرف روزہ کے متعلق ارشادہے اوردیگرقسم کی منہیات کےارتکاب  کااندازہ کیجئے کہ کس قدرسختی کامعاملہ کیاجائے گا؟
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : من افطر یوما من رمضان من غیر رخصۃ والا مرض لم یقضہ صوم الدھر کلّہ وان مامہ رواہ الترمدی وابوداؤد والنسانی ، ابن ماجہ 
ترجمہ: حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص قصداً بلا کسی شرعی عذر بیماری وغیرہ کے ایک دن بھی رمضان کے روزے کو افطار کر دے غیر رمضان کا روزہ چاہے تمام عمرکے روزے رکھے اس کا بدلہ نہیں ہو سکتا ۔ (ترمذی ابوداؤد ، نسائی ،ابن ماجہ ) 
فائدہ: شریعت نے روزہ نہ رکھنے کی اجازت سفر یا کسی عذر وغیرہ کے لئے دمی ہے بغیر کسی عذر کہ غفلت کی بنا ، پر روزہ نہ رکھنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جہاں تک فرماتے ہیں کہ قضاء ہی نہ ہو گی جبکہ جمہور فقاء فرماتے قضاء تو ہوتی ہے بعد کے روزوں میں کہا ں اور جومیر ے سے رکھتے ہی نہیں جیسا اس زمانہ کے فساق کی حالت ہے تو ان کی گمراہی کا کیا پوچھنا (ازفضائل رمضان) 
حدیث (۲) عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال : قال رسول حماد بن زید والا اعلمہ الاقد رفعہ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : عری الاسلام وقواعد الدین ئلاثہ علیھن اسس الاسلام من یرک وائدۃ منھن فھوبھا کافر حلال الدم شھادۃ ان لا الہ الاللہ ، والصلوۃ المکریہ وصوم رمضان (الترغیب والترھیب )
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اسلام کی بنیاد تین چیزوں پر ہے کلمہ شہادت ، نماز  روزہ جو شخص ان میں سے ایک بھی چھوڑدے وہ کافر ہے ان کا خون کر دینا حلال ہے (الترغیب  والترھیب ) 
فائدہ علما ء نے ان جیسی روایات کو انکار کے ساتھ مقیہ کیا ہے یا اس کی تاویل فرمائی ہے مگر اس سے انکار نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ایسے لوگوںکے بارے میں سخت سے سخت وارد ہوئے ہیں ۔ اور ہم دین کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا مذاق بھی کفر کا سبب ہو تا ہے میں سے تمام عمرکے نیک اعمال مثلاً نماز ، روزہ ، زکوۃ ، صدقہ ،خیرات سب ضائع ہو جاتے ہیں اس لئے دین کے کسی پہلو کا مذاق مت کریں ایسے ہی روزہ کے متعلق بھی کوئی ایسا لفظ منہ سے نہ نکالے اکثر دیکھا گیا ہے وہ لوگ جو خود روزہ نہیں رکھتے وہ دوستوںکی محفل میںایسی ایسی باتیں مذاق میں روزہ کے بارے میں کہہ جاتے ہیں جس کے بعد داہرہ اسلام میں دینے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں رہتی اس لئے ایسے مذاق وغیرہ نہ کریں البتہ بغیر عذرا فطار کرنے والا فاسق ہے فقہا ء نے تو یہاں تک تصریح کی ہے جو شخص رمضان میں علی الاعلان بغیر عذر کے کھاوے اس کو قتل کیا جائے لیکن قتل پر اگر اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے قدرت نہ ہو تو یہ کام امیر المومنین کا ہے کہ اس کی اس پاک حسرت پر اظہار نفرت اور اس سے کم تو ایمان کا درجہ ہے کہ اس کو دل سے برا سمجھے ۔  
(اختصار فضائل رمضان)  وَقِیَامِھِم رِضَا یَ وَمَغفِرَلّیِ، وَیَقُولُ: یَا عِبَادِی! سَلُونِی فَوَعِزَّتِی وَجَلَا لِی لَا تَسأَلُونِیَ الیَومَ شَیئًا فِی جَمعِکُم لِآ خِرَتِکُم الَّا أَعطَیتُکُم وَلَا لِدُنیَا کُم الَّا نَظَرتُ لَکُم ، فَوَعِزَّ تِی لَاَستُرَنَّ عَلَیکُم عَشَرَاتِکُم مَا رَاقَبتُمُونِی وَعِزَّتِی وَجَلَالِی لَا أُخزِیکُم وَلَا أَ فضَحُکُم بَینَ أَ صحَابِ الحُدُودِ ، وَانصَرِفُوا مَغفُوراً لَکُم قَد
 أَ رضَیتُمُونِی، وَرَضِیتُ عَنکُم فَتَفرَحُ المَلَا ئِکَۃُ وَتَستَبشِرُ بِمَا یُعطِی اللہُ عَزَّوَجَلَّ ھٰذِہِ الامَّۃَ اِذَا أَفطَرُو مِن شَھرِ رَمَضَانَ۔{ رواہ الشیخ ابن حبان فی کتاب الثواب، والبیھقی، واللفط لہ، ولیس فی اسنادہ من اجمع علی ضعفہ} حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جنت کو رمضان شریف کے لئے دھونی دیجاتی ہے اور شروع سال سے آخر سال تک رمضان کے خاطر آراستہ کیا جاتا ہے ، جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو عرش کے نیچے سے ایک ہوا چلتی ہے جس کا نام مَثِیرَہ ہے ۔ ( اس کے جھونکوں کی وجہ سے ) جنت کے درختوں کے پتے اور کواڑوں کے حلقے بجنے لگتے ہیں جس سے ایسی دلآ ویز سریلی آواز نکلتی ہے کہ سننے والوں نے اس سے اچھی آواز کبھی نہیں سنی ، پس خوشنما آنکھوں والی حوریں اپنے مکانوں سے نکل کر جنت کے بالا خانوں کے درمیان کھڑے ہو کر آواز دیتی ہیں کہ کوئی ہے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہم سے منگنی کرنے الا تاکہ حق تعالیٰ شانہ اس کو ہم سے جوڑ دیں ؟ پھر وہی حوریں جنت کے دار وغہ رضوان سے پوچھتی ہیں کہ یہ کیسی رات ہے وہ لبیک کہہ کر جواب دیتے ہیں کہ رمضان المبارک کی پہلی رات ہے ، جنت کے دروازے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی امت کیلئے کھول دیے گئے نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رضوان سے فرمادیتے کہ جنت کہ دروازے کھول دے ، اور مالک (جہنم کے داروغہ ) سے فر ما دیتے ہیں حمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی امت کے روزہ داروں پر جہنم کے دروازے بند کر دے ۔اور جبریل علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ زمین پر جاؤ اور سرکش شیاطین کو قید کرو اور گلے میں طو ق ڈال کر دریا میں پھینک دو کہ میرے محبوب محمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی امت کو روزوں کو خراب نہ کریں ۔ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان کی ہر رات میں ایک منادی کو حکم فرماتے ہیں کہ تین مرتبہ یہ آواز دے کہ ہے کوئی مانگنے والا جس کو میں عطا کروں ؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اس کی توبہ قبول کروں ؟ کوئی ہے مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں ؟ کون ہے جو غنی کو قرض دے ایسا غنی جو نادار نہیں ؟ایسا پورا پورا ادا کرنے والا جو ذرا بھی کمی نہیں کرتا نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہو چکے تھے ، اور جب رمضان کا آخری دن ہو تا ہے تو یکم رمضان سے آج تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے تھے ان کے برابر اس ایک دن میں آزاد فرماتے ہیں اور جس رات شب قدر ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم فرماتے ہیں وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں ان کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام کے سو (۱۰۰) بازو ہیں جن میں سے دو بازوؤں کو صرف ایسی رات میں کھولتے ہیں جن کو مغرب سے مشرق تک پھیلا دیتے ہیں پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام فرتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ جو مسلمان آج کی رات میں کھڑا ہو یا بیٹھا ہو نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواس کو سلام کریں اور مصافحہ کریں اور ان کی دعاؤں پر آمین کہیں ،صبح تک یہی حالت رہتی ہے جب صبح ہو جاتی ہے تو جبرئیل السلام آواز دیتے ہیں کہ اے فرشتوںکی جماعت ! اب کوچ کرو اور چلو ، فرشتے حضرت جبرئیل سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے احمد صلی اﷲعلیہ وسلم کی امت کے مؤمنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں کا کیا معاملہ فرمایا ؟ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرمادیا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پاچھا کہ (یا  الحسنات۔ رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ والبیھقی من طریقہ ، ابو الشیخ فی الثواب )  حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ایک دن جب رمضان کا چاند نظر آیا ارشاد فرمایا : اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کی فضیلت کیا ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ تمام سال رمضان ہی ہوتا ، بنو خزاعہ کے ایک شخص نے کہا اے اللہ کے نبی !ہمیں (رمضان شریف کی فضیلت ) بتلائیے ، آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بلا شبہ جنت رمضان کے لئے سال کے شروع سے سال کے آخر تک مزین کی جاتی ہے ،جب رمضان المبارک کاپہلا دن ہوتا ہے تو عرش کے نیچے سے ہوا چلتی ہے جس کی وجہ سے جنت کے درختوں کے پتے بجنے لگتے ہیں حور عین ان منظر کو دیکھ کر کہتی ہیں اے ہمارے رب ! اپنے بندوں میں سے اس مہینہ میں ہمارے لئے ایسے شوہر بنا کہہماری آنکھیں ان کی وجہ سے ٹھنڈی ہو ں اور ان کیآنکھیں ہماری وجہ سے ٹھنڈی ہوں جو کوئی رمضان المبارک میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اس کی شادی ایک حور سے موتی کے ایک خیمے میں کردی جاتی ہے ،جن کی صفت اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی ہے ۔ حُورٌ مَقصُورَاتُ فِی الخِیَامِ (ایسی حوریں جو خیموں میں چھپی ہوئی ہیں ) ان میں سے ہر عورت پر ستر قسم کے جوڑے ہو گے جن میں سے ہر ایک کا رنگ دوسرے سے مختلف ہو گا ۔اور ستر قسم کے رنگوں کی خوشبوئیں ان میں ہر ایک کو دی جائیں گی ،ہر ایک رنگ کی خوشبو الگ ہو گی ان میں سے ہر عورت کو ستر ہزار عورتیں (خادمائیں ) اور ستر ہزار خادم خدمت کے لئے دئیے جائیں گے ، ہر خادم کے ساتھ سونے کا ایک طشت ہو گا ، اس میں ایک رنگ کے کھانے کے ایک لقمہ میں جو مردہ ہوگا وہ دوسرے لقمہ سے مختلف ہو گا اور ہر عورت کے لئے ستر مسہریاں سرخ یا قوت کی ہو ںگی ،ہر مسہری پر ستر قسم کے بستر ہوں گے جن کے استر تافتہ کے ہوں گے ،ہر بستر کے اوپر ستر تخت ہوں گے اور اس کے شوہر کو بھی اس قسم کی نعمتیں دی جائیں گی سرخ یا قوت کی مسہری جو موتیوں سے مزین ہو گی جس پر سونے کے جو کنگن ہوں گے یہ سب انعامات رمضان کے ہر دن کے صرف روزہ پر ملے گا وہ اس کے علاوہ ہو گا (صحیح ابن خزمہ بمسقی ،ابو الشیخ ابن حبان )

معارف ومسائل

روزے کے لیے نیت کا حکم

شریعت کے کسی بھی عمل کوبجالانا اس کے لئے نیت سب سے اہم پہلو ہے لہٰذا چونکہ رمضان المبارک کے روزے بھی منجملہ اعمال کے ہیں تو ان میں بھی نیت ضروری ہی نہیںبلکہ روزے کے لیے نیت فرض ہے،بغیر نیت کے روزہ نہیں ہوتا۔ (رد المحتار، مراقی الفلاح) نیت کی حقیقت:نیت دل کے ارادے اور عزم کا نام ہے کہ دل میں یہ نیت ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے روزہ رکھتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نیت کا تعلق دل ہی کے ساتھ ہے اور حقیقی نیت دل ہی کی ہوا کرتی ہے، اس لیے دل میں نیت کرلی تو یہ بھی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بھی درست ہے لیکن ضروری نہیں۔ اگر کوئی شخص دل ہی میں نیت کرلیتا ہے اور زبان سے نیت کے الفاظ ادا نہیں کرتا تو یہ بالکل جائز ہے۔(رد المحتار، ماہِ رمضان کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان، فتاویٰ رحیمیہ) عربی زبان میں نیت کرنے کا حکم:نیت کے الفاظ ہر شخص اپنی اپنی زبان میں بھی ادا کرسکتا ہے، اسی طرح نیت عربی میں کرنا بھی درست ہے لیکن ضروری نہیں۔ عوام میں مشہور عربی نیت کا حکم:آج کل عوام میں نیت کے یہ الفاظ مشہور ہیں:”وَبِصَوْمِ غَدٍ نَّوَیْتُ مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ“، حتی کہ بعض لوگ تو اس کو سحری کی دعا سمجھتے ہیں بلکہ کیلینڈر اور دیگر چیزوں کے ذریعےاس کی اشاعت کا اہتمام بھی کرتے ہیں، یاد رہے کہ یہ سحری کی دعاتوہرگزنہیں، البتہ ان الفاظ کے ساتھ نیت کرنا درست تو ہے لیکن یہ الفاظ قرآن وسنت سے ثابت نہیں، اس لیے ان الفاظ کو سنت یا ضروری نہ سمجھا جائے۔ اسی طرح اس کی اشاعت کا اس قدر اہتمام بھی ایک بے بنیاد بات ہے، اس سے بڑی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں، لوگ صحیح مسئلے سے ناواقف رہتے ہیں۔(ماہِ رمضان کے فضائل واحکام)🌺 نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟نصف النہار شرعی: ”نصف النہار“ کا معنٰی ہے: آدھا دن۔ صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک پورے دن کا جتنا بھی وقت ہے اس کے آدھے وقت کو ”نصف النہار شرعی“ کہتے ہیں، یعنی شریعت کی نگاہ میں آدھا دن یہیں تک ہوتا ہے۔(رد المحتار، ماہِ رمضان کے فضائل و احکام، المراقی)رمضان کے روزے کی نیت رات سے بھی درست ہےاور سحری کے وقت یعنی صبح صادق سے پہلے بھی درست ہے، البتہ جس شخص نے سحری کے وقت بھی نیت نہیں کی یہاں تک کہ صبح صادق کا وقت داخل ہوگیا تو وہ ’’نصف النہار شرعی ‘‘ سے پہلے پہلے روزے کی  نیت کرسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ صبح صادق طلوع ہونے کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو۔ اسی طرح وہ حضرات جو سحری سے رہ جاتے ہوں اور صبح صادق کے بعد ہی بیدار ہوجاتے ہوں تو ان کے لیے بھی اتنی سہولت ہے کہ وہ ’’نصف النہار شرعی ‘‘ سے پہلے پہلے نیت کرکے روزہ رکھ لیا کریں اس شرط کے ساتھ  کہ صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو۔(رد المحتار علی الدر المختار، فتاویٰ رحیمیہ، مراقی الفلاح مع نور الایضاح، بہشتی زیور)🔅 جس شخص نے’’ نصف النہار شرعی‘‘ تک بھی نیت نہیں کی تو اس کے بعد اس کی نیت کا کوئی اعتبار نہیں، اب اس کے ذمے اس روزے کی قضا رکھنا ضروری ہے، اور ایسا شخص اس دن دیگر روزہ داروں کی طرح افطار تک کچھ کھائے پیے گا بھی نہیں۔(ماہِ رمضان کے فضائل و احکام)🌺 مثال: رمضان 2019 میں  کراچی پاکستان کے لیے’’نصف النہار شرعی‘‘ کا وقت:     اس سال (یعنی 2019ء/ 1440ھ کے) رمضان المبارک میں کراچی کے لیے ”نصف النہار شرعی“ کا وقت تقریبا پونے بارہ (11:45) بجے تک ہے، یعنی اس سے پہلے پہلے نیت کرسکتے ہیں۔(یاد رہے کہ زوال کو ’’نصف النہارعرفی‘‘ کہتے ہیں، رمضان کے روزے کی نیت میں اس کا اعتبار نہیں بلکہ نصف النہار شرعی کا اعتبارہے۔) نفلی، قضا اور کفارے کے روزوں کی نیت کب تک کی جاسکتی ہے؟یہی حکم نفلی روزوں کا بھی ہے کہ اگر صبح صادق کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو تو نصف النہار شرعی سے پہلے تک ان کی نیت درست ہے، البتہ قضا اور کفارے کے روزوں کی نیت صبح صادق سے پہلے پہلے کرنی ضروری ہے، اگر کسی نے صبح صادق سے پہلے نیت نہیں کی تو صبح صادق کے بعد ان روزوں کی نیت معتبر نہیں۔ (بہشتی زیور، رد المحتار)
اسی طرح سحری کھانا سنت اور باعث ِبرکت ہے، حضور اقدس ﷺ نے سحری کرنے کی ترغیب دی ہے، اس لیے سحری کا اہتمام ہونا چاہیے، اس سے روزہ رکھنے میں قوت بھی رہتی ہے، اگر دل نہ بھی چاہے تب بھی کچھ نہ کچھ کھا پی لینا چاہیے، بھلے پانی ہی پی لے تب بھی کافی ہے، لیکن اگر کسی نے نہار منہ ہی روزہ رکھ لیا تب بھی درست ہے۔ (صحیح البخاری حدیث:1923، مسند احمد حدیث: 11086، مراقی الفلاح ، بہشتی زیور)🔅 سحری بند کرنے کا آخری وقت کون سا ہے؟سحری بند کرنے کا آخری وقت کون سا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے لوگ لاعلمی کا شکار ہیں اور اسی لاعلمی کا نتیجہ ہے کہ وہ زندگی بھر غلطی میں مبتلا رہتے ہیں اور ان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس غلطی کی وجہ سے ان کے روزے درست ہی نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص روزے رکھتا رہے لیکن اس کی اپنی ہی غلطیوں کے نتیجے میں اس کے یہ روزے شریعت کی نگاہ میں درست نہ ہوں۔ اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے سے بھی آگاہی حاصل کرے تاکہ وہ غلطی سے محفوظ ہوسکے۔ آیئے قرآن و سنت کی روشنی میں اس اہم مسئلے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ غلط فہمیوں اور شبہات کا ازالہ ہوسکے۔🔅 سحری کا وقت رات ہی ہے:قرآن وسنت کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سحری کا وقت رات ہی کو ہے کہ جب تک رات ہے تو سحری کی جاسکتی ہے، لیکن جیسے ہی رات ختم ہوجائے تو سحری کا وقت بھی ختم ہوجاتا ہے، اور یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ صبح صادق ہوتے ہی رات ختم ہوجاتی ہے اور دن شروع ہوجاتا ہے۔ اس بات کو قرآن وسنت اور دیگر  شرعی دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:1۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں سحری اور افطاری سے متعلق فرماتے ہیں کہ:وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ.(سورۃ البقرۃ  آیت: 187)ترجمہ: اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہوجائے، اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو۔(آسان ترجمہ قرآن)اس آیت میں اللہ تعالٰی نے رات کو سیاہ دھاگے، جبکہ صبح صادق کو سفید دھاگے سے تشبیہ دی ہےاور کھانے پینے کی آخری حد بھی بیان فرمادی ہے کہ اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک صبح صادق طلوع نہ ہوجائے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کھانا پینا رات ہی کو درست ہے، اور جب صبح صادق طلوع ہوجائے تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔ اس آیت سے سحری کا آخری وقت بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ سحری رات ہی کو بند کرنی ضروری ہے،اور اس سے یہ اہم مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ سحری بند کرنے کا تعلق صبح صادق کے ساتھ ہے نہ کہ اذان کے ساتھ، جس کا مطلب یہ ہے کہ اذان بھلے نہ ہوئی ہو لیکن صبح صادق ہوچکی ہو تو اس کے بعد کھانا پینا جائز نہیں۔اس آیت کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ:سحری کھانے کا آخری وقت :حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ: اس آیت میں رات کی تاریکی کو سیاہ خط،  اور صبح کی روشنی کو سفید خط کی مثال سے بتلا کر روزہ شروع  ہونے اور کھانا پینا حرام ہوجانے کا صحیح وقت متعین فرمادیا، اور اس میں اِفراط وتفریط کے اِحتمالات کو ختم کرنے کے لیے ’’حَتّٰى يَتَبَيَّنَ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ نہ تو وہمی مزاج لوگوں کی طرح صبح صادق سے کچھ پہلے ہی کھانے پینے وغیرہ کو حرام سمجھو اور نہ ایسی بےفکری اختیار کرو کہ صبح کی روشنی کا یقین ہوجانے کے باوجود کھاتے پیتے رہو ، بلکہ کھانے پینے اور روزہ کے درمیان حدِّ فاصل صبح صادق کا تیقُّن ہے، اس تیقُّن سے پہلےکھانے پینےکو حرام سمجھنا درست نہیں،  اور تیقُّن کے بعد کھانے پینے میں مشغول رہنا بھی حرام اور روزے کے لیے مُفسِد ہے اگرچہ ایک ہی منٹ کے لیے ہو۔سحری کھانے میں وُسعت اور گنجائش صرف اسی وقت تک ہے جب تک صبح صادق کا یقین نہ ہو۔ بعض صحابہ کرام کے ایسے واقعات کو بعض کہنے والوں نے اس طرح بیان کیا کہ سحری کھاتے ہوئے صبح ہوگئی اور وہ بےپروائی سے کھاتے رہے، یہ اسی پر مبنی تھا کہ صبح کا یقین نہیں ہوا تھا اس لیےکہنے والوں کی جلد بازی سے متاثر نہیں ہوئے۔(معارف القرآن )2۔ خود نبی کریم ﷺ نے  بھی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے یوں فرمایا کہ سیاہ دھاگے سے مراد رات کی تاریکی ہے جبکہ سفید دھاگے سے مراد دن کی روشنی ہے۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) صحيح البخاري:4510: حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَا الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ؟ أَهُمَا الْخَيْطَانِ؟ قَالَ: «إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْقَفَا إِنْ أَبْصَرْتَ الْخَيْطَيْنِ»، ثُمَّ قَالَ: «لَا، بَلْ هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ».صحيح مسلم:2585: عَنْ عَديِّ بْنِ حَاتِمٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: «حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» قَالَ لَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ: عِقَالاً أَبْيَضَ وَعِقَالاً أَسْوَدَ، أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ».3۔ اسی طرح صحیح مسلم  میں ہے کہ سیاہ دھاگے سے مراد رات،  اور سفید دھاگے سے مراد دن ہے۔2587: عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ» قَالَ: فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرَادَ الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الأَسْوَدَ وَالْخَيْطَ الأَبْيَضَ فَلاَ يَزَالُ يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رِئْيُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللهُ بَعْدَ ذَلِكَ «مِنَ الْفَجْرِ» فَعَلِمُوا أَنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ.اس آیت اور احادیث سے یہ بات بخوبی معلوم ہوگئی کہ سحری بند کرنے کا صحیح وقت رات کو ہے نہ کہ دن کو۔4۔  اس آیت کو امت کے جمہور اہلِ علم نے ایک متفقہ اصول قرار دیا ہے، اور یہی جمہور اہلِ علم کا مذہب ہے کہ سحری بند کرنے کا تعلق رات سے ہے نہ کہ دن سے، اور صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، جیسا کہ حضرت علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:وذهب الجمهور إلى امتناع السحور بطلوع الفجر وهو قول الأئمة الأربعة وعامة فقهاء الأمصار. کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ صبح صادق ہوجانے کے بعد سحری کھانا ناجائز ہے، یہی چاروں ائمہ کرام اور دیگر فقہائے عظام  کا مذہب ہے۔(حاشیۃ ابن القیم علی سنن ابی داود)5۔ سورۃ البقرہ کی اسی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ. (سورۃ البقرۃ آیت: 187)ترجمہ: تمھارے لیے روزے کی رات کو اپنی بیویوں کے ساتھ  ہمبستری جائز قرار دی گئی ہے۔اس آیت میں جب اللہ نے روزے کی رات کو بیوی کے ساتھ  ہمبستری کی اجازت دی ہے  توگویا کہ کھانے پینے کی اجازت بھی رات ہی کو ہے، جیسا کہ دن کو ہمبستری کی اجازت نہیں دی اسی طرح کھانے پینے کی اجازت بھی نہیں ہے، اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ رات صبح صادق تک ہی ہوتی ہے، صبح صادق کے بعد تو دن شروع ہوجاتا ہے۔6۔ روزہ درحقیقت صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور روزہ توڑنے والے امور سے بچنے کا نام ہے۔(رد المحتار) اس لیے صبح صادق ہوتے ہی روزہ شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص صبح صادق ہوجانے کے بعد کچھ کھاتا پیتا ہے تو وہ درحقیقت دن ہی کو کھاتا پیتا ہےحالاں کہ دن روزے کے لیے ہے نہ کہ کھانے پینے کے لیے، تو گویا کہ روزے کی حقیقت اور تعریف اس میں نہیں پائی گئی تو یہ روزہ ہوا ہی نہیں۔ 7۔ شیخ الاسلام حضرت اقدس مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:صبح صادق کے بعد اگر ایک منٹ بھی مزید کھا لیا تو روزہ فاسد ہے۔ (فتاویٰ عثمانی)مبین الرحمن فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی 


No comments:

close