Hazrat+Hasan+al-Basri+RA+Biography - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, June 2, 2019

Hazrat+Hasan+al-Basri+RA+Biography


حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح حیات  

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کسی نے خوشخبری دی کہ ان کی کنیز ’’خیرۃ ‘‘نے ایک لڑکے کو جنم دیا ہے۔ یہ خبر سن کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا دل باغ باغ ہوگیا، چہرہ مبارک پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔پہلی فرصت میں بچہ کو دیکھنے کا شوق دل میں پیدا ہوا، لہٰذا زچہ اور بچہ دونوں کو اپنے گھر بلانے کے لیے پیغام بھیجا۔ انھیں اپنی اس کنیز سے بے حد پیار تھا۔ اس کا بہت خیال رکھا کرتی تھیں۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ وہ زچگی کے ایام یہاں گزارے۔
پیغام بھیجے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ آپ کی کنیز ’’خیرۃ‘‘اپنے ہاتھوں میں نومولود بچہ کو اٹھائے پہنچ گئی۔ جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نگاہ بچے کے معصوم چہرے پر پڑی تو وفورِ شوق سے آگے بڑھیں اور اسے اپنی گود میں لے کر پیار کیا۔ یہ بچہ کیا تھا قدرت کا انمول ہیرا، اتنا خوبصورت گل رخ، ماہ جبیں اور صحت مند کہ کیا کہنے!ہر دیکھنے والا قدرت کے اس شاہکار کو دیکھتا ہی رہ جاتا۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی کنیز سے پوچھا: اے خیرۃ ! کیا بچے کا نام تجویز کر لیا ہے؟ اس نے کہا۔ امی جان ! ابھی نہیں ، یہ میں نے آپ پر چھوڑ رکھا ہے، جو نام آپ کو پسند ہو رکھ دیجئے۔
فرمایا: ہم اس کا نام اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت سے ’’حسن‘‘تجویز کرتے ہیں۔ پھر ہاتھ اٹھائے اور نومولود کے حق میں دعا کی۔ 
حسن کی پیدائش سے صرف ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ کا گھر ہی خوشیوں کا گہوارہ نہ بنا بلکہ مدینہ منورہ کا ایک اور گھرانہ اس خوشی میں برابر کا شریک رہا اور وہ تھا ، کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا گھرانہ ، وہ خوشی میں اس لیے شریک تھے کہ نومولود کا باپ یسار ان کا غلا م تھا اور ان کے دل میں اپنے غلام کی بڑی عزت تھی اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
حسن بن یسار نے جو بعد میں حسن بصری کے نام سے مشہور ہوئے ، رسول اقدسﷺ کے گھر میں آپ کی زوجہ محترمہ ہند بنت ابی امیہ کی گود میں پرورش وتربیت پائی، جو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے مشہور تھیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا عرب خواتین میں سب سے بڑھ کر عقل من، سلیقہ شعار، محتا ط۔حساس ،پیکر حسن وجمال اور صاحب فضل وکمال تھیں۔علم وہنر اور تقویٰ وخشیت میں ممتاز مقام پر فائز تھیں۔ آپ سے ’’۳۷۸‘‘ احادیث مروی ہیں، زمانہ جاہلیت میں آپ کا شمار ان خواتین میں ہوتا تھا جو لکھنا جانتی تھیں۔
حضرت حسن بصری کا تعلق ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ صرف ان کی کنیز کے بیٹے کی حیثیت سے ہی نہیں تھا بلکہ اس سے بھی کہیں گہرا اور قریبی تعلق پایا جاتا ہے، وہ اس طرح کہ بسا اوقات حسن کی والدہ خیرۃ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے کسی ضروری کام کو نپٹانے کے لیے گھر سے باہر جاتیں تو بچپن میں بھوک وپیاس کی وجہ سے رونے لگتے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا انھیں اپنی گود میں لے لیتیں ، ماں کی غیر حاضری میں بچے کو تسلی اور دلاسہ دینے کے لیے اپنی چھاتی اس کے منہ کو لگاتیں، دودھ اتر آتا ، بچہ جی بھر کر پیتا اور خاموش ہوجاتا ۔
اس طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی حسن بصری کے ساتھ دونسبتیں تھیں۔ایک ام المؤمنین کے اعتبار سے ماں کی اور دوسری رضاعی ماں ہونے کی۔
امہات المومنین کے باہمی خوشگوار تعلقات اور گھرروں کے آپس میں قریب وربط کی وجہ سے اس خوش نصیب بچے کو تمام گھروں میں آنے جانے کا موقع ملتا رہتا اور اس طرح اہل خانہ کے پاکیزہ اخلاق واطوار اپنانے کی سعادت حاصل ہوئی۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہبیان کرتے ہیں کہ بچپن میں ازواج مطہرات کے گھروں میں میرے آنے جانے اور کھیل کود سے چہل پہل رہتی اور تمام گھر خوشیوں کا گہوارہ بنے رہتے۔ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں اچھلتا کودتا ہوا گھروں کی چھتوں پر چڑھ جاتا ، مجھے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا بچپن انوارِ نبوت کی چمکیلی اور معطر فضائوں میں ہنستے کھیلتے گزرا اور یہ رشد وہدایت کے ان میٹھے چشموں سے جی بھر کر سیراب ہوئے جو امہات المومنین کے گھروں میں جاری ساری تھے۔ بڑے ہوئے تو مسجد نبوی میں کبار صحابہ کرام ؓ کے سامنے زانوے تلمذ کے شرف سے نوازے گئے۔ اور ان سے علم حاصل کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
انہیں حضرت عثمان ؓ بن عفان ، حضرت علی ؓ بن ابی طالب ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام سے احادیث روایت کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ لیکن سب سے بڑھ کر امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیار تھا ، دینی مسائل میں ان کے مضبوط دلائل ، عبادت میں گہری دلچسپی اور دنیوی زیب وزینت سے بے رغبتی نے بہت متاثر کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سحر انگیز بیان، حکمت ودانش سے لبریز باتیں ، مسجع ومقفیٰ عبارتیں اور دل ہلادینے والی نصیحتیں ان کے دل پر اثر انداز ہوئیں ، تو ان کے ہوکر رہ گئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تقویٰ واخلاق کا رنگ ان پر چڑھا اور حضرت حسن بصری نے فصاحت وبلاغت میں حضر ت علی رضی اللہ عنہ کا اسلوب اختیار کیا۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جب اپنی عمر کی چودہ بہاریں دیکھ چکے تو اپنے والدین کے ہمراہ بصرہ میں منتقل ہو گئے اور وہیں اپنے خاندان کے ساتھ مستقل رہائش اختیار کرلی۔ اس طرح حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی طر ف منتقل ہوئے اور لوگوں میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔
جن دنوں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بصرہ میں آباد ہوئے، بلاد اسلامیہ میں یہ شہر علوم وفنون کا سب سے بڑا مرکز تصور کیا جاتا تھا اس کی مرکزی مسجد صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بھری رہتی تھی۔
مسجد کا ہال اور صحن مختلف علوم وفنون کے حلقہ ہائے درس سے آباد تھا۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے جید وممتاز عالم دین، مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے حلقہ درس میں شامل ہوئے اور ان سے تفسیر ، حدیث اور تجوید کا علم حاصل کیا، فقہ ، لغت اور ادب جیسے علوم دیگرصحابہ کرام سے حاصل کیے ، یہاں تک کہ یہ ایک راسخ عالم دین اور فقیہ کے مرتبہ کو پہنچے ، علم میں رسوخ کی وجہ سے عالم لوگ دیوانہ وار ان کی طرف متوجہ ہوئے، لوگ ان کے پاس بیٹھ کر خاموشی سے ایسے مواعظ سنتے جن سے پتھر دل بھی موم ہوجاتے ، اور گنہگار آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ، آپ کی زبان سے نکلنے والی حکمت ودانش کی باتوں کو لوگ سرمایہ حیات سمجھتے ہوئے اپنے دلوں میں محفوظ کر لیتے اور آپ کی قابل رشک سیر ت کو اپنانے کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا نام پورے ملک میں مشہور ہوگیا۔ لوگ اپنی مجلسوں میں ان کا ذکر خیر کرنے لگے۔ حکمران ان کی خیریت دریافت کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتے ، ان کے شب وروز کے معمولات سے آگائی کی دلی تمنا رکھتے ۔
خالد بن صفوان بیان کرتے ہیں کہ میں عراق کے ایک قدیم شہر’’حیرہ‘‘میں بنو امیہ کے جرنیل اور فاتح قسطنطینیہ مسلمہ بن عبد الملک سے ملا، اس نے مجھ سے دریافت کیا۔
خالد!مجھے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کچھ بتائو۔ میرا خیال ہے انہیں جتنا تم جانتے ہو کوئی اور نہیں جانتا۔
میں نے کہا:آپ کا اقبال بلند ہو، ہر دم کامیابی آپ کے قدم چومے ، بلاشبہ میں ان کے متعلق آپ کو بہتر معلومات بہم پہنچا سکتا ہوں، کیونکہ میں ان کا پڑوسی بھی ہوں اور ہم نشین بھی، بلکہ اہل بصرہ میں سب سے زیادہ انہیں جانتا ہوں، اس نے کہا: ان کے متعلق کچھ مجھے بھی بتائیں۔ میں نے کہا: ان کا باطن ظاہر جیسا ہے ، ان کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ۔ جب وہ کسی کو نیکی کا حکم دیتے ہیں، پہلے خود اس پر عمل کرتے ہیں ۔ جب کسی کوبرائی سے روکتے ہیں تو خود بھی اس برائی کے قریب نہیں پھٹکتے ۔ میں نے دنیا وی مال ومتاع سے انہیں بالکل مستغنی وبے نیاز پایا، جو علم وتقویٰ کا خزانہ ہے، لوگ اسے حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار ان کی طرف لپکتے ہیں، وہ لوگوں کے محبوب نظر ہیں۔ یہ باتیں سن کر جرنیل مسلمہ بن عبد الملک پکار اٹھا:
’’خالد!اب بس کیجئے !اتنا ہی کافی ہے، بھلا وہ قوم کیسے گمراہ ہوسکتی ہے، جس میں حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت موجود ہو۔‘‘
جب حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر بنا اور اس نے اپنے دور حکومت میں ظلم وتشدد کی انتہا کردی، تو حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ان معدودے چند اشخاص میں سے ایک تھے  جنہوں نے اس سرکشی اور ظلم وجور کو آگے بڑھ کر روکا، اس کے برے کارناموں کی ڈٹ کر مخالفت کی اور ھق بات ڈنکے کی چوٹ سے اس کے منہ پر کہی۔
حجاج بن یوسف نے وسط شہر میں اپنے لیے ایک عالیشان محل تعمیر کروایا۔ جب اس کی تعمیر مکمل ہوگئی، اس نے افتتاحی تقریب میں لوگوں کو دعوت عام دی تاکہ وہ عظیم الشان محل کو دیکھیں، اس کی سیر کریں ، بزبان خود تعریف کریں اور دعائیہ کلمات سے نوازیں۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال آیا کہ اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ وہ یہ نیت لے کر گھر سے نکلے کہ آج لوگوں کو نصیحت کریں گے، انہیں دنیا وی مال ومتاع سے بے رغبتی اختیار کرنے کا درس دیں گے۔ او ر جو اللہ کے یہاں انعامات ہیں، انہیں حاصل کرنے کی ترغیب دیں گے۔ جب آپ موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ اس عالیشان اور بلند وبالامحل کے چاروں طرف جمع ہیں اور عمارت کی خوبصورتی پر فریفتہ، اس کی وسعت پر انگشت بداں اور اس کی آرائش وزیبائش سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ آپ نے لوگوں کو جھنجوڑتے ہوئے کہا:
ہمیں معلوم ہے کہ فرعون نے اس سے زیادہ مضبوط، خوبصورت اور عالیشان محلات تعمیر کیے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو ہلاک کر دیا اور اس کے محلات کو بھی تباہ کردیا۔
کاش!’’حجاج‘‘کو یہ معلوم ہوجائے کہ آسمان والے اس سے ناراض ہیں او رزمین والوں نے اسے دھوکے میں رکھا ہوا ہے۔
وہ پورے جوش وولولہ سے حجاج کے خلاف برس رہے تھے۔ ان کے منہ سے الفاظ تیروں کی طرح نکل رہے تھے ، مجمع ان کی شعلہ بیانی پر دم بخود تھا۔ یہاں تک کہ سامعین میں سے ایک شخص نے حجاج بن یوسف کے انتقامی جذبے سے خوفزدہ ہوکر حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا: جناب!اب بس کیجئے اتنا ہی کافی ہے، کیوں اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں دے رہے ہیں۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اس نیک دل شخص سے کہا: میرے بھائی! اللہ تعالیٰ نے اہل علم سے یہ پیمان لیا ہے کہ وہ ظالم کے منہ پر بغیر کسی خوف کے حق بات کی تبلیغ کرتے رہیں گے اور کبھی اس راہ وفا میں جفا کاگزر نہیں ہونے دیں گے۔ یہی ہمیشہ حق والوں کا وطیرہ رہا ہے اور یہی فریضہ آج میں ادا کررہا ہوں۔
دوسرے روز حجاج گورنر ہائوس میں آیا تو اس کا چہرہ غصے سے لال پیلا تھا۔ اس نے غضب ناک انداز میں اہل مجلس سے کہا: لاکھ لعنت ہے تمہارے وجو د پر ،بزدلو!کمینو!میری آنکھوں سے دور ہوجائو، کتنے افسوس کی بات ہے کہ بصرے کا ایک غلام ابن غلام مجمع عام میں بے لگام جو جی میں آتا ہے میرے خلاف کہہ جاتا ہے اور تم میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس کی زبان کو روکے ، شرم کرو، حیا کرو، اے گروہ بزدلان اقلیم من! کان کھول کو سنو!اللہ کی قسم !اب میں اس کا خون تمہیں پلا کر رہوں گا۔ اسے آج ایسی عبرت ناک سزادوں گا کہ دنیا انگشت بداں رہ جائے گی ۔ پھر اس نے تلوار اور چمڑے کی چادر منگوائی ۔ یہ دونوں چیزیں فوراًاس کی خدمت میں پیش کردی گئیں ۔ اس نے جلاد کو حکم دیا ، وہ پلک جھپکتے ہی سامنے کھڑا ہوا۔پھرپولیس کو حکم دیا کہ حسن بصری کو گرفتار کرکے لایا جائے۔
پولیس تھوڑی ہی دیر میں انھیں پکڑ کر لے آئی۔ منظر بڑا ہی خوفناک تھا، ہر طرف دہشت پھیلی ہوئی تھی، لوگوں کی نظریں اوپر اٹھی ہوئی تھیں، ہر شخص مغموم تھا، دل کانپ رہے تھے۔ جب حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے تلوار، جلاد اور چمڑے کی چادر کو دیکھا تو وہ زیر لب مسکرائے کچھ پڑھنا شروع کردیا۔
جب وہ حجاج کے سامنے آئے تو ان کے چہرے پر مؤمن کا جاہ وجلا، مسلمان کی شوکت اور مبلغ کی آن بان کا عکس جمیل نمایاں تھا۔
حجاج بن یوسف نے ان کی طرف دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہوگئی ، غصہ کافور ہوگیا اور بڑی دھیمی آواز میں کہا:ابوسعید حسن بصری! میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں، آئیے تشریف رکھئے اور میرے قریب بیٹھیں ۔ آپ بیٹھنے لگے تو کہا: ذرا اور قریب ہوجائے یہاں تک کہ انہیں اپنے ساتھ تخت پر بٹھالیا۔ لوگ یہ منظر حیرت، استعجاب اور خوف کے ملے جلے جذبات سے دیکھ رہے تھے۔ جب حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ بڑے اطمینان سے تخت پر بیٹھ گئے، توحجاج نے ان سے دینی مسائل دریافت کرنے شروع کردیئے ۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ہر سوال کا بڑی دلجمعی ، سحر بیانی اور عالمانہ انداز میں جواب دیتے رہے۔ حجاج بن یوسف ان کے جوابات سے بہت متاثر ہوااور کہنے لگا:
ابو سعید !تم واقعی علماء کے سردار ہو، پھر قیمتی عطر منگوایا اوران کی داڑھی کو بڑی محبت بھرے انداز میں لگا کر رخصت کیا۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ دربار سے نکلے تو حجاج بن یوسف کا دربان ان کے پیچھے ہولیا۔ تھوڑی دور جاکر اس نے کہا: اے ابو سعید!حجاج نے آج آپ کو کسی اور غرض سے بلوایا تھا، لیکن اس کی طرف سے یہ حسن سلوک دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ مجھے ایک بات بتائیں ، جب آپ گرفتار ہوکر دربار میں تشریف لائے تھے، آپ نے تلوار ، جلاد اور چمڑے کو دیکھا تو آپ کے ہونٹ حرکت کررہے تھے۔ آپ کیا پڑھ رہے تھے؟
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے اس وقت یہ دعا کی تھی۔
’’الٰہی !تو مجھ پر کی گئی نعمتوں کا والی ہے ۔ ہر مصیبت کے وقت میرا ملجا وماویٰ ہے۔
الٰہی! ساری مخلوق تیرے قبضے میں ہیں۔
الٰہی !حجاج کے غصے کو میرے لیے ٹھنڈا اور سلامتی والا کردے، جس طرح تونے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام پر آگ کو ٹھنڈا اور سلامتی والا کردیا تھا۔‘‘
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے
میری دعا کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور حجاج کا غصہ محبت میں بدل گیا۔
حسن بصری کو جابر وظالم حکمرانوں کے ساتھ کئی مرتبہ اسی نوعیت کا پالا پڑا ، لیکن آپ ہر دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے حکمرانوں کی نگاہ میں محترم اور ان کے دلوں پر اپنی عظمت وخودداری کے گہرے نقوش ثبت کرکے واپس لوٹے۔
اسی قسم کا ایک حیرت انگیز واقعہ اس وقت پیش آیا جب خدا ترس، منصف مزاج، سادہ منش ، پاک بیں ، پاک طینت ، خوش گہر اور پاکیزہ خو خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی وفات حسرت آیات کے بعد یزید بن عبد الملک مسند خلافت پر جلوہ گر ہوا۔ اس نے عمر بن ہبیر فزاری کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ پھر اس کے اختیارات میں اضافہ کرکے خراساں کا علاقہ بھی اس کے ماتحت کردیا۔
یزید بن عبد الملک نے عنان اقتدار سنبھالتے ہی ایسا طرز اختیار کیاجو سلف صالحین کے طرز ِ عمل کے بالکل برعکس تھا۔ وہ اپنے گورنر عمر و بن ہبیرہ کو کثرت سے خط لکھتا اور ان خطوط میں ایسے احکامات جاری کرتا جو بسا اوقات حق کے منافی ہوتے اور انہیں فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیتا ۔
ایک دن عمر و بن ہبیرہ نے حسن بصری اور عامر بن شرحبیل کو مشورے کے لیے بلایا اور عرض کیا کہ امیر المومنین یزید بن عبد الملک کو اللہ تعالیٰ نے مسند خلافت عطا کی ہے جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ، اس نے مجھے عراق اور خراسان کا گورنر مقرر کیاہے، کبھی کبھی وہ مجھے ایسے سرکاری خطوط ارسال کرتا ہے جن میں بعض ایسے اقدامات کرنے کا حکم ہوتا ہے جو میرے نزدیک مبنی برانصاف نہیں ہوتے کیا ایسے احکامات سے پہلو تہی اختیار کرنے کا دینی لحاظ سے میرے لیے کوئی دینی جواز نکلتا ہے؟
حضرت عامر بن شرحبیل نے ایسا جواب دیا جس میں خلیفہ کے لیے نرم وریہ اور گورنر کو خوش کرنے کا اندز پایا جاتا تھا۔ لیکن حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ خاموش بیٹھے رہے۔
گورنر عمر بن ہبیرہ نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف دیکھا اور کہا ابو سعید!آپ کی اس سلسلہ میں کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: اے ابن ہبیرہ !ہوسکتا ہے کہ آسمان سے ایک ایسا سخت گیر فرشتہ نازل ہو جو قطعا اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتا ۔ وہ تجھے تخت سے اٹھا کر اور اس محل کی وسعتوں سے نکال کر ایک تنگ وتاریک قبر میں ڈال دے، وہاںتو یزید کو نہیں دیکھ سکے گا، وہاں تجھے وہ عمل ملے گا جس میں تونے اپنے اور یزید کے رب کی مخالفت کی تھی۔
اے ابن ہبیرہ ! اگر تو اللہ کا ہوجائے اور ہر دم اس کی اطاعت میں سرگرم رہے تو وہ تجھے یقینا دنیا وآخرت میں یزید کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ اور اگر تو اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے یزید کا ساتھ دے گا تو پھر اللہ تعالیٰ بھی تجھے یزید کے ظلم وستم کے حوالے کردے گا۔ اے ہبیرہ ! خوب اچھی طرح جان لو !مخلوق میں خواہ کوئی بھی اس کا وہ حکم نہیں مانا جائے گا جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پائی جاتی ہو۔ یہ باتیں سن کر ہبیرہ اتنا روئے کہ آنسوئوں سے ان کی ڈاڑھی تر ہوگئی۔ پھر وہ حضرت عامر بن شرحبیل شعبی کو چھوڑ کر حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف مائل ہوئے اور حد درجہ ان کی عزت واکرام بجالائے۔
جب دونوں بزرگ گورنر کی ملاقات سے فارغ ہوکر مسجد میں پہنچنے ، لوگ ان کے اردگرد جمع ہوگئے اور ان سے گورنر کے ساتھ ہونے والی باتیں معلوم کرنے لگے۔ حضرت عامر رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کے سامنے برملا کہا:
لوگو!ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ سبحانہ ، وتعالیٰ کو مخلوق پر ترجیح دینی چاہیے ، مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آج حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے گورنر عمر بن ہبیرہ کو کوئی ایسی بات نہیں کہی جسے میں نہ جانتا ہوں لیکن میں نے اپنی گفتگو میں گورنر کی خوشنودی کو ملحوظ رکھا اور حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو پیش نظر رکھا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے گورنر کی نظر میں گرادیا اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی نگاہوں میں محبوب بنادیا۔
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ اسی (۸۰)برس تک زندہ رہے۔ اس دوران دنیا کو اپنے علم وحکمت ودانش اور فہم وفراست سے نوازتے رہے۔ انہوںنے نئی نسل کے لیے جو عظیم ورثہ چھوڑا وہ ان کے رقت انگیز پند ونصائح ہیں جو رہتی دنیا تک خزاں گزیدہ دلوں کے لیے بہار بنے رہیں گے ، ان کی نصیحتیں دلوں میں گداز اورارتعاش پیدا کرتی رہیں گی ، ان کے رقت انگیز مواعظ کے اثر کی بنا پر احساس وندامت سے آنکھوں میں آنسوئوں کی جھڑیاں لگ جاتی ہیں ، بیتاب آنسو بہتے رہیں گے ، پریشان حال لوگوں کو راہنمائی ملتی رہے گی اور غفلت شعار انسانوں کو دنیا کی حقیقت سے آگاہی حاصل ہوتی رہے گی۔
ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے دنیا کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا : مجھ سے دنیا وآخرت کے متعلق پوچھتے ہو، سنو! دنیا و آخرت کی مثال مشرق ومغرب جیسی ہے جتنا زیادہ تم ایک کے قریب ہوجائو گے اتنا ہی دوسرے سے دور ہوتے جائو گے۔ 
تم کہتے ہو کہ دنیا کے اوصاف بیان کروں ، میں تمہارے سامنے اس گھر کی کیا صفت بیان کروں، جس آغاز مشیت وتکلیف پر مبنی ہے اور جس کا انجام فنا وبربادی ہے۔ اس میں جو حلال ہے اس کا حساب لیا جائے گا اور جو حرام ہے اس کے استعمال پر سزا دی جائے گی ۔ جو اس میں تونگر ومالدار ہو اوہ فتنے میں مبتلا ہوا، اور جوفقیر ومحتاج ہوا وہ حزن وملال کا شکار ہوا۔
اسی طرح ایک شخص نے آپ سے آپ کا حال دریافت کیا : توآپ نے فرمایا :
بھائی! میرا حال کیا پوچھتے ہو، افسوس ! ہم نے اپنی جانوں پر کتنے ظلم ڈھائے، ہم نے اپنے دین کو کمزور کردیا اور دنیاوی حرص نے ہمیں موٹا کردیا، ہم نے اپنے اخلاق بوسیدہ کردیئے اور اپنے بستر اور کپڑے نئے بنوالیے ۔ہم میں سے ایک اپنے بائیں پہلو پر ٹیک لگائے مزے سے پڑا رہتا ہے اور غیروں کے مال بڑی بے پروائی سے ہڑپ کیے جاتا ہے۔
پھر تو نمکین کے بعد میٹھا کھانے کے لیے منگواتا ہے، ٹھنڈے کے بعد گرم پیتا ہے، خشک کے بعد تر کھجوریں کھاتا ہے، پاپی پیٹ میں دردر اٹھتا ہے اور قے آنے لگتی ہے ، پھر گھر میں شور مجاتا ہے کہ جلدی چورن لائو تاکہ کھانا ہضم ہوجائے۔ اے گھٹیا نادان !اللہ کی قسم! تو اپنے دین کے سوا کچھ بھی ہضم نہیں کرسکے گا۔
احمق!تیرا پڑوسی کہاں اور کس حال میں ہے؟ تیری قوم کا بھوکا یتیم کہاں ہے؟وہ مسکین کہاں جو تیری طرف دیکھتا رہتا ہے؟ وہ مخلوق کہاں ہے جس کی نگرانی او ر دیکھ بھال کی اللہ تعالیٰ نے تجھے وصیت کی تھی؟ کاش ! تجھے علم ہوتا تو محض ایک گنتی کا ہندسہ ہے، جب ایک دن کا سورج غروب ہوتا ہے تو تیری زندگی کا ایک دن کم ہوجاتا ہے۔
یکم رجب سنہ ۱۱۰ہجری جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رب کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان جاں آفریںکے سپر دکی۔صبح کے وقت جب ان کی وفات کی خبر لوگوں میں پھیلی تو بصرے میں کہرام مچ گیا۔ آپ کو غسل دیا گیا، کفن پہنایا گیااور اس مرکزی مسجدمیں نماز جنازہ پڑھائی گئی جس میں زندگی کا بیشتر حصہ عالم، معلم او ر داعی ومبلغ کی حیثیت میں گزارا۔ بصرہ کے تمام باشندے نماز جنازہ میں شریک ہوئے، اس روز بصرہ کی مرکزی مسجد میں نماز عصر کی جماعت نہیں ہوئی کیونکہ شہر میں نماز پڑھنے والا کوئی فرد باقی نہیں رہا تھا۔
اللہ تعالیٰ اس خوش گہر ، پاکیزہ خو، سادہ منش ، شیریں سخن ، پاک طینت ،پاک بیں ، فرخندہ جبیں عظیم المرتبت شخصیت کی قبر کو منور کرے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے مفصل حالات زند گی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
٭ اطبقات الکبریٰ ۱۷۹،۱۸۲،۱۸۸،۱۹۵،۱۹۷،۲،۲۰
٭ الطبقات الکبریٰ ۳/۳۳۳/۲۳۷
٭ حیلۃ الاولیاء اصفہانی ۲/۱۳۱،۱۶۱
٭ تاریخ خلیفہ بن خیاط ۱۲۳،۱۸۹،۲۸۷،۳۳۱،۳۵۴
٭ وفیات الاعیان ابن خلکان ۱/۱۳۸،۱۳۹
٭ شذرات الذھب ۱/۲۵۴
٭ میزان الاعتدال ۱/۲۵۴
٭ امالی المرتضیٰ ۱/۱۵۲،۱۵۳،۱۵۸،۱۶۰
٭ البیان والتیبین ۲/۱۷۳،۳٭۱۴۴
٭ المحبر محمد بن حبیب ۲۳۵،۳۷۸
٭ کتاب الوافیات احمد بن حسن بن علی ۱۰۸،۱۰۹
٭ حسن بصری، احسان عباس

No comments:

close