Sirat-un-Nabi - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, February 2, 2020

Sirat-un-Nabi



تعلیمات سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم

Related image

اخلاق حمیدہ میں سے ایک ایثار بھی ہے، اور حضور اکرم نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے جس اسوۂ حسنہ اور خلق عظیم کی اتباع کی ہمیں تاکید کی گئی ہے، ایثار کی صفت بھی اس کا ایک اہم جزء ہے، ایثار کیا ہے؟ ایثار دوسروں کی ضرورتوں کو اپنے اوپر ترجیح دینے اور انہیں اپنی ضرورتوں پر فوقیت دینے کا نام ہے خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانا، خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو راحت پہنچانا، اس اعتبار سے یہ جود وسخا اور فیاضی کا اعلیٰ ترین اور سب سے آخری درجہ ہے۔
ایثار بھی دوسری صفات حسنہ کی طرح ایمان کی پہچان اور مومن کا شعار ہے، اس کی حیثیت محض اتنی ہی نہیں، یہ تبلیغ دین کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ جب انسان کسی دوسرے شخص کی مشکل وقت میں مدد کرتا ہے، تو اس کے دل میں یقینا اپنے لئے نرم گوشہ بھی پیدا کرلیتا ہے، پھر جب مدد اور تعاون ایثار کے درجے میںہو، تو اس کا تاثر زیادہ مضبوط اور دیر پا ہوتا ہے، اس معاملے کا یہی ایسا پہلو ہے جو ہمارے لئے دور جدید اور عصر حاضر میں اہم ہے اور ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے، خصوصاً اس کے دعوتی پہلو سے پہلو تہی اور صرف نظر کیا جا رہا ہے حالانکہ ابتدائے اسلام میں فروغ اسلام میں اس صفت نے بھی بہت اہم کردار اداء کیا ہے، ایک مرتبہ ایک شخص کو آنحضـرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوپہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا ریوڑ عنایت فرمایا، وہ اس امر سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا کہ اے لوگو! اسلام لے آؤکیونکہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے فقیر ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے۔ (مسلم، حدیث نمبر۲۳۱۲)
رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے علاوہ ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں، جب آپ نے دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی حاجتوں پر ترجیح دی اور خود بھوکے رہ کر دوسروں کو نواز دیا ان و اقعات کا تعلق زیادہ تر مسلمانوں یعنی صحابہ کرام سے ہے، مگر اس میں کوئی تفریق نہیں تھی، جیسا کہ اوپر بیان ہونے والے واقعے سے اندازہ ہوتا ہے۔
ایک بار ایک صحابی رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے شادی کی، ولیمے کے لئے گھر میں کچھ سامان نہ تھا، رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کو علم ہوا تو فرمایا کہ جاؤ اور عائشہ (رضی اﷲ عنہا) سے آٹا مانگ لاؤ، وہ گئے اور آٹا لے آئے، راوی کا بیان ہے کہ کا شانہ نبوت میں اس روز اس آٹے کے علاوہ شام کو کھانے کو کچھ نہ تھا۔ (احمد۴/۵۸) اور وہ بھی ایک ضرورت مند کو دے دیا گیا تھا، ایسے ہی ایک واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک بار ایک غفاری قبیلے کا شخص آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاں آکر مہمان ہوا، اس رات کا شانہ نبوت میں رات کے کھانے کی جگہ صرف بکری کا دودھ تھا، وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس مہمان کی نذر کردیا اور نبی رحمت کے ہاں اس رات فاقہ رہا، ہمارے لئے مقام تفکر یہ ہے کہ اس سے پہلی شب میں بھی خانہ نبوت میں فاقہ ہی تھا۔ (ایضاً)
ایثار کی ایک اس سے بھی بڑھ کر اعلیٰ قسم ہے کہ انسان اپنے اہل خانہ اور قریبی متعلقین کی جائز ضرورتوں پر عام لوگوں کی ضرورتوں کو ترجیح دے، نبی اول وآخر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں اس کے بھی عمدہ عملی نمونے ملتے ہیں۔ ایک بار حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کسی امر کی درخواست کی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ درخواست رد کردی اور فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں تم کو تو دے دوں اور اہل صفہ کو اس حال میں چھوڑ دوں کہ وہ بھوک سے اپنے پیٹ لپیٹے پھریں۔ (احمد، ۱/۷۹)
ایک بار حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اﷲ عنہ نے آپ سے درخواست کی کہ حالیہ غزوے کے مال غنیمت میں جو لونڈیاں آئی ہیں، ان میں سے ایک دو مل جائیں، باوجود یکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کی صاحبزادی کس حالت اور فاقہ کشی و تنگ دستی کی کس کیفیت سے دو چار ہیں مگر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول نہیں فرمائی اور فرمایا کہ بدر کے یتیم تم سے پہلے درخواست کرچکے ہیں۔ (ابوداؤد)
ایک جانب سیرت طیبہ کے یہ روشن واقعات ہیں اور دوسری جانب ہمارے تاریک اعمال اور ظلمتوں سے بھرے ہوئے طور و طریقے، جہاں ہر برائی بلا دلیل رواج پاسکتی ہے، مگر کسی اچھائی کو بار نہیں مل سکتا، صفت ایثار بھی ہمارے اسی طرز عمل کا شکار ہے۔
 اوپر کی سطور میں جو واقعات ذکر کئے گئے وہ تو بہت زیادہ اعلیٰ درجے کے ہیں، مگر ہم تو عام نوعیت کے معاملات میں بھی دوسروں کا حق مار کر خوش ہوتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچا کر ہمیں راحت ملتی ہے۔ اگر سڑک پار کرتے ہوئے بزرگ، خواتین اور بچوں کو دیکھ کر ہم اپنی گاڑیاں روک لیں تو ہمیں کتنے لمحات کی قربانی دینی ہوگی؟ اگر بل جمع کراتے ہوئے ہم قطار بنالیں تو سوچئے کہ فائدہ آخر کس کو ہوگا؟ اگر آج آپ بغیر قانون کے گاڑی آگے بڑھا کر لے جاتے ہیں اور ساتھ والی گاڑی کو اس کے استحقاق کے باوجود راستہ نہ دے کر خوش ہوتے ہیں تو ذرا دل تھام کر سوچئے کہ کل یہ صورت حال آپ کے ساتھ پیش آجائے تو آپ کا رد عمل کیا ہوگا؟ غلط اوور ٹیک کرنا، غلط جگہوں پر گاڑی پارک کرنا اور غلط راستے سے اپنی گاڑی نکال لینا بھی اس قسم کے معاملات ہیں، یہ تمام امور تھوڑا سا تحمل اور تھوڑا سا ایثار چاہتے ہیں، اگر ہم یہ فیصلہ کرلیں کہ ان تمام جگہوں پر تھوڑے سے تحمل اور تھوڑے سے ایثار کا مظاہرہ کرنے میں نہیں ہچکچائیں گے تو ہماری زندگی کے تقریباً چالیس فیصد لمحات خوشگوار ہوسکتے ہیں، اتنے ہی فیصد ذہنی دباؤ اور پریشانی سے ہم نجات حاصل کرسکتے ہیں اور ہمارا وقت کس قدر بچتا ہے، یہ تجربہ اور عمل ہی سے معلوم ہوگا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس ایثار کا درس ہمیں سیرت طیبہ سے مل رہا ہے، وہ خود ہمارے لئے مفید ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہب کا بھی حصہ ہے، سو کم از کم وہ حضرات جو دین کے ماشاء اﷲ بہت سے پہلوؤں پر نہایت دلجمعی، خشوع وخضوع اور نہایت اہتمام سے عمل پیرا ہوتے ہیں اگر اس پہلو کو بھی نظر انداز نہ کریں تو کم از کم ۲۰ فیصد معاشرہ تو ایثار پسند خود ہی ہو جائے۔
 اوپر صرف چند بنیادی پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ایثار ایسی ہمہ جہت صفت ہے کہ زندگی کے ہر شعبے سے اس کا تعلق نکلتا ہے، غور و فکر کے در وا کیجئے اس کی عملی صورتیں خود بخود آپ کے سامنے آتی چلی جائیں گی۔ 
اﷲ تعالیٰ عمل کی راہ آسان فرمائیں، آمین۔
سید عزیز الرحمن

No comments:

close