Masjid+Ke+Fazail+wa+Ahkam - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Monday, September 23, 2019

Masjid+Ke+Fazail+wa+Ahkam









مسجد کے آداب

مسجدیں ،اللہ کے گھر ہیں ا س کے دربار ہیں۔دربارِ شاہی کے کچھ اداب ہوتے ہیں، ان آداب کی خلاف ورزی کرنے والا گستاخ سمجھا جاتا ہے، اور ان آداب کی رعایت رکھنے والا بادشاہ کا مقرب بھی ہوتا ے اور اس کے کام بھی بنتے ہیں ،اور اس کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ قرآن وحدیث میں مساجد کے آداب واحکام بیان ہوئے ہیں کہ مساجد میں کیا کرنا ہے اور کن چیزوں سے احتیاط کرنا ہے۔ ہماری جماعتیں عام طور پر سے ان آداب کا خیال نہیں رکھتی ہیں۔اس لیے تفصیل سے آداب ِ مسجد بیا ن کیے جاتے ہیں،تاکہ جماعتوں میں جانے والے ان اداب کا خاص خیال رکھیں۔
٭ خدا کی نظر میں روئے زمین کا سب سے بہترین حصہ وہ ہے جہاں مسجد تعمیر ہو، خدا سے پیار رکھنے والے کی پہچان یہ ہے کہ وہ مسجد سے بھی پیار رکھے۔قیامت کے خوفناک دن میں خدا اس شخص کو اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائیں گے جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو۔ 
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ سبعۃ یظلھم اللہ فی ظلّہٖ یوم لا ظل الا ظلہ وفیھم رجل قلبہ معلق فی …
ترجمہ:۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سات قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کے سائے میں رکھیں گے ، جس دن کہ اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا ان ہی میں ایک وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے۔
٭ فرض نمازیں ہمیشہ مسجد میں جماعت سے پڑھیے ، مسجد میں جماعت اور اذان کا باقاعدہ نظم رکھیے اور مسجد کے نظام سے اپنی پوری زندگی کو منظم کیجئے ۔مسجد ایک ایسا مرکز ہے کہ مؤمن کی پوری زندگی اس کے گرد گھومتی ہے۔
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ : ان للمساجد اوتاد الملائکۃ جلسائوھم ان غابوا یفتقدونھم ،وان مرضواعادوھم،وان کانوافی حاجۃ عانوھم، وقال رسول اللہ ﷺ جلیس المسجد علی ثلاث خصال: اخٌ مستفاد او کلمۃمحکمۃ اورحمۃ منتظرۃ۔(رواہ احمد)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیںجو لوگ کثرت سے مسجد میں جمع رہتے ہیں وہ مسجدوں کے کھونٹے ہیں ، فرشتے ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں ، اگر وہ مسجدوں میں موجود نہ ہوں تو فرشتے انھیں تلاش کرتے ہیں ، اگر وہ بیمار ہو جائیں تو فرشتے ان کی مدد کرتے ہیں۔آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا وہ مسجد میں بیٹھنے والا تین فائدوں میں سے ایک فائدہ حاصل کرتا ہے۔ بات سننے کو مل جاتی ہے یا اللہ کی رحمت مل جاتی ہے جس کا ہر مسلمان کو انتظار رہتا ہے۔
٭ مسجد کو صاف ستھرا رکھیے ، مسجد میں جھاڑو دیجئے ، کوڑا کرکٹ صاف کیجئے ، خوشبو سلگائیے۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان امرء ۃ سودآء کانت تقم المسجد ففقدھا رسول اللہ ﷺ ،فسأل عنھا بعد ایام، فقیل لہ انھا ماتت فقال فھال آذنتمونی ، فاتیٰ قبرھا فصلیٰ علیھا۔(متفق علیہ)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو لگاتی تھی، حضور ﷺ نے کچھ دنوں تک اس عورت کو نہیں پایا ، تو اس کے بارے میں سوال کیا ، حضور سے کہا گیا کہ اس کا انتقال ہوگیا ہے ، تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے خبر کیوں نہ دی ، حضور ﷺ اس کی قبر پر آئے اور نماز پڑھی۔
وعن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت : امرنا رسول اللہ ﷺ ببناء المساجد فی الدّور، وان تنظّف وتطیّب 
(رواہ احمد وترمذی)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں ، کہ حضور اکرم ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائیں، مسجدوں کو صاف ستھرا رکھیں اور مسجدوں میںخوشبو سلگائیں۔
٭ مسجد میں سکون سے بیٹھئے اور دنیا کی باتیں نہ کیجئے ۔ مسجد میں شور مچانا ، ٹھٹھا مذاق کرنا ، بازار کا بھائو پوچھنا اور بتانا ، دنیا کے حالات پر تبصرہ کرنا اور خرید وفروخت کا بازار گرم کرنا مسجد کی بے حرمتی ہے۔ مسجد خدا کی عبادت کا گھر ہے ، اس میں صرف عبادت کیجئے ۔ اسی طرح مسجد میں ایسے چھوٹے بچوں کو نہ لے جائیں جو مسجد کے احترام کا شعور نہ رکھتے ہوں ۔ اور مسجد میں پیشاب ، پاخانہ کریں یا تھوکیں۔ اسی طرح مسجد میں تیر اور تلوار نہ نکالیں ۔
عن واثلۃ بن الاسقع ان البنی ﷺ قال : جنبوا مساجد کم صبیانکم ومجانینکم وشرآء کم وبیتکم وخصوماتکم ورفع اصواتکم واقامۃ حدود کم وسل سیوفکم …(ابن ماجہ باب یکرہ فی المسجد)
ترجمہ:حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسجدوں سے دور رکھو،(یعنی مسجدوں میں نہ لے جائو) اپنے بچوں کو ، مجنونوں کو ، خریدوفروخت کو ، جھگڑون کو ، شور وغل کو ، حدود قائم کرنے کو اور تلواروں کے نکالنے کو۔
٭ مسجد میں تھوکنے سے احتیاط کرو۔
عن انس رضی اللہ عنھا قال قال رسول اللہ ﷺ : البصاق فی المسجد خطیئۃو کفارتھا دفنھا۔
(رواہ البخاری ومسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضو رﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور (اگر تھوک دیا تو) اس کا کفارہ اس تھوک کو صاف کرنا ہے۔
٭ اگر آپ کی کوئی چیز کہیں باہر گم ہوجائے تو اس کا اعلان مسجد میں نہ کیجئے۔
عن ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال : اذا رأیتم من ینشد ضالۃ فی المسجد فقولا الاردھا اللہ علیہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ مسجد میں اپنی گمشدہ چیز کا اعلان کررہا ہے تو اس کو بد دعا دو اور کہو کہ اللہ یہ چیز تجھے واپس نہ کرے۔
٭ مسجد کو گزرگاہ نہ بنائیے، مسجد کے دروازے میں داخل ہونے کے بعد مسجد کا یہ حق ہے کہ آپ اس میں نماز پڑھیں یا بیٹھ کر ذکر وتلاوت کریں۔
٭ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پائوں رکھیے اور نبی کریم ﷺ پر درود وسلام بھیجئے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:’’جب تم میں سے کوئی مسجد میں آئے تو پہلے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے اور پھر یہ دعا پڑھے:
اللھم الفتح لی ابواب رحمتک:(مسلم)
اے خدا !میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
اور مسجد میں داخل ہونے کے بعد دورکعت نفل پڑھیئے،اس نفل کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں، اسی طرح جب کبھی سفر سے واپسی ہوتو سب سے پہلے مسجد پہنچ کر دورکعت نفل پڑھیے ، اور اس کے بعد اپنے گھر جائیے ،نبی کریم ﷺ جب بھی سفر سے واپس ہوتے تو پہلے مسجد میں جاکر نفل پڑھتے اور پھر اپنے گھر تشریف لے جاتے ۔
٭ مسجد سے نکلتے وقت بایاں پائوں باہر رکھئے اور یہ دعا پڑھیئے: اللّٰھم انی اسئلک من فضلک(مسلم)
اے خدا !میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔
٭ مسجد میں باقاعدہ اذان اور نماز باجماعت کا نظم قائم کیجئے ۔ اور مؤذن اور امام ان لوگوں کو بنائیے جو اپنے دین واخلاق میں بحیثیت مجموعی سب سے بہتر ہوں ۔ جہاں تک ممکن ہوکوشش کیجئے کہ ایسے لوگ اذان اور امامت کے فرئض انجام دین جو معاوضہ نہ لیں ، اور اپنی خوشی سے اجر آخرت کی طلب میں ان فرائض کو انجام دیں۔
٭ اذان کے بعد یہ دعا پڑھیں ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا مانگی ، قیامت کے روز وہ میری شفاعت کا ھق دار ہوگا۔ 
اللھم رب ھٰذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ القائمۃ آت محمدن الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاماً محمود انِ الذی وعدتہ (البخاری)
ترجمہ: اے اللہ! اس کامل دعوت اور اس گھڑی ہونے والی نماز کے مالک محمد ﷺ کو اپنا قرب اور فضیلت عطا فرمااور ان کو اس مقام محمود پر فائز کر جس کا تونے ان سے وعد ہ فرمایا ہے۔
٭ مؤذن جب اذان دے رہا ہو تو اس کے کلمات سن سن کر آپ بھی دہرائیے البتہ جب وہ ’’حی علی الصلوٰۃ ‘‘ اور حی علی الفلاح ‘‘کہے تو اس کے جواب میںکہیے: لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم‘‘ اور فجر کی اذان میں جب مؤذن ’’الصلوٰۃ خیر من النوم ‘‘کہے تو جواب میں یہ کلمات کہیے : صدقت وبررت
 ٭ تکبیر کہنے والا جب ’’قد قامت الصلوٰۃ ‘‘ کہے تو جواب میں یہ کلمات کہے : ’’اقامھا اللہ وادامھا‘‘خدا اسے ہمیشہ قائم رکھے۔
٭ ہوشیار بچوں کو اپنے ساتھ مسجد لے جائیے ، مائوں کو چاہیے کہ وہ ترغیب دے دے کر بچوںبھیجیں تاکہ بچوں میں شوق پیدا ہواور مسجد میںان کے ساتھ نرمی کے ساتھ نہایت ، محبت اور شفقت کا سلوک کیجئے۔
٭ مسجد میں ڈرتے لرزتے جائیے اور داخل ہوتے وقت السلام علیکم کہیے اور خاموش بیٹھ کر اس طرح ذکر کیجئے کہ خدا کی عظمت وجلا ل آپ کے دل پر چھایا ہوا ہو، ہنستے بولتے غفلت کے ساتھ مسجد میں داخل ہونا، غافلوں اور بے ادبوں کا کام ہے ، جن کے دل خدا کے خوف سے خالی ہیں۔ بعض لوگ امام کے ساتھ رکوع میں شریک ہونے اور رکعت پانے کے لیے دوڑتے ہیں، یہ مسجد کے احترام کے خلاف ہے، رکعت ملے نہ ملے ، سنجیدگی ، وقار اور عاجزی کے ساتھ مسجد میں چلیے اور بھاگ دوڑ سے پرہیز کیجئے۔
٭ مسجد میں نماز کے لیے ذوق وشوق سے جائیے ، نبی کیرم ﷺ نے فرمایا :جولوگ صبح کے اندھیرے میں مسجد کی طرف جاتے ہیں قیامت میں ان کے ساتھ کامل روشنی ہوگی، اور یہ بھی فرمایا ،نماز باجماعت کے لیے مسجد میں جانے والے کا ہر قدم ایک نیکی کو واجب کرتا اور ایک گناہ کو مٹاتا ہے(ابن حبان)
٭ بعض لوگ مساجد میں اپنے موبائل چارج کرتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے ، کیونکہ مسجد کی تمام چیزیں موقوفہ ہیں، اور اس طرح کی حرکت خیانت ہے، اگر چارج کرنا ضروری ہو تو مسجد کے اطراف سے کسی دوکان میںچارج کرلیں اور اگر مسجد ہی میں چارج کرلیا تو اندازہ سے اتنی رقم مسجد میں دے دے ۔ اسی طرح مسجد میں داخل ہونے سے پہلے موبائل بند کردیں، اس لیے کہ اس کی گھنٹی سے نمازیوں کی نمازوں میں خلل واقع ہوگا۔
٭ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص باوضو فرض نماز کے لیے چل کر مسجد جاتا ہے اس کا ثواب محرم حاجی کی طرح ہوتا ہے اور جو چاشت کی نماز کی غرض سے چل کر جاتا ہے اور صر ف چاشت کی نماز کا ارادہ ہی اس کو کھڑا کرتا ہے، اس کا ثواب عمرہ کرنے والے کے ثواب کے برابر ہوتا ہے۔ اور (ایک)نماز علیین میں لکھ دی جاتی ہے۔ بغوی اور طبرانی نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے حدیث مذکور ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے جو شخص فرض نماز کے لیے پیدل چل کر مسجد گیا تو یہ نماز نفل حج کی طرح ہوگی، اور جو شخص نفل نماز کے لیے پیدل چل کر گیا تو یہ نماز نفل عمرہ کی طرح ہوگی ۔( تفسیر مظہری ،جلد ۸،صفحہ ۳۸۲)
٭ اذان واقامت سننے کی حالت میں نہ کلام کرے اور نہ سلام کرے اور نہ سلام کا جواب دے (یعنی مناسب نہیں ہے اور خلاف اولیٰ ہے)۔ اذان اور اقامت کے وقت قرآن شریف بھی نہ پڑھے اور اگر پہلے سے پڑھ رہا ہے تو پڑھنا چھوڑ کر اذان یا اقامت کے سننے اور جواب دینے میں مشغول ہو یہ افضل ہے اور اگر پڑھتا رہے تب بھی جائز ہے،اگر اقامت کے وقت دعا میں مشغول ہوتو مضائقہ نہیں ۔
(فضائل اذان واقامت ، مصنفہ عبد الرحمن ہاشمی)

No comments:

close