eid+Milad+un+nabi - Roshan Worlds

knowledge islamic quotes articles poims islamic education tips and tricks apps and games for pc android apps latest news for information technology

google Search

Sunday, November 10, 2019

eid+Milad+un+nabi







شانِ رسالت وبعثت صلی اللہ علیہ وسلم

قَال النَّبِی صَلَّی عَلَیْہِ وَسَلَّم إنَّمَا بُعثْتُ رَحْمَۃً ،وَلَمْ أبْعَث لعّاناً(صحیح مسلم : ج:۴،صفحہ:۲۰۰۶،رقم:۲۵۹۹ باب النھی عن لعن الدواب وغیرھا) ۔
وَقَال النَّبی صَلیَّ عَلَیْہِ وَسَلَّم إنَّمَا بعثْتُ مُعَلِّماً ۔( صحیح مسلم : ج:۲،صفحہ:۱۱۵۶،رقم:۱۴۷۸ باب بیان التخییر امراتہ لایکون طلاقا الابالنیۃ)
وَقَالَ النَّبِیّ صَلَّی تَعَالٰی عَلِیْہٖ وَسَلِّمْ بُعثْتُ لأتمّم مَکَارِم الأخْلاق ۔أوْکَمْا قَالَ عَلَیْہ السَّلَام(سنن الکبریٰ للبیھقی : ج:۱۰،صفحہ:۱۹۱،باب بیان بیان مکارم الاخلاق ومعالبھا)

 حرف  آغاز
                        اس وقت میں نے نبی کریم ﷺ کی تین حدیثیں آپ حضرات کے سامنے پیش کی ہیں۔ ان تینوں احادیث میں تین بنیادی مقاصد ارشاد فرمائے گئے ہیں۔ پہلی حدیث میں نبی کریم ﷺ کی بعثت کی شان بیان فرمائی گئی ہے۔ کہ آپ کس رنگ کے ساتھ مبعوث کئے گئے۔ کون سی شان لے کر آپ دنیا میں تشریف لائے۔ تو ایک بعثت کی شان اور اس کی صفت کا تذکرہ فرمایاگیا ہے۔ دوسری دو روایتوں میں آپ ﷺ کی بعثت کی غرض و غایت بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ کو کیوں مبعوث کیاگیااور وہ کیا مقاصد تھے جن کو لے کر آپ دنیا میں تشریف لائے۔اس تقریر کا موضوع دو اجزاء پر مشتمل ہے۔ پہلا جز شان بعثت کہ آپ کا رنگ کیا ہے؟ دوسرا جز یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے کیا مقاصد متعین تھے؟ وہ جبھی صحیح طور پر سامنے آ  سکیں گے جب ان کی اصل اور بنیاد پر روشنی ڈالی جائے، اس واسطے ابتدا میں بطور تمہید کے میں چند کلمات گزارش کروں گا اس کے بعد احادیث کی تفسیر ان کا موضوع اور ان کا معنی انشاء اللہ واضح ہو جائیں گے۔
کلمات تمہید
                        حق تعالیٰ شانہ، سارے کمالات کا سر چشمہ ہیں۔ ساری برکات اور ساری نعمتیں انہی کی ذات میں ہیں۔ انہوں نے دنیا میں تمام نعمتوں کو بھیجا۔حق تعالیٰ کی صفات دو قسم کی ہیں۔ ایک جلالی صفات ہیں اور ایک جمالی۔ جلالی صفات جیسے شان قہر، شان غضب، شان انتقام یہ تمام جلالی صفات کہلاتی ہیں۔ اور جمالی صفات جیسے رزاقی، انعام و اکرام اور تربیت۔ یہ تمام جمالی شانیں کہلاتی ہیں، غرض صفات خداوندی   دو نوع میں منقسم ہیں۔ ایک جلالی شانیں اور ایک جمالی شانیں ہیں۔
                         جمالی شانوں کا سر چشمہ رحمت ہے۔ اور جلالی شانوں کاسر چشمہ غضب ہے تو ساری صفات مل کر دو نوع میں آجاتی ہیں، ایک رحمت کے نیچے ایک غضب کے نیچے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ:
                                                ’’میری  رحمت میرے غضب پر غالب ہے‘‘۔
                        حدیث میں ہے کہ عرش عظیم کے اوپر اللہ نے ایک لوح رکھی ہوئی ہے جس کی بڑائی زمینوں اور آسمانوں کے برابر ہے، اس پر ان رحمتی سبقت غضبی(۱)میری رحمت میرے غضب کے اوپر غالب ہے میری رحمت  میرے غضب پر سابق ہے، جب رحمت اور غضب کامقابلہ ہوتا ہے تو رحمت آگے آگے چلتی ہے اور غضب پیچھے رہ جاتا ہے، تو عرش عظیم کے اوپریہ بطور دستاویز کے لکھ کر رکھ دیاہے۔

تخت شاہی            
 عرش عظیم وہ تخت شاہی ہے ۔ احکام خداوندی عرش سے جاری ہوتے ہیں جس کو فرمایاگیا:
{ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرَش یُدَبِّرُ الامْر۔}(۲)
’’کہ تمام امور کی تدبیر عرش سے ہوتی ہے۔ اس لئے عرش تخت شاہی ہے اور ساری کائنات اس کے نیچے  ‘‘۔
                        اس کائنات کو دیکھا جائے یہ زمینیں، آسمان، جنتیں ان سب سے اوپر جاکر عرش کا سلسلہ ہے تو مخلوقات عرش تک جا کے ختم ہو جاتی ہیں۔ عرش کے اوپر کسی مخلوق کا وجود نہیں ہے، بجز اس تختی کے جو اوپر رکھی گئی ہے، جس پر لکھ دیاگیا ہے کہ۔

دستاویز ِرحمت                        
                        انَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غْضَبِی۔صرف اس مخلوق کے سوا اوپر تجلیات ربانی  ہیں۔ اور صفات الہیہ کا وہ مرکز ہے تو عرش عظیم گویا پایہ تخت خداوندی ہے جس سے دنیا میں تدبیر امر ہوتی ہے اور احکام چلتے ہیں۔ اس عرش پر رحمت کو غالب کردیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام احکام میں رحمت کا غلبہ ہے ۔ اور اللہ نے اپنے بندوں سے جو تعلق قائم فرمایا ہے وہ شان رحمت سے قائم کیاہے، اگر کہیں شان غضب سے تعلق قائم کرتے تو مخلوق کا وجود باقی نہ رہتا ۔ مخلوق  پامال ہو جاتی، غضب اور قہر کے سامنے کیا چیز ٹھہر سکتی تھی تو بندوں سے جو رشتہ قائم فرمایا وہ صفت رحمت سے قائم فرمایا صفت غضب سے نہیں۔
                         غضب تو تنبیہ کرنے اور سزا دینے کے لئے ایک وقتی چیز ہے لیکن دوامی چیز جو تمام باتوں پر چھائی ہوئی ہے وہ رحمت کی شان   ہے۔ اسی واسطے فرمایا گیا:{الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ۔}
                        ’’رحمن عرش کے اوپر چھا گیا‘‘۔ اور عرش ساری کائنات پر چھایا ہواہے اور عرش کے اوپررحمن چھایا ہوا ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ساری کائنات پر رحمن شان رحمت سے چھایا ہوا ہے۔ یعنی ساری کائنات کے اوپر رحمت غالب ہے، یہ نہیں فرمایا کہ:
                        الجبار علی العرش استوی یا
                          القہار علی العرش استوی۔ 
اس کا مطلب یہ ہوتا کہ کائنات پر غضب چھایا ہوا ہے، اگر غضب چھایا ہوا ہوتا تو کائنات کا وجود ہی باقی نہ رہتا بلکہ  الرحمن علی العرش استوی رحمن عرش کے اوپر چھایا ہوا ہے یعنی صف رحمت عرش کے اوپر چھا گئی ۔ اور عرش ساری کائنات کے اوپر چھایا ہے۔
                         حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ عرش پوری کائنات پر اس طرح سے ہے جس طرح ایک قبہ ہوتاہے جس طرح خوان بنا کر اس کو آپ خوان پوش سے ڈھانپ دیں اور وہ سارے خوان پر چھا جائے۔ اس طرح سے پوری کائنات پر مثل قبہ کے چھایا ہوا ہے اور ا س پر رحمت چھا گئی ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ رحمت ساری کائنات پر چھا گئی ہے۔ تو رحمن عرش پر چھا گیا اور عرش کے اوپر دستاویز لکھ کر رکھ دی کہ میری رحمت  میرے غضب کے اوپر غالب ہے۔

 محل عرش             
                         پھر عرش کو کس چیز پر قائم کیا؟ حدیث میں بھی موجود ہے اور قرآن کریم میں بھی فرمایا گیا ہے:
                        {وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَائ}(۱)
                        ’’ عرش کو پانی کے اوپر قائم کیا ہے‘‘۔
                        حدیث میں ہے کہ وہ ایک عظیم سمندر ہے، جس کی ایک ایک موج زمینوں اور آسمانوں کے برابر ہے اس سمندر پر عرش قائم ہے اگر رحمت کو مجسم بنایا جائے تو پانی کی شکل اختیار کرے گی۔ جس طرح غضب کو اگر جسم دیا جائے تو وہ آگ کی صورت بن جائے گا۔
                         جب کوئی شخص مہربان ہوتا ہے۔ اور رحم و کرم کرتاہے تو کہا کرتے ہیں کہ فلاں شخص پانی پانی ہوگیا۔ یعنی اس پر شان رحمت غالب  آگئی۔ اور محبت غالب آ گئی اور اگر کوئی غضب ناک ہوتا ہے اور غصہ میں ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ فلاںآدمی آگ بگولہ ہو گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ غضب کو آگ سے مناسبت ہے اور  رحمت کو پانی سے نسبت ہے تو عرش کو اللہ تعالیٰ نے پانی کے اوپر قائم فرمایا۔ اگر آگ پر قائم فرماتے تو معلوم ہوتا کہ غضب زمین ہے اس کے اوپر عرش کو قائم کیا۔ پانی کے اوپر قائم کیا اور پانی شان رحمت کی صورت مثالی ہے تو گویا عرش کے نیچے بھی رحمت ہے اور اوپر بھی رحمت ہے، عرش پانی پر قائم ہے اور پانی شان رحمت کی صورت ہے۔ تو عرش رحمت کے اوپر قائم ہوا۔ عرش پر رحمٰن چھا گیا یعنی صفت رحمت چھائی ہوئی ہے، عرش کے اوپر تختی لکھ کر رکھ دی کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے تو دستاویز بھی رحمت کی ہے گویا عرش کے اوپر بھی رحمت نیچے بھی رحمت۔

 قیامت میں غلبہ رحمت                       
                         حدیث میں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ نے اپنی شان رحمت سے سو رحمتیں عالَموں کے لئے پیدا فرمائیں۔ جن میں ایک رحمت اس دنیا میں اتاری ہے۔ اس رحمت کا اثر ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں پر رحم کھاتے ہیں جانور اپنے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ دوست دوست پر رحم کرتا ہے۔ عزیز عزیزوں پر رحم و کرم کرتے ہیں۔ یہ صرف ایک رحمت کا اثر ہے، اور اللہ تعالیٰ بھی اپنی مخلوق پر رحم و کرم فرماتا ہے۔ رزق دے رہا ہے بارشیںآرہی ہیں نعمتیں مل رہی ہیں۔ یہ سب ایک رحمت کا اثر ہے، ننانویں رحمتیں جو ہیں ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ اپنے عرش کے نیچے چھپا کر رکھی ہوئی ہیں۔ قیامت کے دن ایمان والوں پر وہ رحمتیں کی جائیں گی تو اندازہ کیا جائے کہ قیامت کے دن کتنی رحمتیں ہونگی جب ایک ہی رحمت کا اثر یہ ہے جو پوری دنیا میں نمایاں ہے تو ان ننانوے رحمتوں کے آثار کیاہوں گے جو قیامت کے دن ایمان والوں پر کی جائیں گی۔حیلوں پر مغفرت کی جائی گی۔ ذرا ذرا سے بہانے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نجات دی جائے گی۔ گناہ گاروں پر شفقتیں کی جائیں گی، وہ ننانویں رحمتیں وہاں کام آئیں گی۔ تو حاصل یہ نکلا کہ عرش کے اوپر بھی رحمت، نیچے بھی رحمت، پانی رحمت کی صورت مثالی اور ننانویں رحمتیں عرش کے نیچے چھپائی ہوئی ہیں۔ تو عرش گویا رحمت سے ڈھانپا ہوا ہے۔ اوپر سے نیچے تک رحمت ہی رحمت چھائی ہوئی ہے۔ اور  الرحمن علی العرش استوی اور اللہ شان رحمت سے  عرش کے اوپر چھا گیا ہے تو ساری کائنات پر رحمت غالب ہے۔

شان رحمت کا اثر               
                         اور اس شان رحمت کا اثر شان ہدایت ہے، اللہ کی رحمت متوجہ ہوئی تو بندوں کی ہدایت کا سامان کیا۔ بندوں کے لئے راہنمائی فرمائی کہ خیر کی طرف چلیں اور شر سے بچیں۔ بھلائی کی طرف آئیں اور برائی سے اپنے آپ کو بچائیں۔
                         یہ اسی شان رحمت کا اثر ہے، اگر بندوں کے اوپر رحمت و  شفقت نہ ہو تو بھلائی کی طرف راہنمائی کیوں کریں ؟ اگر کسی سے دشمنی کا تعلق ہو تو دشمن کو کون اچھا راستہ دکھلاتا ہے۔ جی چاہتاہے کہ یہ اورجا کے جہنم میںجھک جائے جلدی سے ہلاک ہو۔ جب دشمن ہی ٹھہرا، دوست کو راہنمائی کی جاتی ہے کہ کسی برائی میں مبتلا نہ ہو۔ ماں  باپ اپنے بچے کے دوست ہوتے ہیں اس کی راہنمائی کرتے ہیں کہ بیٹا یہ کام   کرو اور یہ مت کرو۔ یہ تمہارے لئے بھلائی کی بات ہے اور یہ برائی کی بات ہے۔ یہ رحمت و شفقت ہی کا اثر ہوتا ہے استاد اگر اپنے شاگردوں کو پڑھاتا ہے تو اسی شان ِ شفقت کا اثر ہوتا ہے اگر استادکو طالب علموںسے دشمنی ہو جائے وہ طالب علموں پر کیوں محنت کرے گا؟ نہ کتاب پڑھائے گا نہ راہنمائی کرے گا نہ مسائل بتائے گا تو شفقت اور رحمت کا اثر ہوتا ہے۔ جو راہنمائی کی جاتی ہے۔ سب سے بڑا رحمت کا ظہور ہدایت ہے کہ سیدھی اور بھلائی کی راہ بتلا دی جائے۔

سب سے بڑی دعاء
                           اسی شان ہدایت کے تحت حق تعالیٰ شانہ، نے انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا۔ وہ اللہ کی ہدایت ہیں جو اسباب کے ذیل میں نمایاں ہیں۔ انبیاء علیہم السلام کا ہدایت کرنا یہ اللہ کا ہدایت کرنا ہے۔ یہ اس کی رحمت کا ظہور ہے۔ تو ہدایت سب سے بڑی چیز ہے
                         سورہ فاتحہ جس کوقرآن عظیم فرمایا گیاہے اور نماز کی ہر رکعت میں اس کو پڑھا جاتا ہے اس سورہ کا نام سورۃ المسئلہ بھی ہے، یعنی سوال کرنے کی سورت ۔ اس میں سوال کیاگیا ہے؟ 
{اھدنا الصراط المستقیم}(۱)’’ ہدایت دے دیجئے سیدھے راستہ کی‘‘۔
یہ ہے سب سے بڑی دعاء جو سورۂ  فاتحہ میں منگوائی گئی ہے۔
                         سورۂ فاتحہ کی ابتدا میں حق تعالیٰ شانہ، کی صفات کا ذکر کیاگیا ہے ۔ کہ وہ رب العلمین ہے۔ رحمن و رحیم ہے۔ مٰلک یوم الدین ہے معبود ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ آگے بندگی کی شان فرمائی گئی ہے کہ بندہ کا کام یہ ہے کہ معبود کے آگے جھکے ، بھیک مانگے ، سوال کی دعا یہ بتلائی گئی کہ  اھدنا الصراط   المستقیم۔ گویا بندے مکلف اور مامور کئے گئے ہیں کہ پانچوں نمازوں میں یہ دعا کریں۔ جب  فاتحہ پڑھیں گے یہ دعا آئے گی۔ فرائض کے بعد سنتیں پڑھے تو پھر فاتحہ کے ذریعہ یہ دعا مانگے۔ نفلیں پڑھے یا تہجد پڑھے یہ دعا مانگے غرض جتنی نمازیں فرض،  واجب، سنت اور نفل، یہ دعا سب میں لازم ہوگی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑی اہم دعا ہے، ہدایت کا مانگنا کوئی بہت اہم چیز ہے۔
                         بظاہر ایک سوال ہوتا ہے کہ فاتحہ جس کو سورۃ المسئلۃ کہا گیاہے۔ اس میں کوئی ذرا اونچی دعا منگوائی جاتی کہ یا اللہ! ہمیں جنت عطا کردیجئے ، یا اللہ ہم سے راضی ہو جائیے اپنی رضا عطا کردیجئے، ہمیں اپنے عرش کے سائے میں جگہ دیدیجئے یہ تو معمولی سی دعا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ساری دعائوں کی جڑ  بنیاد یہی دعاء ہے اس واسطے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدھا راستہ دکھلا دیجئے تو جب سیدھا راستہ مل گیا تو  آدمی اس پر چل پڑا۔ رضا خود بخود حاصل ہوگئی۔ بے راہ روکو رضا حاصل نہیں ہوتی سیدھے راستہ پر پڑ گئے تو جنت خود بخود حاصل ہو گئی ، بے راہ چلتے تو جنت نہ ملتی سیدھے راستہ پر پڑ گئے تو جنت خود بخود حاصل ہوگئی ، بے راہ چلتے تو جنت نہ ملتی سیدھے راستہ پر چل پڑے تو عرش کے سائے میں بھی جگہ خود بخود مل گئی ۔ اگرا ٓدمی بد راہ ہوگا۔ عرش کا سایہ نہیں ملے گا، تو جتنی بڑی سے بڑی دعا ہو سکتی تھی، اور جتنا بڑے سے بڑا مقصد ہو سکتا تھا وہ سب اس دعا سے حل ہوتاہے اصل میںہدایت ہے، ہدایت ہوگئی تو رضا بھی ملی جنت بھی ملی عرش کاسایہ بھی ملا اور انبیاء علیہم السلام کی مرافقت بھی ملی۔ ساری نعمتیں دستیاب ہوگئیں۔ اور اگر خدانخواستہ ہدایت نہ ملے تو نہ جنت نہ عرش اگر آدمی ضلالت اور گمراہی پرہوتو کہیں سے کوئی نعمت دستیاب نہیں ہوسکتی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ سب سے بڑی نعمت ہدایت ہے۔ اس لئے سورہ فاتحہ میں دعا منگوائی گئی کہ ہدایت کی دعامانگو کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھلا دیجئے دل کی کلیں درست ہو گئیں ، دل کا راستہ درست ہوگیا، تو دنیا و آخرت کی ہر نعمت مل گئی۔

ثمرئہ دعا ء
                        حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ:
                        انَّ فی الْجَسَد مُضْغَۃ اذا صلحَتَ صلح الجَسَد کُلّہ  واذا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَد کلہ۔ الاوھی القلب۔                     
                        انسان کے بدن میںگوشت کاایک لوتھڑا ہے جو صنوبری شکل کا ہے، اگر وہ درست ہے توسارا انسان درست ہے اگر وہ غلط ہے تو  سارا انسان غلط ہے اور وہ گوشت کالوتھڑا ’’دل‘‘ ہے اگر دل درست ہے تو سارا انسان درست ہے اور اگر دل خراب تو سارا انسان خراب ہے۔ اور دل کب درست ہوتاہے جب دل کی کلیں درست ہوں، دل کاراستہ درست ہو دل میں ہدایت موجود ہو، دل میں ضلالت اور گمراہی موجود  نہ ہو، تب دل درست ہوتاہے، تو سارے انسان کی درستگی قلب کی ہدایت پر موقوف نکلی ۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کوئی بہت بڑی عظیم نعمت ہے اس لئے یہاں دعا منگوائی گئی کہ:{اھدنا الصراط  المستقیم۔}’ ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت دے دیجئے ‘‘۔
اور وہ صراط مستقیم کونسا ہے؟صراط الذین انعمت علیھم۔’’جن پرا ٓپ نے انعام کیا  ان کا  راستہ‘‘۔ اور وہ کون ہیں جن پر انعام کیاگیا؟ وہ  انبیاء علیہم السلام، صدیقین، شہداء اور صلحاء ہیں تو ان کا راستہ مطلوب ہے۔
                         غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔ جن پر آپ کا غضب و قہر نازل ہوا ان کا اور گمراہوں کاراستہ ہمیں نہیں چاہئے۔ ان کا راستہ چاہئے جن پرآپ کا انعا م ہوا وہ آپ کی رحمت کے نیچے ہیں۔
 تو سب سے بڑی دعا جو فاتحہ میں منگوائی گئی وہ  ہدایت کی دعا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت اتنی بڑی نعمت ہے کہ ساری نعمتیں اس کے تابع ہیں اور ضلالت سب سے بڑی گمراہی ہے کہ ساری مصیبتیں اس کے تابع ہیں۔ اس لئے فاتحہ جو قرٓن کریم کا خلاصہ ہے اس میں ہدایت کی دعاء رکھی گئی جو فاتحہ کا خلاصہ ہے، تو سارے قرآ ن کا خلاصہ ہدایت نکل آتی ہے۔

نعمتِ عظمیٰ         
                          اسی واسطے سورہ  بقرہ سے جب قرآن کریم کا آغاز کیا گیا اور کہا گیا کہ:
                        {:ذالِک الکتبُ لا رَیْبَ فِیْہ}(۱)’’  وہ کتاب ہے جس میں کوئی کھٹکا نہیں ‘‘۔
                          اس کی شان یہ فرمائی گئی کہ: {ھُدی  لِلْمُتَّقِیْن۔}’’ یہ کتاب متقین کے لئے ہدایت ہے ‘‘۔ یہ تو سب سے بڑی نعمت کتاب اللہ ہے، کتاب اللہ کی سب سے بڑی نعمت جو بنیاد ہے وہ ہدایت ہے۔ تو فاتحہ میں ہدایت مانگی گئی ہے۔جو حق تعالیٰ شانہ، کی رحمت عرش پر چھائی ہوئی ہے۔
                         اور رحمت کا سب سے بڑا اثر یہ ہے کہ بندوں کی ہدایت کا سامان کردیا۔ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام وہ ہدایت لے کر آئے۔ انبیاء  علیہم السلام کا بھیجا جانا خود مستقل ایک انعام نکلا۔ اس سے بڑھ کر عالم میں کوئی نعمت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر انبیاء علیہم السلام دنیا میں نہ  آئیں، آدمی کو آدمی بننا میسر نہیں ہوسکتا ، انسان کو انسان انبیاء علیہم السلام نے بنایا ہے۔ ورنہ انسان تو ۔ گھوڑوں اور ڈنگروں کا ایک مجموعہ ہے، جو آپس میں ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے کو دوڑتاہے۔ ایک دوسرے کے درپے آزار ہوتا ہے۔ جانور، جانور کے ساتھ وہ بدسلوکی نہیں کرتا، جو انسان انسان کے ساتھ کرتا ہے، تو انسان اگر انسانیت پر نہ آئے تو سب سے بڑا درندہ یہ ہے۔ سب سے خونخوار غضبناک بھی یہ ہے اس کو جو جانور کی حد سے نکال کر انسانیت میں داخل کیا ہے وہ انبیاء علیہم السلام ہی نے تو کیاہے انہی کی تعلیمات کاتو اثرہے کہ آدمی آدمی بنتا ہے، جب ان کی تعلیمات کسی جگہ ختم ہو جاتی ہیں، وہیں انسان گھوڑوں اور ڈنگروں میں شامل ہو جاتے ہیں ، جہاں تعلیمات آئیں وہیں آدمیت آجاتی ہے، تو آدمی کی آدمیت ہدایت پر موقوف ہے۔ اور ہدایت انبیاء علیہم السلام کے آ نے پر موقوف ہے۔ تو نبیوں کا آنا ایک عظیم نعمت نکلی۔ اور کل انبیاء علیہم السلام میں سے بھی سب سے بڑی نعمت جناب رسول ﷺ کا مبعوث ہونا ہے کہ آپ خاتم النبیین ہیں، افضل الانبیاء ہیں۔ اور افضل البشر ہیں۔

نبی الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم
                        حتیٰ کہ انبیاء علیہم السلا م کی نبوتوں کافیض بھی درحقیقت نبوّت محمدّ ی سے چلا ، حدیث میں آ پ فرماتے ہیں کہ:
                         انا نبی الانبیائ۔’’ میں نبیوں کا نبی ہوں‘‘۔
 اور انبیاء امتوں کے نبی ہیں۔ اسی واسطے انبیاء علیہم السلام پر لازم کیاگیاہے کہ وہ نبی کریم ﷺ پر ایمان لائیں، انبیاء کرام سے عہد لیا گیا:
                        {واذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جا ء کم رسول  مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ۔}(۱)
’’یاد کرو اس وقت جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب وہ رسول عظیم الشان آئے جن کو بھیجنا ہے۔ اور تمہیں میں نبوت اور کتاب دے دوں اور پھر وہ رسول آئیںگے تو تم اس کے اوپر ایمان لائو۔ اور اس کی مدد کرو۔ اگر تم میں سے کوئی اس کا زمانہ پائے تو خود مدد کرے۔ ورنہ اپنی اقوام کوہدایت کرو کہ وہ خاتم النبیین کی مدد کریں ‘‘۔
اس نبی کی کیا شان ہوگی ؟ مصدق لما معکم۔ وہ رسول عظیم، جو کچھ تمہیں علم دیا گیاہے، اس کی تصدیق کرنے والا ہوگا۔

 جامع الہدایات                      
                        تصدیق ، اس کی دلیل ہوتی ہے کہ جس چیز کی وہ تصدیق کرتا ہے وہ اس کے اندر موجودہے۔ جس علم کی تصدیق کوئی کرے گا تو پہلے اس کاعلم ہونا چاہئے۔ جاہل تصدیق نہیں کر سکتا ، عالم تصدیق کرے گا، تو سارے انبیاء علیہم السلام کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ جو علم سارے انبیاء کو دیا گیا تھا وہ علم اس نبی عظیم میں موجودہو گا تو آپ تمام علوم انبیاء کے جامع ہوں گے۔ اس لئے آپ سارے انبیاء کی تصدیق کریںگے ، جو کچھ جسے ملا ہے میں کہتا ہوں کہ وہ حق ہے وہی سچ ہے ۔ یہ وہی کہہ سکتا ہے جس کے پاس حق موجود ہو۔ وہ علم اس کے پاس موجود ہو تو جناب نبی کریمﷺ خاتم النبیین اور جامع العلوم بنائے گئے تو اگر انبیاء کا دنیا میں آنا رحمت ہے تو خاتم النبیین کا ا ٓنا سب سے زیادہ رحمت ہے۔ جو جامع ترین نعمت لے کر آئے۔ اگر اور انبیاء علیہم السلام مختلف رنگوں کی ہدایت لے کرا ٓئیں تو آپ ساری ہدایتوں کا مجموعہ بن کرآئے۔ تو خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ ا ٓپ جامع الہدایات ہیں۔ جامع العلوم اور جامع الکمالات ہیں تو ایک ایک کمال کا آنا اگر نعمت اور  رحمت ہے تو سارے کمالات کے مجموعے کا آنا سب سے بڑی نعمت ہے۔ تو جناب رسول اللہ ﷺ کا آنا نعمت ہوگی اور سب سے بڑی نعمت  آپ کی بعثت ہوگی۔

 افضل الشئون   
                        اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو شان ہوگی وہ ساری شانوں سے افضل ہوگی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم ہیں تو خاتم الشئون بھی ہونگے ، ساری شانیں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوں گی ، تو جامع ترین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہونی چاہئے۔
                         تمام انبیاء علیہم السلا م حق تعالیٰ کے کمالات کا مظہر بن کرا ٓئے ہیں ، نبی کریم ﷺ جامع الکمالات ہیں اس لئے حق تعالیٰ شانہٗ کے کمالات کا مظہر اتم ہیں تو حق تعالیٰ شانہٗ کی شانیں جس قوت اور کمال کے ساتھ آپ میں آئی ہیں ،دوسروںمیں نہیں آئیں۔

شان نبوی  ﷺ میں غلبہ رحمت                
                        ابھی آپ نے سنا کہ حق تعالیٰ شانہ ٗکی شان یہ ہے کہ ان کی تمام صفات دو نوع میں ہیں۔ صفات جمال اور صفات جلال۔صفات جمال کامنشاء رحمت ہے اور صفات جلال کا منشا غضب ہے۔ اور رحمت اللہ کے غضب پرغالب ہے ۔تو جو اکا سب سے بڑا مظہراتم ہے اس میں بھی رحمت ہی غالب ہو نی چاہئیے اس لئے آپ کی شا ن فرمائی گئی کہ:
                        { وما ارسلنٰک الا رحمۃ اللعلمین۔}(۱) 
                        جیسے اللہ کے ہاں شان رحمت غالب ہے تو خاتم النبیین میں بھی ساری شانیں ہیں مگر سب پر جو شان غالب ہے تو وہ رحمت کی شان ہے آپ کو رحمت مجسم بنا کر بھیجاگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ:
                         انا رحمۃ مھداۃ۔(۲)         
میں ایک رحمت ہوں جوبطورہدیہ کے مخلوق کو دی گئی ہوں۔ یعنی میں اللہ کا ایک ہدیہ ہوں جو مخلوق کو عطا کیا گیا ، ایک تحفہ ہے جو اللہ نے بنی آدم کے لئے بھیجا ہے۔ اور وہ میں ہو۔ اور میں کون ہوں؟ رحمۃ مھداۃ     ایک رحمت مجسم ہوں جس کوبطور ہدیہ کے عطا کیاگیا۔ تو اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے عظیم ہدیہ بھیجا۔ وہ ہدیہ رحمت ہے۔
                         تو جیسے حق تعالیٰ شانہ، فرماتے ہیں کہ میری شانوں میں رحمت کی شان غالب ہے یہی بات نبی کریم ﷺ میں بھی ہے کہ آپ پر شان رحمت کا غلبہ ہے۔ شان غضب غالب نہیں ہے۔ جب آپ حق تعالی شانہ ٗکے نمائندے اور مظہر ہیں۔ تو شان غضب بھی موجود ہے۔ اس غضب کا اثر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں حدود بھی ہیں۔ قصاص بھی ہیں۔ کفارات بھی ہیں۔ تعزیرات اور سزائیں بھی ہیں۔ جہاد بھی ہے۔ جو شان غضب کا مظہر ہیں۔ مگر ان سب کے اندر بھی اگر غلبہ ہے تو شان رحمت کا غلبہ ہے۔ غضب بھی چلتا ہے تو وہ بھی رحمت ہی سے چلتا ہے۔
                         اگر باپ بچے کومارتا بھی ہے۔ اس کامنشاء دشمنی نہیں ہوتی۔ محبت منشاہوتی ہے۔ محبت ہی سے مارتا ہے تاکہ اس کو ہدایت ہو۔ حق تعالیٰ شانہٗ بھی اگر کسی فرد یا قوم پر غضب فرماتے ہیں تواس کا منشا رحمت ہوتا ہے۔ تو  نبی کریم ﷺ بھی اگر کسی پر غضب یا غصہ فرمائیں اس کامنشا بھی رحمت ہی ہے ،ہدایت اور تنبیہ اس کا منشا ہوتی ہے۔ تو غضب کا منشا بھی فی الحقیقت رحمت ہے تو رحمت غالب آگئی۔ کہیں بلا واسطہ رحمت کا ظہور ہے۔ کہیں غضب کے واسطہ سے رحمت کا ظہور ہے غضب میں بھی سو رحمتیں چھپی ہوئی ہیں۔دشمن اگر غصہ کرے تو یہ غصہ ہے اور باپ اگر غصہ کرے تو اس کے اندر رحمت چھپی ہوئی ہے۔ دشمنی چھپی ہوئی نہیں۔ تو اللہ اپنی کائنات پر اور مخلوق پر ماں باپ سے زیادہ شفیق ہے۔تو اس کے غصہ میں بھی ہزاروں رحمتیں چھپی ہوئی ہیں۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ بھی فرمائیں گے تو اس کا منشاء رحمت اور محبت ہی ہوگا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم شان رحمت اور رحمت مجسم بن کر آئے ہیں۔

 صحابہ رضی اللہ عنہم میں شان رحمت
                        اسی لئے آپ کی شریعت میں رحمت کا غلبہ ہے۔ ایک ایک حکم کے اندر رحمت کا غلبہ ہے، ہر ہر حکم سے معلوم ہوتاہے۔ کہ شفقت ٹپکی پڑتی ہے۔ بندوں کو ہدایت دے رہے ہیں۔ اس میں بھی شان رحمت کا غلبہ ہے۔
 اور یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ جیسے رحمت مجسم ہیں تو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کی تربیت شان رحمت سے ہی فرمائی۔ اس لئے صحابہ رضی اللہ عنہم  کی شان یہ فرمائی گئی کہ:
                        {اشداء علی الکفار رحماء بینھم۔} (۱)
رحمت اور کرم ان کے اندر مخفی ہے، رحمت و کرم کے ان کے اندر رچا ہوا ہے اگر کفار پرشدت ہے تو ان کی ذوات پر نہیں ان کے کفر پر ہے۔ رحمت وہاں بھی چھپی ہوئی ہے کہ کسی طرح  وہ بھی ایمان قبول کرلیں کسی طرح یہ ہدایت پر آجائیں۔

 رحیم اُمت
                         صحابہ میں سے بھی اَجل صحا بہ، اکمل صحابہ رضی اللہ عنہم اور افضل صحا بہ رضی اللہ عنہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اسی لئے حدیث میں فرمایا گیا کہ انبیاء کے بعد اگرکوئی شخصیت ساری کائنات پر افضل ہے تو  وہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ ہیں اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی شان فرمائی گئی:
                        ارحم امتی بامتی ابوبکر(۲)             
                        ’’ صدیق  اکبررضی اللہ عنہ پر رحمت کا غلبہ ہے‘‘۔
                        حدیث میں واقعات آتے ہیں کہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ جب اپنے مکان سے مسجد نبوی کی طرف چلتے تھے گویا دربار خلافت میں پہنچتے تھے تو رحمت کا غلبہ اس درجہ پر تھا۔ اور اس درجہ مخلوق اس رحمت سے آپ کی طرف متوجہ ہوتی تھی کہ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں بچے آپ کے پیچھے ہوتے تھے۔ کوئی کہتا یاابتا اے باپ اور کوئی کہتا کہ اے چچا ، اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ ہیں کہ کسی بچے کو کندھے پر چڑھائے ہوئے ہیں۔ کسی کو گود میں لئے ہوئے ہیں۔ کسی کے سر پر ہاتھ ہے۔ بیسیوں بچے پیچھے  پیچھے ہیں اور امیر المومنین دربار خلافت میں جارہے ہیں۔ یہ رحمت کا غلبہ تھا۔
                        ارحم امتی با متی ابوبکر۔                   
                         سب سے رحیم القلب اور سب سے زیادہ  شفیق صدیق اکبررضی اللہ عنہ کو فرمایا گیا تو اللہ کے یہاں شان رحمت غالب ہے تو سب  سے زیادہ بڑے نائب اور اللہ کے وزیر اعظم جناب نبی کریم ﷺ ہیں ، ان کو رحمت مجسم فرمایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتوں میں جو سب سے زیادہ باکمال ہیں اس کو  ارحم کہا گیا کہ سب سے زیادہ رحیم ہیں۔ تو رحمت اوپر سے لے کر نیچے تک چھائی ہوئی ہے اور رحمت کاایک سلسلہ چلا جو پہلے ا نبیاء میں آیا۔ اکمل ترین حضور ﷺ میں آیا۔سارے صحابہ رضی اللہ عنہم میںآیا کہ رحماء بینھم اکمل ترین صدیق اکبررضی اللہ عنہ میں آیا۔ غرض رحمت غالب ہے اور رحمت کا  سر چشمہ وہ فی الحقیقت ہدایت ہے۔ تو سارے صحابہ رضی اللہ عنہم ہادی ہیں۔
طبقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقدیس         
                        اسی واسطے حدیث  میں فرمایا گیا کہ:اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم(۱)’’ میرے تمام صحابی( رضی اللہ عنہم اجمعین )ستاروں کی مانند ہیں جس کی روشنی میں راستہ طے کرو گے ہدایت پا جائو گے‘‘۔ہر ایک ہادی اور مہدی ہے گویا صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی وہ شان ہے کہ قرآن نے من حیث الطبقہ کسی کو مقدس کہا ہے تو وہ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کا طبقہ ہے اوروں میں افراد کی تعریف کی گئی ہے لیکن طبقے کے طبقے کو مقدس کہنا یہ صرف صحابہ رضی اللہ عنہم کا طبقہ ہے۔
{والسابقون الاولون من المھاجرین  والانصار والذین اتبعوھم  باحسان رضی اللہ عنھم ورضواعنہ}(۲)
                        سابقین اولین مہاجرین ہوںیا انصار ہوں اور جو بعد میں ان کے ساتھ ملتے گئے ان سب کے مجموعے کو کہا کہ اللہ ان سب سے  راضی وہ اللہ سے راضی تو اللہ طبقہ سے راضی۔ افراد کا  نام نہیں لیا کہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ سے راضی یا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے راضی۔
                        منَ اْلمُھَا جِریِن وَاْ لاْنصاَرِ َوَاّلذِینَْ اَّتَبعو ھمُ۔}                        
 مہاجرین اولین ہوں، انصار اولین ہوں یا بعد میں ان کے ساتھ لاحق ہونے والے ہوں۔ سب کو کہاگیا اللہ ان سب سے راضی اور وہ اللہ سے راضی جس طبقے میں  طبقے کی حیثیت سے کھوٹ ہو۔ اللہ کبھی ان سے راضی نہیں ہو سکتا۔ رضا کااعلان دلیل ہے کہ طبقے میں کھوٹ نہیں۔ طبقہ بہت مقدس ہے۔

دوامی رضا کا اعلان
                         پھر رضا کا بھی اعلان کوئی ہنگامی اور وقتی نہیں۔ یہ رضا مندی کااعلان قرآن میں کیاگیا۔ اور قرآ ن قیامت تک باقی رہنے والا ہے۔ اس کا حاصل یہ کہ کوئی دقیقہ بیچ میں ایسا نہیںگزرے گا کہ اللہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ناراض ہو۔ جو رضا ابتدا میں ہے وہی وسط میں ہے ، وہی انتہا میں ہے۔ قیامت تک وہ رضا باقی رہے گی اور قیامت کے بعد بھی رہے گی۔ قیامت کے بعد قرآن اسی طرح موجود ہوگا۔
                         حدیث میں ہے کہ جنت میں حافظ سے کہا  جائے گا کہ: رتل وارتق۔(۳) قرآن پڑھتا جا۔ اور جہاں تک تیری طاقت میں ہے ترقی کرتا جا۔ تو وہاں بھی تلاوت ترقیات کا ذریعہ بنے گی۔ قرآن قیامت تک ختم نہیں ہوگا اس کے بعد بھی قرآن ہی کا دور حکومت ہے، جنت میں بھی قرآن ذریعہ ترقی بنتا جائے گا۔ اور جب تک قرآن ہے رضی اللہ عنھم ور ضوا عنہ۔ کا نعرہ موجود ہے تو مطلب یہ نکلا کہ اب جب صحابہ رضی اللہ عنہم ( نزول قرآن کریم کے وقت) موجود ہیں۔ اب بھی ہم ان سے راضی ، ان کی وفات کے بعد بھی ان سے راضی ، قیامت میں بھی ہم ان سے راضی ، اس کے بعد جنت میں بھی ان سے راضی یعنی ابدالابادتک ان سے راضی ہیں۔ تو جس طبقے کے بارے میں رضا کااعلان کیاجائے کہ علی الاطلاق ہم ان سے راضی ہیں اور وہ علی الاطلاق ہم سے راضی تو وہ طبقہ یقینا بحیثیت طبقے کے مقدس ہے۔ یہ نہیں ہے کہ ایک دو فرد مقدس ہیں۔ باقی میں معاذ اللہ، معاذ اللہ کچھ کھوٹ ہے بلکہ پورا طبقہ مقدس ہے۔

 کتب سابقہ میں شان صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر                                         
                         پھر یہ کتب کہ سابقہ میں حضور ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان بیان کی گئی۔ تو رات میں بیان کی گئی۔ حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی شانیں اور صفات دیکھ کرحضرت موسی علیہ السلام نے خواہش کی اور کہا کہ اے پروردگار! یہ امت مجھے عطا کردیجئے فرمایا گیا کہ یہ امت محمد ہے توحضرت موسی علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھراس امت  ہی میں مجھے داخل کردیجئے۔
                         تو گویا ایسی شان بیان کی گئی کہ انبیاء نے تمنائیں کیں کہ اس ا مت کے ذیل میں ہمیں شمار کرلیا جائے۔ تو اس امت میں سب سے زیادہ مقدس طبقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہے۔تو اس کا حاصل یہ نکلا کہ کتب سابقہ میں بھی اس طبقہ کے مقدس ہونے کی شہادت دی گئی اور قرآن میں شہادت دی گئی تو ازل سے ان کا تقدس چلا اور ابد تک چلتا رہا۔تو اول سے لے کر اخیر تک یہ طبقہ مقدس ہے ۔ اور طبقات کے تو افراد کو نام لے کر مقدس کہا گیاہے یا بلا نام کے۔ا ور اس پورے طبقے کی تقدیس کردی گئی۔

اصنافِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقدیس                                             
                         پھر اس طبقے کے نام لے لے کر قرآن کریم نے الگ تقدیس کی:
                        { لقد رضی اللہ عن المومنین اذیبایعونک تحت الشجرۃ۔}(۱)                             
اللہ ان مومنوں سے راضی ہو گیا جن سے آپ نے شجرۃ الرضوان کی بیعت لی ہے۔ حدیبیہ میں بیٹھ کر بیعت لی ،ان سے اللہ راضی۔
                        وہ ڈیڑھ ہزار کے قریب صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ تو ایک صنف بتلائی گئی۔ اس پر پھر رضا کا اعلان کیاگیا۔ تو مجموعہ سے رضا کااعلان اور اسکی اصناف سے رضا کا اعلان۔ اصحاب بدر سے رضا کا اعلان، اصحاب احد سے رضا مندی کا اعلان  پھر پورے رضا کے نیچے آجاتے ہیں۔ پورے صحابہ کی تقدیس و تقدس کا قرآن کریم اعلان کررہا ہے۔ اور شہادت دے رہا ہے۔ یہ اللہ کی شہادت ہے اصل اور مضبوط ترین شہادت ہے تو طبقہ صحابہ رضی اللہ عنہ کو بحیثیت طبقہ مقدس قرار دے دیا گیا۔

مقامات صحا بہ رضی اللہ عنہم کی تقدیس                                           
                         پھر ان کے اعمال کی تقدیس الگ کی گئی ان کے اخلاق کی تقدلیس الگ کی گئی۔ پھر ان کے مقات کومقدس الگ بتلایا گیا۔
  ایک موقع پر فرمایا گیا:
                         {محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم۔}(۲)جو لوگ اللہ کے رسول کے ساتھ ہیں۔ ان کی شان یہ ہے کہ کفر کے بارے میں شدید ہیں اور ایمان  اور مومن کے بارے میں رحیم اور رقیق القلب ہیں یہ ان کے مقامات کو سراہا گیا کہ ان کے قلبی مقامات میں سے دو مقام یہ ہیں کہ ایمان کے روبرو اٹل اور مظبوط اور کفرکے بارے میں بہت شدیدہیں۔ کفر کا چھوٹے سے چھوٹا جزیہ بھی آجائے۔ اس کے سامنے جھک نہیں  سکتے کفر کی ہر چیز کو رد کریں گے ، کفر کی چیز سے رضا مندی کا اعلان نہیں کرسکتے ، تو یہ ان کے قلبی  مقامات کو سراہا گیا آگے فرمایا گیا:

 اعمال صحابہ رضی اللہ عنہم کی تقدیس                        
                        تراھم رکعا  سجدا یبتعون فضلا من اللہ ورضوانا۔ پہلے قلبی مقامات تھے۔ اب بتلاتے ہیںکہ عمل کیا ہے؟
                         جب دیکھورکوع اور سجود میں ہیں۔ اللہ کی رضا اور اس کے فضل کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ جب دیکھو عبادت اور طاعت میں ہیں:
                        {سیما ھم فی وجوھھم من اثر السجود}(۳)جب کوئی ظرف بھر جاتا ہے تو بھر کر چھلکنے لگتاہے۔ بھر کر وہ شی اس کے اوپر آجاتی ہے۔ تو اس درجہ صحابہ کے قلوب میں ایمان بھر چکاہے کہ چھلک کر ان کی پیشانیوں پر نمایاں ہو گیا۔ سجدے کے آثار ان کی پیشانیوں پر ہیں۔ ان کو دیکھ کرہر کوئی سمجھ سکتا ہے کہ ان کی پیشانی ہر وقت اللہ کے سامنے جھکی رہتی ہے۔ ہر وقت یہ حق تعالیٰ کے سامنے ناک رگڑتے ہیں۔ یہ تو عمل بتلا دیا گیا۔
                        ذالک مثلھم فی التوراۃ و مثلھم فی الانجیل۔(۴) ان کی شانیں تو راۃ و انجیل میں بیان کردی گئی ہیںتو پہلے سے انبیاء انہیں سراہتے ہوئے آرہے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام نے ان کو الگ سراہا۔ خاتم الانبیاء ﷺ نے ان کو الگ سراہا۔ حق تعالیٰ نے قرآن میں الگ سراہا اور دوامی رضا کا اعلان کردیا کہ یہ طبقہ  یقینا کھوٹ سے بری ہے۔ نیتوں کی خرابی سے بری ہے۔

 خطاء ِفکری            
                         کوئی اجتہا دی خطا اور غلطی ہو جائے وہ ہو سکتی ہے۔ خطاء اجتہادی تو انبیا سے بھی ممکن ہے۔ و ہ فکری خطا ہوتی ہے اس کو معصیت نہیں کہتے فرق اتنا ہے کہ نبی اگر خطا ء اجتہادی کرتے ہیں تو حق تعالیٰ انہیں فورا صواب تک پہنچا دیتے ہیں۔ غیر نبی اگر خطا اجتہادی کرے وہ اس کے اوپر باقی رہ سکتاہے۔ ضروری نہیں کہ وہ صواب پر آئے۔ مگر اس کی خطا پر بھی اسے ا جر دیاجاتاہے۔ اس لئے کہ وہ فکر کی خطا ہوتی ہے۔ نیت اور ارادے کی خطا نہیں ہوتی۔ صورت عمل کی خطا ہوتی ہے ۔ تو انبیاء علیہم السلام کی نیتیں پاک اور مقدس ہیں۔ اسی طرح سے صحابہ کرام کے بار ے میں بھی فرمایاگیا کہ عمل بھی پاک اورقلبی مقامات بھی پاک ، کوئی ان میں کھوٹ نہیں ہے نیتیں بھی مقدس ہیں، ارادے بھی مقدس ہیں، فکری طور پر یااجتہادی خطا واقع ہو یہ بڑے سے بڑے کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ یہ کوئی معصیت نہیں ، کوئی برائی نہیں۔
                         ا س سے تو زیادہ سے زیادہ مخلوقیت ثابت ہوتی ہے۔علم الٰہی ہے جو ہرقسم کی خطا سے بری ہے لیکن مخلوق کے علم میں خطا کا آجانا ممکن ہے۔ تو مخلوق ہوناتوکوئی برائی کی بات نہیں ہے۔ انبیاء بھی مخلوق ہیں۔ ملائکہ بھی مخلوق ہیں۔ اولیاء بھی مخلوق ہیں تو مخلوق ہوناعیب نہیں ہے۔ تواتناتو ہے کہ وہ بے شک مخلوق ہیں۔ لیکن مخلوق ہونے کے بعد ان کا ظاہر و باطن ان کا قلب و قالب مقدس ہے۔

تقدیسِ قلب        
                        ممکن تھا کوئی یوں کہتا کہ دلوں کے اندر خرابی ہوگی یہ تو ظاہری اعمال ہیں۔ تو قرآن کریم نے اس کا بھی رد کردیا ۔ فرمایا:
                        { اولٰئِک الذین امتحن اللہ قلوبھم للتقوی} (۱)
اللہ نے پہلے ہی ان کے قلوب کا امتحان کرلیا تھا۔  تقویٰ کے معیار پر انکے قلوب کو جانچ لیا تھا۔ یہ پختہ نکلے:
                        {اولِئٰک ھم الراشدون}۔
                        یہ سب کے سب بزرگ اور مقدس ہیں۔ رشد وہدایت لئے ہوئے ہیں۔
                         {فضلاً مِنَ اللّٰہ  وَنِعْمَۃًَ}      
                        ’’ یہ اللہ کی طرف سے اس کافضل ہے اور اس کی بڑی نعمت ہے‘‘۔
                        تو قلب کو الگ سراہا گیا۔ قالب کوالگ سراہا گیا۔ قلبی مقامات، قالب کے افعال کو الگ سراہا گیا اورطبقے کو الگ۔

شرفِ صحابیّت
                         اس وجہ سے اہل السنت و الجماعت کاعقیدہ ہے کہ  الصحابۃ کلھم عدول سارے صحابہ متقن پاکباز اور مقدس ہیں۔ امت میں کوئی بڑے سے بڑا قطب، شیخ ، ولی اور کامل گزرے مگر صحابیت کی گردکو نہیں پہنچ سکتا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جو رفعت مقام ہے۔ وہ بڑے سے بڑے قطب اور غوث کو نصیب نہیں ۔ اس واسطے کہ صحابی وہ ہے جس نے اپنی آنکھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیاہے۔ اپنے کانوں سے بلا واسطہ کلام مقدس کوسنا ہے یہ شرف غیر صحابی کو نصیب نہیں ہو سکتا۔ تو بلاواسطہ آفتاب نبوت کا نور جس طبقے نے لیا ہے۔ جو تیزی  اس میں ہوگی بالواسطہ نور میں وہ تیزی نہیں ہوسکتی۔ وسائط کے سبب سے کچھ نہ کچھ پھیکا پن ضرور آئے گا، سب سے پہلے ایمان کا اثر اور نقش جوپڑاہے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قلب پر پڑاہے بلا واسطہ کسب فیض کیا ، اور فیض صحبت حاصل کیا۔ تو نگاہیں بھی مقدس تھیں ان کے کان اورسماعتیں اور زبانیں بھی مقدس ہوگئیں۔ اور ان کی ترقی قلوب ہوگئی۔
                         ان کی کیفیت یہ ہوگئی کہ انہوں نے اپنی ہر قوت کامصرف یہ سمجھا کہ ان کے ذریعہ اللہ کے رسول کے ساتھ رضامندی کا اظہارکرتے جائیں یہی ان کا دین یہی ان کا ایمان ہے۔

عشق صحابہ رضی اعنہم              
                         حدیث میں ایک واقعہ فرمایاگیاہے کہ نبی کریمﷺ کی جب وفات ہوئی تو ایک صحابی ہیں ، وہ عوام صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے ہیں۔ یعنی خواص میں سے نہیں ہیں کہ فقہاء و علماء صحابہ میں سے ہوں کھیتی باڑی کرتے تھے۔ تو اس دور میں عوام میں تھے مگر صحابی ہیں تو کھیت میں ہل چلا رہے تھے۔ تو کسی خبر دینے والے نے خبر دی کہ نبی کریم  ﷺ کی وفات ہوگئی۔ ایک دم ہل رو ک کر ششدر اور حیران رہ گئے !
                         کہا : وفات ہوگئی ۔؟
                        کہا کہ : ہاں! وفات ہوگئی۔
                         بس ہل چھوڑ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ!
                        ’’ اے اللہ ! یہ آنکھیں اس لئے تھیں کہ تیرے نبی کریمﷺ کا دیدار کریں۔ یہ کان اس لئے تھے کہ تیرے مقدس رسو ل کی آواز سنیں اور جب رسول دنیا میں نہیں تو میری بنیائی بھی ختم کردے اور میر ی سماعت بھی ختم کردے۔ اب میں نہ کسی کاچہرہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ نہ کسی کی  آواز سننا چاہتاہوں‘‘۔
                         مستجاب الدعوات تھے۔ اسی وقت دعا قبول ہوگئی اور اسی وقت نابینا ہوگئے اور اسی وقت بہرے ہوگئے کہ کوئی لفظ سن نہیںسکتے تھے۔ یہ گویاانتہائی محبت تھی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کامصرف دیدار نبوی سمجھا ہوا تھا۔ کانوں کا مصرف یہ تھا کہ حضور ﷺ کی ٓواز سنیں، اور کوئی مصرف نہ تھا۔
                         یہ انتہائی کمال ولایت اورقرب مع اللہ اور نسبت مع النبی ﷺ ہے کہ تمام اعضاء و قوی بدن کی آ خری ۔ غایت ا للہ اور اس کا رسول رہ جائے ، کان ہو ں تو ان کا مصرف یہ ہے کہ اللہ و رسول کی باتیں سنیں، آنکھ ہو تو اس کا مصرف یہ ہو کہ اللہ کے رسول کا دیدار کرے، ہاتھ اس لئے ہوں کہ اس سے اللہ اوررسول کے آثار کو چھوئیں ، قرآن پر ہاتھ رکھیں، حدیث پرہاتھ رکھیں دینی کتابیں اور دینی مکانات پر ہاتھ رکھیں۔ بیت اللہ کے پردوں پر ہاتھ رکھیں گویا ہاتھ کا مصرف یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو چھوئیں جو اللہ و رسول کے نام لگی ہوئی ہیں۔
  وہ کسی عارف نے کہا ہے کہ
نازم بچشم خود کہ جمالِ تو دیدہ است
افتم بپائے خود کہ بکوئے تو رسیدہ است
ہر دم ہزار بوسہ زنم دستِ خویش را
او دامنت گرفتہ بسوئے ام کشیدہ است
                         عارف کہتا ہے کہ مجھے اپنی آنکھ پر ناز ہے۔ مگر اس لئے ناز نہیں کہ میری آنکھ ہے، اس لئے نازہے کہ وہ تیرا جمال دیکھنے والی ہے۔ نہ اس لئے کہ وہ میری آنکھ ہے اس لئے کہ و ہ تیری دیدار کنندہ ہے۔ اور میرا جی چاہتاہے کہ میں اپنے قدموں پر سر رکھدوں۔ اپنے قدموں کی تعظیم کروں نہ اس لئے کہ میرے قدم ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ قدم مجھے تیرے کوچے کی طرف کھینچ کر لے گئے ہیں۔ تیری مسجد اوربیت اللہ کی طرف دینی احکامات کی طرف، دینی چیزوں کی طرف، یہ قدم مجھے کھینچ کر لے گئے ہیں۔ تو میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے قدموں میں اپنا سر ڈالدوں۔ مجھے قدموں سے محبت ہوگئی ہے، یہ تجھ تک پہنچنے کا واسطہ بن گئے ہیں۔
                         اور میرا جی چاہتا ہے کہ ہر دم اپنے ہاتھوں کو چومے جائوں۔ نہ اس لئے کہ میرے ہاتھ ہیں بلکہ اس لئے کہ تیرا دامن پکڑ کر تجھے میری طرف لے آتے ہیں۔ اور قرب کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ تو کمال ولایت یہ ہے کہ آدمی اپنی ہر قوت کو ہرعضو کو ہر ملکے کو حق تعالیٰ تک پہنچنے کا اور اللہ کے رسول تک پہنچنے کا واسطہ بنائے۔ صحابہ میں عوام صحابہ کو یہ مرتبہ نصیب تھا۔ صحابہ کے بعد پچاسوں برس کی محنت اور ریاضت کے بعد کہیں یہ مسئلہ آدمی کے سامنے حل ہوتا ہے کہ میرے جسم اور میری روح کی غرض و غایت اللہ اور اس کا رسول ہے۔ بیسیوں برس کی محنت ترک لذات اور مجاہدوں کے بعد کہیںاس مقام تک پہنچتا ہے۔ مگر صحابہ کی یہ بات ہے کہ عوام صحابہ پہلے ہی قدم پراس مقام تک پہنچ  جاتے ہیں کہ دنیا تو دنیا اگرہماری ذات کا بھی مصرف ہے تو اللہ و  رسول ہے۔ اس کے سوا کوئی چیز نہیں ، غرض اس طبقے کی تقدیس فرمائی گئی۔ اور اس طبقہ کومقدس ترین طبقہ کہاگیا۔

 معیار ایمان و عمل
                           اسی واسطے اہلسنت و الجماعت کا یہ مذہب ہوگیا کہ:
                                                الصحابہ کلھم عدول۔
                        سارے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین متقن، عادل اور پاکباز ہیں
 اور ہماری ہر تنقید سے  بالاتر ہیں۔ ہماری ہر حالت سے اونچے ہیں۔ ہمارا  فرض ہوگا کہ ان کو سامنے رکھ کر اپنے ایمانوں کو پرکھیں۔ اگر ان  کے ایمان کے مطابق ہو جائے تو ہمارا  ایمان درست ہے۔ ورنہ غلط ہے ہم ان کے اعمال کوکسوٹی کے طور پر سامنے رکھیں اگر ہمارا عمل ان کے عمل پر منطبق ہو گیا تو سیدھا۔ ورنہ ہمارے عمل میںکھوٹ ہے وہ ہمارے عمل کے حق و باطل کو پرکھنے اور پہچاننے کے معیار اور کسوٹی ہیں۔ اسی طرح ہمارے ایمانوں کو پہچاننے کا معیار ہیں۔ اس لئے کہ سب سے پہلے جناب نبی کریم ﷺ سے دین کے راوی ہیں اگر ان میں معاذ اللہ کوئی خرابی ہے تو پھر ہمارے دین کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ اگر بنیاد میں خرابی پڑے تو ہم پھر صحیح ایمان نہیں لا سکتے۔ ہمارا ایمان تو انہی کے قدموں کے صدقے ہے اگر وہ صحیح ایمان لائے ہیں توہمارے پاس صحیح ہے اگر انہوں نے کوئی معاذ اللہ غلطی کی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ بعد والوں کے ایمان درست ہوں۔ تو درحقیقت وہ ہمارے ایمان کے پہچاننے کے لئے ایک کسوٹی ہیں۔ ہمارے علم اور عمل کے صحیح اور درست ہونے کے لئے۔ اس  لئے کہ علم کی روایت بھی انہوں نے اللہ کے رسول سے کی ہے۔ اور عمل کی روایت بھی انہوں نے ہی کی ہے۔

اسو ۂ علم و عمل                     
                         نبی کریم  ﷺ کو جیسے یہ فرمایاگیا کہ آپ اللہ کی طرف سے علم لے کرآئے ہیں۔ سچا اور قطعی علم لا کے امت کے سامنے پیش کیا۔ اسی طرح عمل کے نمونے بھی اللہ کی طرف سے آپ ہی لے کر آئے ہیں۔ ان نمونوں کو دیکھ کر امت نے عمل کا نمونہ سیکھا ، اگر علم محض دے دیا جاتا اور عمل کا نمونہ سامنے نہ آتا تو جس شخص کاجیسا جی چاہتا عمل کا نمونہ اختیار کرلیتا۔ نمازکاحکم دے دیا جاتا مگر نمازکا ڈھنگ عمل کرکے نہ بتلایاجاتاتو میںاپنی ڈھنگ کی نماز پڑھتا۔ آپ اپنی روش کی نماز پڑھتے۔ ایک نماز کی لاکھوں نمازیں بن جاتیں۔ لیکن ا کے رسول نے جہاں علم دیا، جہاں نماز کا آرڈر دیا وہاں نماز کا نمونہ بھی دیا۔
اسی واسطے آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ: صلوا اے لوگو! نماز پڑھا کرو۔ یہ فرمایا کہ:
                        صلوا کما رأیتمو نی اصلی۔(۱)
                        ’’ نمازپڑھوجس طرح  مجھے پڑھتے ہوئے دیکھو‘‘۔
یعنی نمازکے صحیح ہونے کا نمونہ میں ہوں اسی ڈھنگ کی پڑھو۔ اسی طرح آپﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ توضئوا ۔ اے لوگو وضو کرلیا کرو۔ جس طرح تمہارا جی چاہے۔ وضو کا آ رڈر بھی دیا اور وضو کرکے بھی دکھلایا کہ یوں کرو۔ ایک دفعہ آپﷺ نے وضو فرمایا تو تمام اعضاء کو ایک ایک دفعہ دھویا۔ فرمایا:
                        ھذا وضوء لا یقبل اللہ الصلوۃ الابہ۔(۱)
                        ’’ یہ  وہ  وضو ہے جس کے بغیر نماز ہی نہیںقبول ہوگی‘‘۔
یعنی اگر ایک دفعہ بھی اعضاء وضو نہ دھوئے جائیں تو وضو نہیں ہوتا تو پھر نماز کیسے ہوتی۔ یہ توو ہ وضو ہے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوگی۔
 اس کے بعد دوبارہ وضو کیا اور ہر عضو کو دو مرتبہ دھویا۔ ہاتھ بھی دو مرتبہ دھوئے ، کلی بھی دو مرتبہ کی ، ناک میں پانی دو مرتبہ اور منہ بھی دومرتبہ دھویا فرمایا کہ یہ وہ وضو ہے جو نورعلی نورہے۔ ایک نور ایک دفعہ دھونے میں دوسرا نور دوسری دفعہ کے دھونے میں۔
 پھر تیسری دفعہ وضو کیا اور اس میں تمام اعضاء وضو کو تین  مرتبہ دھویا اور فرمایا کہ:
                        ھذا  وضوء ی و وضوء الانبیاء من قبلی۔
                        ’’یہ  میرا  وضو ہے اور میرے سے پہلے سارے پیغمبروں کا یہی وضو ہے‘‘
                        تو آپﷺ نے آرڈر نہیں دیا کہ وضو کرو۔ یعنی جیسے تم علم میں مختار نہیں ہو کہ جب چاہو تم اپنی طرف سے گھڑ لو۔ عمل کے نمونے میں بھی آزاد نہیں کہ جیسا چاہو نمونہ بنالو اس میں بھی اللہ کے رسول کی پابندی کرنی پڑے گی۔

 اسوۂ نبی کی احتیاج
(۲)حدیث میں واقعہ  آتا ہے، حضر ت  عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ کا جو صحابی ہیں ، رمضان شریف کے بارے میں آیت نازل ہوئی:
{ کلوا واشربوا حتی  یتبین لکم الخیط  الابیض من الخیط الا سودمن الفجر ثم اتموا الصیام الی اللیل۔}(۳)   
                        فرمایا گیا کہ ۔ کھائو اورپیو جب تک کھل کر نمایاں نہ ہو جائے، سیاہ  ڈور راسفید ڈورے سے یعنی متمیز نہ ہو جائے اور الگ پہچان نہ ہو جائے ،اس وقت تک کھانے پینے کی اجازت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رات جب جانے لگے، سپیدی کاتاگہ جب نمودار ہو جائے اور صبح صادق ہوگئی اب کھانا پینا بند کردو، روزے کی نیت کرلو۔ رات میں کھانے کی اجازت ہے اور جہاں پو پھٹی اب کھانا پینا ممنوع ہوگیا۔
                        تو خیط ابیض یعنی سفید ڈورا صبح صادق کی لکیر کو کہا گیاہے۔ اورسیاہ ڈورا رات کی لکیر کو کہا گیا
                         حضرت عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ نے ایک دوڑا تو سفید رکھا اور ایک ڈورا سیاہ رنگوایا اور تکیہ کے نیچے رکھ لئے اور کھانا پینا جاری  ہے، تکیہ اٹھا کر دونوں کو دیکھ لیتے ہیںکہ جب یہ ڈورے الگ پہچانے جائیں گے، تب کھانا پینا بند کروں گا، تو صبح صادق کب کی ہو گئی ، چاندنا بھی ہوگیا مگر اتناچاندنا نہیں ہوا تھا کہ ڈورے الگ نمایاں ہو جائیں، تو صبح صادق گزرے ہوئے بیس منٹ گزر گئے اور یہ اپنا کھاپی رہے ہیں کہ جب تک ڈورے الگ الگ نمایاں نہیں ہوں گے، کھانے پینے کی اجازت سمجھے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع ہوئی نبی کریم ﷺ کو۔
                        تو آپ ﷺنے عدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا:  تم کیا کرتے ہو؟ روزے کی نیت کب کرتے ہو؟
 انہوں نے عرض کیا  : یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ کھائو پیو جب تک سفید ڈورکی سیاہ ڈورے سے الگ پہچان نہ ہوجائے ۔ یا رسول اللہ میں نے دو ڈورے تکئے کے نیچے رکھ رکھے ہیں، ایک کالا ڈورا ایک سفید ڈورا۔ آپﷺ نے فرمایا:
  ان وسادتک لعریض
’’تیرا تکیہ بڑا لمبا چوڑا ہے‘‘ کہ کالا ڈورا اور سفید ڈورا دونوں تیرے تکئے کے نیچے آ گئے۔یعنی رات اور دن دونوں تیرے تکئے کے نیچے آگئے ، تیرے تکئے کی بڑائی کا کیا ٹھکانہ ہے؟
                         بندۂ خدا ! کالے ڈورے سے مراد رات کی سیاہی ہے اور سفید سے مراد صبح صادق کی لکیر ہے، تو تیرا تکیہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے نیچے صبح صادق بھی آگئی اور رات بھی آگئی ۔ تب واضح ہوا کہ کالے ڈورے سے مراد خداوندی رات ہے اورسفید ڈورے سے مراد خداوندی صبح صادق ہے۔ تو لغت کے لحاظ سے وہ یہ مطلب سمجھے اور لغت کے  لحاظ سے و ہ مطلب صحیح تھا۔ مگر مراد اللہ کی یہ نہیں تھی۔
                         اب اگر اللہ کارسول اس مرادکو بیان نہ فرمائے۔ تو عمر بھر وہ اسی غلطی میں مبتلارہتے ، ایک روزہ بھی ان کاصحیح نہ ہوتا ۔ اس لیئے واضح ہوا کہ قرآن و حدیث میں ایک لغوی معنی ہوتے ہیں اور ایک ارادی معنی جن کا اللہ و رسول نے ارادہ کیاہے۔ ایک اس کا ترجمہ ہے اور ایک اس کا مطلب ہے یعنی  جیسے تم علم میں مختار نہیں کہ جو چاہو اپنی طرف سے گھڑلو۔ عمل کے نمونے میں بھی آزاد نہیں ہو کہ جیسا چاہو نمونہ بنالو۔ اس میں اللہ کے رسول کی پابندی کرنی پڑے گی۔

علم و عمل کی مطابقت                       
                         اسی واسطے قرآن کریم میں جہاں یہ فرمایا گیا کہ یہ قرآن {تبیانا لکل شی }ہے۔ ہر چیز کے لئے یہ تبیان ہے۔ تبیان دعوی مع الدلیل کوکہتے ہیں ، یعنی اس میں احکام بھی ہیں اور احکام کے دلائل بھی ہیں یعنی مدلل دعوئوں اور مدلل مسائل کا مجموعہ ہے۔
 اس طرح سے فرمایا کہ {لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ} (۱) توقرآن نے جتنے علم کے نمونے پیش کئے۔ اللہ کے رسول نے اتنے ہی عمل کے نمونے پیش کئے۔ قرآن میں جو چیز قال کی صورت میں ہے اللہ کے رسول میں وہی چیزحا ل کی صورت میں ہے۔ وہاں قول ہے یہاں عمل ہے توقول اور عمل دونوں مطابق ہیں آپ جو کچھ عمل کرتے ہیں ، قرآن وہی کچھ کہتا ہے ، جو کچھ قرآن کہتا ہے وہی آپ عمل کرتے ہیں۔ تو علم  و عمل کی مطابقت ہے۔

اتباعِ   محض 
                         یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں اختلافات بہت کم  ہیں ، اس لئے کہ جہاں کسی آیت کے مضمون میںانہیں اشکال ہوا وہ اللہ کے رسول کے عمل کو دیکھ لیتے تھے اشکال حل ہو جاتا تھا۔ معلوم ہو جاتا تھا کہ اس علم کا مصداق یہ ہے کہ اس عمل کی ہئیت عمل یہ ہے جو اللہ کے رسول نے کرکے دکھلائی ۔ تو جتنی چیزیں قرآن میں علم کی صورت میں ہیں وہ سب چیزیں رسول اللہ ﷺ میں عمل کی صورت میں ہیں۔ تو آپ نے جہاں یہ فرمایا کہ ’’ یہ کرو اور یہ نہ کرو‘‘ وہیں آپﷺ نے کرکے دکھلا دیا کہ جوکرنے کی چیز ہے اس کی ہیئت یہ ہے اور جو بچنے کی صورت ہے تو بچنے کی یہ ہیئت ہے، تو وضو کرکے دکھلایا ۔ نماز کو کرکے دکھلایا جہاد کو کرکے دکھلایا۔ روزے کو کرکے دکھلایا۔ شادیاں کرکے دکھلائیں کہ یہ نمونہ ہے۔ اور غمی کو کرکے دکھلایا کہ یہ نمونہ ہے ، دوستوں سے یہ معاملہ ہے، دشمنوں سے یہ ہے ، صلح کایہ طریقہ ہے، جنگ کا یہ طریقہ ہے۔ اصول بتلا دیئے اور ان اصولوں کے مطابق اپنے عمل کا نمونہ پیش کر دیا۔
                         تو خلوت ہو یا جلوت ، انفراد ہو یا اجتماع، جماعتی زندگی ہو یا فردی، سب کے عمل کے نمونے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرکے دکھلا دیئے۔ اس واسطے امت کے لئے اتباع ہی اتباع ہوگیا تجویز باقی نہیں رہی تجویز تو تب کریں جب کوئی نمونہ نہ دکھلایا گیا ہو۔ سارے نمونے موجود ہیں آگے اتباع رہ جاتاہے۔ گھڑ نا یا بنانا یا ساخت کرنانہ علم کے درجے میں باقی۔ علم پورے کا پورا  لا کر پیش کردیا۔ شریعت جامع ہے۔ اس شریعت پر پورا  پورا عمل کرکے دکھلایا تو اتباع باقی رہ جاتا ہے، تجویز امت کا کوئی درجہ باقی نہ رہا۔
                          تو حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے سب سے پہلے اتباع کیا ، سب سے زیادہ متبع سنت وہی ہیں۔ سب سے زیادہ متبع شریعت وہی ہیں۔ انہوں نے ہر نمونے کو اللہ کے رسول سے روایت کیا۔ تو قرآن کریم کی عملی روایت بھی صحابہ رضی اللہ عنہم سے چلی اور اس کی روایت بھی صحابہ رضی اللہ عنہم سے چلی۔ عمل بھی کرکے دکھلاتے  رہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پھر تابعین اس کے بعد تبع تابعین۔
  فرائضِ رسالت
                         قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ نبی کریم ﷺ کے چار وظیفے ہیں:
{ ہو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ}(۱)اللہ نے رسول بھیجا۔ اس کی کیاشان ہے؟ اللہ کے رسول نے چار کام کئے ۔ پہلے تلاوت آیات کی یعنی بلا کم وکاست، وحی کے الفاظ جواللہ نے آپ کے قلب مبارک پر نازل کئے پڑھ کر سنادیئے۔ اس کے بعدتعلیم دی۔ تعلیم تلاوت سے الگ ہے ، تلاوت کاتعلق لفظوں سے ہوتاہے۔ تعلیم کاتعلق  معانی سے ہوتا ہے یعنی پہلے  لفظ سنائے، پھر معانی سمجھائے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہے ۔ اس کے بعد پھر تعلیم حکمت کی اور حکمت سے مرادیہاں اسوہ حسنہ ہے یعنی کرکے دکھلایا۔ اس لئے کہ حکمت کی دوقسمیں ہیں ایک حکمت نظری اورایک حکمت عملی۔ حکمت نظری تو تعلیم میں آگئی کہ نظر و فکر کی چیز تھی علمی صورت میں آپ نے بتلا دی، اب عملی صورت رہ جاتی تھی۔ اس کو حکمت سے تعبیر کیا کہ عمل کا نمونہ پیش کردیا توعلم بھی سکھلایا اور عمل کا نمونہ بھی دکھلایا۔

تزکیۂ قلوب           
                         اس کے بعد  چوتھی چیزبتلائی  ویزکیھم  دلوں کے مانجھنا اور ان کوصاف کرنا یہ بھی آپ کا ایک وظیفہ ہے، امت کا تزکیہ فرمانا اور ان نفوس میں استقامت پیدا کرنا۔ زیع کجی اور ٹیڑھ نکال دیں ، فہم کی ایسی سلامتی پیدا کریں کہ جب اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو آدمی، ٹھیک وہ مطلب سمجھے جو اللہ کی مراد ہے۔ دل صحیح راستہ پر پڑجائے۔
                         اس  واسطے کہ اگر د ل میں ٹیڑھ رہ جاتی ہے توصحیح سے صحیح کلام کامطلب بھی ٹیڑھا سمجھتا ہے۔ سمجھ کا دارو مدار دل پر ہے اور دل کا راستہ غلط ہو تو ہر مکتوب غلط ہو جائے گا۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص کے دل میں خدا نخواستہ یہودیت بھری ہوئی ہے وہ قرآن کو پڑھے گا تو ساری آیتوں میں سے یہودیت نکالنا شروع کردے گا، اسے یوں معلوم ہوگاکہ سارا قرآن یہودیت سکھلانے کے لئے آیا ہے۔ نصرانی ذہنیت ہے توہر آیت میں سے اسے نصرانیت نکلتی ہوئی معلوم ہوگی۔ اگر قادیانی ذہنیت ہے تو ہر آیت میں سے اسے قادیانیت نکلتی ہوئی معلو م ہوگی ۔ کوئی اور نظریہ مکتب فکر لے لیجئے۔ جو مکتب فکر بناہوا ہوگا ویسا ہی آدمی ہر آیت ہر روایت سے مطلب سمجھے گا تو سمجھنے کا دارو مدار دل پر ہے۔ اگر دل میں صحیح سلامتی پیدا کی جائے تو آدمی ٹھیک مطلب سمجھے گا اور اگر دل ٹیڑھاہے تو ہر چیز ٹیڑھی ہے۔ تو نبی کریم ﷺ نے فقط تعلیم ہی نہیں دی۔ فقط مطالب ہی نہیں بتلائے بلکہ دلوں کارستہ بھی سیدھا کیا تاکہ سیدھا مطلب سیدھے دل میں اتر جائے گھر کر جائے ۔ اگر دلوں میں ٹیڑھ رہ گئی تویقینا مطلب بھی ٹیڑھا بن جائیگا۔

عمل کی نگرانی  
                         تو آپ نے تزکیہ بھی کیا اور عمل کی نگرانی بھی کی۔ ایک طرف مسائل سکھلائے اور ایک طرف عمل دیکھتے  تھے کہ آیا صحابہ کاعمل اس کے مطابق ہے بھی یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو نگرانی فرماتے تھے۔
                        ۲؎ حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ رات کو آپﷺ نگرانی کرتے ہوئے گھومے تو آپ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے مکان سے گزرے تو صدیق اکبررضی اللہ عنہ تلاوت میں مشغول تھے اور اتنی آہستہ تلاوت کررہے تھے کہ کان لگاکے سنا جائے تو سننے میں آتی تھی ورنہ سننے میں نہیں آتی تھی۔ آپ آگے پہنچے ، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مکان سے گزرے وہ اتنے زور زور سے قرآن پڑھ رہے تھے کہ سارا محلہ گونج رہا تھا۔
                        صبح کو جب یہ حضرات دربار نبوی میں جمع ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا : ا ے ابوبکر! تم اتنا آہستہ کیوں پڑھتے تھے کہ کوئی دوسرا نہ سن سکے‘ کان لگائے تو مشکل سے سننے میں آئے عرض کیا ، یا رسول اللہ میں اسے سنا رہا تھاجو نہ بہرہ ہے نہ مجھ سے غائب ہے یعنی اللہ رب العزت، تو مجھے زور زور سے پڑھنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تو میرے د ل کی کھٹک سے بھی واقف ہے:
                        {وا  علیم بذات الصدور}
’’ مجھے ضرورت نہیں تھی کہ میں زور  زور سے آواز اٹھائوں‘‘۔
                        لا تدعون اصم ولا غائبا۔                
                        تم جو پکار رہے ہو نہ بہرے کو پکار رہے ہو نہ غائب کوپکا ر رہے ہووہ تو ہر وقت حاضر و ناظر ہے۔ اور شنواو بینا اور سمیع و بصیر ہے۔ اس واسطے میں آہستہ پڑھتا تھا۔
                         فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم اتنا زور زور سے کیو ں پڑھ رہے تھے؟
 عرض کیا: اوقظ الو سنان واطردالشیطان             
                        زور زور سے پڑھ کر سوتے ہوئوں کو جگا رہاتھااور شیطان کو بھگا رہاتھا، کہ اس کوچے میں نہ آنے پائے قرآن کی آواز سن کر دور سے بھاگ جائے ۔ تو دونوں کے پاس ایک حجت تھی اور دونوں کے قلب کا ایک مقام تھا۔ اپنے مقام کے مطابق ہر ایک کا عمل سچا اور حق تھا حضور ﷺ نے فرمایا: اے ابوبکر! تم ذرا ٓواز کو پستی سے بلند کردو ۔ اور، اے عمر! تم ذرا رفعت سے پستی کی طرف آئو ۔ تاکہ اعتدال قائم ہو جائے۔ دونوں نقطہ اعتدال پر آجائو۔ ظاہر بات ہے کہ یہ نگرانی تھی۔ یہ قلب کی راہیں درست کرناتھا۔

غرض مجاہدہ        
                         یہ کوئی جائز و ناجائز کا مسئلہ نہیں تھا۔ آہستہ پڑھنا بھی جائز ہے اور پکار کر پڑھنا بھی جائز ہے، یہاں جائز و ناجائز کی بحث نہیں تھی۔ یہاں قلب کو راہ اعتدال پر لانے کی بحث تھی۔ یہ چیز قلبی مقامات سے متعلق ہے ، مسائل سے نہیں بلکہ مقامات باطن سے متعلق تھی تو جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم سکھلایا۔ مسائل بتلائے وہاں دلوں کو مانجھا بھی اور صاف بھی کیا۔ مجاہدے اور ریاضتیں کرا کر اللہ اور اللہ کے  رسول کی محبت بھری۔ تاکہ دنیا کی محبتیں قلب سے نکل جائیں تو کہیں جہاد، کہیں مجاہدہ اور کہیں راتوں کے تہجد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر راتوں کو تہجد میں راسخ القدم بن کے اتنا کھڑے رہتے تھے کہ پیروں پر ورم آ جاتا تھا، یہ محنتیں اور مجاہد ے کس لئے تھے؟ تاکہ نفس کی مرغوبات ختم ہو کر روح کی مرغوبات سامنے آجائیں ، قلب کے اندر محبت الٰہی جاگزیں ہو جائے اورراسخ ہو جائے، اب دنیا کاکام بھی کریں تو اللہ کے لئے کریں ، نفس کے لئے نہ کریں ، تو نفس کی راہوں کو بندکرکے قلب اور روح کی راہیں ان کے سامنے کھول دیں کوئی عمل بند نہیں کیا۔

 فرق عمل               
                         اعمال جو ایک عامی آدمی کرتا ہے ، وہی ایک ولی بھی کرتا ہے، فرق ہوتا ہے قلب کے راستے میں اس کا کرنا لوجہ اللہ ہوتا ہے، اور اس کا لوجہ النفس ہوتا ہے، عمل دونوں کابرابر ہے۔ کھاتا یہ بھی ہے اور ایک ولی بھی کھاتا ہے، بازار میں یہ بھی جاتا ہے اور ایک ولی کامل بھی بازار جاتا ہے، صورت عمل میں تو فرق نہیں مگر نیت عمل اور غرض و غایت عمل میں فرق ہے تو باطن کافرق ہوتا ہے آپ نے قلوب کو صاف کرکے باطن کو مانجھ دیا کہ جو کچھ کریں لوجہ النفس نہ رہے، لِوَجہ اللہ ہو جائے۔ دوستی ہویا دشمنی ،محبت ہو یاعداوت خالص اللہ کے لئے ہو جائے۔

اخلاص عمل       
                         حضرت علی رضی اللہ عنہ کا واقعہ سیر کی کتب میں مشہور ہے کہ آپ نے غزوہ ٔبدر میں ابو جہل کو پچھاڑ دیا اور ارادہ کیا کہ خنجر لے کر اسے ذبح کردیں۔ اس نے غصہ میں آ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے منہ پر تھوک دیا۔ بس خنجر چھوڑ کر کھڑے ہو گئے قتل سے باز آ گئے کہ اب نہیں قتل کروں گا۔
                         ابوجہل نے کہا اے علی! میں تو تم کو دانشمند سمجھتا تھا۔ میں تمہارا بھی دشمن تمہارے رسول کا بھی دشمن، اور تمہارے دین کا بھی دشمن۔ ایک منٹ کے لئے میں نہیں چاہتا کہ تمہارا دین اس دنیا میں باقی رہے۔ تم یا تمہارے رسول باقی رہیں اتنے بڑے دشمن پر قابو پا کر اسے چھوڑ دینا یہ کونسی دانشمندی ہے ؟ تم نے کیوں نہیں مجھے قتل کیا۔
                         فرمایا کہ میں تجھے اللہ کے لئے قتل کرنے بیٹھا تھا۔ میری کوئی ذاتی لڑائی تجھ سے نہیں، کوئی ذاتی بغض نہیں۔ اللہ کی وجہ سے عداوت تھی اور یہ ساری لڑائی بھڑائی اللہ کی وجہ سے تھی۔ جب تو نے میرے منہ پر تھوکا تو میرے نفس میں غصہ پیدا ہوگیا ، اب اگر میں قتل کرتا تو نفسانی جذبات سے قتل کرتا تو میری عبادت شرک میں بدل جاتی۔ میری توحید، توحید باقی نہ رہتی۔ اس واسطے میں قتل سے باز آگیا۔ اس لئے کہ یہ قتل و غارت نفسانی جذبے سے نہیں رحمانی جذبے سے ہے۔ جب نفس میں غضب پیدا ہوگیا۔ تو اب قتل کرنا نفس کی راہنمائی سے ہوتا خدا کی راہنمائی سے نہ ہوتا۔ لوجہ اللہ نہ ہوتا۔ لوجہ النفس ہوتا۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کا جو کچھ عمل تھا وہ اللہ کے لئے تھا۔ نفس کے لئے نہ تھا۔

حقیقت ِولایت                       
                         یہ دولت حضرات صحابہ کرام کو نبی اکرمﷺ کے تزکیہ سے نصیب ہوئی۔ آپ نے ریاضتیں اور مجاہدے کرا کر دلوں کو مانجھا اور دلوں کی راہ درست کی نیتیں بھی صاف۔ منزلیں بھی صاف، غرض وغایت بھی درست، ہر عمل کھانا پینا، سونا جاگنااللہ کے لئے ہو گیا۔ ان کی جوتیوں کی برکت ہے کہ اولیاء کرام میں بھی یہ چیزیں آئیں۔ ولایت کہتے ہی اس کو ہیں کہ قلب کا راستہ درست ہو جائے۔ ولایت کے یہ معنی نہیں کہ آدمی کھانا چھوڑے دے، لباس چھوڑ دے، گھر بار ڈھادے، گھر میںرہنا سہنا ترک کردے، ولی کے معنی یہ ہیں کہ گھر میں رہے مگر حظ نفس کے لئے نہیں۔ خدا کی رضا کے لئے، کھانا کھائے مگر نفس کی لذت کے لئے نہیں، رضائے خداوندی کے لئے۔ ایک ولی اور عامی میں یہی فرق ہوتا ہے تو عمل ولی اور عامی کا ایک ہوتا ہے۔ مگر قلب کا فرق ہے۔نیتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ قلب کے مقامات کا فرق ہوتا ہے۔ تو اولیاء میں یہی چیز ہوتی ہے کہ وہ ہر بات لوجہ اللہ کرتے ہیں۔

حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ  
                         سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ یہ اولیائے کاملین میں سے ہیں اور بڑے اونچے رتبے کے اولیاء میں ہیں ۔ حتی کہ اس درجہ کے لوگوں میں ہیں کہ خود سہل بن عبداللہ فرماتے ہیںکہ وہ جو حق تعالیٰ نے عالم ازل میں عہد لیا تھا الست بربکم؟ آدم علیہ السلام کی کمر سے ان کی ساری اولاد نیک و بد نکالی گئی اور سب کو سامنے کرکے حق تعالیٰ نے عہد لیا۔
                        {الست بربکم؟}
                        ’’ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟‘‘
                        سب نے وہاں عہد کیا کہ بے شک آپ ہمارے رب ہیں۔ ہمارے پروردگار ہیں۔ یہ سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ اس درجے کے لوگوں میں ہیں فرماتے ہیں کہ:
                        ’’ مجھے آج تک وہ عہد یاد ہے۔ اوروہ مقام بھی یاد ہے جہاں یہ عہد لیا گیا تھا‘‘۔
                         اس درجہ ان کی روح صاف ہے اور جلالئے ہو ئے ہے کہ عالم ازل کا نقشہ پیدائش کے بعد بھی ان کے ذہن میں تھا۔ ان کے واقعات میںلکھا ہے کہ مجاہدین کی ایک جماعت جارہی تھی۔ تو ان کا ارادہ ہوا کہ میں بھی جہاد میں شریک ہو ں کہ مفت میں ایک اتنی بڑی عبادت ملتی ہے تو ان کے نفس میں تقاضا پیدا ہوا کہ میں جہاد میں شریک ہو جائوں۔ لیکن جب نفس میں تقاضا پیدا ہوا تو بیٹھ گئے۔ اورکہا کہ یہ نفس کیوں چاہتا ہے کہ جہاد میں شریک ہوں۔ نفس کو تو جہاد سے بچنا چاہئے تھا نفس چاہے کہ میں عبادت کروں تو نفس تو اس درجے کی چیز نہیں وہ تو عبادت سے روکنے والی چیز ہے۔
                        {اِنَ النَفسَ لَا مَارَۃُ بِالسُوئِ ۔}(۱)
                         نفس تو برائی کا امر کرتاہے نہ یہ کہ امر کرے کہ تم نماز پڑھو اور جہاد کرو اور اللہ کی راہ میں جان دے دو۔ نفس کو تو بچنا چاہئے۔ تو نفس میں کیوں یہ تقاضا ہے؟ کوئی مکر پوشیدہ ہے اور نفس کے اندر کوئی کھوٹ ہے غرض بیٹھ گئے اور بیٹھ کر سوچنا شروع کیا۔ کہ آخر نفس کے لئے جہاد کے اندر کیا لذت کا سامان ہے کہ یہ نفس کہہ رہاہے کہ جہاد میں چلو۔
                        تو  ذہن میں یہ بات آئی کے مجھے چالیس برس روزے رکھتے  ہوئے گزر گئے ہیں۔ اور ایک دن بھی چالیس برس میں افطار نہیں کیا اور جہاد میں روزہ رکھ کر شریک ہونا مکروہ ہے۔ اگر رمضان بھی ہے تو بھی مستحب یہ ہے کہ افطار کرے تاکہ قوت سے جہاد کرسکے۔ بھوکا آدمی جہاد نہیں کر سکے گا۔ تو نفس کی مکاری یہ چھپی ہوئی تھی کہ چالیس برس سے مجھے بھوکا مار رکھا ہے۔ جہاد میں جائو گے تو دن میں کھانے کو روٹی تو مل جائے گی۔ یہ مکر پوشیدہ تھا۔ اب کھڑے ہوئے اور کہا اے نفس ! میں جہاد میں جائوں گا اور روزہ رکھ کر جائو ںگا۔ آج(افطار کرنے کے)مستحب کوانجام نہیں دوں گا چاہے مکروہ ہو مگر تجھے ستانا ہے اور تیرا مقابلہ کرناہے لہٰذا جہاد بھی کروں گا تو روزہ رکھ کر کروں گا۔ تجھے کھانے کو وہاں نہیں ملے گا۔
                         اس پر بھی نفس نے کہا تم چلو جائو جہاد میں، میں تیار ہوں۔
                         پھر بیٹھ گئے کہ یا اللہ! یہ نفس میں جہاد کا کیوں تقاضاہے؟ یہ تقاضا قلب اور روح میں ہونا چاہئے یہ نفس کیوں تقاضا کررہا ہے اسے تو جہاد سے بچناچاہئے پھر بیٹھ گئے، غور اور مراقبہ کیا کہ آخر کونسا مکر نفس کے اندر پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے یہ کہہ رہا ہے کہ جہاد کرو۔
                         تو سوچتے سوچتے ذہن میں یہ بات آئی کہ چالیس برس سے میں خلوت میں ہوں، آدمی کے نفس کا تقاضا لوگوں سے ملنا جلنا، انس و موانست حاصل کرنا ہوتا ہے۔ انسان کو مدنی الطبع پیدا کیا گیاہے۔ یہ جانوروں کی طرح بھٹوں میں وحشت زدہ ہو کر الگ الگ نہیں رہتا۔ بستیاں بنا کر رہتا ہے۔ میل جول سے رہتا ہے تاکہ انس و موانست پیدا ہو۔ یہ تو انس کا بندہ ہے۔ اور اسی واسطے انسان کوانسان کہتے ہیں کہ انسان کا مادہ اُنس  ہے جس میں انس نہ ہو وہ انسان ہی نہیں۔ تو انسان کا جبلی تقاضا انسیت و موانست ہے کسی عرب کے شاعر نے کہا ہے کہ
وماسمی الإنسان إلالإنسہ              وماالقلب إلاأنہ یتقلب     
                         انسان کو انسان کہا ہی اسی لئے گیا ہے کہ اس میں انسیت اور موانست کا مادہ موجود ہے۔ جیسے قلب کو قلب اس لئے کہتے ہیں کہ قلب کے معنی لوٹنے پوٹنے کے ہیں۔ قلب میں چوں کہ ہر وقت کا لوٹ پوٹ ہوتا رہتا ہے کبھی یہ جذبہ ، کبھی یہ خیال ، کبھی یہ ارادہ، اس لئے قلب کو  قلب کہتے ہیں۔ تو انسان انسان بنا ہی اس لئے کہ اس میں انس ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ چار آدمیوں کے ساتھ مل کر رہے۔ تنہائی میں اسے وحشت اور گھبراہٹ ہوتی ہے۔ تو چالیس برس سے سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ خلوت میں رہتے تھے۔ نفس چاہتا تھا کہ لوگوں سے مل جل کر رہیں، مگر بچتے تھے۔تو نفس میں تقاضا جہاد کا ہوا کہ جب جہاد کریں گے تو چار آدمیوں سے ملاقات تو ہوگی۔ یہ جو تنہائی میں مجھے گھوٹ رکھا ہے۔ جہاد میں جا کے یہ تنہائی کی وحشت کچھ تو کم ہوگی۔ ایک خیمہ میں جب جمع ہو نگے نو دس آدمی ہوں گے اور تو کچھ بات چیت کرنے کا  موقع ملے گا، کسی میدان میں جمع ہوںگے تو ایک دوسرے کے ساتھ موانست حاصل کرنے کا موقع ہاتھ آئے گا۔ تو یہ جو تنہائی کی وحشت کے ساتھ چالیس برس سے مجھے مار رکھا ہے۔ یہ مار تو ختم ہو جائے گی۔ اس لئے جہاد کا تقاضا پیدا ہوا۔
                         یہ گویا مکر تھا جوچھپا ہوا تھا۔ تو سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ پھر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ:
                        ’’اے نفس! اگر میں جہاد کو بھی جائوں گا تو کسی شخص کی طرف نہ دیکھوں گا نہ انس حاصل کروں گا۔ نہ کسی سے گفتگو کروں گا۔ تجھے خلوت ہی میں رکھوں گا اور تجھے اسی طرح مارنا ہے‘‘۔
                         نفس نے کہا کہ یہ بھی منظور ہے اگر تم جہاد کے لئے چلو۔ اب پھر بیٹھ گئے کہ یا اللہ کون سی ایسی مکاری چھپی ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ نفس جہاد کا تقاضا کررہاہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعاء کی کہ:
                         اے اللہ ! اس نفس میں ایسا باریک مکر ہے جو مجھ پر منکشف نہیں ہوتا تو مجھ پر کھولے گا تو واضح ہو گا کہ کیا خباثت ہے اور کیا مکاری ہے جو چھپی ہوئی ہے کہ نفس چاہتا ہے کہ میں شریعت کے اعمال سرانجام دوں۔
                        ادھر سے الہام ہوا اوراب اصلیت کھلی اور وہ یہ کہ چالیس برس ریاضت اور مجاہدے میں گزر گئے تھے گویا نفس کو مار رکھا تھا موتوا قبل ان تموتوا۔  مرنے سے پہلے اسے مار دیا تھا۔ اس کی خواہشات کو کچل دیا تھا۔ اس کی مرضیات کو فنا کردیا تھاتاکہ مرضی حق حاصل ہو۔ نفس پر یہ چیزیں شاق تھیں۔ تو نفس میں جہاد کا  تقاضا اس لئے تھا کہ میدان میں جائے ایک دفعہ گولی لگے گی تو روز روزکی جھک جھک کا تو خاتمہ ہو جائے گا۔ بس ایک دفعہ ختم ہو جائیں گے۔ یہ جو روز کی موت ہے، یہ تو ختم ہو گی۔ جو ہونا ہوگا ایک دفعہ ہو جائے گا۔ ایک دفعہ تلوار پڑے گی، ختم ہو جائیں گے۔ یہ مکر پوشیدہ تھا۔
                         سہل ابن اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے توبہ کی۔ اور کہا کہ یا اللہ میری نیت درست کردے۔ جب نیت درست ہوئی تو جا کر مجاہدین میں شریک ہوئے اور جہاد کے لئے گئے۔

عمل بلا تزکیہ        
                        یہ کیا چیز تھی؟ یہ وہی تھا کہ نفس مانجھ کر اس درجہ صیقل بنا لیا تھا اور حقیقی معنوں میں رضاء خدا وندی کا ادراک اور احسان جب تک نفس میں صفائی نہ ہو نہیں ہو سکتا۔ بعض دفعہ ایک عادت بصورت عبادت ظاہر ہوتی ہے۔ آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں عبادت کررہا ہوں اور وہ نفس کی پرستش ہوتی ہے ایک صاحب باطن بتاتا ہے کہ اس کے اندر کھوٹ ملا ہوا ہے۔ یہ عبادت صحیح نہیں بنی۔ اس سے رضائے حق تعالیٰ حاصل نہیں ہوگی۔ تو اس کا ادراک ہو جانا اور اس کی سمجھ پیدا ہو جانا کہ نفس کی کیا خواہش ہے اور حق تعالیٰ کی کیا مرضی ہے کس جانب کو مجھے جانا چاہئے اور کس جانب کو ترک کرنا چاہئے؟
                        تو نفس کی باریک باریک خواہشیں اور مکاریاں ہوتی ہیں یہ اس وقت تک منکشف نہیں ہو سکتیں۔ جب تک نفس کے اندر صفائی نہ پیدا ہو۔ جب تک جلاء نہ پیدا ہو اور نورانیت نہ پیدا  ہو۔ اور یہ نورانیت بغیر مجاہدے اور بغیر ریاضت کے نہیں آسکتی۔ اس واسطے مجاہدے اور ریاضتیں کراتے ہیں تاکہ نفس میں استقامت پیدا ہو سیدھا پن پیدا ہو سلامتی قلب پیدا ہو تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو مجاہدے کرائے گئے ریاضتیں کرائی گئیں ۔ اس کے ذریعہ سے ان کے نفوس سے جو شرک کے نزغے تھے۔ وہ نکل گئے۔ وہ جو کج راہی تھی وہ نکل گئی۔ وہ جو غیر اللہ کی محبت میں سرشار تھے ۔ وہ محبت ختم ہوئی۔

 کمالِ استقامت                     
                        اب انکی محبت تھی تو اللہ کے لئے ، عداوت تھی تو اللہ کے لئے۔ دینا تھا تو اللہ کے لئے ، لینا تھا تو اللہ کے لئے۔کمال ایمان کمال استقامت سے پیدا ہوتا ہے جس کی حدیث میں ایک موقع  پر فرمایا گیا:
                        من احب للہ وابغض  للہ  و منع للہ فقد استکمل الایمان
                        ’’جس نے محبت کی تو  اللہ کے لئے کی ۔ عداوت باندھی تو اللہ کے لئے، کسی کو دیا تو اللہ کیلئے کسی سے ہاتھ روکا تو اللہ کے لئے، اس نے اپنے ایمان کو کامل کرلیا‘‘۔
                         تو دنیا میں آدمی جو کچھ بھی عمل کرتاہے۔ یا بچتا ہے تو اس کامنشاء یا محبت ہوتی ہے یا عداوت ۔ جس کام کو آپ کرتے ہیں اگر رغبت ہوگی جب ہی تو آپ کریں گے، اگر نفرت ہوگی تو کیسے کریں گے۔ تو کسی چیز کی رغبت ہونا اس کے کرنے کی دلیل ہے، کرنا اس سے محبت ا ور مرغوب ہونے کی دلیل ہے جس چیز سے عداوت ہوگی، اس سے آپ بھاگتے ہیں۔
                        تو کسی چیز کو نہ کرنا اس سے نفرت کی دلیل ہے۔ تو فرمایاگیا کہ جس نے رغبت کی تو لوجہ اللہ کی۔ نفرت کی تو یوجہ اللہ کی۔ رغبت اور نفرت کا تعلق نفسانی جذبات سے باقی نہ رہے۔د یاکسی کو تو اللہ کے لئے، نہ دیا تو اللہ کے لئے ‘جب ہر حرکت  اور سکون لوجہ اللہ بن  جائے۔ تب کہا جائے گا کہ نفس کامل ہوگیا۔ اس کا ایمان کامل ہوگیا۔
تفویضِ مطلق     
                         اس کے معنی اسلام کے ہیں یہی حقیقی اسلام ہے کہ جو کچھ ہو اللہ کے لئے ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوفرمایاگیا تھا:
                        {اِذقَالَ لَہ رَبُّہ اَسلِِم}
                        ’’اے ابراہیم! مسلم بن جائو‘‘۔
                        مسلم بننے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ معاذ اللہ اب تک آپ غیر مسلم تھے۔ اب اسلام قبول کریں۔ آپ تو پیغمبر ہیں۔ مسلم ہونے کے کیا معنی؟ یعنی گردن جھکا دو۔ جو کچھ کرو، ہمارے لئے کرو۔ اپنے نفس کے لئے کچھ مت کرو۔ مسلم بننے کے یہ معنی تھے یعنی تفویض کرنا، اپنے نفس کو سونپ دینا، اللہ کے حوالے کردینا کہ جس طرح اس کی شریعت الٹ پلٹ کرے، اس طرح الٹ پلٹ ہو جاو تمہاری اپنی کوئی مرضی یا تدبیر باقی نہ رہے، تم ایسے بن جائو کالمیت فی یدالغسَّال جیسے مردہ  نہلانے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جدھر کو کروٹ دے دے،مردہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے ادھر کو کیوں پلٹ دیا، جدھر کو بٹھا دے، لٹا دے، کروٹ دے دے، میت نہلانے والے کے اختیار میںہے۔ اس طرح سے آدمی اپنے ارادہ و اختیار سے شریعت کے ہاتھ میں ہو۔ غیر ارادی طور پر تو اب بھی انسان اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ اسی کی مرضی سے اس کی حرکت اور سکون ہے۔لیکن ارادے سے اپنے آپ کو سونپ دے کہ جدھر کو آپ چاہیں گے ادھر ہی کو میرا ارادہ متوجہ ہو جائے گا۔یہ اسلام ہے۔ اس کو کہا گیا کہ۔
                        {:اِذ قَالَ لَہ رَبُّہ اَسلِم۔}(۱)
                        ’’ اے ابراہیم ! مسلم بن جائو‘‘۔
                         یعنی اپنے کو ہمارے حوالے کردوجس طرح ہم الٹیں پلٹیں تم تیار رہو۔
                        { قَالَ اَسلَمتُ لِرَبِ  العٰلِمین}(۲)
                        ’’ اے اللہ! میں مسلم بن گیا ‘‘۔
                         یعنی میں نے اپنے کو حوالے کردیا۔ جس طرح سے آپ کا جی چاہے مجھ میں تصرف کریں۔ میری محبت ہوگی تو آپ کے لئے ہوگی۔ عداوت ہوگی تو آپ کی خاطر ہوگی نفس کی خاطر کچھ نہیں ہو گا۔
                         فرمایا کہ جب تم مسلم بن گئے اور مان لیا تو دوسری جگہ فرمایا گیا کہ اب اس اسلام کا اعلان کرو۔ وہ اسلام کیا ہے؟
{قلِ اِنَّ  صَلَاتِی وَنُسُکِی وَ مَحیاَ یَ وَ مَمَاَتِی لِلِہ رَبِ العٰلِمین لَاَ شَرِیکَ لَہ وَ بِذٰ لکَ اُمِرتُ وَاَنَا اَوَّلُ المُسلِمِین}(۳)
’’ اے ابراہیم! اعلان کردو کہ میر ی نماز اور میرا حج میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ کے لئے ہے میرے اپنے لئے کچھ نہیں‘‘۔
                         جس کا کوئی شریک نہیں ہے تومیرے ان اعمال میں کوئی شریک نہیں ،ایک ہی کی رضا کے لئے کررہا ہے چند کی رضا کے لئے نہیں، اور اسی کا مجھے امر کیا گیا ہے اور میں آج کے دور میں اول مسلم ہوں۔
                        تو اسلام کے معنی یہ نکل آئے کہ نماز بھی ہے تو اللہ کے لئے ہے۔ حج ہے تو اللہ کے لئے۔ مرنا ہے تو اللہ کے لئے، جینا ہے تو اللہ کے لئے۔ یعنی تفویض محض، اپنے آپ کو حوالے کردینا ہے۔ اسلام کے یہی معنی ہیں کہ آدمی اپنے کو حوالے کردے۔ کہ نہ اس کی اپنی مرضی باقی رہے نہ اس کی اپنی رضا باقی رہے، رضا ہو تو اللہ کی ہو ،ارادہ ہو تو اللہ کاہو۔
فنائِ کلی                    
                        کسی غلام سے کسی نے پوچھا تو کیا کھائے گا؟ اس نے کہا کہ جو آقا کھلا دے۔                 
                        کہا تو کیا پہنے گا؟ اس نے کہا جو آقا پہنا دے۔
                         کہا۔ تو کام کیا کرے گا؟
                         کہا۔ آقا جو کام لے لے۔
                         اس نے کہا کہ آخر تیری بھی  کوئی مرضی ہے؟
 اس نے کہا اگر میری اپنی مرضی ہوتی تو میں غلام ہی کیوں بنتا!
                         پھر میں آقا ہی نہ بن جاتا۔ میرے غلام ہونے کے یہ معنی ہیں کہ میری مرضی بھی غلام میری رائے بھی غلام، میری خواہش بھی غلام،
اگر خواہش ہے تو آقا کی مرضی ہے توآقا ہی کے لئے، ارادہ ہے تو آقا کا ہے۔ تو ایک انسان جب غلام بن کر اپنے کو دوسرے کے اس درجے حوالے کردیتا ہے۔ حالانکہ دوسرا  انسان اس کا خالق نہیں اس کا مالک نہیں، پھر بھی ذرا سے احسان کی بدولت حوالے ہو گیا۔ توجو محسن حقیقی جو اللہ رب العزت ہیں، جس کا دعویٰ کیا ہے کہ میں اس کا غلام اور بندہ ہوں۔ اس کا بندہ بھی بنے اور تجویز بھی اپنی پیش کرے۔ اس کا بندہ بھی بنے اور اس کے سامنے پھر رائے بھی رکھے۔ یہ بندگی نہیں، دعویٰ بندگی ہے اور وہ غلط ہے۔ بندگی یہ ہے کہکالمیت فی یدالغسال مرضی حق کے تابع ہوناہے۔

مرضی ٔ حق
                        آج دنیا میں لوگ اللہ کواپنے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ خود اس کے تابع ہونا نہیں چاہتے۔ مرضی سوچ لیتے ہیں کہ ایسا ہو، استفتاء بھی کریں گے تو اس نیت سے کہ ہماری مرضی کے مطابق فتویٰ ہو اگر رائے بھی پوچھیں گے تو اس نیت سے کہ جو ہم چاہیں گے وہ تو اپنی جگہ قائم رہے اور دعاء بھی ہو تو اسی کے تابع ہو فتویٰ بھی ہو تو اسی کے تابع ہو۔ یہ تو اللہ کو تابع بنا ناہے۔ تو دعویٰ تو اپنے تابع ہونے کا ہے اور آدمی متبوع بن گیا اور چاہتا ہے کہ خدا اس کے تابع ہو تو یہ چلنے والی بات نہیں۔ تفویض کے بھی خلاف ہے اور اسلام کے بھی خلاف ہے مسلم ہونے کے تو یہ معنی ہیں کہ میں تابع ہوں مرضی حق کے میری مرضی کوئی چیز نہیں۔ فنائے مرضی ہی کا نام اسلام ہے فنائے خواہش ہی کا نام اسلام ہے اگر ہم میں ہماری مرضی زندہ ہے تو مسلم کب ہیں؟ اور اگر خواہش زندہ ہے تو حقیقی معنی میںمسلم کب ہیں؟ اس لئے فرمایا گیا کہ اسلام یہ ہے کہ اپنے کو سونپ دو۔ اور حوالے کردو۔ یہ زندگی اگر صحیح معنی میں دیکھی گئی تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں دیکھی گئی ۔ اگر ان کی آنکھ اس چیز کو دیکھ رہی ہے اور اللہ و رسول اس کو کوئی اور چیز کہلوانا چاہیں تو آنکھ کو بے تکلف جھٹلانے پر تیار تھے مگر مرضی حق کو جھٹلانے کو تیار نہ تھے۔
                        ۱؎حدیث میں ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ: ای یوم ھذا۔’’ یہ کون سا دن  ہے؟‘‘۔
                        سب جانتے تھے کہ ۹ ذی الحج ہے ۔عرفہ کا دن ہے ۔ حج میں جمع ہیں ۔تو سیدھا جواب یہ تھا کہ یوم عرفہ ہے ۔جواب کیا دیتے ہیں اورسول اعلم ااور اس کارسول ہی بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا   ای بلد ھذا۔’’ مکہ مکرمہ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ کون سا شہر ہے؟‘‘۔
                        سب جانتے تھے کہ مکہ ہے، جواب یہ ہوتا کہ ’’ مکہ‘‘ ہے مگر جواب کیا دیتے ہیں:اللہ ورسولہ اعلم’’ اللہ و رسول ہی بہتر جانتے ہیں کہ کون سا شہر ہے‘‘۔
                        آپﷺ نے فرمایا: ای شھر ہذا  ’’ یہ کون سا مہینہ ہے؟‘‘۔
                        سب جانتے تھے کہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے جواب دے دیتے کہ ذی الحجہ ہے مگر جواب میں یہ عرض کیا:
اللہ ورسولہ  اعلم’’  اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جاتنا ہے کہ کون سا مہینہ ہے’’۔
                        تابعین میں سے ایک شاگر د نے ان صحابی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ جواب آپ نے کیوں دیا۔ آپ کو قطعی علم تھا کہ یہ مکہ ہے ۔ ذی الحج کا مہینہ ہے ۔ نویں تاریخ ہے، تو نام لے کر بتاتے کہ فلاں شہر ہے ، فلاں مہینہ ہے۔ فلاں تاریخ ہے۔ یہ کہنا کہ اللہ ورسولہ اعلم۔  یہ کچھ سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔ آپ نے یہ کیوں کہا۔؟

حقیقت ِاسلام   
                        اس صحا بی رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا اس سے معلو م ہوتاہے کہ تفویض اسے کہتے ہیں۔ وہ صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے اس لئے کہا کہ:
                        اگر اس دن نبی کریم ﷺ ارشاد فرمادیتے کہ یہ مکہ نہیں، مدینہ ہے۔ تو ہم کہتے کہ ہماری آنکھوں نے غلط دیکھا، بلاشبہ یہ مدینہ ہے اللہ کا رسول غلط گو نہیں ہو سکتا۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمادیتے کہ یہ ذی الحج نہیں، محرم کا مہینہ ہے، ہم سب کہہ دیتے کہ ہم سب  ایمان لائے، بلاشبہ محرم کا مہینہ ہے، ہمارا علم غلط تھا کہ ہم اسے ذی الحجہ سمجھ رہے تھے۔
                         اور اگر حضورﷺ فرما دیتے کہ یہ نویں تاریخ نہیں بلکہ ذی الحج کی بارہویں تاریخ ہے، ہم کہتے کہ بلاشبہ یہ بارھویں تاریخ ہے، ہم سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کہ یہ نویں تاریخ ہے۔
                         تو تفویض مطلق اسے کہتے ہیں کہ پیغمبر کی خبر کے مقابلے میں آنکھوں کو جھٹلانے کے لئے تیار  ہو جائے، کانوں کو جھٹلانے کے لئے تیار ہو جائے کہ میرا کان غلطی کرسکتا ہے، میری آنکھ غلطی کرسکتی ہے، مگر خدا کا رسول تبلیغ حق میں غلطی نہیں کرسکتا۔ اس کو تفویض مطلق کہتے ہیں۔ اور فی الحقیقت یہ اسلام ہے۔
                         آج ہم اللہ و رسول کو اپنی خواہشات کا تابع بنانا چاہتے ہیں کہ اپنی مرضی پہلے متعین کرلی۔ اور مسئلے کوتوڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطا بق کرنا چاہا۔ گویا خدا ا و ر رسول کو اپنے تابع بنا رہے ہیں حالانکہ تابع بننے کا صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ درجہ حاصل کیا ہے کہ آنکھوں تک کو جھٹلانے کے لئے تیار ہیں۔ ہم تو خدا و رسول کو اپنے خیال کا تابع بناتے ہیں، وہ مشاہدے کا بھی تابع نہیں بناتے۔ مشاہدے کو بھی اللہ و رسول کے تابع کرتے تھے کہ آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے اگر اللہ کے رسول اس کے خلاف فرما دیں گے ، حق وہ ہوگا ، آنکھ حق پر نہیں ہوگی۔ آنکھوں کی تکذیب کے لئے تیار ہیں۔

اللہ کے نام کے مقابلہ میں مشاہدہ کی تکذیب                       
                         اور یہ تو یہ ہے۔ حضرات انبیاء علیہم السلام کا بھی یہ طریقہ ہے کہ وہ اللہ کے نام کی وجہ سے اپنے مشاہدے کی تکذیب کردیتے ہیں۔ سیر کی روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک چور کو دیکھا کہ وہ چوری کررہا ہے۔ اور دن میں دیکھا کہ وہ چوری کررہا ہے، اور چیز اٹھا رہا ہے۔ آنکھوں سے دیکھ لیا، اس کو بلا کر پکڑ کر فرمایا۔
                        ’’ ظالم!  یہ دن دھاڑے چوری کرتا ہے تجھے شرم نہیں آتی‘‘۔
 اس نے کہا:  واللہ الذی لاالہ الاھو ماسرقت                                              
                        ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے میں نے چوری نہیں کی‘‘۔
                        تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:صدقت ربی۔ و کذبت عینی۔             
                         میںاپنے پروردگار کے نام کی تصدیق کرتاہوں اور اپنی آنکھوں کو جھٹلاتاہوں بے شک تو نے چوری نہیں کی۔ جب تو نے اللہ کے نام پر حلف دیا تو اللہ کا نام سچا ہے۔ میں اس کی تکذیب نہیں کرسکتا۔ یہ اتباع کامل کا درجہ ہوتا ہے کہ جب اللہ کا نام بھی آ جائے۔ حالانکہ چور اس نامِ پاک کو غلط استعمال کررہا ہے۔ مگر جرات نہیں کرتے کہ تکذیب کریں کہ خدا کا نام آگیا ہے۔
                         حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خادم کو گوشت خریدنے کے لئے بھیجتے جب وہ لے کر آتا تو گوشت کی بوٹیاں گن لیتے تھے۔ مثلاً ایک پیسے میں چھ بوٹیاں آنی چاہئے تھیں۔تو یہ چھ لایا ہے یا پانچ لایا ہے۔ خادم کہتا کہ مجھ پر کیا اعتما د نہیں۔؟
 فرمایا اعتماد ہے، اپنے قلب کی تسکین اور تیرے ساتھ حسن ظن باقی رکھنے کے لئے میں یہ کام کرتا ہوں کہ گن لیتا ہوں۔ کسی نے کہا کہ یہ خادم دھوکہ کرتاہے، اور یہ کم لے آتا ہے، اور پیسے آپ سے زیادہ لے جاتا  ہے، فرمایا کہ و ہ خادم اللہ کا نام لے کر کہتا ہے کہ میں پورا پورا لے کر آیا ہوں۔ اس نے کہا وہ غلط نام لیتا ہے اور غلط حلف اٹھاتا ہے۔ اور کم لے آتا ہے۔ اور آپ کو دھوکہ دیتا ہے۔
فرمایا: من خدعنا فی اللہ ان خدعنالہ۔’’ جو اللہ کا نام لے کر دھوکہ دے گا، ہم ضرور اس کے دھوکہ میں آئیں گے اللہ کے نام کو ہم نہیں جھٹلا سکتے‘‘۔

عِلم ، مَحبَّت اور اخلا ق کا وظیفہ                       
                         اس کا تعلق عظمت سے ہے۔ جب اللہ کے نام کی اس درجہ عظمت پیدا ہو جائے کہ اس کے سامنے آنکھ بھی بے کار، کان بھی بے کار، باتیں بھی بے کار، اللہ ہی اللہ سامنے ہے، وہ حقیق معنی میں قلب کی تفویض کا اور اسلام کامقام ہے، یہ مقام حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کو جناب رسولﷺ کی تعلیم اور تزکیہ سے دیا گیا تھا علم کے ذریعے آپﷺ نے مسائل بتلائے اور تزکیہ کے ذریعے سے قلوب کا راستہ سیدھا کیا۔
 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری بعثت کی غرض و غایت کیا ہے؟انما  بعثت معلما۔
’’ میں معلم بنا کر بھیجاگیا ہوں، تاکہ علم کے ذریعے سے امّت کوصحیح راستہ دکھلا دوں‘‘۔
 اور
                         بعثت لاتمم مکارم الاخلاق۔     
’’ میں بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کو مکمل کرکے پیش کروں‘‘
                         ان کو اخلاق کریمانہ کا مکمل نمونہ بنا دوں۔ ا خلاق عمل کی قوت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ علم سے تو میں راستہ دکھلاتا ہوں۔ اور اخلاق درست کرکے اس راستہ پر چلنے کی قوت پیدا کرتا ہوں۔ علم آدمی کو اس وقت تک نہیں چلا سکتا جب تک اخلاق درست نہ ہوں۔ اخلاقی قوت سے ہی آدمی چلے گا۔ علم کا کام فقط راستہ دکھلانا ہے۔
                        اگر ایک عالم بہت اعلیٰ علم حاصل کرے مگر عمل کی طرف متوجہ نہیں۔ تو راستہ اس نے دیکھ لیا، مگر محض علم اسے راستے پر نہیں چلا سکتا۔ جب تک اس کے ا ندر چلنے کی اخلاقی قوت نہ ہو۔
                         اخلاق میں صبر ہے، شکر ہے، شجاعت ہے، رضا ہے تسلیم ہے یہ عملی چیزیں ہیں۔ علم راستہ بتلا دے گا کہ کرنے کا یہ طریقہ ہے۔ اور  بچنے کا یہ طریقہ ہے۔ لیکن اس طریقہ پر آدمی چل پڑے، چلا دینا علم کا کام نہیں ہے۔ یہ کام اندرونی قوت کا ہے جو اخلاقی قوت ہے۔ اگر قلب میں محبت ہے آدمی شجاعت اختیار کرے گا۔ محبوب کی کے خاطر لڑے گا۔ اور محبوب کے دشمنوں کو فنا کردینا چاہے گا۔ معلوم ہوا کہ محبت اخلاق  کو چلاتی ہے، علم نہیں چلاتا۔ اگر انسان کے اندر صبر ہے تو ظاہر بات ہے کہ جو مرغوب خدا کی خاطر اختیار کرے گا، اس پر جم جائے گا ، گویا طاعت پر جمے گا اور صبر کر ے گا۔ اس کے خلاف سے ہٹ جائے گا ، یہ صبر محبت ہی کرائے گی، اگر حق تعالیٰ شانہ سے محبت نہ ہو تو عبادت پر آدمی صبر کیسے کرے؟۔ آپ نماز پر صبر کئے بیٹھے ہیں۔ سردی ہے، لحاف چھوڑ کر سردی کے زمانے میں نماز کے لئے آتے ہیں تو عبادت پر اتنا جمنا یہ محبت ہی سے تو ہے محض علم سے نہیں۔ علم نے تو راستہ دکھایا تھا کہ بھئی! اگر تم نے نماز پڑھ لی تو ثواب ملے گا۔ لیکن پڑھنا اور پڑھنے کے لئے اٹھنا۔ اور اپنے عیش و آرام کو چھوڑنا، یہ محبت کراتی ہے، علم نہیں کراتا ہے تو محبت اخلاق کو حرکت میں لاتی ہے، اخلاق عمل کو حرکت میں لاتے ہیں۔ تب جا کے آدمی عمل کرتاہے۔
                         غرض ہر چیز کا ایک وظیفہ ہے۔ علم کا کام راہ دکھلانا ہے۔ محبت کاکام حرکت میں لانا ہے۔ اخلاق کا کام عمل کرا دینا ہے۔ ہر چیز اپنے  اپنے دائرے میں عمل کرے گی۔ سارے کام آپ علم کے اوپر ڈال دیں کہ وہی راستہ دکھلائے، وہ چلائے، وہی گردن پکڑ کر آپ کو مسجد میں لے جائے تو ایک چیز سارے کام انجام نہیں دے سکتی۔ الگ الگ قوتیں ہیں۔ غرض تعلیم کے ذریعے سے علم پہنچتا ہے۔ تزکئے کے ذریعے سے  اخلاق درست ہوتے ہیں اور محبت پیدا کرائی جاتی ہے۔ تو نبی کر یمﷺ کے دو وظیفے نکلے۔ ایک تعلیم اور ایک تربیت۔ تعلیم سے آپ مسائل پہنچاتے تھے۔ یہ جائز یہ ناجائز، یہ حلال یہ حرام ۔تزکیے کے ذریعے سے عمل کی قوتیں قلب میں فراہم کرتے تھے کہ اس حلال کے اوپر آدمی چل پڑے اور حرام سے بچنے لگے۔ جائز کے اوپر چل پڑے اور ناجائز سے بچنے لگے۔ یہ چیز تزکیہ اور احوال قلب سے متعلق تھی۔
                         قلب کی حالت اگر درست نہ ہو، فتنے میں پڑا ہوا ہو اور شکوک و شبہات میں پڑا ہوا ہو تو شکی آدمی کبھی عمل نہیں کرسکتا۔ تذبذب اور تردد ہوگا توکبھی عمل ظہور پذیر نہیں ہوگا۔ قوت یقین پہلے آئے، پھر آدمی چلے گا، اور اخلاق ابھاریں گے تو آدمی عمل کرے گا۔ اس واسطے دو  وظیفے فرمائے گئے۔ گویا بعثت کی دو عرض و غایت نکلیں۔
                         ایک فرمایا: انما بعثت  معلما
                        ’’ میں معلم بنا کر بھیجا گیاہوں‘‘۔
                        اور ایک فرمایا:بعثت لا تمم مکارم الاخلاق      
                        ’’ میں بھیجا گیا ہوں تا کہ اخلاق کا مکمل نمونہ تمہارے سامنے رکھ دوں‘‘۔
تاکہ تمہارے اخلاق صحیح ہو جائیں اخلاق کے بغیر عمل نہیں ہوگا، اور تعلیم کے بغیرعلم نہیں آئے گا، جس سے جائز و ناجائز کا پتہ چلے ۔

 تعلیم بلا تربیت کا نقصان                
                        تو مجلس مبارک میں ایک طر ف مسائل کی تعلیم ہوتی تھی جائز و ناجائز اور حلال و حرام بتلایا جاتا تھا۔ اور رات کو نگرانی فرماتے تھے کہ عمل کیسا ہے، مجاہدے کراتے تھے تاکہ نفوس کا تزکیہ ہو جائے، اس کاتعلق جائز و  ناجائز سے نہیں قلب کے احوال باطن سے ہوتا ہے۔ احوال باطن وہی درست کرسکتا ہے، جو باطن کے ان مقامات سے گذرا ہوا ہو۔ جو اس راہ میں چلا ہوا نہیں ہے، وہ کس طرح سے اعمال باطن کو درست کرے گا، اسے خود اپنے اندر کا پتہ نہیں دوسرے کے اندرون کاکیا پتہ چلے گا

 او خویشتن گم است کرار ہبری کند
                         اس واسطے جیسے ظاہری مسائل پوچھنے کی ضرورت ہے، باطنی احوال کے درست کرنے کے لئے بھی لوگ اہل  باطن کی طرف رجوع کرتے ہیں تاکہ وسوسوں کو دور کرکے قلب کی راہ کو درسست کرلیں۔ تو نبی کریم ﷺ نے جیسے مسائل کی تعلیم دی حلال و حرام، جائز و ناجائز کے دائرے کوبتلایا فرائض بتلائے، واجبات اور ان کی مقداریں بتلائیں، ان کے ادا کرنے میں جو خطرات اور وسوسوں کی رکاوٹیں پیدا ہوئی ہیں، ان کے رفع کرنے کی ذمہ داری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے لی۔ اور قلب کو درست کرنے کا طریقہ بھی آپ نے اختیار فرمایا۔ اس کا نام تعلیم ہے اور اس کا نام تربیت ہے، تربیت سے آدمی صحیح بنتا ہے، اگر تعلیم ہی تعلیم ہو اور علم ہی علم ، تو کورے علم سے راستہ تو نظر آئے گا، مگر چلنے کی طاقت پیدا نہیں ہوگی۔
                         جیسے غالب نے کہ تھا کہ؎
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہدمم           پر طبیعت ادھر نہیں آتی
                          آ ج کے دور میں بدعملی جہالت کی وجہ سے نہیں ہے۔ علم کے باوجود بدعملی ہے، علم کے راستے اتنے پھیل چکے ہیں کہ قدم قدم پر آدمی کو علم ہوتا ہے ۔اور ہے کاغذ ہے، پیپر ہے، رسائل اور اخبارات ہیں، رات دن علم سامنے آرہا ہے، مگر رات دن بدعملی بڑھتی جاتی ہے، یہ بدعملی جہالت کے سبب سے نہیں ہے، بلکہ عدم تزکیہ کے سبب سے ہے کہ جب نفوس مانجھے ہی نہیں گئے، اور قلب کے مقامات ہی درست نہیں ہوئے ،د ل کی کلیں ہی درست نہیں ہیں، تو جتنا بڑا علم ہوگا، اتنی ہی بڑی بدعملی بھی ہوگی، اس لئے جہاں ظاہری علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وہاں باطنی تربیت کی بھی ضرورت ہے اس کے  بغیر آدمی چلتا نہیں ہے۔
 اہمیّتِ تزکیہ
                        اگر یہ چیز ضروری نہ ہوتی تو حضورﷺ کے فرائض میں تزکیہ نہ رکھا جاتا۔ اور تربیت نہ رکھی جاتی۔ تو سب سے زیادہ ضرورت تربیت کی پڑتی ہے۔ اور تربیت کے ساتھ تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ان دونوں چیزوں کا تعلق کسی منجھی ہوئی شخصیت کے ساتھ ہوتا ہے۔

تزکیہ میں شخصیت کی احتیاج
                        آدمی یہ چاہے کہ میری تربیت کاغذ سے ہوجائے تو کا غذ اور کتاب تربیت نہیں کرسکتے، کاغذ میں تو کالے کالے نقوش ہوتے ہیں، ان نقوش کی مرادات کیاہیں؟ یہ تو معلم سمجھا سکتا ہے اور مز کی بتلا سکتاہے کاغذ نہیں بتلائے گا۔ چناں چہ کلام میں جو کیفیات ہوتی ہیں تو کاغذمیں حروف کا نقش آتا ہے، کیفیت تو نہیں آتی، بہت سی کیفیتیں ہیں جو طرز ادا سے تعلق رکھتی ہیں، کلام کے بہت سے ایسے معانی ہوتے ہیں جو طرز ادا، ہیئت کذائی اور لب و لہجے سے سمجھ میں آتے ہیں۔ اگر وہ ہیئت اور انداز نہ ہو کلام کا مطلب متعین نہیں ہوگا۔ اور میںاس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ اردو کا ایک جملہ اس کے کئی معنی آتے ہیں، اور سب کا تعلق لب و لہجے سے ہے وہ جملہ ’’کیا بات ہے‘‘ اس کے معنی استفہام واستفسار ، تفحیم شان ، تحقیر شان، اور تعجب کے آتے ہیں،سب کا تعلق لب ولہجے سے ہے اگر لب ولہجہ سامنے نہ ہو تو معنی متعین نہیں ہوسکتے ،اگر یہ جملہ کاغذ پر لکھ کر کسی دوست کے پاس آپ بجھوا دیں تو کاغذمیں تو کالے کالے نقوش لکھے ہوتے ہیں، لب و لہجہ لکھا ہوا نہیں ہے، وہ اس سے جو سمجھے گا، وہ متکلم کی مراد نہیں ہوگی بلکہ جو کیفیت اس پرغالب ہوگی وہ وہی معنی سمجھے گا، وہ متکلم کی مر اد نہیں ہوگی وہ اس کی اپنی مراد ہوگی۔ وہ  دنیا کہ یہ کہہ کر دھوکہ دے گا کہ لکھنے والے کی یہ مرادتھی حالانکہ یہ غلط ہے، کلام اس کا تھا مراداس کی اپنی تھی۔
                         ٹھیک اسی طرح سے قرآن و حدیث میں بہت سے مضامین کا تعلق لب و لہجے سے ہے، اور بہت سے مضامین کاتعلق شان نزول  سے ہے، ان سب سے کٹ کر اگر محض قرآن و حدیث کے لکھے ہوئے الفاظ سامنے آجائیں، اور اس کا آپ مطلب لیں تو وہ مطلب آپ کا ہوگا اگرچہ لفظ خدا کے ہوںگے، اب آپ دنیا کو یہ کہیں کہ خدا نے یہ فرمایا۔ یہ دھوکہ دہی ہوگی، وہ تو آپ فرما رہے ہیں۔ اور دنیا کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اس لئے کہ خدا کا مطلب تو جب کھلتا جب خدا کی طرف سے کوئی بیان کرنے والا آ کر اپنے لب لہجے، اپنے طرز ادا، اپنے ماحول اور اپنی کیفیت سے بیان کرتا۔ آپ کے سامنے ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں، حتیٰ کہ شانِ نزول بھی آپ کے سامنے نہیں،کالے نقش لکھے ہوئے آپ کے سامنے ہیں تو ماحول، کیفیت اور ہیئت کذائی آپ کی اپنی ہے، اور قرآن اور حدیث پرآپ نے تھوپ دی ہے۔ تو حقیقت میں وہ قرآن اور حدیث کا مطلب نہیں، وہ آپ کا مطلب ہے، لفظ آپ نے اللہ کے لئے اور مطلب اپنی طرف سے گھڑ لیا۔
                         اسی کومٹانے کے لئے تعلیم و تزکیہ کو رکھا گیاہے، کہ ایک شخصیت آ کر تعلیم دے اور سمجھائے کہ یہ مرادربانی ہے، اس واسطے انبیاء علیہم السلا م کو بھیجا گیا۔ تاکہ وہ کلام بھی سنائیں اور کلام سنا کر اس کا مطلب بھی بیان کریں کہ یہ اس کامطلب اور مصداق ہے۔

 مقاصدِ بعثت     
                        بہرحال آپ ﷺ دنیامیں اس لئے آئے ہیں کہ علم سے دنیا کوآراستہ کریں اور اس علم سے راہ حق نظر آئے، اور تزکیہ سے آراستہ کریں جس سے لوگوں میں اس راستے پر چلنے کی قوت پیدا ہو، اور عمل کا نمونہ سکھلائیں، تاکہ عمل من گھڑت نہ ہو۔ اس میں بھی لوگ پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت کے متبع ہوں۔ یہی چیزیں نبی کریم ﷺ کی بعثت کی غرض و غایت ہیں اسی کے مجموعے کا نام تعلیم و تربیت ہے۔ اس لئے میں نے عرض کیا تھا کہ ایک حدیث میں ایک غرض ظاہر کی گئی فرمایا:
 انما بعثت  معلما۔’’ میں دنیا معلم بن کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔
                         وہ  علم سکھلائوں جس کے ذریعے سے لوگوں کو حق کاراستہ ملے، لوگ خدا تک پہنچیں۔ ان کے اخلاق اور کردار و کریکٹر درست ہوں۔ دوسری غرض یہ فرمائی : بعثت لاتمم مکارم الاخلاق
                        میں اس لئے بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کریمانہ کااعلی ترین نمونہ تمہارے سامنے رکھوں، اور عمل کرکے دکھلا دوں، اور اخلاق کریمانہ  کی ہیئت کذائی تم کو دکھلا دوں، اس کا نام تربیت ہے، اس کا نام تعلیم ہے، خلاصہ یہ نکلا کہ انبیاء علیہم السلام کی دنیا  میں آنے کی غرض و غایت تعلیم و تربیت ہے ہر قوم اور ہر ملک میں نبی بھیجے گئے تاکہ دنیا کی قومیں علم سے محروم نہ رہ جائیں، اور اخلاق سے محروم نہ رہ جائیں۔

 انداز ِتعلیم و تربیت
                        اور یہ تعلیم و تربیت کس شان بعثت سے کی؟ تو بعثت کی شان یہ ہے کہ اس میں رحمت کا غلبہ ہے، شریعت کے ایک ایک حکم سے رحمت ٹپکتی ہے، ایک ایک حکم میں شان رحمت رچی ہوئی نظر آتی ہے، غضب اور قہر رچا ہوا نہیں ہے، محبت کی آمیزش ہے عداوت کی آمیزش نہیں ہے،  شفقت رچی ہوئی ہے، بیگانگی اور بے تعلقی رچی ہوئی نہیں ہے، انس موانست رچی ہوئی ہے وحشت رچی ہوئی نہیں۔ تو نبی کریمﷺ نے تعلیم دی ، تربیت کی ، اور ساتھ ساتھ وحشت سے بچایا، نفرتوں سے بچایا، انس و موانست کو  پھیلایا، محبت و یگانگت پھیلائی۔

 اندازِ حکومت   
                        حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاذ ابن جبل رضی اللہ عنہما کو جب آپﷺ نے یمن بھیجا۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا ۔ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو قاضی القضاۃ یعنی چیف جسٹس بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺنے دونوں صحابیوں کو اونٹ پر سوار کیا اور خود پیدل ساتھ ہولیے۔
                        ان کو رکاوٹ تھی کہ حضورﷺ پیدل چلیں۔ اور ہم سواری پر بیٹھیںمگر امر ارشاد تھا کہ نہیں تم بیٹھو، تو یہ اونٹ پر سوار ہوئے اور حضور ﷺ پیدل ساتھ ہیں، میل بھر تک ساتھ تشریف لا ئے گئے اور مختلف نصیحتیں فرمائیں۔
                         فرمایا! جب تم یمن میں پہنچوگے تو تمہیں عیسائیوں کی رعایا ملے گی ۔ وہاں کے سب باشندے عیسائی ہیں تم وہاں جا کے کیا کام کرو گے۔ تو نصیحت فرمائی کہ:
 بشرا ولا تنفرا۔ ویسرا ولا تعسراو تطاوعا ولا تختلفا۔        
                        عیسائیوں کی ریاست میں جاکر لوگوں کو بشارتیں سنانا، نفرتیں نہ دلانا آسانیاں بہم پہنچانا، لوگوں کوتنگیوں میں مبتلا نہ کرنا۔ مطاوعت ، و حدت اور اتحاد پیدا کرنا، اختلاف کی راہیں مت ڈالنا کہ لوگ بکھر جائیں، تم ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرنا، متفرق بنانے کی کوششیں مت کرنا؎
 تو برائے وصل کر  دن آمدی
نے برائے فضل کردن  آمدی
                        تم کو دنیا کے جوڑنے کے لئے بھیجاگیاہے، دنیا کوتوڑنے کے لئے تم کو نہیں بھیجاگیا، متفرقوں کو جمع کرنے کاکام تمہارا ہے، جمع شدہ کو متفرق کردینا یہ تمہارا کام نہیں ہے، اور جمع کرنے کامعیار تمہاری ذات نہیں ہوگی، اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولﷺ کا بیان ہوگا۔ اسی پر لوگ جمع ہوسکیںگے، تمہاری عقل پر جمع نہیں ہوں گے، تمہارے مزاج پر جمع نہیں ہوں گے، ہر شخص عقل رکھتا ہے ضروری نہیں ہے کہ دوسرے کی عقل کا متبع ہو، تم کہو گے میرا مزاج یہ ہے، دوسرا کہے گا میرا مزاج یہ ہے۔ لیکن جب آپ یہ کہیں گے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے سب گردن جھکا دیں گے وہ معیار ہے غرض تم لوگوں بشارتیں سنانا، نفرتیں مت دلانا۔ انہیں بانٹنا متفرق کرنا اور گروہ سازی مت کرنا۔ سب کو ایک گروہ بنانے کی کوشش کرنا۔ کوئی از خود گروہ بنے یہ اس کا اپنا فعل ہے۔ تمہاری طرف سے اذن اور اعلان وحدۃ و اتحاد کا ہونا چاہئے ۔ تو شان رحمت ہے کہ لوگوں کو ملائو اوربانٹو مت، متفرق مت کرو ان کے سامنے ایسی چیزیں کہو کہ اگر ان کے قلوب بکھرے ہوئے بھی ہوں تو جڑ جائیں اور جمع ہوجائیں۔ ایسے کلمات ان کے سامنے مت کہو کہ ان میں گروہ بندی پیدا ہوجائے وہ بٹ جائیں، اورمتفرق ہو کر ان میں نفرتیں پیدا ہونے لگیں، کسی ایک مرکز پر انہیں لانے کی کوشش کرو۔ تو یہ ہی شان رحمت ہے۔ غرض تعلیم دینا بھی شان رحمت ہے تربیت کرنا بھی شان  رحمت ہے۔
  رحمتِ مجسم        
                        لیکن اگر اس ضابطے کوفرض قرار دیا جائے تو اس تعلیم و تربیت کوجس شان سے ادا کیاگیا وہ شان تو رحمت ہی کی ہے۔ اور وہ شان  انس و موانست اس کو حضورﷺ فرماتے ہیں,
 انما بعثت رحمۃ ولم ابعث لعانا۔                                         
’’  میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں لوگوں کو دور کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا‘‘۔
                         یہ آپ ﷺ نے اس وقت فرمایا ہے جب غزوۂ احد کے اندر ستر صحابہ ضی اللہ عنہم کی لاشیں تڑپ رہی تھیں۔ حضورﷺ کے سر مبارک  پر پتھر لگا۔ اور خون کی چادر منہ پر آگری۔ دندان مبارک شہید ہوگئے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ! ان کے لئے بددعا کیجئے  کہ ان ناہنجاروں نے اللہ کے رسول کو زخم پہنچایا۔ سر مبارک پر زخم لگا۔ محبوب صحابہ رضی اللہ عنہم جن میں حضورﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، شہید ہوگئے، بددعا فرمائیے۔!
 اس پر فرماتے ہیں: انما بعثت رحمۃ ولم ابعث لعانا۔                     
’’ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پھٹکار دینے والا بنا کرنہیں بھیجا گیا‘‘۔
                         اور فرماتے ہیں                   
 اللھم اھد قومی  فانھم لا یعلمون۔(۱)
’’  اے اللہ! میری قوم کو ہدایت کر! یہ جاہل ہیں۔ جانتے نہیں ہیں‘‘۔
                         اس موقع پر بھی رحمت ہی کا ظہور ہوا، یہ وہ اخلاق عظیم تھا کہ دوسرے گالیاں دیں اور آپ ﷺ ان کے حق میں دعائیں کررہے ہیں ، دوسرے تلوار اٹھا کر زخم لگائیں، اور آپ ﷺاپنی زبان فیض ترجمان سے ان کے اوپر پھول برسائیں یہی ہے وہ شان رحمت کہ دوستوں کے ساتھ رحم کرنا تو ہے ہی۔ لیکن دشمنوں کے ساتھ جو رحم و کرم کرے اور دشمنوں کو جو نوازنے کی کوشش کرے، کہا جائے گا کہ وہی’’ رحمتِ مجسم‘‘ ہے۔ غرض ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ساتھ وہ کیا جو آج دوستوں کے ساتھ بھی کیا جانا مشکل ہے۔
                         بہر حال بعثت کی شا ن رحمت کی ہے، اور بعثت کی  غرض و غایت تعلیم اور تربیت کی ہے۔ یہی تین حدیثیں ابتداء میں پڑھی تھیں کہ ایک میں شانِ بعثت بتلائی گئی۔ دو احادیث میں بعثت کی غرض و غایت بتلائی گئی۔
                         انما بعثت رحمۃ  میں شانِ بعثت ہے، کہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ، اور  بعثت معلما اور بعثت لا تمم مکارم الاخلاق میں غرض و غایت یعنی تعلیم و تربیت ہے۔ یہ تین روایتیں میں نے پڑھی تھیں بقدر ضرورت ان کی تشریح کی ہے، ان سب کا مقصد اور گویا لب لباب اور حاصل یہ نکلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کامقصد اصلی تعلیم و تربیت ہے۔

نیابتِ نبوی
                          اور نبی کے بعد قوم نبی کے قائم مقام بنتی ہے، تو نبی کریمﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد یہ پوری امت نبی کے قائم مقام اور نبی کی نائب ہے، اس کا بھی اصلی فریضہ یہ ہے کہ یہ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے سر لے۔ ویسے دنیا میں بہت سے علوم ہیں، اور ہر علم مفید ہی ہے لیکن حقیقی علم وہ ہے جو آدمی کو آدمی بنائے جو انسان میں اخلاق کے جوہر پیدا کرے، بہت سی تعلیمات ہیں جوسامان بناتی ہیں جیسے آپ سائنس پڑھیں گے تو بہترین قسم کے سامان بنائیں گے، فلسفہ پڑھیں گے تو دماغی ریاضت ہو جائے گی۔
                         ہندسہ اور انجینئرنگ پڑھیں گے تو بہترین قسم کے مکانات بنائیں گے، یہ سب چیزیں آپ کی ضروریات کی ہیں، اور اچھے اچھے سامان آپ کے لئے مہیاکریں گی، لیکن اچھے انسان بنانا ان علوم کا موضوع نہیں، اچھے سامان بناناموضوع ہے، اگر آپ اچھا انسان بننا چاہتے ہیں تو انبیاء علیہم السلا م کی تعلیم کے نیچے آ نا پڑے گا، نبیوںکی دنیا میں آنے سے غرض اچھاسامان بنانا نہیں، چھری، کانٹے بنانا نہیں ہے، یہ تو   ضرورت کی چیزیں ہیں۔ جس طرح آپ چاہیں یہ خود بنالیں۔ ان کے آنے کی غرض یہ ہے کہ آپ کو انسان بنا دیا جائے ۔ انسان کے ہاتھ میں اگر چھری ہوگی تو دوست کے گلے پر نہیں چلے گی۔ دشمن کے گلے پر چلے گی، انسان کے ہاتھ میں اگر برتن ہوگا توصحیح استعمال کرے گا، جانور کے آگے ہوگا تو اسے پھینک مارے گا، اس لئے آدمی اگر آدمی بن گیا تو سامان بھی کار آمد ہوگئے، اور اگر آدمیوں میں آدمیت نہ رہی تو یہ سامان وبال جان بن جائیں گے اگر دنیا میں کروڑوں روپے کاسامان بھر ہوا ہے۔ اور آدمی جانوروں کی مانند ہوں۔ جن میں نہ خدا کی پہچان ، اور نہ رسول کی پہچان نہ حق و باطل کی پہچان ، نہ انس و موانست، ایسے میں سامان اور زیادہ وبال جان ہیں۔
                         اور اگر ایک بھی سامان نہ ہواور چٹنی روٹی پر گزر ہو۔ مگر آدمیوں میں انسانیت کا جو ہر ہو، انس ہو، محبت ہو ہمدردی خلائق ہو وہ دنیا جنت ہے۔ تو انبیاء علیہم السلام دنیا کو جنت بنانے آئے ہیں، جہنم بنانے نہیں آئے ۔ جہنم والوںکے اخلاق فرمائے گئے ہیں۔
 { کُلَمَا دَخَلَت اُمَۃٌ لَعنَتْ اُختَھَا۔}(۱)        
                        جب کوئی پارٹی جہنم میں داخل ہوگی، دوسری پارٹی اس پر لعنت کرے گی۔ کہ تم پر لعنت ہو تمہاری وجہ سے ہم مبتلا ہوئے۔ وہ کہے گی تم  پر لعنت ہو تمہارے بہکانے کی وجہ سے ہم مبتلا ہوئے۔ تو جہنم کا عذاب ایک طرف، یہ لعن طعن خود ایک مستقل عذاب ہے۔
 اور جنت والوں کے اخلاق بیان کئے گئے ہیں۔
                                                 {اِخوَاناً عَلیٰ سررٍ مّتقٰبِِلِینَ           }(۲)
                         بڑی بڑی مسندوں پر آمنے سا منے بیٹھے ہوں گے۔ اور دل ایسے ہوں گے، جیسے حقیقی بھائیوںکے ہوتے ہیں، ہر ایک کے دل میں محبت کھچی ہوئی اور رچی ہوئی ہے، تو انبیاء علیہم السلام محبتیں پیدا کرنے آئے ہیں عداوتیں پیدا کرنے نہیں آئے۔؎
تو برائے  وصل کردن  آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
                        اور یہ چیز بغیر رحمت اور شفقت کے نہیں ہوتی۔ تو امت کو بھی اسی طرح شفیق بننا چاہئے اپنوں میں بھی باہم اور اغیار کے حق میں بھی کہ انہیں ہدایت کریں، اور انہیں سیدھاراستہ دکھلائیں، ایسی راہیں پیداکریں کہ لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں۔ ایک طرح محبت و اتحاد سے چلیں، اس میں قوم کی بھی قوت ہے، ملک کی بھی قوت ہے، جتنی پاکیزگی آپ کے نفوس میں بڑھے گی، جتنے پاکیزہ اعمال بڑھیں گے، آپ اپنی قوم کے لئے بھی مفید ثابت ہوں گے۔ ملک کے لیے بھی مفید ثابت ہونگے، اگر بدعنوانیاں رہیں تو قوم کے لئے بھی اور حکومت کیلئے بھی وبال جان بن جائیں گے۔ تو آدمی وہ ہے جو صحیح طورپرمعاشرہ کے لئے آدمی ثابت ہو اوربہترین انسان ثابت ہو۔
                       
احساس ذمہ  داری
                         بلا شبہ بہت سی چیزوں میں حکومت روک تھام کرتی ہے۔ چوروں کوپکڑتی ہے، ڈکیتوں کوپکڑتی ہے، قانون بناتی ہے۔ لیکن ساری ذمہ داری حکومت پر نہیں کچھ آپ پر بھی عائد ہوتی ہے، آپ کو بھی تو اپنے اخلاق درست کرنے ہوں گے ۔ جہاں کوئی سپاہ اور سی ۔آئی۔ڈی نہ ہو، اگر آپ تنہائی میں ہوں اور اخلاق دوست نہ ہوں۔ وہاں پھر آپ خیانت کریں گے، ایسا آدمی ہو کہ جب تنہائی میں ہو جب بھی نیک  نفس ہو، مجمع میں ہو جب بھی نیک نفس ہو۔ یہ جب ہو سکتا ہے کہ جب اس کا نفس درست ہو جائے، ورنہ اگرانسان بدنفس ہے تو ڈر کے مارے مجمع میں خیانت نہیں کرے گامگر جب تنہائی میں جائے گا، خیانت اس کے ساتھ لگی ہوئی ہو گی وہ آدمی آدمی نہیں بلکہ آدمی کی صورت ہوگی۔ تو آدمی صورت انسان کا نام نہیں حقیقتِ انسان کا نام ہے                     ؎
 گر بصورتِ آدمی انسان  ُبدے
 احمد و بو جہل ہم یکساں  ُبدے

                         اگر صورت سے آدمی آدمی بنا کرتا تو صورت انسان میں محمدﷺ اور ابو جہل دونوں کی صورت انسان کی تھی۔ مگر زمین و آسمان سے  بھی زیادہ فرق ہے، وہ فرق حقیقت کے لحاظ سے ہے، حضور ﷺ کی حقیقت دیکھی جائے تو عرش کے اوپر پہنچی ہوئی ہے، اور ابوجہل کی حقیقت دیکھی جائے تو تحت الثری میں پہنچی ہوئی ہے، صورتیں دونوں کی انسانوں کی ہیں یکساں ہیں۔ غرض صورت سے آدمی نہیں بنتا۔ حقیقت سے بنتا ہے اور یہ حقیقت انبیاء علیہم السلام کی تعلیم سے بنتی ہے۔ اس کے بغیر جو ہر پیدا نہیں ہوتا ۔ اس لئے جہاں آپ اور علوم کی طرف توجہ کریں بنیادی طور پر اس عمل کی طرف توجہ کرنا سب سے ضروری ہے، جس سے ہمارا جوہر درست ہو۔ اس واسطے یہ تین حدیثیں میں نے تلاوت کیں، کہ تعلیم و تربیت تو اصل غرض ہے۔ اور اس میں شفقت اور رحمت کی شان ملی ہوئی ہونی چاہئے۔ تب جا کے وہ تعلیم و تربیت صحیح معنی میں مفید ثابت ہوگی، حق تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائیں کہ ہم تعلیم کے ذریعے سے علم حاصل کریں ۔ تربیت کے ذریعے سے اخلا ق درست کریں اور حق تعالیٰ شانہٗ ہمیں نبی کریمﷺ کی سنتوں کے اتباع کی توفیق عطاء فرمائیں۔ اور ہمیں اپنی مرضیات پر چلائیں ۔ آمین۔
  اللھم ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذھدیتنا و ھب لنا من لدنک رحمتہ، انک انت الوھاب۔ اللھم اعذنا من الفتن ماظہر منھا و مابطن۔ اللھم متعنا باسماعنا و ابصارنا و قوتنا احییتنا واجعل ثارنا علی من ظلمنا۔ ولا تجعل مصیبتنا فی دیننا۔ ولا تجعل الدنیا اکبر ھمنا و لا مبلغ ولا غایۃ ر غبتنا۔اللھم لاتسلط علینا من لا یرحمنا اللھم زدنا ولا تنقصنا و اکرمنا ولا تھنا واعظناولا تحرمنا۔ واثرنا ولا توثر علینا و ارضنا عنک وارض عنا۔ اللھم وتوفنا مسلمین والحقنا بالصلحین غیر خذایا ولا مفتونین۔ وصلی اللہ تعالی علی خیر خلقہ سیدنا و مولانا
محمد والہ و صحبہ اجمعین۔
 برحمتک یا ارحم الراحمین۔
ازحکیم الاسلام قاری محمدطیب قاسمی قدس اللہ سرہٗ

No comments:

close