Sumama+bin+Usal+RA - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, June 2, 2019

Sumama+bin+Usal+RA


حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا واقعہ

حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد از سلام عرض ہے کہ بارہا آپ کے وعظ میں حضرت ثمامہ بن اثال کا واقعہ سنتا ہوں جو میں نے کسی کتاب میں پڑھا نہیں ہے حالانکہ میں بفضلہ وکرم علم کی دولت کے حصول میں کچھ عرصہ دے چکاہوں ، برائے کرم تفصیلی خطاب سے مستفیض فرماکر قلبی راحت کا موقع عنایت کیجئے فقط والسلام 
جواب خط 
رسول اللہ ﷺ نے سنہ ۶ہجری میں دعوت اسلامی کا دائرہ وسیع کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس کے لیے آ پ ﷺ نے عرب وعجم کے حکمرانوں کوآٹھ دعوتی خط لکھے۔ آپ نے جن حکمرانوں کے پاس یہ خطوط ارسال فرمائے تھے۔ ان میں ایک ثمامہ بن اثال حنفی تھا۔ ثمامہ کو اہم حکمرانوں میں شامل کرنا اور اس کے یہاں دعوتی خط روانہ کرنا حیرت انگیز اور قابل تعجب ا س لیے نہیں تھا کہ وہ نہایت بااثر اور اہم شخصیت کا مالک تھا۔ وہ دور جاہلیت میں عرب کا ایک حکمران قبیلہ بنو حنیفہ کا ایک سربرآوردہ رئیس اور علاقہ یمامہ کے ان بادشاہوں میں سے تھا جن کی کوئی بات ٹھکرائی نہیں جاتی تھی۔
جب ثمامہ کے پاس رسول اللہ ﷺ کا قاصد پہنچاتو اس نے اس کے ساتھ نہایت توہین آمیز غیر ذمہ دار انہ رویہ اپنایا۔ جھوٹے پنداراور جاہلانہ غرور نے اس کو گناہ پر جمادیا اور اس نے دعوت حق سے اپنے کان بند کرلیے ، پھر شیطان اس پر سوار ہوگیا، وہ رسول اللہ ﷺ پر بے خبری کی حالت میں اچانک حملہ کرکے آپ ﷺ کا کام تمام کردینا چاہتا تھا اور اپنے اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے وہ کسی مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ ثمامہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے ارادہ قتل سے باز آگیا لیکن وہ آپ کے صحابہ کو قتل کرنے کے ارادے سے دست بردارنہیں ہوا ، وہ برابر ان کی تاک میں لگا رہا، آخر کار وہ چند صحابہ پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا اور ان کو نہایت دردناک طریقے سے شہید کرڈالا ۔ اس وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے صحابہ میں اس بات کا اعلان فرمادیا کہ وہ جہاں کہیں ملے، قتل کردیا جائے، صحابہ کے قتل اور نبی کریم ﷺ کے اس اعلان کے کچھ ہی دنوں بعد ثمامہ نے عمرہ ادا کرنے کا ارادہ کیا اور اس ارادے سے وہ اپنے علاقے یمامہ سے مکہ کی سمت روانہ ہوا ، وہاں پہنچ کر وہ کعبہ کا طواف اور اس میں رکھے ہوئے بتوں کے لیے قربانی کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اپنے اس سفر کے دوران وہ مدینہ کے قریب ایک راستے سے گزرتے ہوئے اچانک ایک ایسی آفت میں پھنس گیا جس کا اسے وہم وگمان تک نہیں تھا۔ ہوا یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے کچھ مسلمانوں پر مشتمل ایک فوجی دستے نے جو اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں کوئی شرپسند رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کرمدینہ کے باشندوں کو نقصان نہ پہنچادے ثمامہ کو دیکھا اور گرفتار کرلیا(حالانکہ ان میں سے کوئی بھی اسے پہچانتا نہ تھا)اور اس کو مدینہ لائے اور اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا اور اس بات کا انتظار کرنے لگے کہ رسول اللہ ﷺ بہ نفس نفیس اس قیدی کے حالات سے واقفیت حاصل کرکے اس کے بارے میں کوئی فیصلہ صادر فرمائیں گے۔ جب رسول اللہ ﷺ گھر سے مسجد کی طرف آئے اوراس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو آ پ کی نظر ثمامہ پر پڑی جو ستوں سے بندھا ہوا تھا۔آپ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:’’جانتے ہوتم لوگوں نے کس کوگرفتار کیا ہے؟‘‘
صحابہ کرام نے عرض کیا : نہیںاے اللہ کے رسول ﷺ ہم اس سے واقف نہیں ہیں۔
’’یہ قبیلہ بنی حنیفہ کا سردار ثمامہ بن اثال ہے ۔ اس کے ساتھ سلوک سے پیش آنا ۔ ‘‘آپ ﷺ نے قیدی کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا۔ پھر آپ واپس گھر تشریف لے گئے اور گھر والوں سے کہاکہ ’’تمہارے پاس جو بھی کھانا ہو، اسے جمع کرکے ثمامہ بن اثال کے پاس بھیج دو۔‘‘پھر آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ ’’میری اونٹنی کا دودھ صبح وشام دوھ کر اس کو پیش کیا جائے۔‘‘پھر آپ ثمامہ کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے خیال سے اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے پوچھا کہ ’’ثمامہ!تمہارا کیا خیال ہے؟ تم ہماری طرف سے کس قسم کے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟‘‘
’’میں آپ کے متعلق اچھا گمان اور آپ سے اچھے برتائو کی امید رکھتا ہوں لیکن اگر آپ میرے قتل کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایک ایسے شخص کو قتل کرائیںگے جو قتل کا مجرم ہے ، اور اگراحسان کرکے مجھے چھوڑ دیں تو ایک احسان شناس کواپنا ممنون کرم پائیں گے اور اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تووہ بھی فرمائیے، جتنا مال چاہیں گے ، دیا جائے گا۔‘‘اس نے جواب دیا۔
اس گفتگو کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ثمامہ کو اس کے حال پر چھوڑ ا اور دوروز تک اس سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ اس دوران اس کے پاس حسب معمول کھانے پینے کی چیزیں اور اونٹنی کا دودھ برابر پہنچتا رہا۔ دودن بعد رسول اللہ ﷺ پھر اس کے پاس تشریف لائے اور وہی سوال کیا۔’’ ثمامہ !تمہار کیا خیال ہے تم ہم سے کس قسم کے سلوک کی توقع رکھتے ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا۔’’میرے پاس کہنے کی وہی باتیں ہیں جو اس سے پہلے میں کہہ چکا ہوں ، اگر آپ میرے اوپر احسان کرتے ہیں تو ایک ایسے شخص پر احسان کریں گے جو اس کی قدر پہچانتا ہے اور اگر میرے قتل کا فیصلہ کرتے ہیں تو آپ کا یہ فیصلہ حق بہ جانب ہوگا کیونکہ میں آپ کے آدمیوں کو قتل کرکے ان کا مستحق قرارچکا ہوں۔ اور اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تو بتائیے، جو چاہیں گے آپ کو پیش کردیا جائے گا۔‘‘
اس موقع پر بھی آ پ ﷺ نے اس سے مزید کچھ نہیں کہا بلکہ اس کو چھوڑ کر چلے گئے۔ البتہ اگلے روز آپ ﷺ پھر اس کے پاس گئے اور پھر وہی سوال دہرایا۔’’ثمامہ تم کو ہماری طرف سے کس طرح کے برتائو کی امیدہے؟‘‘
اوراس نے بھی ھسب سابق وہی جواب دیا۔’’اگر آپ میرے اوپر احسان کرتے ہیں توا یک احسان شناس شخص پر احسان کریں گے اور مجھے قتل کرادیتے ہیں تومیں اس کا مستحق ہوں، اور اگر آپ کو مال کی ضرورت ہوتو فرمائیے آپ کو مطلوبہ مال میں آپ کو پیش کردوں۔‘‘
اس سوال وجواب کے بعد رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’ثُمامہ کو رہا کردو!‘‘اور حسب ارشاد اس کی زنجیریں کھول دی گئیں۔ رہائی پاکر ثمامہ مسجد سے نکلا اور مدینہ کے باہر بقیع کے قریب واقع کھجوروں کے ایک باغ میں گیا جس میںکنواں تھا، اپنی سواری کو اس کنویں کے پاس بٹھا کر اس کے پانی سے خوب اچھی طرح غسل کیا اور پاک صاف ہوکر پھر اسی راستے سے چل کر مسجد میں واپس آگیا، اس نے مسجد میں مسلمانوں کی ایک مجلس کے قریب پہنچ کر بہ آواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا پھر رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوکر بولا۔’’اے محمد!خدا کی قسم ! روئے زمین پر کوئی چہرہ میرے نزدیک آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض اور قابل نفرت نہ تھا مگر اب یہ مجھے ہر چہرے سے زیادہ محبوب ہے، اور خدا کی قسم ! آپ کے دین سے زیادہ قابل نفرت میرے نزدیک کوئی دین نہ تھا ، لیکن اب یہ مجھے تمام ادیان سے زیادہ پسندیدہ ہے ، اور خداکی قسم!آپ کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ میرے نزدیک کوئی دوسرا شہر نہ تھامگر اب آپ کا یہ شہر مجھے تمام شہروں سے زیادہ پسند ہے۔‘‘
تھوڑی دیر رک کر پھر بولے۔’’میں نے آپ کے کچھ ساتھیوں کو قتل کیا ہے ، اس کی تلافی کے لیے آپ میرے اوپر کیا عائد کرتے ہیں؟’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ثمامہ اس سلسلے میں تمہارے اوپر نہ قصاص ہے نہ دیت کیونکہ اسلام نے تمہاری تمام سابقہ زیادتیوں اور غلط کاریوں کا حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے۔‘‘
پھر آپ ﷺ نے اسلام لانے کی وجہ سے جنت کی خوشخبری دی، ان کا چہر ہ فرطِ مسرت سے چمک اٹھا۔ کہنے لگے کہ’’ خدا کی قسم! میں نے آپ کے جتنے صحابہ کو قتل کیا ہے اس سے کئی گناہ تعداد میں مشرکین کوقتل کروں گا اور اپنی ذات کو، اپنی تلوار کواور ان لوگوں کو جو میرے ماتحت اور ہم نوا ہیں، آپ کی اور آپ کے دین کی نصرت وتائید کے لیے وقف کرتا ہوں۔‘‘
قدرے توقف کے بعد پھر کہا:’’اے رسول اللہ ﷺ !آپ کے سواروں نے مجھے اس وقت گرفتار کیا تھا جب میں عمرہ کی نیت سے نکلا تھا توآپ کے خیال میں اب مجھے اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے ؟ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم مکہ جاکر عمرہ اداکرلو۔مگر یہ عمرہ اب تم اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق اداکرو گے ۔‘‘پھر آپﷺ نے مناسک حج اور افعال عمرہ کی تعلیم دی۔
حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوئے، جب بطن مکہ میں پہنچے تو وہیں کھڑے ہوکر بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا شروع کردیا:
لبیک اللٰھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک انّ الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک
میں حاضر ہوں!خدایا میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں ، بے شک ساری تعریفیں اور تمام نعمتیں تیرے لیے ہیں اور اقتدارتیرا ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
وہ دنیا کے سب سے پہلے مسلمان تھے جو تلبیہ پڑھتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے قریش کے لوگ ناگہانی اور غیر متوقع آواز کو سن کر سہم گئے اور غضبناک ہو کر دوڑے ، انہوںنے اپنی تلواریں بے نیام کرلیں اور آواز کی طرف لپکے تاکہ اس شخص پر ٹوٹ پڑیں جو ان کے کچھار میں گھس آیا تھا۔ وہ لوگ ثمامہ کی طرف بڑھے تو انھوں نے تلبیہ کی آواز اور تیز کردی۔ وہ ان کی طرف نہایت لاپرواہی اور بے خوفی کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ ایک قریشی جوان نے تیر چلا کر انھیں شہید کرنا چاہا مگر دوسروں نے اس کو یہ کہتے ہوئے ایسا کرنے سے روک دیا کہ ’’تیرا برا ہو، جانتا ہے یہ کون ہے؟یہ یمامہ کا بادشاہ ثمامہ بن اثال ہے۔ اگر تم نے اس کو کو ئی نقصان پہنچایا تو ا س کے قبیلے والے ہمارے یہاں غلے کی برآمد روک کر ہم کو بھوکوں ماردیں گے۔’’پھر وہ لوگ اپنی تلواریں میان میں کرکے حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے اور ان سے بولے ’’ثمامہ ! یہ تم کو کیا ہوگیاہے؟ کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟او ر تم نے اپنے اور اپنے آبائو اجداد کا دین ترک کردیاہے؟‘‘
’’نہیں! میں بے دین نہیں ہوا ہوں، بلکہ میں نے سب سے اچھے دین محمد ﷺ کے دین کی پیروی اختیار کرلی ہے۔‘‘ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا، اس کے بعد انھوں نے کہا:’’اس گھروالے کی قسم ! میرے واپس جانے کے بعد یمامہ کے گیہوں کا ایک دانہ اور وہاں کی پیداوار کا کوئی حصہ اس وقت تک تمہارے یہاں نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ تم سب سے کے سب محمد ﷺ کا اتباع نہ اختیار کرلو۔‘‘
حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ نے قریش کی آنکھوں کے سامنے رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمرہ کے ارکان ادا کیے ، انھوںنے غیر اللہ اور بتوں کے لیے نہیں، خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے قربانی کے جانور ذبح کیے اور اپنے وطن لوٹ آئے، واپس آکر انھوں نے اپنے قبیلہ والوں کو قریش کے یہاں غلے کی سپلائی روک دینے کا حکم دیا، قبیلہ والوں نے ان کے اس حکم کی تعمیل کی اور اہل مکہ کے یہاں اپنی پیداوار کی سپلائی بند کردی۔
اقتصادی پابندی جو ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے قریش کے خلاف لگائی تھی، بتدریج سخت سے سخت تر ہوتی چلی گئی، اس کے نتیجے میں غلے کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا، لوگوں میں فاقہ کشی عام ہوگئی ، اور ان کی تکلیف اورپریشانی زیادہ بڑھ گئی اور جب نوبیت یہاں تک پہنچی کہ ان کو اپنے بال بچوں کی بھوک سے مرجانے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا تو انھوںنے رسول اللہ ﷺ کو لکھا۔
ہم آپ کے متعلق پہلے سے یہ بات جانتے ہیں کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور دوسروں کو تاکید کرتے ہیں مگر اس وقت ہم جس صورت حال کا سامنا کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ آپ نے ہمارے ساتھ قطع رحمی کا طرز ِ عمل اختیار کررکھا ہے ، آپ نے ہمارے باپوں کو تلوار سے قتل کیا، اور بیٹوں کو بھوکوں ماررہے ہیں۔ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے غلے کی برآمد پر پابندی لگا کر ہمیں سخت تکلیف اور پریشانی میں مبتلا کردیا ہے ۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کو لکھ دین کہ وہ غلہ وغیرہ پر عائد پابندی ختم کردے ۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا کہ وہ قریش کے خلاف پیداوار کی برآمد کی لگائی ہوئی بندش ختم کردیں، چنانچہ انھوں نے آپ کے حکم کے مطابق وہ پابندی اٹھائی اورقریش کے یہاں کی سپلائی جاری کردی۔
حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ زندگی بھر اپنے دین کے وفادار اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کے پابند رہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور اہل عرب اجتماعی اور انفرادی طور پر اللہ کے دین سے نکلنے لگے اور مسیلمہ کذاب نے بنو حنیفہ میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرکے انھیں اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دینی شروع کی تو حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ اس کے سامنے ڈٹ گئے، انھوں نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ ’’بنو حنیفہ کے لوگو!خبردار اس گمراہ کن دعوت کو ہرگز قبو ل نہ کرنا جس میں نور ہدایت کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ خدا کی قسم! یہ شقاوت وبدبختی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ان لوگوں پر مسلط کیا ہے جو اسے اختیار کریں ، اور زبردست امتحان وآزمائش ہے، ان لوگوں کے لیے جو اس سے انکار کریں۔’’انہوں نے مزید فرمایا:’’بنو حنیفہ والو!ایک وقت میں دونبی نہیں ہوسکتے محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے ، نہ ان کی نبو ت میں کسی کو شریک کیا گیا ہے۔‘‘
{حٰم تنزیل الکتاب من اللہ العزیز العلیم غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول لا الٰہ الا ھو الیہ المصیر}(سورۃ مومن :آیت۳۱)
’’حٰم اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے، جو زبردست ہے، سب کچھ جاننے والا گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سخت عذاب دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے ۔ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ، اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے۔‘‘
پھر فرمایا کہ کہا ں اللہ کا یہ عظیم کلام اور کہاں مسیلمہ کذاب کا قول:
یاضفدع نقی ماتنقین لاالشراب تمنعین ولا الماء تکذبین
’’اے مینڈک! تم جتنا چاہو ٹر ٹر کرتے رہو، اپنی اس ٹرٹر سے نہ تم پانی پینے سے روک سکتے ہو، نہ پانی کو گدلا کرسکتے ہو۔‘‘
پھر وہ اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو لے کر الگ ہوگئے جو اسلام پر ثابت قدم رہ گئے تھے اور راہ خدا میں جہاد اور اس کے دین کو زمین پر غالب کرنے لیے مرتدین کے ساتھ جنگ وقتال میں مشغول ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہترین جزادے اور اس جنت سے نوازے جس کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے۔
اور ہم کو بھی جنت الفردوس میں داخل فرمائے۔آمین۔

No comments:

close