the great muslim+scholar+hazrat+Imam+zain-ul-Abideen - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, June 2, 2019

the great muslim+scholar+hazrat+Imam+zain-ul-Abideen


حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ

جس روز ایران کے آخری بادشاہ یزدگر دکو ذلت آمیز انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا اس روز اس کے تمام جرنیل ، حفاظتی دستہ او ر اہل خانہ مسلمانوں کے ہاتھوں قیدی بن گئے اور مال غنیمت کو سمیٹ کر مدینہ منورہ لایا گیا۔ اس عظیم فتح کے موقع پر جس کثیر تعداد میں قیمتی قیدی مدینہ منورہ میں لائے گئے اس کی تاریخ میں مثا ل نہیں لتی، ان قیدیوں میں ایران کے آخری بادشاہ یزدگرد کی تین بیٹیاں بھی تھیں۔
لوگ قیدیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے پلک جھپکتے ہیں انہیں خرید لیا اور رقم بیت المال میں جمع کرادی۔ صرف ایران کے بادشاہ یزدگرد کی بیٹیاں باقی رہ گئیں۔ وہ بلاشبہ حسن وجمال کا پیکر ، پر ی رخ ، اور سیمیں بدن دوشیزائیں تھیں جب انہیں فروخت کرنے کے لیے پیش کیا گیا تو مارے ذلت ورسوائی کے ان کی آنکھیں زمیں میں گڑھ گئیں ۔ حسرت ویاس اور انکساری اور درماندگی کی وجہ سے ان کی غزالی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، انہیں دیکھ کر حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے دل میں ترس آگیا اور یہ خیال آیا کہ انہیں وہ شخص خریدے جو ان سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:
’’شکست خوردہ قوم کے معزز افراد پر ترس کھایا کرو۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا:
’’اے امیر المومنین!بادشاہ کی بیٹیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہونا چاہیے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’آپ سچ کہتے ہیںلیکن اس کی صورت کیا ہو؟‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ایک تو ان کی قیمت زیادہ لگائیں اور دوسرے ان کو اختیار دے دیں جس پر یہ راضی ہوجائیں ان کے انھیں دے دیا جائے اور ان پر قطعا کوئی جبر نہ ہو۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ سن کر بہت خوشی ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس تجویز کو نافذ کردیا۔
ان میں سے ایک نے حضرت عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پسند کیا۔ دوسری نے حضرت محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو پسند کیا اور تیسری حسن وجمال کی وجہ سے جسے خواتین کی ملکہ کہاجاتا تھا۔اس نے اپنے لیے نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پسند کیا۔
تھوڑے ہی عرصہ بعد ملکہ خواتین نے اپنی دلی رغبت سے اسلام قبول کرلیا ، یہ دین قیم کی راہ پر گامزن ہوئیں، غلامی سے آزاد کردی گئیں ،کنیز سے آزاد ہوکر بیوی کا باعزت مقام حاصل کیا ، پھر اس نے سوچا کہ ماضی کی تمام شرکیہ یادیں، یکسر بھلا دی جائیں اور اس نے اپنا نام شاہ زندہ سے بدل کر غزالہ رکھ لیا۔
غزالہ کے نصیب میں بہترین رفیق حیات آیا۔ بڑی خوشگوار زندگی بسر ہونے لگی ، مہینے لمحوں میں گزرنے لگے ۔ اب ایک ہی دلی خواہش باقی رہ گئی تھی کہ اسے چاند سا بیٹا نصیب ہوجائے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کی یہ خواہش بھی پوری کردی ۔ ایک مہتاب چہرہ بیٹے نے جنم لیا ۔ برکت کے لیے اس کا نام دادا کے نام پر علی رکھا گیا۔ لیکن غزالہ کے لیے یہ خوشی چند لمحات سے زیادہ دیکھنا نصیب نہ ہوئی ۔ کیونکہ اپنے بیٹے کو جنم دیتے ہی اللہ کو پیاری ہو گئی۔
٭ اس نومولود کی پرورش ونگہداشت ایک کنیز کے سپر کردی گئی جس نے اسے ماں جیسا پیار دیا، اس نے اس پر اپنی محبت کو اس طرح نچھاور کیاجس طرح کوئی ماں اپنے اکلوتے بیٹے سے پیار کرتی ہے اور اس کی اس طرح پرورش کی کہ یہ نومولود بڑا ہوکر اسے ہی اپنی حقیقی ماں سمجھنے لگا۔
٭ حضرت علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ جب سن شعور کو پہنچے تو حصول علم کی طرف شوق ورغبت سے متوجہ ہوئے۔ پہلا مدرسہ گھر ہی تھااور یہ کتنااچھا مدرسہ تھا۔
پہلے استاد ان کے والد حسین بن علی ؓ تھے اور یہ کتنے عظیم استاد تھے، دوسرا مدرسہ رسول اکرم ﷺ کی مسجد تھا۔ مسجد نبوی ﷺ میں ان دنوں صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ کی چہل پہل تھی۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام بڑی ہی دلی رغبت کے ساتھ پھولوں جیسے نونہال بیٹوں کو کتاب الٰہی پڑھایا کرتے تھے اور اس میں غور وتدبر کی تلقین کرتے ، حدیث رسول ان کے سامنے بیان کرتے اور اس کے مقاصد سمجھاتے۔ رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور غزوات کے واقعات بیان کرتے، مختلف شعراء کے اشعار پڑھ کر سناتے اور پھر ان کے مطالب بیان کرتے اور ان کے دلوں میں حب الٰہی ، خشیت الٰہی اور تقویٰ کی جوت جگاتے۔ اس طرح یہ نونہال باعمل علماء اور باکردار راہنما بن کر ابھرتے ٭ حضرت علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں قرآنی علم نے گھر کر لیا ۔ اس کے سوا کسی اور علم کی طرف دل راغب ہی نہ ہوا۔ قرآن کے وعدہ ووعید کی وجہ سے ان کے احساسات میں لرزہ طاری ہوجاتا۔جب قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت پڑھتے جس میں جنت کا تذکرہ ہوتا تو دل شوق ورغبت سے اس کے حصول کا ممتنی ہوتا ، اور جب قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت پڑھتے جس میں جہنم کا تذکرہ ہوتا تو ایک گرم اور لمبی سانس لیتے ، انھیں یوں محسوس ہوتا جیسے جہنم کی آگ کا دہکتا ہوا شعلہ ان کے دامن میں اتر آیا ہے۔
٭ حضرت علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ جوانی اور علم کے نکتہ عروج پر پہنچے تو مدنی معاشرے کو ایک ایسا نوجوان ملا جو بنو ہاشم کے جوانوں میں عبادت اور تقویٰ میں مثالی شان رکھنے والا ، فضل وشرف اور اخلاق وکردار میں سب سے بڑھ کر ، نیکی وبرد باری میں سب سے اعلیٰ مقام پر فائز ، ان کی عبادت اور تقویٰ کا یہ حال تھا کہ وجو اور نما ز کے درمیان ان کے بدن میں کپکپی طاری ہوجاتی اور ان کا جسم مسلسل رعشے کی زد میں آجاتا اور اس سلسلے میں ان سے بات کی جاتی تو فرماتے:
’’تم پر بڑا افسوس ہے، کیا تم جانتے نہیں کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہونے والاہوں؟ کیا تم نہیں جانتے کہ کس کے ساتھ میں سرگوشی کرنے کا اراد ہ رکھتا ہوں؟‘‘
٭ اس ہاشمی نوجوان کی نیکی تقویٰ اور عبادت گزاری سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسے زین العابدین کے نام سے پکارنا شروع کردیااور اسی نام سے مشہور ہوگئے۔ یہاں تک کہ لوگ ان کے اصلی نام کو بھول گئے، غرضیکہ لقب اصلی نام اصلی پر غالب آگیا۔ان کی سنجیدہ ریزی اور نماز کے دوران  دنیا کی بے نیازی کی وجہ سے اہل مدینہ نے انہیں ’’فنا فی السجود‘‘ کا لقب دے دیا ۔ ان کے باطن کی صفائی اور دل کی پاکیزگی کی وجہ سے لوگوں نے انہیں پاک باز وپاک طینت شخصیت قرار دے دیا۔
٭ حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کا اس بات پر یقین تھا کہ عبادت کا مغز دعا ہے ۔وہ کعبہ شریف کے پردے سے چمٹ کر گھنٹوں  رب جلیل کی بارگاہ میںدعائیں کرے۔ بیت اللہ کے ساتھ کتنی ہی مرتبہ چمٹ کر انھوں نے یہ دعا کی:
’’پروردگار ! تو نے بے پایاں رحمت مجھ پر نچھاور کی ، مجھ پر انعامات واکرام کی بے انتہا بارش کی۔ میں بلا خوف وخطر تیری بارگاہ میں التجا کرتا ہوں، محبت والفت کی بنا پر تجھ سے سوالی ہوں ، تیری بارگاہ سیمزید رحمت کا ملتجی ہوں،تیرے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہمت وطاقت کی التجاہے ۔ الٰہی !میں تجھ سے اس بے چارے گہرے پانی میں ڈوبنے والے کی مانند مانگتا ہوں جسے کنارے لگنے کے لیے تیرے سوا کوئی سہارا نظر نہ آتا ہو۔ الٰہی ! کرم فرما اور میری زندگی کی منجدھار میں پھنسی ہوئی نائو کو کنارے لگا دے، بلا شبہ تو سب سے بڑھ کر اپنی مخلوق پر کرم کرنے والا ہے۔‘‘
٭ حضرت طائوس بن کیسان رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ دیکھا کہ یہ بیت اللہ کے سایے میں کھڑے مضطرب شخص کی طرح پیچ وتاب کھا رہے ہیں۔ سخت بیمار کی طرح کراہ رہے تھے۔ محتاج کی طرح دعا کر رہے تھے۔ حضرت طائوس بن کیسان رحمۃ اللہ علیہ کھڑے انتظار کررہے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے رونا بند کردیا، دعا سے فارغ ہوئے تو طائوس بن کیسان نے ان سے کہا:’’اے اللہ کے رسول ﷺ کے نواسے !میں نے آج تیری حالت دیکھی ہے ، تجھ میں تین خوبیاں ایسی پائی جاتی ہیں جو تجھے خوف سے بچا لیں گی۔‘‘
حضرت زین العابدین نے پوچھا:’’اے طائوس !وہ کون سی خوبیاں ہیں؟‘‘
آپ نے فرمایا :’’ایک تو آپ رسول اللہ ﷺ کے نواسے ہیں، دوسرے تجھے اپنے نانا کی شفاعت حاصل ہوگی اور تیسری اللہ تعالیٰ کی رحمت تیرے ساتھ شامل حال ہوگی۔‘‘
انہوں نے فرمایا:’’ اے طائوس !قرآن مجید کی درج ذیل آیت سننے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ میرا رسول کے ساتھ انتساب مجھے فائدہ نہ دے گا۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
{فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتساء لون} (سورۃ مومنون : آیت ۱۰۱)
’’تو جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان کوئی حسب ونسب کام نہ آئے گا اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔‘‘
جہاں تک میرے نانا کی شفاعت کا تعلق ہے ، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد میرے پیش نظر ہے:
{ولا یشفعون الا لمن ارتضیٰ } (سورۃ انبیاء : آیت ۲۸)
’’کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو۔‘‘
اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہے ، اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہے:
{ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین }(سورۃ اعراف : آیت ۵۶)
’’بے شک اللہ کی رحمت نیک کردارلوگوں سے قریب ہے۔‘‘
تقویٰ اور خوف خدا نے حضرت زین العابدین میں بہت سی خوبیاں پیدا کردیں۔ فضل وشرف اور نرمی وبردباری کے خوگر ہوئے، ان مثالی اوصاف کے دل پذیر تذکروں سے سیر ت کی کتابیں مزین ہیں اور تاریخ کے صفحات چمک رہے ہیں۔
حضرت حسن بن حسن بیان کرتے ہیں۔ میرے اور چچا زاد بھائی زین العابدین کے درمیان ایک مرتبہ اختلاف پیدا ہوگیا، میں ان کے پاس گیا وہ مسجد میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے، غصے میں آکر میں نے جو منہ میں آیا انہیں کہہ دیا ۔ لیکن وہ میری کڑوی کسیلی باتیں خاموشی سے سنتے رہے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا۔میں غصے کا بھر پور اظہار کرکے چلا گیا، رات کو میرے دروازے پر کسی نے دستک دی، یہ دیکھنے کے لیے اٹھا کہ اس وقت میرے دروازے پر کون ہوسکتا ہے ۔میں نے دیکھا کہ زین العابدین کھڑے ہیں ، مجھے اس بات میں کوئی شک نہ رہا کہ یہ اب اپنا بدلہ لینے آئے ہیں ، لیکن انھوں نے فرمایا: 
’’میرے بھائی!آج صبح جو آپ نے میرے بارے میں کہا اگر اس میں آپ سچے ہیں تو اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردے اور اگر آپ ان باتوں میں سچے نہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کردے۔‘‘
یہ کہا، مجھے سلام کیا اور واپس چلے گئے۔ میں نے انہیں روکا اور عرض کیا،’’آئندہ میں کوئی ایسی بات نہیں کروں گا جو آپ کو ناگوار گزرے۔بھائی مجھے معاف کردیجئے۔‘‘
ان کا دل نرم ہوگیا اور فرمایا:’’کوئی بات نہیں !میرے بارے میں آپ کو بات کرنے کا حق پہنچتا ہے۔‘‘
٭ مدینہ منورہ کا ایک باشندہ بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ زین العابدین مسجد سے نکلے اور میں بھی ان کے پیچھے ہولیا، میں بغیر کسی وجہ کے انہیں گالیاں دینے لگا، لوگ یہ سن کر مجھ پر پل پڑے ، مجھے اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ قریب تھا کہ وہ میرا کچومر نکال دیتے ، زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور فرمایا:رک جائو۔تو وہ سب رک گئے ، جب آپ نے مجھے کانپتے ہوئے دیکھا تو بڑی خندہ پیشانی سے میری طرف متوجہ ہوئے ،مجھے دلاسہ دینے لگے تاکہ میرا خوف جاتا رہے۔
پھر آپ نے فرمایا:’’آپ نے مجھے اپنی معلومات کے مطابق گالی دی،لیکن وہ عیب جن پر پردہ پڑا ہوا ہے، آپ نہیں جانتے ، وہ تو کہیں زیادہ ہیں۔‘‘پھر مجھ سے پوچھا ۔’’کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے جسے پوراکرکے ہم تمہاری مدد کرسکیں۔‘‘
میں شرمندہ ہوا اور کچھ نہ کہہ سکا۔جب انہوں نے میری شرمساری دیکھی تو اپنی قیمتی چادر اتار کر مجھ پر ڈال دی اور ایک ہزار درہم مجھے عنایت کئے۔
ایک غلام کہتے ہیں کہ زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کا غلام تھا ۔ انہوں نے مجھے کسی کام کے لیے بھیجا میں نے تاخیر کردی ،جب میں ان کے پاس آیا تو بڑے غصے سے کوڑا پکڑا اور میری پٹائی شروع کردی، میں رونے لگا، مجھے غصہ بھی بہت آیا، آپ نے اس سے پہلے کسی کو مارا بھی نہیں تھا۔
میں نے کہا:’’اے علی بن حسین !اللہ سے ڈریں، ایک تو آپ مجھ سے خدمت لیتے ہیں،میں آپ کے حکم کے مطابق ہر کام پوری محنت سے کرتا ہوں، اوپر سے آپ میری پٹائی کرتے ہیں ،یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘‘
میری بات سن کر روپڑے اور فرمایا:’’ابھی مسجد نبوی ﷺ میں جائو ، دورکعت نماز پڑھوپھر یہ دعا کرو ، الٰہی علی بن حسین کو معاف کر دے ، اگر آج آپ یہ کریں گے تو میری غلامی سے آپ آزاد ہوں گے۔‘‘میں مسجد گیا ، نماز پڑھی اور دعا کی،جب میں گھر واپس لوٹا تو آزاد تھا۔
٭ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ پر بڑی وافر مقدار میں مال ودولت اور رزق کے خزانے کھول رکھے تھے۔ تجارت میں انھیں بہت نفع ہوتا تھا۔ زراعت میں بھی بڑی فراوانی میسر تھی۔
یہ دونوں کام آپ کے نوکر چاکر انجام دیا کرتے تھے۔ زراعت وتجارت کے ذریعے وافر مقدار میں مال ودولت ان کے ہاتھ لگتا ، لیکن اس تونگری وفراوانی نے ان کے اندر نخوت یا تکبر کا کوئی شائبہ پیدا نہیں کیا۔ البتہ دنیا کے مال کو انھوں نے آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنایا۔ ان کی دولت وثروت ہر لحاظ سے ان کے لیے مفید وکارآمد ثابت ہوئی۔ راز داری اور پوشیدہ انداز میں صدقہ وخیرات کرنا انہیں بہت محبوب تھا۔ جب رات کا اندھیرا چھا جاتا تو یہ اپنی کمزور کمر پر آٹے کے تھیلے اٹھاتے اور مدینے کے ان ضرورت مندوں کے گھر چپکے سے چھوڑ آتے ، جو خو د داری کی وجہ سے لوگوں کے سامنے دست دراز کرتے تھے۔ یہ کام سرانجام دینے کے لیے رات کی تاریکی میں اس وقت نکلتے جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوتے۔
مدینہ منورہ میں بہت سے گھر خوشحالی سے زندگی بسر کررہے تھے، جنہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ ان کے پاس وافر مقدار میں رزق کہاں سے آتا ہے۔ حضرت زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ فوت ہوگئے اور ان لوگوں کے پاس آٹا آنا بند ہوگیا تب پتہ چلا کہ یہ کہاں سے آتا تھا۔
حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کو جب غسل دینے کے لیے تختے پر رکھا گیا ، غسل دینے والوںنے پیٹھ پر سیاہ نشان دیکھا تو کہنے لگے، یہ کیا ہے انھیں بتایا گیا کہ یہ آٹے کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے نشان پڑا، جو وہ مدینے کے تقریبا ایک سو گھروں میں پہنچایا کرتے تھے، آج اس طرح فیاضی کے ساتھ خر چ کرنے والا دنیا سے رخصت ہوگیا۔
حضرت زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ اپنے غلاموں کو اس کثرت اور فیاضی سے آزاد کیا کرت تھے کہ اس کا چرچا مشرق ومغرب میں سفر کرنے والے مسافروں تک پہنچ چکا تھا۔ ان کا یہ کارنامہ لوگوں کی فکر ونظر کے افق سے بھی کہیں بلند تھا، اس کی پرواز تخیلات سے بھی کہیں اونچی تھی ، کوئی عام انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔
یہ ہر اس غلام کو آزاد کردیا کرتے تھے ، جو ان سے حسن سلوک سے پیش آتا ، اس کی آزادی اس کے حسن سلوک کا بدلہ ہوگی۔ یہ اس کو بھی آزاد کردیا کرتے تھے جو نافرمانی کرتا اور پھر توبہ کرلیتا ۔ اسے اپنی توبہ کے بدلے آزادی مل جاتی۔ ان کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوںنے اپنی زندگی میں ایک ہزارغلام آزاد کیے ۔ آپ اپنے کسی غلام یا کنیزسے ایک سال سے زائد خدمت نہیں لیا کرتے تھے۔ عید الفطر کی رات بہت سے غلاموں کو آزاد کیا کرتے تھے، ان سے یہ مطالبہ کیا کرتے تھے قبلہ رخ ہوکر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں:
’’الٰہی! علی بن حسین کو معاف کردے۔‘‘اس طرح انھیں دہری خوشی نصیب ہوتی، ایک خوشی عید کی اور دوسری خوشی آزادی کی۔
حضرت زین العابدین علی بن حسین رحمۃ اللہ علیہ کی محبت لوگوں کے دلوں میں اتر چکی تھی۔ لوگ انہیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے، لوگوں کے دلوں میں ان کا بہت مرتبہ تھا۔ گویا یہ لوگوں کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ان کے دور میں یہ مقام کسی اور کو حاصل نہ تھا، لوگوں کو ان سے سچی محبت تھی، ان کے ساتھ بڑی تعظیم سے پیش آتے، بڑا ہی گہرا تعلق تھا، لوگوں کی نگاہیں ہر دم ان کی متلاشی رہتیں۔گھر سے نکلتے ہوئے یا گھر میں داخل ہوتے ہوئے، مسجد جاتے ہوئے یا مسجد سے واپس آتے ہوئے لوگ ان کی زیارت کی سعادت حاصل کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ہشام بن عبد الملک حج کے لیے مکہ معظمہ آیا۔اس وقت وہ ولی عہد تھا، وہ طواف کرنا اور حجر اسود کو چومنا چاہتا تھا، حفاظتی دستے نے لوگوں کو ہٹو بچو کرتے ہوئے اس کے لیے راستہ بنانا شروع کردیا۔لیکن لوگوں میں سے ایک شخص نے ان کی طرف دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی ان کے لیے راستہ بنایا بلکہ وہ یہ کہہ رہا تھا:’’یہ گھر اللہ کا ہے تمام لوگ اس کے بندے ہیں۔‘‘
اسی دوران دور سے ’’لا الہ الا اللہ ‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کی آوازیں سنائی دینے لگیں ،لوگ ٹکٹکی لگا کر اس کی طرف دیکھنے لگے، دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے جھرمٹ میں ایک خوبصورت ، چھریرے بدن اور روشن چہرے والا شخص احرام باندھے بڑے ہی وقار کے ساتھ بیت اللہ کی جانب چلا آرہاہے ۔ اس کی پیشانی پر سجدوں کا نشان نمایاں ہے ۔ لوگ عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے لیے راستہ بنا رہے ہیں۔اور اسے محبت وعقید ت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ، وہ شخص حجر اسود تک پہنچا اور اسے بڑے ہی باوقار انداز میں چوما۔
ہشام بن عبد الملک کے حاشیہ برداروں میں سے ایک شخص نے اس سے پوچھا ، یہ کون ہے جس کی لوگ اس انداز میں تعظیم بجا لارہے ہیں۔ ہشام نے کہا ، میں اسے نہیں جانتا ۔
دنیا ئے عرب کا مشہور شاعر فرزدق وہاں موجود تھا۔ اس نے کہا، اگر ہشام اس کو نہیں جانتا تو کیا ہوا میں اسے جانتا ہوں اور تمام دنیا اسے جانتی ہے ۔یہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرزند ارجمند علی ہے جسے لوگ زین العابدین کے نام سے جانتے ہیں ، پھر برجستہ ان کی شان میں اشعار کہے جن کا ترجمہ درج ذیل ہے:
(۱)یہ وہ شخص ہے جس کے قدموں کی آہٹ کو وادی بطحاء جانتی ہے
بیت اللہ بھی اس کو جانتا ہے اور حل وحرم بھی اسے جانتے ہیں
(۲)یہ اللہ کے بندوں میں سب سے بہتر انسان کا نواسہ ہے
یہ متقی پرہیز گار ، پاک صاف اور ممتاز انسان ہے
(۳)یہ فاطمۃ الزہرا کا پوتا ہے، اگر تونہیں جانتا تو سن لے
اس کے نانا خاتم الانبیاء ہیں
(۴)تیرا یہ کہنا کہ یہ کون ہے اسے کوئی نقصان نہیں دے گا
تواسے اگر نہیں جانتا عرب وعجم تو اسے جانتے ہیں
(۵)اس کے دونوں ہاتھ بڑے فیاض ہیں
لوگ اس کی فیاضی سے خوف مستفیض ہوتے ہیں
(۶)یہ نرم طبیعت ہے اس میں ترش روئی کا شائبہ تک نہیں ہے
دوخوبیوں نے اس کو آراستہ کیا ہے وہ حسن اخلاق اور نرم طبیعت ہے
(۷)تشہد کے علاوہ اس کی زبان پر لا نہیں آتا
اگر تشہد نہ ہوتا تو یہ بھی لا بھی نعم ہوتا
(۸)اس کے احسانات خلق خدا پر عام ہیں
جن کی وجہ سے تاریکیاں، غربت وافلاس ختم ہوگئے
(۹)جب قریش نے اسے دیکھا تو اس کا ایک شخص پکار اٹھا
یہ وہ شخص ہیں جس پر حسن اخلاق ختم ہوگئے
(۱۰)یہ حیا کی وجہ سے اپنی نگاہیں جھکا لیتے ہیں 
اور لوگ اس کی ہیبت سے نگاہیں جھکا لیتے ہیں
(۱۱)اس کی ہتھیلی ریشم کی طرح نرم ہے اور اس سے کستوری کی خوشبو آتی ہے
اور اس کی ناک کھڑی ہے جس سے شخصی عظمت آشکار ہوتی ہے
(۱۲)اس کا اصل رسول ﷺ سے مشتق ہوا ہے
اس کا حسب ونسب کس قدر عمدہ ہے
حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ ہر اس شخص کے لیے نادر نمونہ تھے ، جو پوشیدہ اور علانیہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کا لالچ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بچا کر رکھتے ہیں۔
نوٹ:۔ بندے کے والد صاحب بیانات میں عربی کے یہ اشعار مع ترجمہ درد بھرے انداز میں پڑھتے تھے۔ مجمع بہت روتا تھا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے!آمین!
٭ حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
٭طبقات ابن سعد…۵/۲۱۱
٭تاریخ البخاری…۶/۶۲۶
٭المعارف…۲۱۴
المعرفہ والتاریخ…۱/۳۶۰،۵۴۴
٭الجرح والتعدیل…۳/۱۷۸
٭طبقات الفقہاء (شیرازی)…۶۳
٭تاریخ ابن عساکر…۱۲/۵۱۵
٭الاسماء واللغات …۱/۳۴۳
٭وفیات الاعیان…۳/۳۶۶
٭تاریخ الاسلام…۴/۳۴
٭العبر…۱/۱۱۱
٭البدایۃ والنہایہ…۹/۱۰۳
٭النجوم الزاہرہ…۱/۲۲۹

No comments:

close