lifestyle - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, June 2, 2019

lifestyle


سنت نبوی کو اپنی زندگی میں اجاگر کیجئے

آج کل کے مشینی دور کا عام انسان خود بھی ایک مشین کی طرح زندگی گزار رہا ہے۔ کام کاج کی زیادتی اور معاشی ومعاشرتی پریشانیوں نے اسے الجھا رکھا ہے، پر آسائش زندگی کے باوجود اسے وسائل اور اطمینان قلب کی کمی کا شکوہ رہتا ہے۔ ایک طرف مادی ترقی نے اسے اپنی ذات کے خول میں بند کردیا ہے، دوسری طرف سائنسی علوم نے عقل کو اس قدر مسحور کررکھا ہے کہ دینی علوم کی اہمیت دلوں سے نکلتی جارہی ہے، اپنی زبان سے’’دین ودنیا برابر‘‘ کا نعرہ لگانے والے بھی عملا دنیا دارانہ زندگی بسر کررہے ہیں۔ رسم ورواج ٹوٹنے پر تڑپتے ہیں اور سنت نبوی کے چھوٹنے پرٹس سے مس نے ہوتے۔ مسلمان نوجوان فرنگی تہذیب کے اس قدر دلدادہ بن چکے ہیں کہ لباس وطعام اور نشست وبرخاست میں فرنگی طور طریقوں کو اپنا نا روشن خیالی کی علامت سمجھتے ہیں۔ کفر والحاد نے مسلمان معاشرے پر اپنے مکروہ سائے ڈالنے شروع کردیے ہیں۔جبکہ جدید تعلیم نے جلتی پر تیل کا کام کردیا ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے 

لب خندہ سے نکل جاتی ہے فریا د بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا پتہ تھا کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

آج کل کے مسلمان بچے ماں باپ کی گود ہی سے انگریزی زبان کے الفاظ اس طرح سیکھ رہے ہیں جس طرح ماضی میں کلمہ طیبہ اور قرآن کی آیتیں سیکھا کرتے تھے۔ جب بچے کی اٹھان ہی ایسی ہوتو کیا گلہ اور شکوہ کہ بچہ بڑاہوکر ماں باپ کا نافرمان بنتا ہے۔
طفل سے بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی 
دودھ تو ڈبوں کا ہے اور تعلیم ہے سرکار کی
بعض عورتوں کا تویہ نظریہ ہوتا ہے کہ بچہ بڑا ہوکر خودبخود سنور جائے گا، لہٰذا بچہ کی بری حرکات وسکنات دیکھ کر خود تھوڑا ، بہت ڈانٹ لیتی ہیں، باپ کو روک ٹوک نہیں کرنے دیتیں۔ حالانکہ بچپن کی بگڑی عادتیں جوانی میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ بچہ سیال فولاد کی طرح بچپن میں جس سانچے میں ڈھل جائے ساری عمر اس طرح رہتا ہے ۔ رہی سہی کسر کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم پورا کردیتی ہے جس سے نوجوان طبقہ’’مان کر چلنے‘‘کے بجائے ’’منوا کر چلنے ‘‘کا عادی ہوجاتا ہے، اب اگر انہیں روک ٹوک کی جائے تو یہ ماں کو دقیانوس سمجھتے ہیں اور باپ سے یوں نفرت کرتے ہیں جیسے پاپ سے نفرت کی جاتی ہے۔
ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
جن کو پڑھ کر بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
اکثرنوجوان جب یونیورسٹیوں کی تعلیم پاکر نکلتے ہیں تو دین کے ہر مسئلے کو عقل کی ترازو پر تولنا ان کا محبوب مشغلہ بن چکا ہوتا ہے۔پھر اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کا موقع مل جائے تو عموما’’ظلمات بعضھا فوق بعض‘‘ (اندھیرے دراندھیرے) والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ ایسے حضرات کو اپنی اصلاح کے بجائے دین کی اصلاح کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ میاں بیوی خوددین کے مطابق ڈھلنے کے بجائے دین کو اپنی مرضی وسہولیت کے مطابق ڈھالتے رہتے ہیں۔
خدا کے فضل سے میاں بیوی دونوں مہذب ہیں
انہیں غصہ نہیں آتا انہیں غیرت نہیں آتی
دین کی سچی محبت رکھنے والے حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی اولاد کی اچھی تربیت کیسے ہو؟ جن گھروں میں اولاد کی تربیت کے لیے کوشش ہوبھی رہی ہیں ، وہاں خاطر خواہ نتائج مرتب نہیں ہورہے۔انھیں بھی علمی تعاون کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
(۲۹)برش، منجن اور ٹوتھ پیسٹ سے مسواک کا ثواب نہیں ملے گا
خیال رہے کہ جہاں تک نظافت اور دانتوں کی صفائی اور ستھرائی کا حکم ہے ، وہاں تک تو دانتوں کی صفائی کے لیے کوئی بھی چیز استعمال کرے ، نظافت اورصفائی کا حصول ہوجائے گا اور عام نظافت اورصفائی کے حکم کی تعمیل کا نیت کے پائے جانے کا ثواب مل جائے گا ۔ مگر مسواک کی جو فضیلت ہے اس سے نماز کا ثواب ۷۰۔۷۵ گنا بڑھ جاتا ہے، یہ فضیلت اور اخروی ثواب احادیث میں مسواک کی قید سے مقید ہونے کی وجہ سے اسی سے متعلق رہے گا۔اسی طرح مسواک کے جو بنیادی صحیح فوائد ہیں، وہ منجن وٹوتھ پیسٹ سے حاصل ہوجائیں گے۔
اس دور میں خصوصا جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں اور نئی عمر اور نئے ذہن والے لوگوں میں برش اور پیسٹ رائج ہے، اس سے وہ دنیا وی صفائی ونظافت تو حاصل کرلیں گے مگر مسواک کی سنت او ر اس کے ثواب سے محروم رہیں گے۔ افسوس کہ اب تو مدارس کے ماحول نے بھی مسواک کے بجائے ٹوتھ پیسٹ کو اختیار کرلیا ہے۔اسلام کے طور اور طریقہ کو چھوڑ کر مغربیت پر فدا ہورہے ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ ممنوع ہے مگر سنت کے ثواب سے محروم اور حضرات انبیاء کرام ﷺ کے طریق سے تو ہٹ کرہے۔ کتب فتاویٰ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:
’’جب مسواک کی موجودگی میں انگلیاں جن کے لیے آنحضرت ﷺ کا عمل اور قول ثابت ہے، مسواک کے قائم مقام نہیں ہوسکتیں تو برش وغیرہ کیسے مسواک کے قائم مقام ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ سنت درخت کی مسواک ہے۔‘‘
(توضیح المسائل ، صفحہ ۳۵،فتاویٰ رحیمیہ،جلد ۱،صفحہ ۱۲۶)
اسی طرح فضائل مسواک میں آیا ہے:
’’منجن کا استعمال جائز ہے ۔لیکن محض منجن پر اکتفا کرلینے سے مسواک کی فضیلت حاصل نہ ہوگی‘‘(صفحہ ۷۳)
سعایہ میں حاشیہ ہدایہ جونفوری کے حوالے سے ہے کہ’’انگلیوں سے ملنا مسواک ملنے اور پائے جانے کی صورت میں سنت ادا کرنے والا نہ ہوگا۔‘‘(صفحہ۱۱۷)
ان اکابر کی تصریحات سے معلوم ہو ا کہ نظافت اور صفائی اور چیز ہے، سنت کا ثواب اور چیز ہے۔منجن اور ٹوتھ پیسٹ کے استعمال سے عام صفائی وپاکیزگی حاصل ہوجائے گی مگر مسواک کا ثواب نہ ملے گا۔ لہٰذا سنتے کے ثواب اور اس کی تاکید وترغیب کے پیش نظر امت مسلمہ کا فریضہ ہے کہ مسواک کی سنت کو ترک نہ کریں۔منجن اور پیسٹ کے علاوہ خصوصا نماز کے اوقات میں مسواک کا اہتمام رکھیں تاکہ نبیوں والا طریقہ ماحول میں رائج ہو۔
(۳۰)مسواک کرتے وقت یہ نیت کیجئے
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ مسواک کرتے وقت یہ نیت کرے کہ ’’خدا کے ذکر اور تلاوت کے لیے منہ صاف کرتا ہوں۔‘‘ اس کی شرح احیاء میں ہے کہ محض ازالہ گندگی کی نیت نہ کرے بلکہ اس کے ساتھ یعنی صفائی کی نیت کے ساتھ ذکر وتلاوت کی نیت کرے تاکہ اس کا بھی ثواب ملے۔(اتحاف السادہ، جلد ۲،صفحہ ۳۴۸)
(۳۱)مسواک کرنے کا مسنون طریقہ
علامہ ابن نجیم نے البحر الرائق میں لکھا ہے کہ مسواک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسواک دانت کے اوپر ی حصہ اور نچلے حصہ اور تالو پر ملے اور مسواک ملنے میں دائیں جانب پہلے کرے پھر بائیں جانب کم از کم تین بار اوپر کے دانتوں کو اسی طرح تین بار نیچے کے دانتوں کو ملے، مسواک دائیں ہاتھ سے پکڑ کر لمبائی اور چوڑائی دونوں میں کرے۔
طحطاوی علی المراقی میں طریقہ مسواک بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دانت کے اندرونی حصہ اور دانت کے باہری حصہ دونوں جانب کرے اور منہ کے اوپری حصہ میں بھی کرے۔(طحطاوی علی المراقی، صفحہ ۳۸)
علامہ شامی نے لکھا ہے کہ مسواک دانتوں کے باہری حصہ پر گھما گھما کر کرے او ر چّوے دانت کے اوپری حصہ کے اور دونوں دانتوں کے جوڑ میں بھی کرے۔(شامی، جلد ۱ صفحہ ۱۱۴)
(۳۲)مسواک پکڑنے کا مسنون طریقہ 
مسواک پکڑنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی خنصر (سب سے چھوٹی انگلی) کو مسواک کے نیچے کرے اور بنصر(اس کے بغل والی)او ر سبابہ یعنی انگشت شہادت مسواک کے اوپر رکھے اور انگوٹھا مسواک کے سرے کے نیچے رکھے، اور مسواک دائیں ہاتھ سے پکڑے۔
( عن ابن مسعود: السعایہ، صفحہ ۱۱۹، عمدۃ القاری،جلد ۳،صفحہ ۱۷۵)
(۳۳)مسواک کی موٹائی کتنی ہو؟
مسواک کی موٹائی چھوٹی انگلی کے برابر ہو۔(السعایہ ، صفحہ ۱۱۸عمدۃ القاری،صفحہ ۱۸۵)
مطلب یہ ہے کہ ایسی ہو کہ سہولت سے کچلا جائے اور نرم ہو۔ اگر اس سے موٹا ملے تو نہ چھوڑے ، لے لے کر اسے بھی کیاجاسکتا ہے۔
(۳۴)مسواک کی لمبائی کتنی ہو؟
مسواک ایک بالشت سے زائد نہ ہو ورنہ اس پر شیطان سوار ہوجاتا ہے، ہاں مسواک کرتے وقت چھوٹا ہوجائے کوئی حرج نہیں۔
(السعایہ صفحہ ۱۱۹)
(۳۵)مسواک کو بچھا کر نہ رکھیے بلکہ کھڑی کرکے رکھیے، جنون سے حفاظت ہوگی
مسواک کو بچھا کر نہ رکھیے ، بلکہ کھڑی کرکے رکھیں۔(السعایہ، صفحہ ۱۱۹،الشامی،صفحہ ۱۱۵)
مسواک کو دھو کر رکھے اور پھر کرتے وقت دھوئے ۔ مسواک زمین پر نہ رکھے کہ جنون کا اندیشہ ہے ، بلکہ طاق یا کسی اونچے مقام ،دیوار وغیرہ پر کھڑی رکھیے۔ (شامی جلد ۱،صفحہ : ۱۱۵)
حضرت سعیدبن جبیر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص مسواک کو زمین پر رکھنے کی وجہ سے مجنون ہوجائے تو وہ اپنے نفس کے علاوہ کسی کو ملامت نہ کرے کہ یہ خود اس کی اپنی غلطی ہے۔
(۳۶)مسواک کرنے میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیے
ورنہ کئی بیماریوں کا اندیشہ ہے
مسواک کو مٹھی میں پکڑ کر نہ کرے اس سے مرض بواسیر پیدا ہوتاہے۔ (السعایہ، صفحہ ۱۱۹)
مسواک کو لیٹ کر نہ کرے کہ اس سے تلی بڑھتی ہے۔ (طحطاوی، صفحہ ۳۸)
مسواک کو چوسے نہیں کہ اس سے نابینائی ، اندھا پن آتا ہے۔ہاں مگر مسواک نئی ہو تو پہلی مرتبہ صرف چوسا جاسکتا ہے۔
(السعایہ، صفحہ ۱۹۹)
پہلی مرتبہ نئی مسواک کو چوسنا جذام اور برص کو دفعہ کرتا ہے۔موت کے علاوہ تمام بیماریوں سے شفا ہے ، اس کے بعد چوسنا نسیان پیدا کرتا ہے۔(اتحاف السادہ ، صفحہ ۵۳۱،شامی جلد ۔۱صفحہ ۱۱۵)
(۳۷)بلا اجازت دوسرے کی مسواک استعمال کرنا مکروہ ہے
مسواک کرنے سے پہلے بھی دھوئے اور کرنے کے بعد بھی دھو کر رکھے۔ ورنہ شیطان مسواک کرنے لگتا ہے۔(طحطاوی، صفحہ ۳۷)
مسواک کو ہمیشہ اپنے پاس جیب وغیرہ میں رکھنا بہتر ہے، تاکہ جب جہاں نماز وضو کا موقع ہو مسواک کی فضیلت کے ساتھ ہو۔
(فضائل مسواک ،صفحہ ۷۹)

No comments:

close